امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ ڈین کوٹس نے پاکستان اور حکومتِ پاکستان پر پھر الزام عائد کیا ہے کہ ’’پاکستان تاحال دہشت گردوں کے خلاف نرمی سے پیش آرہا ہے۔‘‘ امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کو امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ کابریفنگ دیتے ہوئے کہنا یہ تھا کہ ’’پاکستانی فوج اگرچہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے امریکہ سے تعاون کررہی ہے تاہم وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف نرم رویہ اپنائے ہوئے ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے بار بار ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے کے باوجود پاک فوج صرف اور صرف حقانی نیٹ ورک اور طالبان جنگجوئوں کے خلاف سختی سے پیش آرہی ہے۔‘‘ ڈین کوٹس نے پاکستان پر عائد کیا کہ ’’پاکستانی سرزمین پر موجود دہشت گرد محفوظ ٹھکانوں کا فائدہ اٹھا کر مسلسل بھارت اور افغانستان پر حملے کررہے ہیں‘ جس سے امریکی مفادات کو خطرات درپیش ہیں۔ امریکی حکومت اور اس کے فوجی اور غیر فوجی عہدیداران کی جانب سے پاکستان پر اس قسم کے الزامات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی پالیسی کے اعلان کے بعد اس قسم کے بیانات کی نزاکت بڑھ گئی ہے۔ براہ راست ملاقاتوں میں کیا باتیں ہوتی ہیں اور کس قسم کے عملی اقدامات کیے جارہے ہیں اس سے باخبر لوگ ہی واقف ہیں‘ لیکن گزشتہ ایک عشرے میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی عالمی سیاست نے کم از کم تین مسلمان ملکوں کو تباہ کردیا ہے‘ جن میں عراق‘ افغانستان اور لیبیا شامل ہے۔ شام اور یمن کا حال بہت خراب ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ باقی مسلمان ملکوں کی صورتحال بھی اچھی نہیں ہے۔ امریکی حکومت کے حقیقی عزائم اور الزام تراشی کا عکس ہمیں برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس خطاب میں بھی نظر آیا جو انہوں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں چیف آف ڈیفنس کانفرنس سے کیا ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان آئی ایس پی آر کے مطابق برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی الزامات کے جواب میں اپنا موقف دہرایا ہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے ختم کردیے ہیں۔ برّی فوج کے سربراہ نے اپنے خطاب کہا کہ علاقائی امن اور استحکام کا راستہ افغانستان سے ہوکر گزرتا ہے‘ مشترکہ سوچ اور تحمل کے ساتھ تمام خطرات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ خطے اکٹھے ترقی کرتے ہیں انفرادی طور پر نہیں جس کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ کابل میں ہونے والی چیفس آف ڈیفنس کانفرنس میں امریکی کنٹری کمانڈ کے سربراہ ‘افغانستان میں امریکی مشن کے سربراہ کے علاوہ وسط ایشیا کی ریاستوں قازقستان‘کرغیزستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان کے فوجی سربراہوں نے شرکت کی کابل میں ہونے والی عسکری قیادت کی موجودہ کانفرنس اور اس میں برّی فوج کے سربراہ کہ شرکت اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کی علامت ہے۔ اس سلسلے میں برّی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے کچھ دنوں قبل بھی افغانستان کے دارالحکومت کابل کا دورہ کیا تھا اور افغانستان کی قیادت سے بات کی تھی۔ اس سلسلے میں افغانستان کی حکومت اور فوج تو ایک دائرے میں بے اثر ہوچکی ہے۔ امریکہ نے 15 برس سے زائد مدت میں اس بات کی پوری کوشش کی کہ وہ کٹھ پتلی فوج او رپولیس کا کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے‘ لیکن ایسا ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ عراق کی طرح افغانستان میں اپنی آلۂ کار اور کٹھ پتلی حکومت اور فوج قائم نہیں کرسکا ہے‘ جو اپنے ہی شہریوں کو کچلنے کا کام کرسکے۔ اس وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور‘ سب سے بڑی جنگی ٹیکنالوجی‘ جو زمین کے ذرے ذرے کی جاسوسی کرسکتی ہے۔ جو ایک آپریشن روم کے محفوظ ٹھکانے میں بیٹھ کر جس کو چاہے فضائی حملے سے ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کرسکتی ہے۔ وہ افغانستان جیسے پسماندہ ملک میں اپنی فتح کا اعلان نہیں کرسکی ہے۔ اس شکست کے نتیجے میں جوسب سے برا نتیجہ حاصل ہوا ہے وہ مسلم امّت کی تبدیل شدہ ذہنی تشکیل ہے۔ ہم تسلسل سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کی نام نہاد امریکی جنگ‘ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ نہیں بلکہ فروغ دہشت گردی کی جنگ ہے۔ اس سلسلے میں دہشت گردی کے اعداد و شمار دیکھ لیے جائیں‘ جو اس جنگ کے بعد پیش آئے ہیں۔ دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کے نام پر مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرلیے گئے ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ امریکہ کا مقصد ہی نہیں ہے۔ اس جنگ کے سارے فیصلے امریکی فوج اور اس کے خفیہ اداروں میں ہوتے ہیں۔ یہی خفیہ ادارے دہشت گردوں کی اصل پناہ گاہ ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ سابق فوجی آمر نے اس جنگ میں امریکی شراکت دار بننے کا فیصلہ اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ امریکی موقف سے قائل ہوگئے تھے‘ انہیں نائن الیون کے شواہد فراہم کردیے گئے تھے کہ اس کی منصوبہ بندی افغانستان کے پہاڑوں کی گئی تھی۔ اور یہ کہ امریکہ کا حقیقی مقصد دنیاکے امن کی ضمانت دینا اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ کولن پائول نے دھمکی دے کر اس جنگ میں پاکستان کو کرائے کا سپاہی بننے پر مجبور کیا۔ اس جنگ کو پاکستان کے عوام نے اپنی جنگ تسلیم نہیں کیا۔ اس کے لیے خود امریکی اداروں نے رائے عامہ کے جو جائزے لیے ان کی رپورٹ میں ایک بڑی شہادت ہے۔ امریکی جنگ کو اپنی جنگ منوانے کے لیے پاکستان کے پرامن حصوں کو بھی دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ اس حوالے سے ہم نے گزشتہ شمارے میں بھی پاکستان کے لیے امریکی پالیسی کے خطرات کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں امریکی آلۂ کاروں کی سیاسی طاقت بھی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف دور میں تو امریکہ نے حکومت سازی کے عمل میں عریاں مداخلت کی۔ کیا پاکستان کی داخلی سیاست میں یہ مداخلت ختم ہوگئی ہے؟ کوئی بھی باخبر شخص اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ بیک وقت امریکی دھمکی اور تھپکی کا یہی پس منظر ہے۔ اس پس منظر میں قوم کو ہروقت بیدار اور چوکنا رہنا ہوگا۔