سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کے لیے اُن کے بھتیجے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ انہیں آئندہ عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا رکن بنایا جائے گا۔ انہیں اس وضاحت کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی ہے کہ بعض مبصرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ انہیں (فریال تالپور کو) سینیٹ کے چیئرمین کے الیکشن کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔
فریال تالپور کا سیاسی پروفائل سابق نواب شاہ ضلع (اب ضلع بے نظیر آباد) کی ناظمہ کے طور پر ابھرا تھا، تاہم انہیں زیادہ اہمیت 2008ء کے عام انتخابات کے بعد ملی۔ وفاق، بلوچستان اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ سندھ میں سید قائم علی شاہ وزیراعلیٰ بنے، لیکن جلد ہی یہ خبر پھیل گئی کہ موصوف ’’بے بس بادشاہ‘‘ ہیں اور اُن کے اختیارات کچھ اور لوگ استعمال کررہے ہیں۔ اُن دنوں میں ذوالفقار مرزا اور آغا سراج درانی جیسے دبنگ وزراء زرداری کی دوستی کا دم بھرتے ہوئے خود وزیراعلیٰ کے سے انداز میں رہا کرتے تھے۔ لیکن باوجود اس امر کے کہ ان کے پاس کوئی بھی قلم دان نہیں تھا حقیقی طاقت کا مرکز فریال تالپور ہی کو قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن پھر ایک عجیب تماشا ہوا۔ 2011ء کے قریب ایک اور پراسرار شخصیت ابھرکر سامنے آئی جس نے سب ہی کو پیچھے دھکیل دیا۔ مظفر علی ٹپی جناب حاکم علی زرداری کے سینما منیجر کے فرزند تھے، جو زرداری صاحب کے گھر میں پل کر جوان ہوئے۔ 2012ء اور 2013ء کے برسوں میں ان کی متبادل سرکار چلتی رہی۔2013ء کے نگراں سیٹ اَپ میں اکثر وزراء ان کے قریبی افراد پر مشتمل تھے۔
2013ء کے بعد پیپلز پارٹی اسلام آباد سے اپنا بوریا بستر اٹھاکر سندھ آن وارد ہوئی۔ اب سندھ کا انتظام و انصرام سنبھالنے کے لیے محض ٹپی جیسا منیجر یا کلکٹر نہیں بلکہ سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر اور سیاسی امور اور معاملات کو سنبھالنے والا شخص درکار تھا، اور زرداری صاحب اس طرح کا اعتماد صرف اپنی ہمشیرہ فریال تالپور پر ہی کرسکتے تھے۔ دوسری جانب ٹپی کے ستارے بھی گردش میں تھے۔ طاقتور حلقوں کے ذریعے چلنے والے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے معاملات میں دخل دینے کی بنا پر طاقتور ہاتھ ان پر برہم تھے۔ متحدہ بھی ان سے نالاں تھی اور فریال بھی شاید ان سے خوش نہیں تھیں، لہٰذا رات کی تاریکی میں موصوف اپنے حواریوں کے ساتھ نوکری سے نکال دیے گئے۔ ان سے اور ان کے ساتھیوں سے بعد ازاں اوگاڑی (برآمدگی) کس طرح سے کی گئی اس کی داستان پھر کبھی سہی۔
فریال کے آس پاس انہی افراد کا ہجوم پھر دکھائی دینے لگا۔ انہیں یہ کریڈٹ دیا جاسکتا ہے کہ موصوفہ نے زرداری صاحب کے مزاج کے مطابق پارٹی چلا کر دکھا دی ہے۔ ان کی قیادت میں پیپلز پارٹی ایک پبلک لمیٹڈ پارٹی میں تبدیل ہوگئی، جس میں ہر سیاسی رہنما اور کارکن کو ’’حصہ بہ قدرِ جثہ‘‘ کے مصداق اس کا شیئر ملتا ہے۔ مثلاً یہ ہنر ان کے ہاں ہے کہ وہ اس بات کو پرکھ لیتی ہیں کہ کس شخص کا کتنا قد بُت ہے۔ ایک یونین کونسل، ایک تعلقہ، ایک ضلع یا پھر ایک ڈویژن۔ اس کے مطابق ہی کسی بھی فرد کو شیئر جاری ہوتے ہیں اور اختیارات وغیرہ بھی تفویض کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ملکانیوں کی طاقت اگر جاتی (ضلع دادو) جتنی ہے تو انہیں جاتی تعلقہ جتنے اختیارات اور فنڈز ملیں گے۔ جو ضلع جتنا شیئر حاصل کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں، انہیں ضلع ملے گا وغیرہ وغیرہ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پیشتر زرداری صاحب نے میرپور خاص میں اعلان فرمایا تھا کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد بھی سندھ میں وزارتِ عُلیا کے ان کے امیدوار سید مراد علی شاہ ہوں گے۔ زیادہ تر مبصرین نے ان کی اس بات کو اس طرح سے لیا کہ گویا سید مراد علی شاہ پی پی قیادت سے کہیں بڑھ کر ’’اوروں‘‘ کو پیارے ہیں اس لیے زرداری صاحب ’’ان‘‘ سے مخاطب تھے۔ اب اگر بلاول یہ بات کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی آئندہ عام انتخابات کے بعد سندھ اسمبلی میں دکھائی دیں گی۔ تو عقل یہ بات تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ سندھ میں پارٹی کی اصل کرتا دھرتا رہنے والی فریال تالپور کسی عام وزیر یا بہ طور ممبر کے اسمبلی میں نظر آئیں گی۔
تو پھر کیا زرداری صاحب جن کی گرتی ہوئی صحت کے بارے میں کئی افواہیں زیرگردش ہیں، اپنے ہوتے ہوئے پی پی کا سیاسی ورثہ اپنی بہن کو منتقل کرنا چاہتے ہیں؟ بلاول شاید یہ وزن اٹھانے کے لیے ابھی تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ کئی مبصرین اس رائے کے حامل ہیں کہ بہ طور وزیراعلیٰ کسی فائل پر دستخط کرنا خاصا مشکل کام ہوتا ہے لیکن کوئی اور راستہ بھی تو نہیں ہے۔ پس پردہ رہتے ہوئے کارِ سرکار چلانا اُس وقت تک ہی ممکن تھا جب تک کہ زرداری صاحب کی صحت نے اجازت دی۔ آئندہ سندھ اسمبلی میں پی پی کے منتخب وزیراعلیٰ کے ہاں ہی سیاسی Legitimacy ہوگی، اور یہ سیاسی Legitimacyخاندان میں رکھنے کا اس سے بہتر اورکوئی طریقہ نہیں ہے۔ اور شاید یہ گڑھی خدابخش تا نواب شاہ پی پی کے سیاسی ورثے کی منتقلی کا بھی پہلا مرحلہ ہو۔
nn