عاصمہ جہانگیر

پاکستان میں انسانی حقوق کی توانا آواز اور ریاست کے مقتدر اور طاقتور ستونوں کو بے خوفی سے چیلنج کرنے والی عاصمہ جہانگیر بھی اتوار11 فروری کو اُس انجانی دنیا میں چلی گئیں جہاں سے کبھی کوئی لوٹ کر نہیں آیا۔ وہ بغاوت، جرأت اور بے خوف جدوجہد کا استعارہ تھیں۔ یہ تینوں صفات انہیں تیسری نسل میں منتقل ہوئی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے پرکھوں کی ان صفات کی بے جگری کے ساتھ حفاظت کی، بلکہ کسی حد تک یہ ’’جراثیم‘‘ نئی نسل میں منتقل کرنے میں بھی کامیاب رہیں۔ پاکستان میں اشتراکی انقلاب کی عوامی سطح پر عدم پذیرائی اور خصوصاً روس کی شکست و ریخت کے بعد وہ لبرل اور ترقی پسند طبقات کے لیے ایک آسرا اور سہارا بن گئی تھیں۔ جبکہ مذہبی حلقوں کے لیے اُن کا وجود ایک چیلنج سے کم نہ تھا۔ 1970ء کی دہائی میں عاصمہ جیلانی کیس کی وجہ سے ملک کے سیاسی، صحافتی اور عدالتی حلقوں میں پہلی بار اُن کا تعارف ہوا۔ یہ کیس اب سیاسی اور عدالتی دنیا کا ایک مستند حوالہ بن چکا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپنے والد ملک غلام جیلانی کی گرفتاری اور نظر بندی کے خلاف عاصمہ جہانگیر (تب عاصمہ جیلانی) نے دائر کیا تھا، اور سپریم کورٹ سے یہ کیس جیتنے کی وجہ سے جہاں اُن کے والد کو قید سے رہائی ملی اور شہری آزادیوں کے علَم برداروں کو ایک حوصلہ ملا، وہیں یہ کیس عاصمہ جہانگیر کی سیاسی شناخت کا سبب بھی بن گیا۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اُس وقت عاصمہ لاہور کے ایک تعلیمی ادارے کی طالبہ تھیں۔ چونکہ یہ کیس براہِ راست اُس وقت کے صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے غیر قانونی اور جابرانہ اقدام کے خلاف تھا اور یہ ذوالفقار علی بھٹو کی انتہائی مقبولیت کا دور تھا، اس لیے کوئی بڑا وکیل یہ کیس لڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ جو وکلا کیس لڑنے پر آمادہ ہوئے اُن کی اہلیت اور صلاحیت ایسی نہ تھی کہ کیس میں کامیابی کی توقع کی جاسکتی۔ چنانچہ عاصمہ خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئیں اور عدالت سے یہ کیس خود لڑنے کی استدعا کی۔ کہا جاتا ہے کہ عدالت کی اجازت پر یہ کیس انہوں نے خود لڑا اور جیتا، جس سے اُن کے اعتماد اور قانونی و آئینی معاملات پر اس کم عمری میں بھی گہری نظر ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر کی پرورش ایک کھلے لبرل ماحول اور جرأت و حوصلے کے ساتھ ڈٹے رہنے والے افراد کے درمیان ہوئی۔ اردو ادب کے مایہ ناز ادیب، لاہور شہر کی ادبی شخصیت اور ’’ادبی دنیا‘‘ نامی مجلے کے مدیر مولانا صلاح الدین احمد، عاصمہ جہانگیر کے نانا تھے، جو ادب میں اعلیٰ حیثیت رکھنے کے علاوہ اپنی صاف گوئی اور جرأتِ رندانہ کے لیے مشہور تھے۔ انہوں نے ایوبی آمریت کے دور میں ایک سرکاری تقریب میں جس کی صدارت خود فیلڈ مارشل ایوب خان کررہے تھے، پوری جرأت اور ہمت کے ساتھ اُن پر اتنی بھرپور تنقید کی کہ لوگ آج بھی اس کی مثال دیتے ہیں۔ عاصمہ کی والدہ نے اُس وقت مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی جب مسلمان گھرانے اپنی بچیوں کو لڑکیوں کے لیے مخصوص اسکولوں اور کالجوں میں بھی بھیجنے سے گریز کرتے تھے۔ ان کے والد ملک غلام جیلانی پیشے کے اعتبار سے بیوروکریٹ تھے جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد عملی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا۔ وہ تمام زندگی شخصی اور فوجی آمریتوں کے خلاف ڈٹے رہے۔ اُن کا گھر اُن کی زندگی میں اپوزیشن بلکہ باغی سیاسی رہنمائوں کا مسکن رہا۔ اس سلسلے کو عاصمہ نے اُن کی موت کے بعد جاری رکھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر جب بلوچستان کے باغی رہنما عبدالباقی بلوچ ملک غلام جیلانی کے گھر ٹھیرے ہوئے تھے اور اے پی پی کے صحافی ضمیر قریشی اُن سے ملنے آئے تھے، ایوب حکومت کے شہہ دماغوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اُن کے گھر پر فائرنگ کرادی۔ مقصد عبدالباقی بلوچ کی باغی آواز کو ختم کرنا تھا۔ خوش قسمتی سے عبدالباقی بلوچ بچ گئے لیکن ضمیر قریشی اس فائرنگ میں جاں بحق ہوگئے۔ ملک غلام جیلانی ذہنی طور پر صدر ایوب خان، اُن کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بلکہ اس پورے ٹولے کے خلاف تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو پہلے صدر اور پھر وزیراعظم بنے تو ملک غلام جیلانی اُن کی مخالفت میں سرگرم رہے اور بعض صعوبتیں بھی برداشت کیں، لیکن جب فوج نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو ملک غلام جیلانی اپنے دیرینہ سیاسی حریف کی حمایت میں نکل آئے اور خاصی تکالیف برداشت کیں۔ یہی معاملہ عاصمہ جہانگیر کا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر کے ساتھ اُن کی بچپن کی دوستی تھی۔ 1983ء کی ایم آر ڈی تحریک میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور گرفتار بھی ہوئیں۔ یہ تحریک عملاً بے نظیر بھٹو کے لیے سیاسی فضا بنانے کا ذریعہ بنی۔ وہ نظریاتی اور سیاسی طور پر بھی بے نظیر کے قریب تھیں۔ اُن کے پہلے دورِ حکومت میں وہ اُن کی حمایتی رہیں، لیکن پھر انہوں نے بے نظیر کی بھرپور مخالفت کی۔ اُن کی بے نظیر کے ساتھ مثالی دوستی اور مثالی مخالفت سیاسی حلقوں میں ہمیشہ موضوعِ گفتگو رہی۔ بے نظیر کے پہلے دور کے بعد وہ نوازشریف کے قریب آگئیں، حالانکہ دونوں کے نظریات اور سوچ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ ان دونوں کو قریب لانے کا کام پرویز رشید نے کیا۔ اس کام میں انہیں اپنے ماضی کے بائیں بازو کے سیاسی، صحافتی ساتھیوں اور دانشوروں کی معاونت حاصل تھی۔ اسی قربت کے باعث نوازشریف کے کئی مقدمات میں وہ بطور وکیل پیش ہوئیں۔ موت سے صرف دو دن قبل آئین کی دفعہ 62 ون ایف کی تشریح کے سلسلے میں دائر مقدمے میں انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنے دلائل دیے۔ عدالت میں یہ اُن کے آخری دلائل تھے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران ایک ستم رسیدہ خاتون عدالت میں آئی اور جج صاحبان سے استدعا کی کہ مہنگا وکیل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی اس لیے شاید مجھے انصاف نہ مل سکے۔ جج صاحبان نے عدالت میں موجود وکلا اور لوگوں کی جانب دیکھا تو عاصمہ کھڑی ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ وہ یہ مقدمہ بلا معاوضہ لڑیںگی۔ اطلاعات کے مطابق موت سے صرف ایک دن پہلے وہ اپنے گھر میں تھیں کہ نوازشریف کا فون آگیا۔ نوازشریف نے انہیں طلال چودھری کا کیس لڑنے کے لیے کہا تو انہوں نے کچھ تکرار کے بعد آمادگی ظاہر کردی، جس پر نوازشریف نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے وکیل غالباً اعظم تارڑ کو فون دے دیا۔ وہ انہیں اس کیس کی تفصیلات سے آگاہ کررہے تھے کہ اچانک ان کی طبعیت بگڑ گئی اور فون ان کے ہاتھ سے گرگیا۔ بیماری کا یہی حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔ انہیں اہلِ خانہ نے فوری طور پر حمید لطیف ہسپتال پہنچایا، جہاں چند گھنٹے گزرنے کے بعد اتوار کی صبح پونے دس بجے وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔
عاصمہ کی ساری زندگی جدوجہد، محنت اور مخالفتوں میں ڈٹے رہنے میں گزرگئی۔ خوشحال اور پُرآسائش زندگی انہیں ورثے میں ملی تھی لیکن مشکل راہوں کا انتخاب انہوں نے خود کیا تھا۔ اِن راہوں پر مسلسل ڈٹے رہنے کے باعث وہ متنازع ہونے کے باوجود کامیاب رہیں۔ 1980ء میں ایک عام وکیل کے طور پر انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران وہ چند خواتین کو لے کر نکلتیں، مگر تسلسل کے ساتھ کام کرتی رہیں۔ اس دوران انہوں نے ویمن ایکشن فورم، اور پھر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان تشکیل دیا، اور ان دو تنظیموں کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر زبردست شہرت پائی۔
1980ء کی دہائی میں وہ صائمہ وحید نامی ایک خاتون کا کیس لے کر ہائی کورٹ پہنچیں جو اپنے قادیانی ٹیوٹر سے پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی۔ اُس کے والدین کا مؤقف تھا کہ لڑکی کی شادی کے لیے ’ولی‘ کی اجازت ضروری ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران پہلی بار وہ روایت پڑی جو اب تک جاری ہے۔ عدالت میں دلائل دینے کے بعد عاصمہ نہ صرف باہر آکر انتہائی تندو تیز میڈیا ٹاک کرتیں، بلکہ کئی مواقع پر مظاہرے بھی کرواتیں۔ مقدمے کی سماعت کے دوران صائمہ وحید دارالامان میں رہی اور پھر اپنے ٹیوٹر کے ساتھ سویڈن چلی گئی۔
1980ء کی ہی دہائی میں عاصمہ نے پاک بھارت دوستی کی مہم چلائی۔ وہ ہر برس14باور 15اگست کی درمیانی رات لاہور کے واہگہ بارڈر پر موم بتیاں جلاتیں اور دوسری طرف سے آنے والے اپنے ہم خیال اور دوستی کے دعویداروں کو مٹھائیاں کھلاتیں۔ انہوں نے اس عرصے میں بھارت کے کئی دورے کیے جہاں ان کی سرگرمیاں اور تقاریر ہمیشہ تنقید کی زد میں بھی آتی رہیں۔
1980ء ہی کی دہائی میں اُن پر توہینِ رسالت کا الزام لگا اور اُس وقت کی قومی اسمبلی میں اسمبلی کی رکن آپا نثار فاطمہ نے اُن کے خلاف قرارداد بھی جمع کرائی۔ اس عرصے میں مذہبی حوالے سے اُن پر، اُن کے خاندان اور خاص طور پر اُن کے سسرال پر بعض سنگین الزامات بھی لگے، لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
عدلیہ بحالی تحریک میں وہ خاصی سرگرم رہیں اور کچھ عرصہ نظربند بھی رہیں۔ رہائی کے بعد نہ صرف وہ خود سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوگئیں بلکہ وکلا کے اندر اُن کا ایک مضبوط سیاسی دھڑا بھی بن گیا جو بعد کے کئی انتخابات میں ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنوں اور وکلا کے دوسرے اداروں میں کامیاب ہوتا رہا۔
عاصمہ جہانگیر امتناعِ قادیانیت آرڈیننس، قانونِ توہینِ رسالت اور حدود آرڈیننس کی تنسیخ کے لیے اس قدر متحرک ہوئیں کہ انہیں عام مسلمانوں کے جذبات کا کوئی خیال نہیں رہا۔ اُن کے یہ اقدامات ہمشہ متنازع رہیں گے۔
البتہ بچوں سے جبری مشقت کے خلاف، اور خواتین کے حقوق کے لیے اُن کی جدوجہد کے دوست، دشمن سب قائل ہیں۔ اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے لیے بھی اُن کی جدوجہد سب کے سامنے ہے ۔ نوازشریف کے دوسرے دور میں روزنامہ جنگ کو دبانے کے لیے اُس وقت کے نیب کے سربراہ سیف الرحمن کے اقدامات کے خلاف جنگ گروپ نے سپریم کورٹ میں جو اپیل دائر کی تھی، عاصمہ نے دوسرے وکلا کے ساتھ اس کی پیروی کی، اور بعد میں طاقتور اخباری مالکان کے خلاف عامل صحافیوں کو ویج بورڈ ایوارڈ دینے کا کیس انہوں نے بلا معاوضہ لڑا ۔ اُن کی اس خدمت کے عوض انہیں لاہور پریس کلب کی اعزازی رکنیت بھی دی گئی۔ عاصمہ جہانگیر کو ملکی اور عالمی سطح پر ان کی خدمات کے عوض متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں ہلالِ امتیاز اور ستارہ امتیاز کے علاوہ رائٹ لیولی ہڈایوارڈ، فریڈم ایوارڈ، ملینیم پیس پرائز، رومن لیگسے ایوارڈ، مارٹن ایلنز ایوارڈ اور یونیسکو کا بل باڈ پرائز شامل ہیں۔ 2005ء میں انہیں ویمن فار پیس پراجیکٹ کی 1000خواتین کے ساتھ نوبل پیس پرائز کے لیے نامزد کیاگیا۔ تاہم اُن کا سب سے متنازع ایوارڈ 2013ء کا ہے، جب انہوں نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے فرینڈز آف لبریشن وار آنرایوارڈ وصول کیا۔ یہ ایوارڈ بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کی حمایت کرنے پر اُن کے والد ملک غلام جیلانی کو دیا گیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر کی جرأت کو داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے جب ضرورت محسوس کی عدلیہ اور فوج پر بھی تنقید میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ وہ سیاسی نظام میں فوج اور عدلیہ کی مداخلت کی مخالف تھیں۔چنانچہ انہوں نے بے دھڑک ہوکر ججوں پر تنقید کی اور فوج پر بھی سوالات اٹھائے ۔ انہوں نے کسی خوف کے بغیر اسلام آباد کے حالیہ دھرنے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا کہ یہ پتا چلایا جائے کہ اس دھرنے کے پیچھے کون تھا؟
حقیقت یہ ہے کہ اُن کی جرأت اور بے خوفی نے دوست دشمن سب کے دلوں میں جگہ بنائی، لیکن نازک مذہبی معاملات میں ان کی یہی جرأت کبھی پسند نہیں کی گئی اور ان کے دوستوں نے بھی اسے جرأت کے بجائے ایمان کے تقاضوں کے خلاف تعبیر کیا، جس نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبا بھی مجروح کیے‘ لیکن مجبور اور مظلوم طبقات کے لیے ان کی جدوجہد اور ملک کے مقتدر اور طاقتور ستونوں کے خلاف اُن کی آواز کو کم سے کم الفاظ میں بھی ایک بے خوف جرأت ہی کا نام دیا جائے گا۔ پوری زندگی تنازعات میں آگے بڑھنے والی اور بسااوقات تنازعات پیدا کرکے اس فضا میں کھڑی رہنے والی عاصمہ کے سفر آخرت کے معاملات بھی ایک عرصہ زیربحث رہیں گے۔ پاکستان اور شاید دنیا بھر کی مسلم تاریخ میں پہلا موقع تھا جب کسی خاتون کی میت محرم اور نامحرم کا لحاظ کیے بغیر نماز جنازہ کے بعد عام دیدار کرایا گیا۔ ان کی نماز جنازہ میں بیسیوںخواتین میں شامل تھیں اور انہوں نے نماز بھی ادا کی۔ نماز جنازہ میں خواتین کی شرکت مسلم معاشروں میں اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی۔ جنازہ کے موقع پر درجنوں سکھ اور دوسرے غیرمسلم موجود تھے۔ اور کسی جنازے میں یہ منظر بھی پہلی بار دیکھنے میں آیاجب جنازے کے بیشتر شرکاء پھول اور گلدستے لے کر آئے تھے۔
بہرحال دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی غلطیوں سے درگزر فرمائے اور مجبور طبقات کے لیے ان کی جدوجہد کو ان کی مغفرت کا ذریعہ بنادے۔ آمین