۔26 مارچ کو مصر میں صدارتی ’’انتخابات‘‘ ہورہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک آن لائن جریدے مصری کرانیکل (Egyptian Chronicles) نے سرخی جمائی کہ اس وقت صدر السیسی کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے مخالف امیدوار کا ’’چنائو‘‘ ہے، اس لیے کہ مقابلے پر موجود تمام امیدواروں کو فوج نے گرفتار ی، تشدد، مار پیٹ اور ڈرا دھمکاکر دست بردارکرا دیا ہے، اور اب انتخابات سے 6 ہفتے پہلے السیسی کے مقابلے کے لیے کوئی امیدوار ہی نہیں۔ خاصی تگ و دو کے بعد 9 فروری کو ایک صاحب موسیٰ مصطفی موسیٰ دریافت ہوئے جنھوں نے السیسی کے مقابلے میں کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے پر رضامندی ظاہر کردی، تاہم وہ ابھی تک اپنے سوشل میڈیا سے مصر کے بطلِ جلیل، قائدِ عرب و عجم جنرل السیسی کے حق میں مہم چلارہے ہیں۔ جناب موسیٰ کی مدد کے لیے ایک ’’متروک‘‘ سیاسی جماعت حزب الغد بھی میدان میں اتری ہے جس نے اُن کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔
صدر السیسی کے مقابلے میں جو لوگ سامنے آئے اُن میں سب سے عبرت ناک انجام مصر کے سابق آڈیٹر جنرل هشام الجنينه کا ہوا کہ جیسے ہی انھوں نے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا، خردبرد کے علاوہ سرکاری خزانے سے اخوان المسلمون کی مدد کا الزام لگاکر اُن کی گرفتاری کے وارنٹ نکال دیئے گئے۔ اُن کے وکلا کا خیال تھاکہ اگر هشام الجنينه کسی طرح الیکشن کمیشن پہنچ کر کاغذاتِ نامزدگی داخل کرا دیں تو پھر ان کی گرفتاری ذرا مشکل ہوگی، ورنہ اگر وہ پولیس کے ہاتھ لگ گئے تو اخوان کی مدد ایسا سنگین جرم ہے کہ انھیں فوجی عدالت سے سرسری سماعت کے بعد سزائے موت سناکر انتخابات سے پہلے ہی پھانسی دے دی جائے گی۔ چنانچہ بیچارے نے کئی دن زیرزمین رہنے کے بعد ہفتہ 27 جنوری کو
الیکشن کمیشن میں کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کی اُن کے قریبی رفقا کے سوا کسی کوخبر نہ تھی۔
لیکن خفیہ پولیس بھی قیامت کی نظر رکھتی ہے۔ موصوف جیسے ہی اپنے گھر سے نکلے، گلی کے نکڑ پر ایک کار نے اُن کی گاڑی کا راستہ روک لیا، جس سے اترنے والے تین افراد نے سلاخوں سے هشام الجنينه کی مرمت شروع کردی۔ ایک حملہ آور کے پاس خنجر بھی تھا، هشام الجنينه کی چیخ پکار سن کر لوگ جمع ہوئے لیکن کسی میں ان حملہ آوروں کو روکنے کی ہمت نہ تھی۔ اسی اثنا میں اُن کی اہلیہ اور صاحبزادی بھی وہاں پہنچ گئیں اور منت سماجت کرکے هشام الجنينه کی جان چھڑائی جو شدید زخمی ہوگئے تھے۔ اُن کے
بائیں گھٹنے پر شدید ضرب لگائی گئی تھی۔
حملہ آوروں کے جانے کے بعد پولیس آئی اور هشام الجنينه کو ہسپتال لے جانے کے بجائے تھانے لے گئی کہ اُن کے وارنٹ نکلے ہوئے تھے۔ خاصی دیر تک انھیں تھانے میں رکھا گیا جہاں وہ درد سے تڑپتے رہے۔ جب هشام الجنينه کے سر سے السیسی کی مخالفت اور انتخاب میں حصہ لینے کا ’’بخار‘‘ اتر گیا تو انھیں ہسپتال میں داخل کرکے ’’نامعلوم‘‘ ملزموں کی تلاش شروع ہوئی۔ دوسری طرف حکومت کے ’’حسنِ سلوک‘‘ سے شدید متاثر هشام الجنينه نے انتخابات میں جنرل السیسی کی مکمل حمایت کا اعلان کردیا۔ هشام الجنينه کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ موصوف نے مصری فوج کے کرنل احمد کونسووا کے حشر سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔
بھولے کرنل احمد نے نومبر میں فیس بُک پر ایک ویڈیو میں صدارتی انتخاب لڑنے کی ’’خواہش‘‘ ظاہر کی تھی۔ اُس وقت موصوف فوجی وردی میں ملبوس تھے۔ جوش سے مُکّہ لہراتے جواں سال کرنل نے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا عزم کیا۔ لیکن ویڈیو کے منظرعام پر آتے ہی انھیں چھائونی سے گرفتار کرکے فوج کے ’’تفتیشی‘‘ مرکز پہنچا دیا گیا اور 15 دن ’’خاطر تواضع‘‘ کے بعد کرنل صاحب اس شان سے فوجی عدالت میں آئے کہ اُن کا منہ سوجا ہوا تھا اور دونوں ہاتھوں پر پٹیاں بندھی تھیں۔ موصوف چلنے سے معذور ہوگئے تھے، چنانچہ وہیل چیئر پر ’جج‘ کے سامنے پیش ہوئے۔ سرسری سماعت کے بعد انھیں چھے سال قید کی سزا سنادی گئی۔
جیل جاتے ہوئے انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ حراست کے دوران فوج نے حفظِ مراتب کا پورا خیال رکھا اور ان سے بہت عمدہ سلوک کیا گیا۔ ساتھ ہی کرنل صاحب نے انکشاف کیا کہ قید کے دوران انھیں سوچنے اور مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور تفصیلی غوروفکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مصر سخت آزمائش سے گزر رہا ہے اور اس مرحلے پر ملک کو ایک ولولہ انگیز قیادت کی ضرورت ہے۔ ایسی قیادت صرف جنرل السیسی فراہم کرسکتے ہیں، لہٰذا وہ جنرل صاحب کے حق میں دست بردار ہورہے ہیں۔
ایک اور امیدوار ائرمارشل احمد محمد شفیق ذکی تھے جو مصری فضائیہ کے سابق سربراہ اور وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ انھوں نے 2012ء میں مصری تاریخ کے واحد آزادانہ انتخابات میں لبرل، سیکولر و قوم پرست اتحاد کی جانب سے صدر محمد مرسی کا مقابلہ کیا تھا۔ احمد شفیق دبئی میں تھے جہاں سے انھوں نے السیسی کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کا اعلان کیا۔ ٹوئٹ جاری ہوتے ہی متحدہ عرب امارات کی پولیس اُن کے گھر پہنچ گئی اور انھیں ملک بدری کے احکامات دکھاکر خصوصی طیارے میں قاہرہ بھیج دیا گیا۔
قاہرہ کے ہوائی اڈے پر فوج کا خصوصی دستہ اُن کے ’’استقبال‘‘ کو موجود تھا۔ ائرمارشل صاحب کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ایک پنج ستارہ ہوٹل پہنچا دیا گیا اور چند دن بعد 7 جنوری کو ہوٹل میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے جنرل السیسی کے حق میں دست بردار ہونے کا اعلان کردیا۔ اپنے بیان میں احمد شفیق نے تمام محبِ وطن مصریوں سے جنرل السیسی کی مکمل حمایت کی درخواست کی۔
مصری فوج کے سابق سربراہ جنرل سمیع حافظ عنان نے 21 جنوری کو انتخاب لڑنے کا اعلان کیا، جس کے دوسرے ہی دن فوج کی سپریم کونسل نے اُن کی گرفتاری کا حکم جاری کردیا۔
کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جنرل صاحب فوج کی اعلیٰ کمان سے اجازت لیے بغیر میدانِ سیاست میں کود پڑے ہیں جو ’’بغاوت‘‘ کی ایک شکل ہے۔ فوج کے وقار کا تقاضا ہے کہ اس ’’سنگین واردات‘‘ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جائے۔ عقل مندکو اشارہ ہی کافی ہے جبکہ یہاں تو باقاعدہ ہتھکڑی لگی ہوئی تھی، چنانچہ جنرل عنان انتخابات میں جنرل السیسی کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے مقابلے سے دست بردار ہوگئے۔
مصری قومی اسمبلی کے رکن اور سابق صدر انورالسادات کے بھتیجے محمد انوارالسادات ثانی کا خیال تھا کہ خاندانی پس منظر کی بنا پر جنرل السیسی انھیں کچھ نہیں کہہ سکیں گے۔ انوار السادات صاحب کی بات کچھ ایسی غلط بھی ثابت نہ ہوئی کہ ان کی نہ تو ٹانگیں توڑی گئیں، نہ کسی قسم کا تشدد ہوا، بس مہمان کی شکل میں گھر آنے والے خفیہ پولیس کے سپاہیوں نے انتخاب لڑنے کے خطرات و مضمرات سے انھیں کماحقہٗ آگاہ کردیا۔ آدمی عقلمند ہیں، چنانچہ وہ یہ کہہ کر عزتِ سادات بچاگئے کہ موجودہ حالات میں صدر السیسی کی حمایت ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔
ممتاز قانون دان جناب خالد علی کا خیال تھا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اظہارِ رائے پر پابندی، جماعت سازی پر قدغن اور سیاسی سرگرمیوں پر بندش ہے جس نے مصریوں کو ریاستی معاملات سے الگ تھلگ کررکھا ہے۔
ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ عام لوگ قانون سازی اور حکمرانی کے ایوانوں تک پہنچیں، اور اسی عزم کے ساتھ انھوں نے صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ برسراقتدار آکر ملک کے موجودہ آئین کو منسوخ کرکے مغربی ممالک کی طرز پر ایک جمہوری دستور ترتیب دیں گے۔
حفظِ ماتقدم کے طور پر جناب خالد علی نے اپنی پہلی تقریر میں جنرل السیسی کو خراج تحسین بھی پیش کیا، تاہم یہ بھی کہہ گئے کہ جنرل صاحب کو اب ریٹائر ہوجانا چاہیے۔ اُن کے پاس بھی خفیہ پولیس کے چند اہلکار پہنچے اور دوسرے دن ایڈووکیٹ صاحب یہ کہتے ہوئے دست بردارہوگئے کہ فی الوقت وہ وکالت پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔
ابتدا ہی سے جناب عبدالمنعم ابوالفتوح عبدالہادی ایک مضبوط امیدوار سمجھے جارہے تھے۔ ابوالفتوح زمانۂ طالب علمی میں جامعہ قاہرہ کے طالب عالم رہنما تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ کچھ عرصہ شدت پسند تنظیم الجماعت الاسلامیہ سے بھی وابستہ رہے لیکن جلد ہی اخوان المسلمون کی رکنیت اختیار کرلی۔ ابوالفتوح بے باک مقرر ہیں اور اقبال کے قلندر کی طرح اُن کی زبان نرم گرم ہر حال میں دل کی رفاقت کا حق ادا کرتی نظر آتی ہے۔ وہ اخوان کی شوریٰ کے رکن اور مرکزی رہنما رہ چکے ہیں۔ 2011ء کے پارلیمانی انتخابات میں اخوان المسلمون کی زبردست کامیابی کے بعد انھوں نے اخوان سے الگ ہوکر ’حزب مصرالقویہ‘‘ یا مضبوط مصر پارٹی تشکیل دی اور صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا۔ ان انتخابات میں صدر مرسی اور احمد شفیق کے بعد وہ تیسرے نمبر پر رہے۔ خیال تھا کہ ابوالفتوح جنرل السیسی کے خلاف حزب اختلاف کے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔
پابندیوں اور قید و بند کے باوجود عوامی حمایت کے اعتبار سے اخوان المسلمون آج بھی مصر کی مقبول ترین جماعت ہے اور توقع تھی کہ اخوان کے حامیوں کی بڑی تعداد ابوالفتوح کی حمایت کرے گی۔ لیکن 28 جنوری کو جناب ابوالفتوح نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ دوسرے تمام امیدوار تو سجدۂ سہو ادا کرکے گھر بیٹھ گئے لیکن ابوالفتوح خم ٹھونک کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ 9 فروری کو الجزیرہ ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار مصری اس ’احمقانہ رسم‘ کا حصہ نہیں بنے گا جس نے ہمارے ملک کو اقوام عالم کے سامنے تماشا بنادیا ہے۔ ابوالفتوح نے کہا کہ مصر کی تاریخ میں اب تک صرف 2012ء کے انتخابات منصفانہ اور آزادانہ ہوئے۔ میں ہار گیا لیکن ان انتخابات کے شفاف اور آزادانہ ہونے میں کسی کو ذرہ برابر شک نہیں۔ واضح رہے کہ 2012ء کے صدارتی انتخابات میں محمد مرسی کامیاب ہوئے تھے۔ ابوالفتوح نے کہا کہ جنرل السیسی ملک کو رسوا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور شرمناک انتخابات کی جو تفصیلات ابلاغ عامہ پر آرہی ہیں اس سے مصر کا رہا سہا وقار بھی مٹی میں مل گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس مسخرہ پن کا بائیکاٹ ہر مصری کی اخلاقی ذمہ داری ہے تاکہ دنیا کو پتا چل جائے کہ اس جعل سازی کو مصری قوم نے مسترد کردیا ہے۔ ابوالفتوح نے کہا کہ جنرل السیسی نے ملک کو پولیس ریاست بنادیا ہے اور وہ مصریوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ سابق صدر حسنی مبارک بھی ایک آمر تھے لیکن السیسی نے تو بھونڈے پن کی انتہا کردی ہے۔ وہ ملک کے سرمائے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور بدترین آمریت کی بنا پر لوگوں کے لیے آزادی سے سانس لینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ جناب ابوالفتوح نے کہا کہ مصر میں حزب اختلاف کا کوئی وجود نہیں۔ اظہارِ رائے کے تمام وسائل جنرل السیسی کے قبضے میں ہیں۔ ملک میں اجتماع اور جماعت سازی پر مکمل پابندی ہے جس کی وجہ سے السیسی کے خلاف تحریک مشکل ہے، اور صرف انتخاب کا مکمل بائیکاٹ ہی مصری آمر کا مزاج درست کرسکتا ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بائیکاٹ ناممکن ہے۔ صدر السیسی کچی گولیاں کھیلے ہوئے نہیں، انھوں نے سارے ملک میں خفیہ پولیس اور فوجیوں کو سادہ کپڑوں میں پولنگ اسٹیشنوں پر لے جانے کا منصوبہ بنالیا ہے، پولنگ مراکز کے باہر طویل قطاریں ہوں گی اور اندر کراچی برانڈ ٹھپے بازی سے ووٹوں کا تناسب 90 فیصد سے زیادہ کردیا جائے گا۔
ادھر کچھ دنوں سے جنرل السیسی کے ’’مخالف امیدوار‘‘ موسیٰ مصطفی موسیٰ نے بھرپور انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے اور دلچسپ بات کہ تقریروں میں وہ جنرل السیسی کو نشانہ بنانے کے بجائے بائیکاٹ کرنے والوں پر برس رہے ہیں۔ 10 فروری کو قاہرہ میں اپنے کارکنوں وں نے کہا کہ ووٹ ڈالنا قومی ذمہ داری ہے، لہٰذا بائیکاٹ کی اپیل کرنے والوں کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ابوالفتوح انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
مصر میں انتخابی نوٹنکی کی خبریں تمام مغربی میڈیا پر شائع ہورہی ہیں لیکن جمہوریت کے علَم بردار کسی ایک ملک نے سرکاری سطح پر تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انتخابات سے پہلے اخوان المسلموں کے 60 ہزار کارکنوں کی گرفتاری پر احتجاج کیا ہے، لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں اور Democracy International جمہوریت کے قتلِ عام پر خاموش ہیں۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ تو کہہ ہی چکے ہیں کہ انھیں جنرل السیسی بہت پسند ہیں جنھوں نے انتہاپسندوں کو نکیل ڈال رکھی ہے۔