مغرب کا مسئلہ ’’مسلمان‘‘؟۔

عمر ابراہیم
تاریخ سازی میں تہذیبوں کا کردار کلیدی ہے۔ تہذیبوں کی تشکیل میں مذاہب کا کردار بنیادی ہے۔ مذاہب کی اصل اسلام سے ہے۔ یوں تاریخ کا سارا سفر دینِ اسلام کے بناؤ اور بگاڑ کا ہے۔ مغرب میں اسلام کا یہ بگاڑ یہودیت اور عیسائیت کی صورت میں سامنے آیا۔ مزید بگاڑ نے اسے جدیدیت تک پہنچایا۔ بگاڑ بڑھتا رہا، مابعد جدیدیت نے تہذیبِ مغرب کی موت کا اعلان کردیا۔ اب اہلِ یورپ تہذیبی بحران سے گزر رہے ہیں، اس صورتِ حال میں وہ مشرقی اسلام کے امکان سے خائف ہیں۔ یہ خوف کئی صورتیں اختیار کرچکا ہے۔ یہ خوف مسلمان خطوں میں دہشت گرد جنگ بن چکا ہے۔ غیرمسلم خطوں میں اس خوف سے جو رویّے سامنے آرہے ہیں، ان میں سے دو نمایاں ہیں۔ ایک رویہ مسلمان مہاجرین یا تارکینِ وطن کی آمد کے سامنے مزاحم ہے۔ دوسرا رویہ مسلمان تارکینِ وطن کی شناخت بدلنا چاہتا ہے۔
یوں مغرب کا مسئلۂ اسلام عملاً ’’مسئلۂ مسلمان‘‘ بن چکا ہے۔ اس ’’مسئلہ مسلمان‘‘ کے دو اسباب نمایاں ہیں۔ پہلا، مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی اور افزائشِ نسل کی انتہائی کم شرح ہے۔ دوسرا سبب مسلمان ملکوں میں دہشت گرد جنگ کی تباہ کاری ہے۔ یورپ میں افزائشِ نسل کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ آئرلینڈ میں (سالانہ پانچ سو جوڑوں کے ہاں سولہ بچے) شرح پیدائش ہے۔ فرانس کی ایک ہزارآبادی میں سالانہ تیرہ انسانوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ سب سے کم شرح پیدائش جرمنی میں ہے، یعنی آٹھ بچے فی ہزار خاندان۔ حال ہی میں عیسائی دنیا کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے یورپ میں افزائشِ نسل کی شرح پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔ European bishops’ conference سے گفتگو میں پوپ فرانسس نے کہا کہ یورپ بنجر پن کے ڈرامائی دور سے گزر رہا ہے، نہ صرف افزائشِ نسل کی شرح افسوس ناک ہے بلکہ تہذیبی ورثے کی نئی نسل تک منتقلی کا معاملہ بھی خراب ہے۔ دوسری جانب ’پیو‘ ریسرچ رپورٹ کے مطابق یورپ میں مسلمان افزائشِ نسل کے اعداد و شمار کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی یورپ کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں ہلچل پیدا کررہی ہے۔ چند دہائیوں میں یہ آبادی دگنی سے زائد ہوسکتی ہے۔ فرانس اور جرمنی میں یورپ کی سب سے بڑی مسلمان آبادیاں ہیں۔ تقریباً ساٹھ لاکھ فرانس اور پچاس لاکھ جرمنی میں بستے ہیں۔ یورپی یونین میں شامل قبرص کے جزیرے پر چھبیس فیصد آبادی ترک مسلمانوں کی ہے، تین لاکھ نفوس پر مشتمل یہ یورپ کی سب سے بڑی مسلمان آبادی ہے۔ 2050ء تک یہ مسلمان آبادی یورپ کا گیارہ بارہ فیصد ہوسکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان آبادی نسبتاً زیادہ جوانوں اور بچوں پرمشتمل ہے۔ جبکہ باقی یورپ بڑھاپے کی دہلیز پر نظرآرہا ہے۔ منافرت انگیز مہمات کے باوجود یورپ کی نصف سے زائد آبادی مسلمانوں کے لیے نرم دوستانہ رویہ رکھتی ہے۔
اس صورتِ حال میں فطری طور پرمسلمان یورپ کی انسانی زندگی اور معاشرت کا اہم حصہ بنتے جارہے ہیں۔ لہٰذا یہ ’’مسئلہ مسلمان‘‘ نہیں بلکہ مقامی افزائشِ نسل کا مسئلہ ہے، جسے نسلی یا قومی خودکشی کہا جاسکتا ہے۔ مجددِ اسلام سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ مکمل صراحت سے بیسویں صدی کے وسط میں پیش بینی کرچکے تھے۔ سید صاحب نے ’اسلام اور ضبطِ ولادت‘ میں یورپی خودکشی کی پیش گوئی کردی تھی۔ مسئلہ مسلمان کا دوسرا سبب دہشت گرد جنگ کی تباہ کاری ہے۔ اس جنگ نے لاکھوں مسلمانوں کو ترکِ وطن پر مجبورکیا۔ یہ مہاجرین اور تارکینِ وطن اس حال میں مغرب منتقل ہورہے ہیں کہ تہذیبی تصادم کا شعور رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے۔ مہاجرین اور تارکین وطن مسلمانوں کی آبادکاری اور معاشرہ بندی اس قدر وسعت اختیار کرچکی ہے کہ اگر مستقبل میں مسلمانوں کی آمد مستقلاً روک دی جائے، تب بھی چند دہائیوں میں موجودہ آبادی یورپ کا اہم حصہ بن جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مقامیوں کا دوسرا رویہ مسلمانوں کی شناخت بدلنا چاہتا ہے، یعنی مغربی اقدار مسلط کرنا چاہتا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانویل میخواں نے ملک میں اسلام کی ازسرنو تنظیم کا پروگرام پیش کیا ہے۔ یہ پروگرام فرانس کے سیکولر تشخص کا تحفظ کرے گا، اور اسلام کے اثر رسوخ کو محدود کرے گا۔ جرمنی پر بھی اسلام کے خلاف اقدامات کے لیے خاصا دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں انجیلا مرکل کی حکومت کو خاصی لعن طعن کا سامنا رہا ہے۔
اس صورتِ حال سے واضح ہوتا ہے کہ مغرب کا ’’مسئلۂ مسلمان‘‘ درحقیقت مغربی تہذیب کا اپنا بحران ہے۔ اگر دہشت گرد جنگ نہ ہوتی، اگر الجزائر فرانس کی مظلوم کالونی نہ بنایا جاتا، اگرعراق و شام پر جارحیت نہ ہوتی، اگر وادیٔ کشمیر مقبوضہ کشمیر نہ بنتی، اگر مسلمان ملکوں کا اقتصادی استحصال نہ ہوتا، اگر یورپ کا خاندانی نظام مستحکم ہوتا تو یقینا مغرب کو’’مسئلۂ مسلمان‘‘ درپیش نہ ہوتا۔ مگرایسا ہوا، اور یہ ہونا ہی تھا۔ سادہ سی وجہ ہے، مغرب کا تہذیبی بحران جسے وہ ’’مسئلۂ مسلمان‘‘ بنارہا ہے، درحقیقت وہ مغرب کا ’’مسئلۂ اسلام‘‘ ہے۔ تہذیبِ مغرب تاریخ کی تخریب کا ارتکاب کررہی ہے۔ یعنی انسانی تہذیب کا امکان مٹانا چاہتی ہے، لہٰذا اسلام سے دشمنی کررہی ہے، اس لیے انسانی تاریخ کی تعمیر میں حائل ہورہی ہے۔ یہ غیر فطری، غیر انسانی اور غیر تہذیبی رویہ ہے۔ یہ رویہ نتیجہ ہے مغرب کے ’’مسئلۂ اسلام‘‘ کا۔ اس مسئلے کے صرف دو ہی حل ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مغربی تہذیب انسانی تہذیب کے معیارات اور تقاضے نبھائے، جس کا امکان ممکن نظر نہیں آرہا۔ دوسرا حل تہذیب کی اصل پر مراجعت ہے۔ مغرب اسلام قبول کرلے۔ اس طرح انسانی تہذیب کا بحران ختم ہوجائے گا۔