سانس آتا ہے یا آتی ہے؟۔

ہمارے ایک ساتھی نے پوچھ لیا کہ ’سانس‘ مذکر ہے یا مونث۔ اس کا جواب تو یہی ہوسکتا ہے کہ اگر مرد سانس لے تو مذکرراور کوئی خاتون لے تو مونث۔ لیکن ایک تیسری جنس بھی ہوتی ہے۔ اس کے سانس کی آمدورفت کے بارے میں ماہرین بتائیں۔
اس سوال پر مرزا فرحت اللہ بیگ کا ایک دلچسپ مضمون یاد آگیا جس میں انہوں نے 1261ہجری میں دہلی کے ایک مشاعرے کا نقشہ کھینچا ہے۔ ایک مغل زادے رحیم الدین حیا ؔنے شعر پڑھا:

سانس اک پھانس سی کھٹکتی ہے
دم نکلتا نہیں‘ مصیبت ہے

اس پر ان کے والد مرزا کریم الدین رسا نے ٹوک دیا’’میاں حیا! لکھنؤ جاکر اپنی شکل تو بدل آئے تھے اب زبان بھی بدل دی۔ سانس کو مونث باندھ گئے۔‘‘ بیٹے نے جواب دیا’’جی نہیں قبلہ میں نے تو استاد ذوق کی تقلید کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں ’’سینے میں اپنے سانس اڑی دوگھڑی کے بعد۔‘‘ بھلا صاحب عالم (مرزا رساؔ) کب چوکنے والے تھے۔ کہنے لگے ’’بھلا ہمارے مقابلے میں آپ کے استاد کا کلام کہیں سند ہوسکتا ہے‘ جو چاہیں لکھیں‘ یہ بتائو قلعے میں سانس مذکر ہے یا مونث؟‘‘
یعنی سانس کا جھگڑا پرانا ہے اور واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سانس دلّی میں مذکر اور لکھنؤ میں مونث ہے۔
اس حوالے سے مرزا غالب نے مرزا یوسف علی خان عزیز کے تذکیر و تانیث کے متعلق استفسار پر جواب میں لکھا:’’پورب کے ملک میں جہاں تک چلے جائو گے تذکیر و تانیث کا جھگڑا بہت پائو گے‘ سانس میرے نزدیک مذکر ہے لیکن اگر کوئی مونث بولے گا تو میں اس کو منع نہیں کرسکتا‘ خود سانس کو مونث نہ کہوں گا۔‘‘اختلاف اللسان میں درج ہے کہ:
’’لفظ سانس کو پہلے سب شعراء دہلی و لکھنؤ مونث باندھتے تھے۔ مگر اب اہل دہلی مذکر استعمال کرتے ہیں۔ مرزا غالب نے اردوئے معلیٰ میں‘ محمد حسین آزاد نے آب حیات میں‘ فصیح الملک نے گلزار داغ میں اس کو مذکر لکھا ہے‘‘ علمی اردو لغت (وارث سرہندی) نے مذکر‘ مونث دونوں ہی دے کر اختیار دے دیا ہے۔ نور اللغات نے سانس کو مونث لکھ کر اضافہ کیا ہے کہ اہل دہلی مذکر بھی بولتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ کی رائے ہے کہ سانس اسم مونث و مذکر ۔ اگرچہ اکثر شعرائے اردو نے اسے مونث باندھا ہے مگر بول چال میں مذکر ہی سناجاتا ہے۔ لیکن کس کی بول چال؟
اس حوالے سے کچھ اشعار۔ شیخ قلندر بخش جرأت (ان کا تعلق غالباً لکھنو ہی سے تھا) کا شعر ہے:

درد دل سے جو دم لگا رکنے
سانس لینا مجھے مُحال ہوا

داغ دہلوی کا شعر:

دیکھ لینے کو ترے سانس لگا رکھا ہے
ورنہ بیمار غم ہجر میں کیا رکھا ہے

سانس کے مذکر ہونے کی تائید میں اور بھی کئی اشعار ہیں جو ایک صحافی شاعر فیض عالم بابر نے فراہم کیے ہیں۔ اب ایک شعر سانس کے مونث ہونے کا سن لیں:

کہیں لٹ رہا ہے شاید مرا کاروان ہستی
گئی سانس جو نکل کر‘ وہ پلٹ کے پھر نہ آئی

اب قارئین کی مرضی ہے جیسے چاہیں سانس لیں۔ یہ قصہ ختم کرکے ہم بھی چین کا سانس لیں۔
گزشتہ شمارے میں ہم نے فیض کا ایک مشہور مصرع دیا تھا کہ ’’آج بازار میں پابجولاں چلو‘‘ او رلکھا تھا کہ یہ جُولاں (میم پر پیش) ہے جس کا مطلب ہے بیڑیاں۔ اسلام آباد سے محترم شفق ہاشمی نے ٹیلی فون کرکے اس سے اختلاف کیا۔ شفق ہاشمی بڑی علمی شخصیت ہیں۔ عربی‘ فارسی‘ انگریزی پر عبور ہے۔ عربی مدرسے میں پڑھی اور پھر سعودی عرب میں طویل عرصے تک سفارتکار رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جَولاں کا مطلب تیز تیز چلنا اور فیض نے انہی معنوں میں استعمال کیاہے۔ ان کے تمام تر احترام کے باوجود یہاں جَولاں کا مطلب تیز تیز چلنا سمجھ میں نہیں آیا اور بے شک اس میں ہماری سمجھ ہی کا قصور ہوگا۔ ہم نے عرض کیاکہ لغات تو اس سے اتفاق نہیں کرتیں اور ان میں جُولاں کا مطلب بیٹریاں دیا گیا ہے۔ اس پر سوال ہوا کہ آپ کے مطالعے میں کون سی لغات ہیں؟ ہمارے پاس اردو بورڈ کی لغت تو نہیں ہے کہ مہنگی بہت ہے البتہ نور اللغات‘ علمی اردو لغت اور فیروز اللغات سے کام چلالیتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ رکھی تو ہے‘ دیکھی نہیں۔ البتہ مجلس تحقیق و تالیف شعبہ فارسی‘ جی سی یونیورسٹی لاہور کی لغت جامع (فارسی۔ اردو) ہاتھ لگ گئی۔ اس میں جَولان(عربی) کا مطلب دیا ہے گھومنا پھرنا‘ تیزی سے گردش کرنا‘ چکر لگانا‘ جنگ میں گھوڑا دوڑانا‘ حملہ کرنا‘ پیچھے ہٹنا پھر حملہ کرنا‘ تاخ و تاز وغیرہ۔جَولان کردن کا مطلب ہے گرد گھومنا پھرنا‘ گھوڑا دوڑانا اور جولانگہ کا مطلب ہے گھوڑا دوڑانے کی جگہ۔ اب ان میں سے کون سا مطلب ’’آج بازار میں پابہ جولاں چلو‘‘ پر پورا اترتا ہے۔
رشید حسن خان (2006 ۔1925 ء) نے اردو میں تحقیق و تدوین میں بڑا کام کیا ہے۔ وہ درجہ اول کے محقق و مدون تھے۔ وہ اپنی کتاب ’’انشا اور تلفظ‘‘ میں فیض احمد فیض کے مذکورہ مصرعے کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’جولان (میم پر پیش) کے معنی ہیں بیڑی۔ پابہ جُولاں کے معنی ہوئے جس کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی ہوں۔ ایک اور لفظ ہے ’’جَولاں‘‘ (میم کے زبر کے ساتھ) اسی سے جَولانی بنتا ہے۔ جَولاں کے لفظی معنی ہیں گھوڑا دوڑانا وغیرہ۔ مطلب یہ ہوا کہ جُولاں اور جَولاں دو مختلف لفظ ہیں۔ فیض کی نظم میں پا بہ جُولاں (میم کے پیش کے ساتھ) آیا ہے۔ اسے اگر میم کے زبر کے ساتھ پا بہ جَولاں پڑھا جائے تو مطلب بدل جائے گا بلکہ بدل کیا جائے گا‘ بگڑ جائے گا۔ لغات کے مطابق جُولاں کا مطلب بیڑی‘ زنجیر جو مجرم کے پائوں میں ڈالتے ہیں جیسے پا بجولاں۔(نور اللغات۔ اول)۔ جَولاں (بفخ اول‘ عربی) کا ایک مطلب کا وا دینا بھی ہے۔ استاد ذوق کا شعر ہے:

جَولاں سمند ناز کو اے شہسوار دے
تو سرمہ چشم ماہ میں میرا غبار دے
ایک شعر اور برداشت کرلیں:
جَولانیوں پر تھا ایسا تیسا
غارت ہو یہ دل پھنسا تو کیسا

اور ہم دو بڑے علماء اور ماہرین لسانیات میں پھنس گئے ہیں۔