پاکستان کا سیاسی کلچر ایک طائرانہ نظر

آج کل پاکستان کا سیاسی موسم نقطۂ ابال پر پہنچ چکا ہے۔ اس کا سبب نہ صرف آئندہ چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات ہیں بلکہ برسر اقتدار طبقے کی مبینہ لوٹ مار، خیانت، غبن اور بدعنوانی کی داستانیں ہیں جو زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ اس پر ہوسِِ اقتدار کا تڑکا اس انتخاب کو چناؤ کم، خانہ جنگی کا زیادہ تاثر دیتا ہے۔ ایک طبقہ عدلیہ اور ججوں کی تضحیک اور کردارکشی کررہا ہے جیسا کہ گزشتہ 22 جنوری 2018ء کی شب پاکستان کے ٹیلی وژن چینلوں پر وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی کے ججوں کے بارے میں نازیبا الفاظ کے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر عدلیہ سے مایوس اور ناراض معلوم ہوتے ہیں جبھی تو وہ ان کی تقرری کے طریقہ کار سے متعلق مروجہ قانون میں ترمیم کرکے ان کے کردار کو پارلیمان میں زیر بحث لاکر ان کی تقرری کی توثیق کے حامی ہیں۔ انہوں نے عدالتی فیصلے یا غیر جانب دارانہ تفتیش کے بغیر ججوں کو کرپٹ کہا۔ 22 جنوری 2018ء ملک کے ٹی وی چینل خصوصاً سماء (SAMA)، لیکن انگریزی روزنامہ DAWN مورخہ 23جنوری 2018ء نے WEAK بمعنی ’’کمزور‘‘ کا لفظ اُن سے منسوب کیا تھا۔ یاد رہے کہ ججوں کے احتساب کے لیے اعلیٰ عدالتی کونسل قائم ہے جو حاضر ملازمت جج صاحبان کے خلاف بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات کی تفتیش کرکے ان کی برأت یا برطرفی کا فیصلہ کرتی ہے۔ اگر یہ اختیار پارلیمان کو منتقل کردیا جائے جہاں سیاسی جوڑ توڑ اور کھینچا تانی روزمرہ کا معمول ہے تو اس کا فیصلہ متنازع متصور ہوگا، اور متاثرہ حریف اس کو ہرگز نہیں مانے گا۔ پھر ملک میں خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھے گی، جو ریاست کی بقا اور سلامتی کے لیے مہلک ثابت ہوگی۔ لہٰذا اعلیٰ ترین عدالتی کونسل (Supreme Judicial Council) کا فیصلہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ نااہل سابق وزیراعظم نوازشریف کا ماضی عدلیہ پر چڑھائی کی وجہ سے ہمیشہ ان پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا رہا ہے- یقینا وہ یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ اس فعل کے وہ تنہا مرتکب نہیں ہیں۔ ان سے بہت سال قبل حکمران پیپلز پارٹی کی رہنما بی بی بے نظیر بھٹو نے عدالت کو کنگارو عدالت (Kangaroo Court) کہا تھا اور ججوں کو ایک مذہبی جماعت کے ’’پیارے‘‘ کے لقب سے نوازا تھا، جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے پر پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اس متنازع فیصلے کو ’’عدالتی قتل‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ مندرجہ بالا سیاست دانوں کی نظر میںعدلیہ کا کردار ہمیشہ مشتبہ رہا ہے۔ اس میں شاید عدلیہ کے چند جج صاحبان کا کردار اس بدگمانی کا سبب بنا۔ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نے عدلیہ کی توہین اور تضحیک کی ہے۔ جس طرح پارلیمان پر لعنت بھیجنے پر عمران خان اور شیخ رشید پر آج ہر طرف سے ملامت کی جارہی ہے، اسی طرح عدلیہ کے فیصلوں کو مسترد کرنے پر نون لیگ پرکڑی نکتہ چینی ہورہی ہے۔ مَیں اس ضمن میں صرف اتنا کہوں گا کہ ریاست کے اداروں سمیت سیاسی جماعتوں کے شدید ترین تحفظات کے باوجود پارلیمان اور عدلیہ کی بحیثیت ادارے جگ ہنسائی نہ کی جائے۔ میں نے ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی صابر قائم خانی کا یہ بیان پڑھا: ’’اگر آئندہ انتخابات میں عمران خان رائے دہندگان سے ووٹ مانگنے جائیں تو وہ انہیں جوتے ماریں‘‘ (اسلام، مورخہ 23 جنوری 2018ء بروز منگل)۔ اسی طرح کچھ ماہ قبل بجلی کے وزیر مملکت عابد شیر علی نے ٹی وی چینل پر للکارا کہ اب کسی نے نوازشریف سے استعفیٰ مانگا تو اس سے جوتے سے بات کی جائے گی۔ میں ان تمام حضرات و خواتین کے اس رویّے پر انتہائی مایوسی کے باوجود رائے زنی سے اجتناب کرتا ہوں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ سب ’’چلتا‘‘ ہے۔ اگر میں عابد شیر علی، عمران خان، شیخ رشید، صابر قائم خانی کا گریبان پکڑوں تو شیخ رشید تو مجھے ٹکا سا جواب دے کر خاموش کرا دیں گے کہ پارلیمان میں جب انہوں نے بے نظیر بھٹو پر جملے بازی کی تھی تو بیگم نصرت بھٹو نے مشتعل ہوکر انھیں مبینہ طور پر’’حرام زادہ‘‘ کہہ ڈالا تھا۔ اُس وقت تو انہوں (شیخ رشید) نے واویلا نہیں مچایا تھا جیسا آج ’’پی پی‘‘ والے ان کے بارے میں مچا رہے ہیں۔ جہاں تک ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی صابر قائم خانی کا تعلق ہے، تو وہ یہ کہہ دیں گے کہ بے نظیر بھٹو نے پنجاب کے شہر میں ایم کیو ایم کے اراکین کو ’’چوہے‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ دراصل میں نے مندرجہ بالا سطور میں عرض کیا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں سخت الفاظ استعمال کرنے کا رواج ہے۔ جہاں تک اسمبلیوں اور عدالتوں میں کہے گئے الفاظ کا تعلق ہے تو وہ قانونی گرفت سے مستثنیٰ ہیں، لیکن جو الفاظ پارلیمان یا عدالتوں کے باہر کہے جائیں وہ قانون کی گرفت سے کسی صورت مستثنیٰ نہیں ہیں۔
آج کی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی سے مختلف ہے، ہرچند کہ وہ بلاول کے نام کے آگے ’’بھٹو‘‘ لگانے کے بعد ساتھ ہی ’’زرداری‘‘ لگاتی ہے۔ خیر، ہم اسے موضوعِ گفتگو نہیں بناتے کیونکہ یہ ان کی اشد سیاسی ضرورت ہے کہ بھٹو کی عوام میں جو عقیدت ہے اس کا وہ فائدہ اٹھائیں۔ بھٹو کا نعرہ تھا ’’روٹی، کپڑا، مکان‘‘۔ گو آج بھی ان کا یہی نعرہ ہے لیکن ؎

ہزار شیخ نے بڑھائی ڈاڑھی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

(اکبر الٰہ آبادی)
آج سندھ کے شہروں لاڑکانہ، نواب شاہ (بے نظیر آباد)، تھر، سکھر، کراچی کی جو حالت ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کا پاکستان بھوکا، ننگا اور بے مکان ہے۔ جبھی تو شہبازشریف عرف چھوٹے میاں 22 جنوری کی شب لاہور کی تقریب سے خطاب کے دوران اسٹیج پر ٹینس کی گیند کی طرح اچھل اچھل کر کہہ رہے تھے ’’جب نون لیگ کو اقتدار ملے گا تو میں کراچی اور پشاور کو بھی لاہور بنادوں گا‘‘۔ اس طرح انہوں نے سندھیوں، پختونوں اور مہاجروں کی گویا تضحیک کی۔ حالانکہ پنجاب میں ملتان، گوجرانوالہ، خانیوال، قصور کے بعض علاقے ویران اور غلیظ ترین ہیں۔
اگر وہ تھر کے علاقے میں قحط اور فاقوں سے مرنے والے بچوں پر ہمدردی کے بجائے حکمرانوں پر طنز کرتے ہیں تو سندھ اور کراچی کے باشندے ملتان میں انفلوئنزا کی وبا سےمرنے والوں اور قصور میں ایک درجن نابالغ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد لاش کی بے حرمتی کا ذکر کرکے ان کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔
میں اس سلسلے میں اپنی رائے (جو بھی ہے) کو محفوظ رکھتے ہوئے صرف اتنا کہوں گا کہ کاش ہم دوسروں پر انگشت نمائی سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم خود کیا کہتے اور کرتے ہیں، تو شاید دوسروں کی مذمت اور تضحیک کرنے سے باز آجائیں۔ اس نفسیاتی تجربے سے ہر شہری کو گزرنا ہے، کیونکہ اسی طرح اصلاحِِ معاشرہ ممکن ہے۔ آج کچھ پارٹیاں بالخصوص پیپلزپارٹی عمران خان اور شیخ رشیدکو ملامت کررہی ہے، کیونکہ انہوں نے پارلیمان پر لعنت بھیجی۔ کم از کم پیپلز پارٹی خصوصاً بلاول میاں اور آصف زرداری کو تو یہ قطعاً زیب نہیں دیتا کہ ان دونوں سیاست دانوں کا دامن پکڑیں، کیونکہ خود ان کے بزرگوار قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے 15مارچ 1971ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے ڈھاکا میں منعقدہ اجلاس کی نہ صرف زور و شور سے مخالفت کی تھی، بلکہ ملک کی دوسری تمام جماعتوں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام، خان ولی خان کی نیپ کے اراکین کو دھمکیاں دی تھیں کہ اگر کوئی ڈھاکا گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ ڈالی جائیں گی۔ یہ فسطائی ہتھکنڈا تھا جس سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پسند قوتوں کو تقویت ملی، جس کا بھارت نے خاطر خواہ فائدہ اٹھاکر پاکستان کو دولخت کردیا۔ کیا آج آصف علی زرداری یا بلاول بھٹوزرداری، مراد علی شاہ، خورشید شاہ، نثار کھوڑو اپنے زیرک رہنما کی دستور ساز اسمبلی کے ڈھاکا میں منعقدہ اجلاس میں شرکت کے لیے جانے والے اراکین کو سنگین نتائج کی دھمکیوں کے بارے میں وہی کچھ کہیں گے جو آج عمران خان اور شیخ رشید کے بارے میں کہہ رہے ہیں؟ ڈھاکا کی دستور ساز اسمبلی تو 2013ء کے ’’متنازع‘‘ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمان سے کہیں زیادہ معتبر اور اہم ادارہ تھا، کیونکہ وہ پاکستان کی آئین سازی کرنے والی پارلیمان تھی، اور بالآخر اس نے 1973ء کا مثالی آئین تشکیل دے کر پاکستان کو استحکام بخشا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی فراست، تدبر، محنت اور صلاحیت، ساتھ ہی جماعت اسلامی کے پروفیسر عبدالغفور احمد، جمعیت علماء کے دونوں دھڑوں کی حب الوطنی اور ولی خان کے مخلصانہ تعاون کے باعث 1973ء کا جمہوری آئین وجود میں آیا جو پاکستان کی بقا اور سالمیت کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر اسے دوبارہ چھیڑا گیا جیسا کہ چند مفاد پرست عناصر اس تخریبی عمل میں سرگرم ہیں، تو اس ریاست کی خیریت نہیں ہے۔ لہٰذا حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کو اسی جذبے کے ساتھ اپنے اپنے باہمی اختلافات اور تحفظات کے باوجود قومی یگانگت کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے جو ان کے بزرگوں نے 1973ء کا آئین وضع کرنے کے لیے ادا کیا تھا۔
آج پیپلز پارٹی خود کو جمہوریت کی بلاشرکت غیرے ٹھیکیدار تصور کرتی ہے، تاہم معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ قائدِ عوام نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے برطرف کرکے ان صوبوں کو فوج کے حوالے کردیا تھا۔جس کے ردعمل میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے وزیراعلیٰ نے مفتی محمود نے استعفیٰ دے دیا تھا جو صوبے میں نیپ کے اتحادی وزیراعلیٰ تھے، اس طرح انہوں نے فوج کے عوام دشمن ہونے کا تاثر دیا، لیکن ان کے اس اقدام کو ملک کی دیگر جمہوری جماعتوں نے نہ صرف پسند نہیں کیا بلکہ اس کی شدید مذمت کی تھی۔ لیکن بھٹو نے ولی خان، عطا اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو (یہ سب اُس وقت قومی عوامی پارٹی کے اراکین تھے) پر غداری کا الزام لگاکر پابندِ سلاسل کردیا، اور اس آمرانہ اقدام کے جو از کے لیے اُس وقت کی عدالتِ عظمیٰ سے مشاورتی رائے طلب کی کہ آیا قومی عوامی پارٹی (NAP) نظریۂ پاکستان کی حامی ہے یا مخالف؟ اُس وقت کی عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ شہرۂ آفاق قانون داں عالی جناب جسٹس حمود الرحمن تھے، اس پر انہوں نے اپنی مشاورتی رائے میںکہا: جہاں تک اس جماعت (NAP)کے منشور اور اغراض و مقاصد کا تعلق ہے تو یہ کسی صورت نظریۂ پاکستان کے مطابق نہیں ہے۔ واضح رہے کہ یہ عدالتی فیصلہ نہ تھا بلکہ محض مشاورتی رائے تھی جس کی پابندی حکومت پر لازمی نہیں تھی۔ تاہم بھٹو صاحب نے یہی تاثر دیا کہ ریاست کی اعلیٰ ترین عدلیہ کا مشورہ ان کے عائد کردہ الزامات کی تائید کرتا ہے۔ ایک بار تو انہوں نے بڑی رعونت سے ٹیلی وژن پر یہ بھی کہا تھا کہ اب جب کہ قانوناً یہ ثابت ہوچکا ہے کہ NAP وطن دشمن ہے تو اس کے رہنمائوں کو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔ اس سے تمام حلقوں میں خوف و ہراس اور سنسنی پھیل گئی تھی، لیکن ’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘ کے مصداق، انسان منصوبے بناتا ہے لیکن قدرت انھیں خاک میں ملا دیتی ہے۔ اسی وقت افواجِ پاکستان نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کرکے اقتدار سنبھال لیا، اور اسی عدالتِ عظمیٰ سے NAP کے بارے میں مشورہ طلب کیا تو اس نے رائے دی کہ مذکورہ جماعت کے منشور اور اغراض و مقاصد سے کہیں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ نظریۂ پاکستان کے منافی ہے! واضح رہے کہ اُس وقت بھی حمود الرحمن اس عدالت کے سربراہ تھے اور اس کے دیگر اراکین بھی تقریباً وہی تھے جو کچھ ہی عرصے قبل جناب بھٹو کو رائے دے چکے تھے کہ اس جماعت کے اغراض و مقاصد نظریۂ پاکستان کی قطعاً نفی کرتے ہیں۔ لیکن جیسا میں مندرجہ بالا سطور میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ عدالتی فیصلہ نہ تھا بلکہ محض مشورہ تھا جس کی پابندی حکومت پر لازمی نہیں تھی، تاہم عوام عدالت کی متضاد آراء پر محوِ حیرت تھے۔ جسٹس حمود الرحمن اور فاضل جج صاحبان نے اپنے مشورے کے جواز میں یہ صفائی پیش کی کہ جنرل ضیاء کے دوبارہ مشورہ طلب کرنے اور مزید حقائق پیش کرنے پر عدالت کو اپنی سابقہ رائے تبدیل کرنی پڑی۔ اب میں اسے قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہیں۔
ناقدین کا سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ زمینی حقائق اور رائے عامہ کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتی ہے ج کی تہ تک پہنچنے کے لیے تحقیق کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں جج صاحبان اپنے فرائض عوام سے بہتر سمجھتے ہیں، لہٰذا ہمیں ان کی آراء کا احترام کرنا چاہیے۔
اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ عدلیہ کے سارے فیصلے سو فی صد صحیح اور درست ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اعلیٰ عدالتیں ماتحت عدالتوں کے احکامات و آراء کی من وعن توثیق کردیتیں یا خود اپنے ہی سابقہ فیصلوں پر قائم رہتیں۔ اس ضمن میں مولوی تمیزالدین خان کا مقدمہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس پر وفاقی عدالت (بعد ازاں عدالتِ عظمیٰ) نے سندھ چیف کورٹ کے اس فیصلے کو الٹ دیا تھا جس میں اس (Sindh Chief Court) نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ریاست کے گورنر جنرل کو ملک کی دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ وہ ایسا ادارہ ہے جو دستور بناکر خود تحلیل ہوجائے گا۔ فاضل وفاقی عدالت نے اس فیصلے کو نظریۂ ضرورت کی بنا پر رد کردیا۔ اس کے بعد پاکستان میں عرصۂ دراز تک یہ نظیر مسلّم ہوگئی کہ سربراہِ ریاست منتخب حکومت کو برخواست کرسکتا ہے اگر وہ ریاست کا نظم ونسق نہیں چلا سکتی۔ اس کے خلاف ملک میں شدید ردعمل ہوا اور بالآخر آئین میں اٹھارویں ترمیم کرکے اس کی شق 58-2(b) کو منسوخ کردیاگیا جو تاحال برقرار ہے۔ ایسا ردو بدل پاکستان میں ہی نہیں بلکہ امریکہ میں بھی ہوچکا ہے۔ جب انیسویں صدی میں اس ملک کی عدالتِ عظمیٰ نے مزدوروں کی یونین سازی اور ان کی اجتماعی سودے کاری کے لیے ہڑتال کو جرم قرار دیتے ہوئے اس کے اراکین کو سزائے موت دی تھی جس کے خلاف ملک گیر تحریک چل پڑی جسے یوم مئی کے طور پر ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ دراصل عدالتی فیصلے قانون پر مبنی ضرور ہوتے ہیں لیکن قانون خلا میں نہیں کارفرما ہوتا، اس پر معاشرے کے عوامل اثرانداز ہوتے ہیں، اور جج صاحبان سے توقع کی جاتی ہے کہ ان کو اس کا ادراک ہونا چاہیے جس کی بنا پر وہ فیصلے کرتے ہیں۔
جنرل ضیاء نے بلوچستان سے فوجی کارروائی کے خاتمے کا اعلان کردیا اور جنرل رحیم الدین کو اس صوبے کا گورنر متعین کردیا، جو فوجی کارروائی سے متاثرین کے گھر گھر جاکر انھیں معاوضے کے طور پر حکومت کی طرف سے رقوم کا ہدیہ پیش کرتے تھے۔ یہاں یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ اس اقدام سے بلوچستان میں امن و امان قائم ہوگیا۔ لیکن پھر سیکولر جنرل پرویزمشرف نے بلوچ سردار اکبر بگٹی کو قتل کروا کر سارے صوبے میں خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا کردی جس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے اور آئندہ نسلیں نہ جانے کب تک بھگتیں گی۔ قارئین اس سے یہ نہ سمجھیں کہ میں مارشل لا اور فوجی حکومت کا حامی ہوں۔ میرا مطلب صرف یہ واضح کرنا ہے کہ بدقسمتی سے ہماری قیادت اور قوم نے دہرے تہرے اور متضاد معیارات اختیار کرکے ریاست اور قوم کو نقصانِ عظیم پہنچایا، اور صحت مند جمہوری روایات اور ریاستی مفادات پر ذاتی، طبقاتی اور خاندانی مفادات کو ترجیح دے کر ملک کے سیاسی کلچر کو مکدر اور مسخ کردیا۔ آخر میں، مَیں اس مضمون کو اپنے ہم وطن شاعر مصطفی زیدی (تیغؔ الٰہ آبادی) کے اس شعر پر ختم کروں گا ؎

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

اس بارے میں پاکستان کا سیاسی کلچر بہت حد تک امریکہ سے ملتا جلتا ہے جہاں کے صدور اور مقتدر اداروں کے سربراہان اپنے مخالفین کے بارے میں SOB کا تکیہ کلام استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لغوی معنی (معذرت کے ساتھ) ’’کتیا کی اولاد‘‘ ہیں جو ’’حرامی‘‘ کے مترادف ہے۔ یہ صدر ٹرومین کا تکیہ کلام تھا۔ بعد ازاں، صدر جے ایف کینیڈی نے جو امریکہ کے اعلیٰ ترین خاندان سے تعلق رکھنے کے علاوہ شہرۂ آفاق جامعات ہارورڈ اور لندن کے اسکول آف اکنامکس (London School of Economics)کے سند یافتہ تھے، یہ لفظ اپنے حریف روسی حکمران نکیٹا خروشیف کے بارے میں استعمال کیا تھا (آرتھر سیشنگر کی کتاب Hundred Days میں بیان کیا گیا ہے)۔ علاوہ ازیں موصوف نے اپنے قریب ترین ہمسایہ اور حلیف ملک کینیڈا کے اُس وقت کے وزیراعظم John Diefenbaker کے بارے میں بھی دورانِ مذاکرات اختلافِ رائے پر اضطراری حالت میں کاغذ کے ٹکڑے پر ان کے نام کے آگے SOB لکھ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا جسے کسی کھوجی صحافی نے حاصل کرکے اخبارات میں شائع کردیا۔ اس اشاعت سے دو انتہائی مخلص اور حلیف ممالک کے تعلقات میں وقتی تلخی درآئی جو کینیڈی اور ڈیفن بیکر کے دورانِ حکومت باقی رہی۔ اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں مشرقی اخلاق و آداب برتنا ہے، یا مغرب کی بے راہ روی اور گالی گلوچ والی عادت اپنانی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے علماء و مشائخ مناظرے میں اپنے مخالفین کے لیے بھی انتہائی مہذب الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن جب جلال میں آتے ہیں تو ان پر کفر اور بدعت کا الزام لگاکر معاشرے میں ان کی گردن زدنی کا انتظام کردیتے ہیں۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اورشرعِ متین بیچ اس مسئلے کے؟ آخر میں ہمیں شاعر مشرق کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎

الٰہی تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ سلطانی بھی عیاری ہے درویشی بھی عیاری