گہرے بادل ہیں نہ اندھیرا چھایا ہوا ہے… مطلع صاف ہے اور نہ ہی جھکڑ چل رہے ہیں… یہ ملک کے سیاسی افق کا ایک منظر ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ خبر یہ ہے کہ سیاسی بحران ٹل چکا ہے، فیصلہ ہوچکا ہے کہ ملک میں عام انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اور کسی بھی سیاسی جماعت کو رسیوں میں جکڑ کر انتخابی اکھاڑے میں نہیں پھینکا جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ سیاسی منظرنامہ بہتر کیوں دکھائی دینے لگا ہے اور حالات کیوں بدلے ہیں؟ یہ سوال دراصل ملک کی خارجہ پالیسی اور سرحدوں سے باہر اُن حالات سے جڑا ہوا ہے جن کے براہِ راست اثرات پاکستان پر پڑرہے ہیں۔ جنوری کے آخر اور فروری کے دوسرے ہفتے میں دو اہم عالمی شخصیات اسلام آباد پہنچیں۔ انڈونیشیا کے صدر اور اردن کے شاہ کے ساتھ اسلام آباد میں پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کے علاوہ اس خطے کی صورتِ حال پر تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ انڈونیشیا کے صدر نے تجویز دی کہ پاکستان، افغانستان اور انڈونیشیا کے علماء پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے جو مسلم دنیا اور خاص طور پر پاکستان، افغانستان اور انڈونیشیا کو درپیش مسائل کا حقیقی حل پیش کرے۔ پاکستان نے اس تجویز کی تائید کی، اسی لیے انڈونیشیا کے صدر پاکستان سے وطن واپسی سے پہلے غیر طے شدہ پروگرام کے تحت اسلام آباد سے کابل اور وہاں سے ڈھاکا تشریف لے گئے۔ اُن کے اس دورے کے بعد اب فالو اَپ کیا جارہا ہے۔ اُن کے بعد اردن کے شاہ اسلام آباد پہنچے۔ اردن کے شاہ عبداللہ کا دورۂ پاکستان اگرچہ 11 برس بعد ہوا ہے، مگر اُن کا شاندار استقبال، صدرِ مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقاتوں، اور وفود کی سطح پر مذاکرات کی تفصیل دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات و تعاون میں نئی جہتوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ شاہ عبداللہ اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی بات چیت میں تجارت و سرمایہ کاری کو وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ خطے کی صورتِ حال کے جائزے کے دوران وزیراعظم پاکستان نے فلسطین کاز کی غیرمتزلزل حمایت اور یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کو مسترد کرنے کے پاکستانی مؤقف کا اعادہ کیا۔ شاہ عبداللہ کو کشمیر کی لائن آف کنٹرول کی صورتِ حال، انسدادِ دہشت گردی کی پاکستانی کاوشوں، اور علاقائی امن و استحکام کے لیے اس کی کمٹ منٹ سے آگاہ کیا گیا۔ اسی لیے انہوں نے خود اپنے ذمے کام لیا کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور اس خطے کو کشیدگی سے پاک رکھنے کے لیے ذاتی کوشش کریں گے۔ بلاشبہ پاکستان کو اس خطے میں افغانستان اور بھارت کی جانب سے نہایت سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان کے پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل ایسے تین ملک ہیں جو کسی بھی قیمت پر پاکستان کا استحکام نہیں چاہتے۔ افغانستان کے بارے میں امریکہ اپنے مؤقف اور بیانیہ کے تناظر میں جب پاکستان کو دیکھتا ہے تو اسلام آباد کے لیے اُس کی پالیسی کی تمام جہتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ بھارت اور اسرائیل دونوں اُس کے معاون ملکوں کی حیثیت سے اُس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو بھارت کو صدقِ دل سے اپنی دشمن ریاست تسلیم کرے۔ اردن اور انڈونیشیا کے اعلیٰ ترین وفود کے ساتھ پاکستان کی حالیہ گفتگو میں یہی بات باور کرائی گئی ہے کہ پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کے لیے بھارت اور امریکہ خطرناک چیلنج ہے اب حال ہی میں ٹرمپ کی نئی پالیسی بھی سامنے آگئی ہے، اس سے علاقے کا منظرنامہ بدل سکتا ہے۔ امریکہ جسے اپنا اصل دشمن سمجھتا ہے وہ طالبان ہیں جو افغانستان میں ہی موجود ہیں اور وہیں ان کے خفیہ ٹھکانے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ افغانستان میں امریکی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں یا اس کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی افغانستان کے بارے میں نئی پالیسی سے جنگ میں تیزی آسکتی ہے۔ امریکہ سے مزید فوجی اور طیارے افغانستان بھیجے جا رہے ہیں، اس سے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں، جس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان امریکہ کی لاجسٹک سپورٹ بھی ختم کردے تو امریکہ کو دن میں تارے نظر آجائیں اور جنگ جیتنا ناممکنات میں سے ہوجائے گا۔ دفتر خارجہ کے ماہرین اور اہلِ دانش صورتِ حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حکومتِ پاکستان اس کوشش میں ہے کہ پاکستان امریکہ تعلقات کشیدگی کی انتہا تک نہ جا سکیں۔ یہ ساری صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ملکی سیاست کا ہر کردار یکسوئی کا مظاہرہ کرے۔ اس نئی حکمت عملی نے معاملات میں بہتری کے آثار نمایاں کیے ہیں، تاہم افغانستان میںباغیوںکے حملوں کے حالیہ پے درپے واقعات نے امریکی انتظامیہ کی پریشانی کو مزید بڑھا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ نئی امریکی جنوبی ایشیائی پالیسی پر عمل درآمد روکنے یا تبدیل کرنے کا عندیہ نہیں دیا گیا ہے تاکہ پاک امریکہ بیک ڈور چینل کوششوں کے نتائج بھی دیکھ لیے جائیں۔ امریکن پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی ’اپپیک‘ کا پلیٹ فارم اس مقصد کے لیے آج کل استعمال ہورہا ہے۔ امریکہ میں مقیم نمایاں پاکستانی اس فورم کے ذریعے کام کررہے ہیں۔ امریکہ کو باور کرایا جارہا ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ کے علاقائی منصوبے سی پیک پر سمجھوتا نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس خطے میں امن وسلامتی کی کنجی امریکہ کے ہاتھ میں ہے، وہ پاکستان کا اعتماد حاصل کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
جب بھی پاکستان کے مفاد کی بات کی جائے تو پاکستانی سیاسی قیادت کسی قیمت پر نظرانداز نہیں ہوسکتی۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں مسلم لیگ (ن) اہم ترین فریق ہے جسے نوازشریف سے الگ کرنے کی کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے فیصلوں پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ احتساب عدالت کب اور کیا فیصلہ سناتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نوازشریف اور ان کی صاحب زادی کا سزا سے بچنا مشکل ہے۔ احتساب عدالت کے فیصلے ملک کی انتخابی سیاست پر بھی اثرانداز ہوں گے۔ ایک معلق پارلیمان کی تشکیل کے لیے ملک میں ایسا ماحول ضروری سمجھا جارہا ہے، لیکن سیاست کے بڑے کھلاڑیوں کا خیال ہے کہ عدلیہ کے کسی بھی فیصلے سے کوئی بحران پیدا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، کیونکہ عملاً نون لیگ مزاحمتی پارٹی نہیں، انتخابی عملیت پسند پارٹی ہے۔ سعودی عرب نے مسلم لیگ(ن) کو یہی مشورہ دیا ہے۔ سیاسی مزاج اور ترجیحات جو بھی ہوں، اسے وقت کے ساتھ ساتھ ریلیف بھی مل جائے گا۔ کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لیے امتحان اور بحران دونوں ٹل چکے ہیں۔ یہ کیوں اور کیسے ہوا؟ اس سوال کا جواب صرف ایوانِ صدر سے ہی مل سکتا ہے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادیں
ایف آئی اے نے دبئی جائدادوں پر تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اس بارے میں پہلے بھی فیصلہ ہوا تھا مگر اُس وقت دبئی جائدادوں کی تحقیقات وہاں کے حکام کے دبائو میں آکر رکوا دی گئی تھیں۔ اب ایف آئی اے کو دوبارہ تحقیقات کا حکم ملا ہے۔ یہ تحقیقات ایف آئی اے نے شروع کی ہیں۔ دبئی میں پاکستانیوں کی چار ہزار جائدادوں کی تفصیلات ایف آئی اے کے پاس ہیں۔ جن کی جائدادیں بیرونِ ملک ہیں اُن کو منی ٹریل دینے کے لیے خطوط لکھ دیئے گئے ہیں۔ جن چار ہزار افراد کو منی ٹریل دینے اور پیش ہونے کو کہا گیا ہے اُن کی جائدادیں اور اکائونٹس قانونی ہیں تو ان کو خائف ہونے کی ضرورت نہیں، وہ ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوکر منی ٹریل دے دیں، دوسری صورت میں پی پی سی کی دفعہ 174 کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستانیوں کی جائز اور ناجائز ذرائع سے صرف دبئی ہی میں جائدادیں اور کاروبار نہیں، دیگر ممالک میں بھی ہیں جن کا سپریم کورٹ نے نوٹس بھی لیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) حکومت کے سابق وزیر خزانہ سوئس اکائونٹس میں ناجائز ذرائع سے جمع دو سو ارب ڈالر کی بات کرکے یہ خطیر رقم پاکستان لانے کے دعوے کرتے رہے ہیں، لیکن اب خود اُن کی جان پر بنی ہوئی ہے، انہیں اپنی جائدادوں اور بینک اکائونٹس کا حساب دینا پڑ رہا ہے۔ دو سو ارب ڈالر اسحاق ڈار کا ایشو نہیں تھا، یہ رقم اداروں کو واپس لانا تھی، مگر کسی ادارے کی طرف سے ان دو سو ارب ڈالر کے حوالے سے کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی۔ پاکستان سے ناجائز طریقے سے باہر جانے والی پائی پائی ملک میں واپس لانے کے لیے متعلقہ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کہتے ہیں کہ اشرافیہ نے سفارش اور سیاسی رشوت کے ذریعے کھربوں کے قرضے معاف کرائے ہیں۔ ایسے لوگ بے نقاب ہونے چاہئیں۔ ایسے معاملات خود شہبازشریف سپریم کورٹ لے جائیں۔ مگر بہتر ہے کہ سپریم کورٹ کھربوں روپے کے قرض معاف کرانے پر بھی ازخود نوٹس لے۔