عالم اسلام کے نامور سپوت ڈاکٹر محمد حمید اللہ

’’کسی اعلیٰ نصب العین یا مشن کے لیے زندگی کا ایک ایک لمحہ وقف کردینے کی بات محاورتاً تو سنی تھی، لیکن اس کا کوئی عملی نمونہ دیکھنے کا کبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔ نامور زعماء اور اکابرین کی زندگی کا کچھ نہ کچھ وقت اہلِ خانہ، اعزہ، دوست احباب اور مختلف نوعیت کی معاشرتی تقریبات کی نذر ہوتا ہے اور اجتماعی زندگی میں ایسا ہونا ناگزیر ہے، لیکن پیرس کے حالیہ سفر میں اسلام کے ایک ایسے خادم کو دیکھنے کا موقع اور ان سے دو تین ملاقاتیں کرنے کا شرف حاصل ہوا، جن کی زندگی مختصر نیند اور ضروری حاجات کے سوا پوری کی پوری اسلام کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ اس میں نہ بیوی بچوں کا دخل ہے، نہ کسی ملازم اور رفیق کی کوئی گنجائش، اور نہ اعزہ اور دوست احباب یا تقریبات کا جھمیلا، حتیٰ کہ ٹیلی فون تک کا کوئی جھنجھٹ نہیں ہے۔ وقت کا ہر لمحہ اشاعتِ اسلام اور تبلیغِ اسلام کے لیے وقف ہے، اور اس میں ایسا انہماک و تسلسل ہے کہ دم لینے کی مہلت نہیں… بس یہ فکر دامن گیر ہے کہ 84 سال کی عمر ہوچکی ہے، کہیں فرشتۂ اجل نے آ دبوچا، اپنے رب کا سامنا ہوا اور اس نے یہ پوچھا کہ میں نے جو نعمتِ دین تمہیں عطا کی تھی، اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے تم نے کیا کیا؟ تو میں وہاں کیا منہ دکھائوں گا! ندامت و شرمندگی سے بچنے کے لیے کچھ تو زادِ راہ ساتھ لے لوں۔ باقی سہارا اس کے عفو ودرگزر اور عطا و بخشش سے مل جائے گا۔
یہ عظیم شخصیت ہے عالمِ اسلام کے معروف و منفرد محقق، مصنف، مفسر اور مبلغ پروفیسر ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی، جو اپنے عظیم کام کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنے طرزِ زندگی کی بے مثال خصوصیت کے باعث مسلم دنیا کے اہلِ فضل اور فرانس اور فرانسیسی زبان سے وابستہ افریقی ممالک میں انتہائی قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔‘‘
’’علم و عمل کے جامع‘‘ کے عنوان سے یہ تحریر شہید صلاح الدین کی ہے۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ 19 فروری 1908ء کو حیدرآباد دکن (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام ابومحمد خلیل اللہ تھا۔ آپ نے تجرد کی زندگی گزاری جس کا آخری وقت میں آپ کو افسوس تھا۔ آپ کا انتقال امریکہ کی ریاست فلاڈلفیا کے مقام جیکسن ویل میں بروز بدھ 17 دسمبر 2002ء کو نیند کی حالت میں ہوا۔ آپ کی نمازِجنازہ آرلنکسٹن کی مسجد کے امام اور آپ کے شاگرد ڈاکٹر یوسف کوچی نے پڑھائی۔
آپ نے ایک ہزار سے زائد مقالہ جات اور164کے لگ بھگ تصنیفات، تالیفات، تراجم، نظرثانی شدہ کتب، کتابچے اور رسائل یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ مشرق و مغرب کی 9 زبانوں پر قدرت رکھتے تھے۔ 4 زبانوں اردو، انگریزی، فرانسیسی اور عربی میں بلاواسطہ تحریر و تقریر فرماتے، ساتھ ہی جرمن، اطالوی، فارسی، ترکی اور روسی زبانوں میں مطالعہ اور گفتگو کی اعلیٰ استعداد رکھتے تھے۔
آپ کا سب سے اہم علمی کارنامہ قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ ہے جو نہایت مقبول ہے، اور اس کے اب تک پندرہ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ آپ نے سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرانسیسی اور انگریزی زبان میں ایک کتاب ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ لکھی جو بہت مقبول ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور اہم کتاب ’’قانونِ بین الممالک کے اصول اور نظیریں، سیاسی وثیقہ جات، عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم تا خلافتِ راشدہ‘‘ ہے، اس کا اردو ترجمہ مولانا ابویحییٰ امام خان نوشہروی نے کیا، اور 1990ء میں مجلس ترقی ادب لاہور نے شائع کیا۔ ایک اور اہم کتاب ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی‘‘ ہے، جس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’عہدِ نبویؐ کا نظام تعلیم‘‘ (1941ء)،’’امام ابوحنیفہؒ کی تدوینِ قانونِ اسلامی‘‘ (1942ء)، ’’قانونِ شہادت‘‘،’’عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے میدانِ جنگ‘‘ (1945ء)،’’صحیفہ ہمام بن منبہؒ‘‘ (1956ء )، ’’سیرۃ ابن اسحاقؒ‘‘ (1985ء)،’’سیرتِ طیبہ کا پیغام عصرِ حاضر کے نام‘‘ اور ’’خطباتِ بہاولپور‘‘ آپ کی اہم تصانیف ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے شاہ ولی اللہؒ کی کتاب اور جگن ناتھ آزادؔ کی نعتیہ شاعری کو بھی فرانسیسی میں منتقل کیا۔ غرض پوری زندگی درس و تدریس و لکھنے پڑھنے میں گزاری۔ عمر کے آخری حصے میں تھائی زبان سیکھ رہے تھے۔ 1985ء میں پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ آپ نے ایوارڈ کی رقم 10 لاکھ روپے اسلامک ریسرچ اکیڈمی اسلام آباد کو عطیہ کردی۔
معروف ماہرِ تعلیم، بہادر یار جنگ اکیڈمی کے سیکرٹری پروفیسر خواجہ قطب الدین نے آپ کی شخصیت اور علمی کام پر لکھے گئے مقالہ جات کو انتہائی محنت سے یکجا کرکے اسے کتابی صورت میں شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 350 صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت کتاب فرید پبلشر اردو بازار کراچی نے شائع کی ہے۔ اس کی تقریبِ اجراء کا اہتمام گزشتہ دنوں اکیڈمی کے باوقار ہال میں کیا گیا جس کی صدارت وائس چانسلر شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی، قاضی خالد علی نے فرمائی۔ آپ نے کہا کہ جو قومیں اپنے محسنوں کو فراموش کردیتی ہیں وہ زندہ نہیں رہتیں، ہمیں چاہیے کہ اپنے اکابرین کی تعلیمات کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، ڈاکٹر محمد حمیداللہ عالمِ اسلام کی بڑی شخصیت تھی، ان کے کام کو عوام الناس تک پہنچانے میں بہادر یار جنگ اکیڈمی جو کردار ادا کررہی ہے وہ قابلِ تحسین ہے، ہم اپنی یونیورسٹی میں بھی ڈاکٹر صاحب پر بڑے پروگرام منعقد کریں گے۔ ڈاکٹر زیبا بختیار نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب پر اللہ کی خصوصی عنایات تھیں، وہ آٹھ، نو زبانیں روانی سے بولتے اور لکھتے تھے، اپنا تحقیقی مقالہ انہوں نے صرف 9 ماہ کی مختصر مدت میں تیار کیا ، اہلِ مغرب کو مستشرقین نے اسلام سے متعلق جو غلط حقائق پیش کیے تھے آپ نے اس کا بھرپور جواب دیا، آپ نے تادمِ آخر تصنیف و تالیف میں زندگی گزاری جو بڑی بات ہے۔ معین اظہر صدیقی نے کہا کہ اس صدی میں آپ جیسا اسکالر شاید آپ کے سوا کوئی نہیں، آپ نے 30 ہزار سے زائد لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کیا، آپ مفسر، مترجم، مبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین وکیل بھی تھے، آپ کا علمی ورثہ صدیوں تک لوگوں کو فیض یاب کرتا رہے گا۔ میر حامد علی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، جبکہ صاحبِ کتاب پروفیسر خواجہ قطب الدین نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے دورانِ تعلیم کبھی ناغہ نہیں کیا، ایک دن وہ آدھا گھنٹہ دیر سے تشریف لائے تو پتا چلا کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ تدفین سے فارغ ہوکر سیدھے یونیورسٹی آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات کا احاطہ کرنا کسی ایک شخص کے لیے ممکن نہیں، ڈاکٹر صاحب کے ہزاروں شاگرد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جو آپ کی شخصیت اور علمی کام کو آگے بڑھا رہے ہیں، فرانسیسی زبان میں سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانچ پانچ سو صفحات کی دو جلدیں ہی آپ کا گرانقدر عطیہ ہے۔
تقریب میں بڑی تعداد میں سابق اہالیانِ حیدرآباد دکن کے علاوہ محمود عزیز، فہیم صدیقی، میر حسین علی، خالد انور اور جامعہ کراچی کے طلبہ نے بھی شرکت کی۔ کتاب میں پروفیسر ڈاکٹر احمد عبدالقدیر کا یہ جملہ جو ڈاکٹر صاحب نے ان سے فرمایا تھا ’’انسان ساری زندگی کسی چیز کو سمجھنے میں گزار دیتا ہے اور جب سمجھنے کے قریب پہنچتا ہے تو مر جاتا ہے‘‘ ہم سب کو دعوتِ فکر دے رہا ہے۔
سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیے