افغانستان ، سی پیک اور پاکستان کے لئے خطرات

عین اُس وقت جب ملکِ عزیز میں ایوانِ بالا کی نشستوں کے حصول کے لیے ارکانِ اسمبلی کی خرید وفروخت کا غلیظ کھیل کھیلا جارہا ہے اور الا ماشا اللہ تمام ہی سیاسی جماعتیں بقدرِ جثہ اس غلاظت میں لتھڑی نظر آرہی ہیں، امریکہ پاکستان کے گرد اپنی مذموم سازشوں کا جال بُنتا چلا جارہا ہے۔ امریکہ اور بھارت کی ایک کوشش یہ ہے کہ اگلے ہفتے شروع ہونے والی ’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ (FATF) کے اجلاس میں پاکستان کو ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے رقم فراہم کرنے کی سہولت اور ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے سلسلے میں عالمی برادری کے ساتھ عدم تعاون کے الزام پر FATF کی ’’گرے لسٹ‘‘ یا ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل کردیا جائے۔
یہ ٹاسک فورس دراصل دنیا بھر کے ممالک کا مجموعہ ہے جو دنیا کے مالیاتی نظام سے ’’منی لانڈرنگ‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے سرمایہ کی فراہمی کے خاتمے کے نام پر 1989ء میں وجود آئی ہے۔ امریکہ اس ادارے کا سرخیل ہے اور اس ٹاسک فورس کے فیصلوں میں امریکہ کے اثرات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔
امریکہ اور بھارت اس ٹاسک فورس کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے مالیاتی نظام پر کاری وار کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے بعد پوری دنیا کے مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ مالی تعلقات میں احتیاط برتیں گے، نئی شرائط اور دیگر ضمانتیں درکار ہوں گی، اور اس سب کی وجہ سے پاکستان سے کاروبار کرنا ہر ایک کے لیے مشکل اور مہنگا سودا ہوگا۔
پاکستان پر پچھلے کچھ عرصے سے دبائو موجود ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے پابند کیے گئے پاکستان میں قائم کچھ اداروں کو فوری طور پر بند کرے۔ ان میں حافظ سعید سے متعلق جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فائونڈیشن اور چند دیگر ادارے شامل ہیں۔ ٹاسک فورس کو اس معاملے میں پاکستان سے عدم تعاون کی شکایت رہی ہے۔ اب امریکہ اور بھارت اس بات کا بہانہ بناکر پاکستان کے خلاف ٹاسک فورس کے ذریعے شکنجہ کسنے کی تیاری کررہے ہیں۔
خبروں کے مطابق پاکستان کے مقتدر حلقوں میں اس خطرے کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے صدرِ مملکت نے 9 فروری کو ایک آرڈیننس کے ذریعے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کردی ہے جس کے بعد الاختر ٹرسٹ، الرشید ٹرسٹ، جماعت الدعوۃ، فلاحِ انسانیت فائونڈیشن وغیرہ پر پابندی لگادی گئی ہے (ڈان 13 فروری)۔ پاکستان کی طرف سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات سے ٹاسک فورس کے اراکین کس حد تک مطمئن ہوتے ہیں، یہ اگلے ہفتے کے اجلاس میں معلوم ہوجائے گا۔
امریکہ اور بھارت کی جانب سے پاکستان کا ناطقہ بند کرنے کا نہ تو یہ پہلا قدم ہے اور نہ ہی آخری۔ امریکہ پاکستان کے خلاف ایک ہمہ جہت لڑائی میں مصروف ہے جس میں دھونس، دھمکی، لالچ اور ہاتھ مروڑ کر کام نکالنے سمیت ہر حربہ شامل ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر ان تمام حربوں سے کام نہ بنے تو خدانخواستہ طاقت کے حتمی استعمال تک کی تیاری کی جارہی ہے۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ ملک کا میڈیا اور سیاست دان نان ایشوز پر ہر روز ایک نیا طوفان کھڑا کیے رہتے ہیں اور ملک کو درپیش حقیقی خطرات پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔
امریکہ کا پاکستان سے مطالبہ بظاہر بڑا سادہ ہے کہ (امریکہ کے بقول) ملک میں موجود حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے مراکز بند کیے جائیں، کیونکہ ان مراکز سے لوگ افغانستان میں بدامنی پھیلاتے ہیں۔ افغانستان میں پچھلے دو تین ماہ میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے افغانستان حکومت اور امریکہ کے خیال میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد گروپ ہی ملوث رہے ہیں۔ امریکہ کی تقریباً ہر سطح کی سویلین اور ملٹری قیادت متعدد بار پاکستان پر ڈبل گیم کھیلنے اور ان گروپس کو پروان چڑھانے اور مدد دینے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی فوجی اور سیاسی قیادت یہ مؤقف اپنائے ہوئے ہے کہ اس نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کا خاتمہ کردیا ہے، جو کچھ رہا سہا عنصر موجود ہے اُس کے خلاف بھی مستقل کارروائیاں ہورہی ہیں۔ جنرل جنجوعہ نے 14 فروری کو افغانستان میں چیفس آف ڈیفنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں اُن عناصر کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے جو افغانستان میں دہشت گردی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت بھی یہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہوسکے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بات فقط اتنی ہی ہے کہ اگر پاکستان امریکہ کی مرضی کے مطابق اپنی سرزمین سے حقانی اور دیگر طالبان متعلق قوتوں کا صفایا کردے تو امریکہ افغانستان میں امن حاصل کرلے گا؟ اور کیا صرف افغانستان میں امن کا قیام ہی امریکہ کی خطے میں موجودگی کا واحد مقصد ہے؟
اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو امریکہ کی جانب سے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور میزائل پروگرام کے اوپر تحفظات کےپیچھے کیا مقاصد ہیں؟، جن کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً کرتا رہا ہے (ڈان 19دسمبر 2017ء) جس طرح امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور امریکی افواج کے سربراہ جنرل ڈن فورڈ نے امریکی سینیٹ اور کانگریس کے سامنے ’’پاک چین اقتصادی شاہراہ‘‘ (CPEC) پر اعتراض کیا ہے جو درحقیقت بھارتی مؤقف ہی کا چربہ ہے، اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ اسی طرح ٹرمپ انتظامیہ بھارت کو افغانستان میں ایک بڑا کردار دینے کی خواہش کو بتدریج حقیقت کا روپ دیتی چلی جارہی ہے، جس کے خلاف پاکستان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، اور کلبھوشن کی صورت میں ایک ایسا ثبوت مہیا کردیا ہے جس کے بعد بلوچستان کی بدامنی میں بھارتی کردار عیاں ہوگیا ہے، اس سب کے پیچھے آخر کیا مقاصد ہیں؟
امریکہ کے حقیقی مقاصد وقت کے ساتھ ساتھ سب پر عیاں ہوتے چلے جارہے ہیں، چاہے امریکی اپنے ان مقاصد کا تذکرہ کھل کر نہ بھی کریں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں شکست سے دوچار ہے۔ ڈیڑھ عشرے سے زائد مدت اور امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں اس کے ہاتھ فی الحال کچھ بھی نہیں آیا ہے علاوہ چند فوجی اڈوں کے، جہاں اس کے فوجی بنکروں میں چھپے بیٹھے رہتے ہیں اور بغیر ہواباز اڑنے والے طیاروں سے چاند ماری کرتے رہتے ہیں جس کا شکار عام افراد بنتے ہیں۔ خود امریکی میڈیا یہ کہنے پر مجبور ہے کہ 40 فیصد افغانستان امریکہ اور اس کی پٹھو افغان حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اب یہ تو کوئی بچہ بھی بتاسکتا ہے کہ 40 فیصد افغانستان کو قابو میں رکھنے کے لیے سرحد پار سے چند افراد درکار نہیں ہوتے، بلکہ اس کے لیے گرائونڈ پر موجود افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔
امریکہ کی طرف سے اعلان کیا گیا ’’نیوسلک روٹ‘‘ جس کا افتتاح اُس وقت کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے 2011ء میں کیا تھا، قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا گیس پائپ ے خطے میں گیم چینجر کہاجارہا تھا، اس کی حیثیت فی الحال دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں۔دوسری طرف چین پاکستان اقتصادی شاہراہ (CPEC) کا وجود میں آنا خطے میں امریکی مقاصد کے لیے موت کا پروانہ بن سکتا ہے۔چین، پاکستان اور روس خطے میں مزید مضبوط ہوسکتے ہیں اور ان کے تعاون سے بننے والا اتحاد دیگر علاقائی ممالک کو اپنے اتحاد میں سمو کر پورے خطے میں امریکہ کو اجنبی بناسکتا ہے۔ ایسے میں بھارت کب تک تنہا امریکہ کی دوستی کا بوجھ اٹھائے چل سکے گا؟
یہی وجہ ہے کہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد امن قائم ہو اور متحارب گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سی پیک کے راستے میں روڑ ے اٹکائے جائیں، پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی کو ہوا دی جائے، پاکستان کو دہشت گردی کے عالمی قوانین اور اداروں کے جال میں پھنسا کر مختلف پابندیاں لگائی جائیں تاکہ زچ ہوکر پاکستان امریکہ کے ایجنڈے پر سرجھکا کر چلنا قبول کرے۔ یعنی سی پیک کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، افغانستان میں اپنی ہمنوا حکومت کے بجائے اپنے دشمن کی حکومت برداشت کرے، بلکہ اس کی تشکیل میں امریکہ کی مدد کرے، اپنے ایٹمی اثاثہ جات کو (خدانخواستہ) غیروں کی نگرانی میں دے دے اور خطے میں بھارت کی بالادستی قبول کرکے اس کی باج گزار ریاست بن کر رہنا قبول کرلے۔
اس صورتِ حال کا سرسری تجزیہ ہمیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ درحقیقت خطے میں پاکستانی اور امریکی مفادات ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، ایک کی کامیابی دراصل دوسرے کی ناکامی پر منتج ہوگی۔
ایسے میں یہ بات اہم ہے کہ امریکہ آخر پاکستان کو زچ کرنے کے لیے کس حد تک جاسکتا ہے؟ آیا پاکستان کے پاس بھی ایسے دائو پیچ موجود ہیں جو امریکہ کو حد سے آگے بڑھنے سے روک سکیں؟
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور سیاسی میدان کے کھلاڑی اس ضمن میں پاکستانی عوام کو کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں۔ جو کچھ میسر ہے وہ غیرملکی میڈیا اور تھنک ٹینکس کی رپورٹوں کی چھلنی سے چھن کر آنے والی اطلاعات ہی ہیں جن سے صورت حال کی سنگینی کا احساس کیا جاسکتا ہے۔ جو مشورے امریکی ماہرین ٹرمپ انتظامیہ کو دے رہے ہیں ان کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہے: پاکستان کا نان نیٹو اتحادی کا اسٹیٹس فوری طور پر ختم کردیا جائے، ہر قسم کی امداد پر پابندی لگادی جائے، پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست قرار دے دیا جائے اور سفارتی محاذ پر دنیا میں تنہا کیا جائے، پاکستان کے مالیاتی اداروں کو نشانہ بنایا جائے، انہیں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کا سدباب نہ کرنے کی سزا دی جائے، بھارت کے لیے افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں اور سرحد پار کارروائیوں کے لیے فضا ہموار کی جائے، ڈرون حملے بڑھائے جائیں اور ان کے ذریعے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی قیادت کو نشانہ بنایا جائے، پاکستان آرمی اور چیدہ انٹیلی جنس افسروں پر پابندی لگائی جائے، جس طرح ایرانی پاسداران پر پابندی لگائی گئی تھی اسی طرح آئی ایس آئی پر پابندی لگادی جائے۔
جیسا کہ اطلاعات ہیں امریکہ نے ان تجاویز میں سے بیشتر پر کام شروع کردیا ہے، اور آنے والے دنوں میں کم و بیش ان تمام ہی تجاویز پر عملدرآمد ہوتا نظر آئے گا۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بالکل ہی نرم چارہ ہے اور اس کے پاس امریکہ کے اس جارحانہ رویّے کا کوئی جواب بھی ہے یا نہیں؟
اس ضمن میں اہم ترین سوال تو یہ ہے کہ کیا ہمارے پالیسی ساز ادارے اور مقتدر قوتیں اس بات سے بالکل ہی لاعلم تھیں کہ سی پیک جیسے اسٹرے ٹیجک نوعیت کے منصوبے کا بیڑا اٹھانے کے بعد امریکہ اور بھارت خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے۔آخر اس منصوبے کی سیکورٹی کا بار تنہا پاکستان کیوں کراٹھا سکتا ہے؟ اور اگر اس منصوبے کی سیکورٹی کے حوالے سے چین بھی کسی معاہدے کا پابند ہے تو اس معاہدے کو سامنے کیوں نہیں لایا جاتا؟ اور آخر وہ کیا ذمہ داریاں ہیں جو دیگر شرکائے معاہدہ کو بھی اٹھانا ہیں؟
پھر امریکہ بھی کچھ معاملات میں پاکستان کا محتاج ہے۔ سب سے اہم معاملہ افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی افواج کے لیے مستقل رسد کی فراہمی ہے۔ فی الحال رسد کی فراہمی صرف پاکستان ہی سے ممکن ہے۔ پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود سے گزر کر ہی امریکی افواج کو سپلائی جاری ہے۔ امریکہ کسی بھی صورت اس سپلائی لائن میں رکاوٹ برداشت نہیں کرسکتا۔
اس طرح افغانستان میں مستقل امن کا راستہ متحارب گروہوں سے مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے۔ اگر تمام بڑے گروپس اقتدار میں شراکت کے کسی فارمولے پر راضی ہوجاتے ہیں تب ہی افغانستان میں امن و امان ممکن ہے۔ فی الحال افغان حکومت اور امریکی افواج طالبان سے براہِ راست مذاکرات کی پوزیشن میں نہیں۔ پاکستان کے ماضی پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان ہی اس کام میں امریکہ اور افغانستان حکومت کا مددگار ہوسکتا ہے۔
یہ دو بڑے ہتھیار پاکستان کے پاس موجود ہیں جن کے باعث امریکہ ایک طرف پاکستان سے دھمکی کی زبان میں بات کرتا ہے تو فوراً ہی دوسری جانب سے پاکستان کے ماضی کے کردار کو سراہا جانے لگتا ہے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی جانب سے اب تک اٹھائے جانے والے اقدامات پر اپنا عدم اطمینان ظاہر کرتی رہی ہے۔
صدرٹرمپ کی شخصیت اور ان کے برسراقتدار آنے کے پورے عمل پر نظر رکھنے والے یہ لکھ رہے ہیں کہ امریکی انتظامیہ حالات کو بزور طاقت اپنے حق میں موڑنے کے لیے طاقت کے کسی بھی حد استعمال تک جاسکتی ہے۔ 2 فروری کو صدر ٹرمپ کے حکم پر بننے والی امریکہ کی نئی ایٹمی حکمت عملی بھی منظر عام پر آگئی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت امریکہ اب محدود طاقت کے ایٹمی ہتھیار اپنے اسلحہ خانے میں شامل کررہا ہے جو آبدوزوں پر کروز میزائل کی صورت میں موجود ہوں گے اور کسی ایک شہر کو نشانہ بنانے تک محدود رہیں گے۔ اس حکمت عملی کے تحت اب امریکہ غیر ایٹمی حملے کی صورت میں بھی ایٹمی حملہ کرنے کا مجاز ہوگا۔ انتہا یہ کہ اس ایٹمی حملے کے لیے امریکہ پر کیا گیا کوئی ’’سائبر حملہ‘‘ بھی کافی جواز ہوگا۔ اس نئی حکمت عملی کو اگر صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کی طرف سے بار بار اٹھائے جانے والے اس سوال کی روشنی میں دیکھا جائے کہ ’’اگر امریکہ کے پاس ایٹم بم موجود ہیں تو آخر ہم انہیں استعمال کیوں نہیں کرتے؟‘‘ تو مستقبل میں پیش آنے والی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
لیکن سوال تو ملک کی مقتدر سیاسی قوتوں اور اپوزیشن جماعتوں سے ہی کیا جائے گا کہ آخر وہ ملک کے مستقبل کو درپیش ان سنگین چیلنجوں سے عوام کو آگاہ کیوں نہیں کرتیں؟ کیا عوام اس ملک کے مالک نہیں؟ کیا ہمار امقتدر طبقہ عوام کو جوابدہ نہیں؟ آخر حالات کے (خدانخواستہ) کسی غیر معمولی کروٹ لینے کے نتیجے میں عوام کے علاوہ کون حالات کی سنگینی کا بار اٹھائے گا؟