ہفتہ 20 جنوری کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ یہ بلاول بھٹو کا بلوچستان میں پہلا جلسہ تھا۔ گزشتہ برس وہ 20جون کو کو ئٹہ میں پارٹی پروگرام میں شریک ہوئے تھے۔ سول ہسپتال سانحہ کے بعد بھی آئے تھے اور محض ذرائع ابلاغ سے بات چیت کی تھی۔ ان کا یہ جلسہ ایسے وقتوں میں منعقد ہوا جب بلوچستان میں نواب ثناء اللہ زہری، پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی اقتدار سے بے دخل کردی گئی ہیں۔ اس بے دخلی میں آصف علی زرداری کا ہاتھ بھی بتایا جارہا ہے۔ دراصل آصف علی زرداری کی نگاہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات پر ہے۔ مارچ 2015ء کے سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی آزاد امیدوار یوسف بادینی کو کامیاب کرانے میں کامیاب ہوئی تھی جو بعد میں پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوگئے۔ بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا ایک بھی رکن نہیں ہے، اس کے باوجود آصف علی زرداری ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ قیوم سومرو مارچ 2015ء کے الیکشن میں کوئٹہ آئے تھے اور حالیہ عدم اعتماد کی تحریک یعنی نواب زہری کی حکومت کے خاتمے کے وقت بھی قیوم سومرو کوئٹہ میں ہی تھے، بلکہ وہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے شانہ بشانہ دکھائی دئیے۔ انہوں نے اپنی شناخت پوشیدہ نہیں رکھی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے کسی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا، پارٹی آزاد امیدواروں کے لیے کام کرے گی۔ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)کا ووٹ بینک تتربتر ہوگیا ہے، لہٰذا قوی امکان ہے کہ آنے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی بلوچستان سے سینیٹ کی مزید نشستیں حاصل کرلے گی۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ ارکانِ اسمبلی کی خرید و فروخت کا بازار بھی خوب گرم ہوگا۔ باغی لیگی ارکان کے سروں پرآصف علی زرداری کا دستِ شفقت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 25 جنوری کو عبدالقدوس بزنجو کی معیت میں صوبے کی پوری کابینہ نے وزیراعلیٰ ہائوس کراچی میں آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ آصف علی زرداری ہاتھ کے بڑے کھلے ہیں، وہ بلوچستان کے اراکینِ اسمبلی پر اپنی خاص عنایتیں ضرور کریں گے۔ بلوچستان حکومت کے دھڑن تختے کی وجوہات میں ایک وجہ سینیٹ انتخابات کے نتیجے پر اثرانداز ہونا بھی تھا، تاکہ مسلم لیگ (ن) کو ملنے والی متوقع نشستیں ہتھیا لی جائیں۔ ملک کے عوام ایک انہونی تو دیکھ چکے ہیں، چنانچہ 3مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے دوسری انہونی بھی ضرور دیکھنے کو ملے گی۔
بلوچستان حکومت کی تبدیلی کی خاطر جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دوسرے اراکین نے اپنی شرائط کی بنیاد پر باغیوں کا ساتھ دیا۔ حیرت ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اب تک حزبِ اختلاف کی نشستوں پر بیٹھی ہے اور اُس نے فریب کا لبادہ اُوڑھ رکھا ہے۔
حقیقت میں ترقیات و منصوبہ بندی کا محکمہ جے یو آئی کے تصرف میں دے دیا گیا ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی منظوری اس محکمے سے ہوتی ہے جس کو چلانے کا حزب اختلاف کے قائد مولانا عبدالواسع کو طویل تجربہ ہے۔ مولانا کو اس محکمے کی اہمیت کا اندازہ ہے، اور اس کی لذتوں سے بھی آشنا ہیں۔ 2002ء سے 2008ء کی اسمبلیوں تک یہ وزارت مولانا عبدالواسع کے پاس رہی ہے۔ نواب زہری کی حکومت میں یہ محکمہ پشتون خوا میپ کے ڈاکٹر حامد اچکزئی کے پاس تھا۔ جونہی نئی حکومت بنی، مولانا عبدالواسع نے من پسند افسر کو تعینات کروا دیا۔ اپنے ایک سابق معاون (پرسنل سیکرٹری) انعام اللہ کاکڑ کو جو کہ پی اینڈ ڈی ہی کے ملازم ہیں، چیف آف پروگرامنگ کی اہم پوسٹ دی گئی۔ اس شخص کو پشتون خوا میپ نے اپنی حکومت میں عتاب کا نشانہ بنایا تھا۔ اس محکمے میں مولانا نے مزید بھی تبادلے اور تعیناتیاں کروائی ہیں۔ اسی کے ساتھ جے یو آئی نے اپنی جماعت کے ایک وکیل رئوف عطا ایڈووکیٹ کو ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان مقرر کرادیا ہے۔ جے یو آئی بالواسطہ بلوچستان حکومت کا حصہ ہے۔ حزبِ اختلاف کی نشستوں پر اس کا براجمان رہنا محض ایک سیاسی شوشا ہے۔ جے یو آئی نے بیک وقت حزبِ اختلاف و حزبِ اقتدار میں رہنے کی ملک کی سیاسی تاریخ میں نئی مثال قائم کردی ہے۔
نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی خالد لانگو نے اپنی ہی حکومت کے مخالفین کی قطار میں شامل ہونے اور اس عمل کے لیے اپنی جماعت اور نواب زہری سے گلوں، شکووں کی لمبی فہرست پیش کردی تھی۔ سو دیگر درپردہ تعاون سمیت اپنی چھوٹے بھائی ضیاء لانگو کو مشیر برائے خوراک بنوایا۔ نون لیگ کے سردار صالح بھوتانی نے اپنے بیٹے شہزاد صالح بھوتانی کو محکمہ سماجی بہبود و ترقی اور خواتین کا معاون تعینات کروایا۔ حکومت کے سابق ترجمان انوار الحق کاکڑ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیے گئے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے کہدہ بابر گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مشیر بنائے گئے۔ پشتون خوا میپ کے منحرف رکن منظور احمد کاکڑ کو بھی محکمہ ریونیو کا قلمدان دے کرکابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ منظور کاکڑ نے 2013ء کے انتخابات سے قبل پشتون خوا میپ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ پارٹی ٹکٹ پر حلقہ پی بی 6 سے وہ کامیاب ہوگئے تھے۔ پشتون خوا میپ نے مارچ 2015ء کے سینیٹ انتخابات میں ان پر ووٹ فروخت کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ بقول منظور کاکڑ کے، پارٹی رہنماء بشمول محمود خان اچکزئی مسلسل ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچاتے رہے، مشکلات پیدا کی جاتیں، یہاں تک کہ اُنہیں اپنے فنڈز کو استعمال کرنے کا اختیار تک حاصل نہیں تھا۔ یقینی طور پر منظور کاکڑ کے لیے پشتون خوا میپ کے فیصلوں اور نظم و ضبط کے پابندی مشکل عمل تھا، البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پشتون خوا میپ سخت گیر اور بے لچک افراد کے ہاتھ میں ہے، جن کی اپنی خامیوں پر نگاہ ہی نہیں۔ انتقامی مزاج بھی ان پر غالب ہے۔ یہی منتقم مزاجی جے یو آئی بلوچستان میں بھی موجود ہے۔ گویا پشتون خوا میپ نرگسیت کا شکار جماعت ہے۔ نئی کابینہ نے اپنے 24 جنوری کے اجلاس میں تحصیل لہڑی کو پھر سے ضلع سبی میں شامل کرانے کا فیصلہ کیا۔ یعنی ضلع سبی کی 21 مئی 2013ء سے قبل کی حیثیت بحال کرنے کی منظوری دی۔ 2013ء میں جب حکومت بنی تھی تو لہڑی کو سبی سے جدا کرکے الگ ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ پشتون خوا میپ کی خواہش اور سبی کے عوام کے مطالبے پر کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے الٹنے کے بعد ایک بار پھر سبی میں سیاسی، سماجی و قبائلی سطح پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کابینہ کا یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف بھی گردانا جاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی صدارت میں 22 دسمبر 2017ء کو اجلاس ہوا تھا جس میں انتخابی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں پر نظرثانی کے حوالے سے فیصلے کیے گئے تھے۔ ان میں یہ فیصلہ بھی شامل تھا کہ تمام اضلاع کی ریونیو حدود 22 دسمبر 2017ء سے منجمد کردی گئی ہیں اور اس تاریخ کے بعد ان یونٹس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی تاکہ حلقہ بندی کا عمل احسن طریقے سے مکمل کیا جا سکے۔ اس اجلاس میں چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، سیکرٹری شماریات، صوبائی الیکشن کمشنر اور دوسرے حکام شریک تھے۔ چنانچہ تحصیل لہڑی کا دوبارہ ضلع سبی میں شامل کیا جانا الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے۔
پشتون خوا میپ تاحال حکومت کے خاتمے کے صدمے سے باہر نہیں نکلی ہے۔ وہ سازشوں کے الزامات عائد کرتی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں جاری آل پختون جرگہ یعنی دھرنے سے 6 فروری 2018ء کو خطاب کیا، جس میں انہوں نے بلوچستان میں حکومت کے خاتمے کا ذکر بھی کیا اور انتہائی بڑا الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت ختم کرنے میں حساس ادارہ ملوث ہے۔ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایک منتخب حکومت گرا دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ محترم چیف جسٹس صاحب نے بار بار یہ بیان دیا ہے کہ ہم آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہو، ہم چاہتے ہیں پارلیمان پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ ہو، یہ بات محترم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو بار کہی ہے کہ ہم جمہوریت اور آئین کے طرف دار ہیں، ہم یہاں سیاست میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ محمود خان اچکزئی نے وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آئی ایس آئی کے ایک بریگیڈئیر خالد نے یہ سارا ڈراما رچایا ہے، اور میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی طرف سے کہ آئی ایس آئی وزیراعظم کے ماتحت ہے، چیف آف آرمی اسٹاف کی کمانڈ میں ہے، چیف جسٹس آف پاکستان سن رہے ہیں، میں مطالبہ کرتا ہوں کہ سول انٹیلی جنس اور ایم آئی کی مشترکہ کمیٹی بنائی جائے اور جس آدمی نے یہ بدنامی بلوچستان میں اور سارے پاکستان میں پھیلائی اور ایک ایسے آدمی کے پیچھے چالیس لوگ لگا دئیے جس نے صرف انتالیس ووٹ لیے ہیں، اس خالد کو فوری طور پرنوکری اور بلوچستان سے نکال دیا جائے۔ محمود خان اچکزئی نے انگریزی میں کہا کہ “Khalid must be sacked and get out from Balochistan” اگر یہ الزام اور بہتان ہے تو پھر محمود خان سے مجاز ادارے کے ذریعے وضاحت طلب کی جانی چاہیے۔