سید تاثیر مصطفی
ملکی اسٹیبلشمنٹ اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری لڑائی انجانے خدشات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ ہر نئے دن کے ساتھ اس لڑائی میں شدت آرہی ہے۔ دونوں جانب سے چالیں بدلی جارہی ہیں، منصوبے تبدیل ہورہے ہیں، نئی نئی حکمت عملی بن رہی ہے۔ کبھی جارحانہ حملے ہورہے ہیں، کبھی دفاعی اسٹریٹجی اپنائی جارہی ہے۔ یہ ساری لڑائی غیر حقیقی اور کسی حد تک مصنوعی ہے، جس کا مقصد ملک و قوم کی بھلائی نہیں بلکہ اپنے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کا تحفظ ہے۔ اس لڑائی میں ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ کی ازخود دعویدار اسٹیبلشمنٹ جیتتی ہے، یا پارلیمنٹ کی بالادستی اور حقیقی سویلین حکمرانی کے لیے 28 جولائی کے عدالتی فیصلے کے بعد سے بے چین مسلم لیگ (ن) کی قیادت جیتتی ہے، اس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ لیکن جیتے کوئی بھی، نقصان ملک و قوم کا ہوگا۔ جیتنے والے اسے ملکی مفاد کی کامیابی، اور ناکامی کا شکار ہونے والے اسے ملک و قوم کی تباہی سے تعبیر کریں گے۔ دونوں جھوٹ بولیں گے، نئی چالیں چلیں گے، نئی منصوبہ بندی کریں گے… اور ایک بار پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، چت کرنے اور زیر کرنے کا کام شروع ہوجائے گا، جو قیام پاکستان سے اب تک جاری ہے۔ کبھی دھیمے سُروں میں اور کبھی اونچی لَے میں یہ نغمہ الاپا جاتا رہا ہے اور آئندہ بھی الاپا جاتا رہے گا۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور کسی سیاسی جماعت کے درمیان رسّا کشی اور لڑائی کوئی نئی نہیں ہے۔ یہ لڑائی ابتدا سے جاری ہے، لیکن اِس بار اس کی نوعیت مختلف ہے۔ عمومی طور پر مقبول جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ سے نباہ ہی کیا ہے۔ صرف اصولی سیاست کرنے والی نظریاتی سیاسی جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا ہے، لیکن ان کی عوامی سطح پر ایسی مقبولیت نہیں تھی جو اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کرسکتی۔ اِس بار ایک تو ایک مقبول سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی ہوگئی ہے، دوسرے سامنے کھڑی ہونے والی جماعت خود اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے۔ اس کی اب تک کی ساری جدوجہد اور کامیابیاں اسٹیبلشمنٹ ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ تیسرے جس جماعت کی قیادت عوامی جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے پریشانی پیدا کررہی ہے وفاق، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اسی سیاسی جماعت کی حکمرانی ہے، اور یہاں حکمران لوگ اس پارٹی میں ہوتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ برسرپیکار نہیں۔ وہ اس کے ساتھ جھگڑے کے بجائے مفاہمت چاہتے ہیں۔ اس پارٹی کے وزیراعظم بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم کسی ادارے کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے۔ یہی بات پنجاب کے وزیراعلیٰ، آزاد کشمیر کے وزیراعظم اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ بھی مختلف مواقع پر کہہ چکے ہیں، جبکہ ان کی پارٹی کے سربراہ عوامی جلسوں کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے ہیں۔ اُن کا اور اُن کی بیٹی کا بیانیہ یہ ہے کہ اب تک کی منتخب حکومتوں کو اسٹیبلشمنٹ نے نکالا۔ اُن کے مطابق کبھی براہِ راست اور کبھی عدلیہ کے ذریعے۔ ان کا غیر اعلانیہ بیانیہ یہ ہے کہ سابق وزرائے اعظم کو فوج نے نکالا۔ اگرچہ وہ براہِ راست نام نہیں لے رہے مگر اسٹیبلشمنٹ سے ان کی مراد واضح طور پر فوج ہے، اور وہ عدلیہ اور بیوروکریسی کو اس کا معاون سمجھتے ہیں۔
اِس بار لڑائی چونکہ زیادہ بڑی ہوگئی ہے، ایک سیاسی جماعت غیر متوقع طور پر زیادہ حوصلے کے ساتھ سامنے آگئی ہے، اس لیے اس لڑائی میں ہر روز پیچیدگیاں سامنے آرہی ہیں اور پیادوں اور شاہوں کی چالیں بار بار بدل رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس کی توقع نہیں تھی اور خود نوازشریف بھی شاید یہ راستہ اختیار نہ کرتے، لیکن ضمنی انتخابات میں ان کی مسلسل کامیابیوں نے انہیں یہ راہ دکھائی ہے کہ ڈٹے رہنے میں ہی فائدہ ہے۔ عوام عدالتی فیصلے کو عوامی سطح پر قبول نہیں کررہے، اس لیے ان کے جلسوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ ان جلسوں میں ان کے خطابات بھی زیادہ آتشیں ہوتے جارہے ہیں۔ دونوں باپ بیٹی عدلیہ کو براہِ راست چیلنج کررہے ہیں، اُس پر الزامات لگارہے ہیں، لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں، اور وہ عدالتی فیصلوں کے بارے میں نہ صرف جلسوں میں عوام سے رائے مانگ رہے ہیں بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام ان فیصلوں کو ماننے کو تیار نہیں۔ دوسری جانب اس صورتِ حال میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی دبائو بڑھانا شروع کردیا ہے۔ شریف فیملی کے خلاف نئے ریفرنسز اور نیب کی سرگرمیاں اسی جانب اشارہ کررہی ہیں۔
اس وقت نوازشریف کو اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں کامیابیوں کے باوجود اپنے حلقوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ خاندان کے اندر نواز، مریم اور صفدر کے سوا کہا جاتا ہے کہ باقی لوگ اس طریقہ کار کے حامی نہیں ہیں۔ وفاق، پنجاب، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کی اپنی حکومتیں سرگرمی سے اپنے قائد کا ساتھ نہیں دے رہیں، وہ یا تو خاموش ہیں یا حالات کا جائزہ لے رہی ہیں۔ پارٹی کے اندر چودھری نثار علی خان تو کھل کر سامنے آگئے ہیں، لیکن ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اسٹیبلشمنٹ یا اداروں کے ساتھ ٹکرائو کے حامی نہیں ہیں، لیکن ان سب کی مجبوری وہی ہے جس کا وزیراعظم انجمنِ صحافیان پاکستان (دستور) کے وفد سے ملاقات میں کھل کر اظہار بھی کرچکے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ یہ پارٹی نوازشریف یا ان کے خاندان ہی کا دوسرا نام ہے، یہاں ساری مقبولیت نوازشریف کی ہے، عوام نوازشریف ہی کو ووٹ دیتے ہیں اور ان ہی کی تصویر اشتہاروں اور بینروں پر دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے اس مقبول لیڈر سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے، اختلاف کرکے نہ ان کے لیے پارٹی میں جگہ رہے گی اور نہ عوام ہی انہیں قبول کریں گے۔ اس صورتِ حال کا جائزہ اسٹیبلشمنٹ بھی لے رہی ہے کہ اس طرح کی خبریں آنے کے باوجود کہ مسلم لیگ(ن) میں 70 سے 80 ارکان اسمبلی پر مشتمل باغی گروپ موجود ہے، ابھی تک کوئی ایک ایم این اے بھی کھل کر بغاوت پر نہیں اترا۔ حتیٰ کہ ریاض پیرزادہ اور چودھری نثار بھی تحفظات کا اظہار کررہے ہیں مگر بغاوت کا اعلان کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ ابتدا میں کہا جارہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سینیٹ کے انتخابات نہیں چاہتی کہ اس میں نوازشریف کی پارٹی کو اکثریت ملنے کا امکان ہے، اور دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد وہ اسٹیبلشمنٹ کو بے دست و پا کرسکتے ہیں۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کوشش کے باوجود اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تڑوانے کے باوجود سینیٹ کے انتخابات نہیں رکوا سکی۔ یہ انتخابات اگلے چند دن میں ہونے والے ہیں، اور امکان یہی ہے کہ سینیٹ میں بھی نوازشریف کو اکثریت مل جائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ چونکہ ایم کیو ایم کی توڑ پھوڑ سے بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرسکی، اس لیے اب نوازشریف کی اتحادی جمعیت العلمائے اسلام (ف)، اے این پی اور محمود خان اچکزئی کی پختون خوا ملّی عوامی پارٹی نوازشریف کے ساتھ زیادہ کھل کر آکھڑی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب اگر ایم ایم اے فعال ہوجاتی ہے تو جماعت اسلامی خیبرپختون خوا میں حکومت سے باہر آسکتی ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف کو مزید دھچکا لگے گا، اسی لیے عمران خان نے اب خود بھی عدلیہ پر تنقید شروع کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ نے نوازشریف کوکم سزا دی ہے، انہیں کرپشن یا پاناما کیس میں سزا دینے کے بجائے اقامہ میں نااہل کرنے سے انہیں عوام میں مقبولیت ملی ہے۔ پھر عدلیہ کو بار بار چیلنج کرنے کے باوجود ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں کی گئی جس سے ان کا حوصلہ مزید بڑھ رہا ہے۔ گویا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو نوازشریف کو سیاسی طور پر مزید فائدہ ہوگا۔ ایسے میں لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے، وہ نوازشریف کو تو دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دے گی لیکن یا تو اُن کے نامزد افراد کو قبول کرلے گی جو عملاً اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی ہوگی، یا پھر انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کے حصے بخرے کروائے گی۔ دوسری صورت زیادہ قرین قیاس لگتی ہے۔ 2018ء کا انتخاب مسلم لیگ (ن) نوازشریف کی قیادت میں اُن کی مظلومیت اور مقبولیت کی بنیاد پر لڑے گی، اور اگر وہ کامیاب ہوجاتی ہے تو انتخابات کے فوری بعد اس پارٹی میں ایک باغی گروپ سامنے آجائے گا جسے اسٹیبلشمنٹ کی نہ صرف حمایت حاصل ہوگی بلکہ وہ اس کی وفاق اور ایک دو صوبوں میں حکومت بھی بنوا دے گی۔
یہ تو ہیں مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کی چالیں۔ لیکن کچھ قدرت کے فیصلے بھی ہوتے ہیں جو سب سے اہم ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ قدرت کے فیصلے کیا ہیں۔ اصل تصویر ان فیصلوں ہی سے بنے گی۔
nn