افغان طالبان کی امریکہ کو مذاکرات کی پیشکش

FILE-- Tayab Agha, a spokesman for the Taliban that said the movement would not give up the south, in Spin Boldak, Afghanistan, Nov. 21, 2001. Much has changed in Afghanistan since then, but there are still some areas of the country that value the Taliban way of life and moral code of conduct. (Ruth Fremson/The New York Times)

تحریک طالبان افغانستان کی جانب سے امریکہ کو مذاکرات کی پیشکش کا مقصد افغانستان میں قیام امن اور استحکام کو یقینی بنانا ہے۔ اپنے ایک نشری پیغام میں افغان طالبان نے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکہ اور اُس کی کٹھ پتلی افغان حکومت کے ہاتھوں سے افغانستان نکل رہا ہے۔ پچھلے سولہ برسوں کے دوران ساڑھے تین ہزار امریکی فوجیوں کی ہلاکت، بیس ہزار سے زائد کے زخمی ہونے اور لاکھوں بے گناہ افغان شہریوں کے جاں بحق ہونے کے باوجود افغانستان پر امریکی کنٹرول مسلسل ڈھیلا پڑرہا ہے، جس کا اعتراف اگر ایک جانب خود امریکی ادارے کررہے ہیں تو دوسری جانب امریکہ کی طرف سے افغانستان میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے پاکستان پر مسلسل ڈالے جانے والے دبائو سے بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ افغانستان کی دلدل جسے سپر پاورز کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے، میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ افغانستان میں امریکی بوکھلاہٹ کا ایک اور ثبوت پچھلے چند دنوں کے دوران سولہ سال کے طویل وقفے کے بعد ایک بار پھر B-52 جنگی جہازوں سے چین اور تاجکستان کے سرحدی علاقوں میں کی جانے والی اندھادھند بمباری ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے گناہ افراد کی ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
دریں اثنا امریکہ اور نیٹو نے افغان طالبان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے عام شہریوں پر حالیہ حملے ان کے مذاکرات کے بیان سے زیادہ وزنی ہیں، اور اُن کے ان حملوں سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ اپنے دعوے اور پیشکش میں سنجیدہ اور مخلص نہیں ہیں۔ اس ضمن میں افغانستان میں متعین امریکی افواج کے سربراہ جنرل جان نکلسن کا کہنا ہے کہ طالبان کے خلاف حالیہ کارروائیوں کا مقصد جہاں طالبان کی قوت کو کمزور کرنا ہے وہیں اس سے انہیں مذاکرات کی میز پر لانے میں بھی مدد ملے گی۔
اقوام متحدہ نے افغانستان سے متعلق اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران افغانستان میں دس ہزار شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی صدر نے پچھلے سال اگست میں اپنی نئی افغان پالیسی کے تحت فضائی حملوں میں اضافے کے علاوہ امریکی افواج کی تعداد بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ بعض مبصرین افغانستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور طالبان کے شہری علاقوں میں ہونے والے حملوں میں اضافے کو اسی نئی امریکی پالیسی کا ردعمل قرار دے رہے ہیں۔ ان مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغان حکومت کے برعکس اِس مرتبہ طالبان نے مذاکرات کی اعلانیہ پیشکش کرکے ایک طرح سے امریکی افواج پر دبائو بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ دوسری جانب امریکہ کی جانب سے افغان بحران سے جان چھڑانے کے لیے پا کستان پر مسلسل زور دیا جارہا ہے، حالانکہ پاکستان امریکہ پر یہ واضح کرچکا ہے کہ افغانستان کے بحران کا کوئی جنگی حل نہیں ہے، امریکہ کو بالآخر مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا، جس میں تعاون کی پاکستان پہلے ہی غیر مشروط پیشکش کرچکا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے مختلف امریکی حلقوں کی طرف سے طالبان، حقانی نیٹ ورک اور بھارت میں برسرپیکار عسکریت پسند گروپوں کے تانے بانے پاکستان کے ساتھ ایک بار پھر جوڑے جارہے ہیں۔ اس سلسلے میں چند دن پہلے امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈینیل کوٹس نے امریکی سینیٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے پاکستان پر وہی پرانے گھسے پٹے الزامات لگاتے ہوئے اسے بعض دہشت گرد گروپوں کا پشتی بان قرار دیا ہے۔ ڈینیل کوٹس کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان افغان مزاحمتی قوتوں کی پیشتی بانی کرتا رہے گا تب تک افغانستان میں قیامِ امن کا امریکی خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ امریکی بدنیتی اور پاکستان مخالف ان ہی اقدامات کے نتیجے میں امریکہ نے پاکستان کو دہشت گرد گروپوں کو سپورٹ کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی نہ صرف دھمکی دے رکھی ہے بلکہ پیرس میں اس حوالے سے ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس کے ایجنڈے پر بھی پاکستان کا نام رکھا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ امریکہ جو کام سولہ سال تک اپنی جدید جنگی اور تکنیکی مہارت، نیز B-52، اور بموں کی ماں اور ڈیزی کٹر بموں جیسے تباہ کن جدید ہتھیاروں سے نہیں کرسکا ہے وہی کام پاکستان سے اﷲ واسطے کروانا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ آخر اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر کیوں گرانا چاہتا ہے جو خود بھی امریکہ کی اس خطے میں لائی ہوئی اس جنگ کے طفیل 70 ہزار سے زائد جانی نقصان کے علاوہ 123ارب روپے کے مالی نقصانات اٹھا چکا ہے۔ امریکہ اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہے کہ موجودہ دور ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کا دور کہا جاتا ہے، اور خود امریکہ ویت نام، ایران اور شام کے تنازعات میں اس پر عمل کرچکا ہے، اُس کے لیے افغانستان کی دلدل سے نکلنے کا ایک ہی محفوظ راستہ ہے، اور وہ ہے طالبان سے بامقصد مذاکرات اور انہیں بندوق رکھ کر افغانستان کے اقتدار میں شرکت کے مواقع فراہم کرنا۔ امریکہ کو یہ تلخ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ اُس کی اس خطے میں طاقت کے بل بوتے پر موجودگی کو اِس خطے کا کوئی بھی ملک مستقلاً قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اور خطے کی بعض قوتیں تو امریکہ کو یہاں الجھاکر اُس کے ساتھ دنیا کے بعض دیگر خطوں سمیت ماضی کے بعض حسابات بھی برابر کرنے کی خواہش مند ہیں۔ ایسے میں امریکہ کو طالبان کی جانب سے مذاکرات اور قیام امن کی پیشکش کو نہ صرف سنجیدگی سے قبول کرنا چاہیے بلکہ اس ضمن میں جتنا جلدی ہوسکے بعض ایسے اقدامات بھی اٹھانے چاہئیں جس سے مذاکرات کی راہ ہموار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی کامیابی کے امکانات بھی پیدا ہوسکیں۔
یہاں اس امر کی طرف اشارہ بھی مناسب ہوگا کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اﷲ مجاہد نے نیٹو اور امریکہ کی جانب سے طالبان کی مذاکرات کی پیشکش پر سردمہری اور اس پیشکش کو رد کرنے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پیشکش کو طالبان کی کمزوری پر محمول کرنا امریکہ اور نیٹو کی خام خیالی اور بے وقوفی ہوگی۔ طالبان کی پیشکش قبول نہ کرنے کا مطلب افغانستان میں مزید خون خرابہ اور امریکی و افغان سیکورٹی فورسز پر حملوں میں مزید تیزی ہوگی۔
افغانستان جو طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے ہاتھوں پہلے ہی بند گلی میں داخل ہوچکا ہے، اور جہاں امریکی کٹھ پتلی حکومت اب تک نہ تو سارے ملک میں ریاستی رٹ کی بحالی میں کامیاب ہوسکی ہے اور نہ ہی آگ اور پانی کے ملاپ کی مانند حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ اتحادی حکومت کے قیام کا تجربہ کامیاب ہوتا نظر ا رہا ہے۔ بدانتظامی اور کرپشن کے ساتھ ساتھ افیون کی کاشت پچھلے برسوں کی نسبت 87 فیصد اضافے کے ساتھ ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق سوائے چند بڑے شہروں کے تقریباً پورے افغانستان پر عملاً طالبان کا قبضہ ہے۔ اس ضمن میں جاری ہونے والی روس کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے60 فیصد حصے پر طالبان کا قبضہ ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ کی اسی نوع کی ایک رپورٹ میں طالبان کا زیر کنٹرول رقبہ 40 فیصد اور امریکی رپورٹوں میں 30 فیصد بتایا گیا ہے۔ حکومتی سطح پر نسلی تقسیم دن بدن گہری ہوتی جارہی ہے اور غیر پشتون اقلیت کی جانب سے پشتون صدر کے احکامات کے ساتھ جو سنگین مذاق روا رکھا جاتا ہے اس کی ایک تازہ جھلک افغان صدر کی جانب سے حال ہی میں شمالی اور وسطی افغانستان کے پانچ صوبوں سمنگان، میدان وردگ، لوگر، لغمان اور قندوز کے گورنروں کی بے دخلی پر ظاہر کی جانے والی مزاحمت اور ناراضی کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سمنگان کے معزول کیے جانے والے گورنر عبدالکریم خدام نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کررکھا ہے اور وہ اس اقدام کو اتحادی حکومت کے معاہدے کی روح کے خلاف قرار دے رہے ہیں، جب کہ ان کے علاوہ دو ماہ قبل شمالی صوبے کے معزول کیے جانے والے ایک اور سابق جنگجو کمانڈر عطا محمد نور بھی صدارتی احکامات کے تحت گورنری سے معزولی کے باوجود عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ بلخ اور سمنگان کے ان دونوں گورنروں کا تعلق ڈاکٹر اشرف غنی کی اتحادی اور افغانستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی جماعت جمعیت اسلامی سے ہے، اور اس کی جانب سے ان دونوں گورنروں کی معزولی پر نہ صرف ناراضی اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے بلکہ جمعیت اسلامی اس اقدام کو اتحادی حکومت کے معاہدے کی خلاف ورزی بھی قرار دے رہی ہے، جس سے اگر ایک طرف اتحادی حکومت کا وجود ڈانواں ڈول نظر آرہا ہے تو دوسری جانب اس تفریق کا فائدہ طالبان بھی اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔
آخر میں ون ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ اگر افغان حکومت انجینئر گلبدین حکمت یار اور ان کی جماعت حزبِ اسلامی کے ساتھ تمام تر مشکلات کے باوجود مفاہمت کرسکتی ہے تو ایسا ہی کوئی امن معاہدہ طالبان کے ساتھ کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ اس کا سیدھا سادہ جواب یہی ہے کہ چونکہ ایسا امریکہ نہیں چاہتا اس لیے طالبان کی مذاکرات کی پیشکش کے باوجود یہ بیل منڈھے چڑھتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔
nn