۔1986ءمیں مجھے مرکز جماعت اسلامی پاکستان میں بطور نائب قیم ذمہ داریوں کے دوران ملک بھر میں تنظیمی، دعوتی اور تربیتی پروگراموں کے لیے مسلسل دورے کرنا پڑتے تھے۔ ڈیرہ غازی خان میں اس سلسلے کا پہلا دورہ تھا کہ ایک نوجوان وکیل صاحب سے تعارف ہوا۔ ان کا نام رشید احمد خان ہے۔ دورِ طالب علمی میں جمعیت سے متعارف ہوئے اور کالج کے زمانے میں جمعیت کے رفیق رہے۔ بی اے کے بعد کراچی میں ایس ایم لا کالج میں تعلیم کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور بطور رکن و ناظم ایس ایم لا کالج، 1974ء تا 1976ء پوری تن دہی سے دعوت و تنظیم کا کام کرتے رہے۔ وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آبائی علاقے فاضل پور، ضلع ڈیرہ غازی خان (حال ضلع راجن پور) آئے۔ 1978ء میں ان کی شادی ڈیرہ غازی خان شہر میں مقیم ایک معزز خاندان میں ہوئی۔ ان کے سسر محمد رمضان خان لاہور میں گونگے، بہرے بچوں کے اسکول میں پرنسپل رہے تھے۔ رشید خان صاحب نے ڈیرہ غازی خان ہی میں بطور وکیل پریکٹس شروع کی اور جلد ہی خیابانِ سرور شہر ڈیرہ غازی خان میں اپنا مکان بنا لیا۔
پہلی بار ان کے گھر چائے پینے کا اتفاق ہوا تو ان کے آنگن میں ایک خوب صورت کلی اور ایک دل ربا پھول دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ رشید خان صاحب کے دو بچے تھے، ایک بیٹا ہارون، جس کی عمر اُس وقت چھے سات سال تھی، اور ایک بیٹی جویریہ، جو اپنے بھائی سے دوسال چھوٹی تھی۔ دونوں بہن بھائی اسکول جاتے تھے۔ ان کے والد جناب رشید احمد خان وکیل تھے اور والدہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر تھیں۔ گھر کا ماحول بہت صاف ستھرا تھا۔ بعد میں تو خان صاحب کے گھر کئی مرتبہ قیام رہا اور دونوں میاں بیوی نے اس قدر آرام فراہم کیا جس سے کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ سفر میں ہوں۔ بالکل اپنے گھر والا ماحول اور گرمی یا سردی ہر موسم کے مطابق آرام و راحت کا اہتمام۔ جویریہ بیٹی سے بچپن کے بعد کبھی ملاقات نہ ہوسکی۔ اس کے بھائی کی وفات پر عزیزہ جویریہ بے ساختہ یاد آئی۔ دل میں سوچا کہ اس کی والدہ پہلے ہی وفات پا چکی ہے۔ اب اکلوتا بھائی بھی داغِ مفارقت دے گیا ہے۔ بہنوں کے لیے ان کے ویر کس قدر محبوب ہوتے ہیں، یہ ہر بہن جانتی ہے اور ہر بھائی اس کو محسوس کرتا ہے۔ اللہ جویریہ بیٹی کو صبر عطا فرمائے۔ بی اے تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد جویریہ کی شادی جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما جناب مولانا محمد افضل بدر صاحب (سابق امیر ضلع مظفرگڑھ، سابق نائب امیر صوبہ پنجاب و رکن مرکزی وصوبائی مجلس شوریٰ) کے بیٹے سے ہوئی۔ جویریہ کی بھی دو بیٹیاں، مریم عمر 12سال، عائشہ عمر8سال اور ایک بیٹا یوسف عمر ایک سال ہے۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔
خان صاحب کا پورا گھرانہ تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہے۔ ماشاء اللہ ان کے پانچوں بھائی جماعت میں شامل تھے۔ خان صاحب نے ڈیرہ غازی خان میں ہی جماعت کی رکنیت اختیار کی اور مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ ان کے ہاں جب قیام ہوتا تھا، اُس زمانے میں وہ مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن اور امیر ضلع تھے۔ یہ ضلع دو حصوں میں بٹ گیا تھا، راجن پور جو پہلے تحصیل تھی اب وہ ضلع بن گیا۔ خان صاحب کے بڑے بھائی عبدالمجید خان صاحب راجن پور میں قیم ضلع تھے۔ بعد میں امیر ضلع بھی بنے۔ آج کل عبدالمجید خان صاحب ضلع کی سیاسی کمیٹی کے صدر ہیں۔ خان صاحب کی اہلیہ مرحومہ انتہائی سلیقہ شعار اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ گھر میں خود کھانا تیار کرتیں جو بہت مزیدار ہوا کرتا تھا۔ خان صاحب کے ہاں اکثر دوست احباب آتے رہتے تھے۔ دونوں میاں بیوی اور ان کے دونوں بچے مہمانوں کی آمد پر بہت خوش ہوتے تھے۔
جس زمانے میں خان صاحب جماعت کے ضلعی ذمہ دار تھے، ان کے ساتھ ضلع ڈیرہ اور دیگر متعلقہ اضلاع کے مختلف مقامات پر جانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ کئی مقامات پر تقریر کے جرم میں مقدمات بھی درج ہوتے رہے۔ ایسے ہر موقع پر ڈاکٹر نذیراحمد شہید کی معطر یادیں بھی تازہ ہوجاتی تھیں۔ خان صاحب سے ہر دورے کے دوران ملاقات ہوتی تو دل چسپ تبادلۂ خیالات جاری رہتا۔ اس عرصے میں نہیں معلوم کہ کتنی مرتبہ اس گھر میں آنا جانا ہوا، مگر وہ حسین یادیں اب بھی دل میں موجزن ہیں۔ ہارون رشید کی بچپن کی تصویر ذہن میں آتی ہے تو ایک عجیب سماں بندھ جاتا ہے۔ وہ بچپن ہی سے نہایت مؤدب، سنجیدہ اور خوش گفتار تھا۔ پھر جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا اور تعلیمی مدارج کامیابی سے طے کرتا گیا تو ہر ملاقات میں اس کا وہ بچپن کا دور آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا۔
خان صاحب اپنے بیٹے ہارون کو پیار سے ’نونوں‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ہم بھی جب اسے اس نام سے بلاتے تو جواب میں بڑے سلیقے سے جی جناب کہہ کر حاضر ہوجاتا۔ اس کی پیدائش فروری 1979ء میں ہوئی۔ اسے اسکول بھیجا گیا تو اس نے بڑے شوق سے اپنا تعلیمی سفر شروع کیا۔ بہت ذہین بچہ تھا، اسکول سے کالج اور پھر یونی ورسٹی پہنچا اور ہر امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کرتا رہا۔ 16سال کی عمر میں ایف ایس سی کے امتحان میں بہت اچھے نمبر حاصل کیے۔ راولپنڈی کے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ والدین کا خیال تھا کہ ان کا بیٹا میڈیکل ڈاکٹر بن کر کالج سے نکلے گا، مگر اللہ کو جو منظور ہو وہی ہوتا ہے۔ اکلوتا بیٹا اور سارے خاندان میں ہر چچا، پھوپھی، خالہ اور ماموں کا چہیتا ہونے کی وجہ سے اسے گھر کے ماحول میں جو پیار ملتا تھا، گھر سے اتنے دور فاصلے پر اس کی کمی اسے شدت سے محسوس ہوئی۔ چنانچہ دوماہ کالج میں پڑھنے کے بعد مصمّم ارادہ کرلیا کہ والدین سے اتنا دور نہیں رہے گا۔
جب اپنے والدین کو اس ارادے سے مطلع کیا تو رشیدخان صاحب کے بقول انھوں نے پیار سے سمجھایا: ’’بیٹا! اگر آپ ڈاکٹر نہیں بنو گے تو ملک وقوم کی خدمت کیسے کرسکو گے؟‘‘ جواب میں بڑے اعتماد کے ساتھ کہنے لگا:’’ابو! ان شاء اللہ میں ڈاکٹر بھی بنوں گا اور ملک وقوم کی خدمت کا حق بھی ادا کروں گا۔‘‘ میں نے کہا: اب کیا ارادہ ہے؟ تو جواب میں کہا کہ اب میں لاہور جاکر کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کروں گا۔ میں نے کہا: لاہور میں گھر سے دوری کی اداسی محسوس نہیں کرو گے؟ تو جواب میں کہا کہ ’’لاہور راولپنڈی کی نسبت قریب ہے، نیز لاہور میں منصورہ بھی ہے، جو ہمارا روحانی گھر ہے۔ اس کے علاوہ لاہور میں میرا جگری یار شفیع میرے ساتھ ہوگا۔‘‘
خان صاحب نے بتایاکہ شفیع الرحمن ہارون کا بچپن سے گہرا دوست تھا۔ نرسری سے لے کر ایف ایس سی تک ہر مرحلے پر دونوں ایک دوسرے کے ہم جماعت رہے۔ دونوں کی دوستی سگے بھائیوں سے بھی گہری تھی۔ اسی وجہ سے ہارون نے میڈیکل کی تعلیم چھوڑ کر اپنے لیے نیا میدانِ عمل چُنا، اور اللہ کا شکر ہے کہ اس میں اسے شاندار کامیابیاں ملتی چلی گئیں۔ جب کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی کرلیا تو ڈیرہ غازی خان میں ایک نیم سرکاری کالج میں لیکچرر کی اسامی پر تقرر کے لیے درخواست دی۔ انٹرویو ہوا تو تمام امیدواروں میں اس کی پہلی پوزیشن تھی، مگر تقرر اس کے بجائے ایک اور امیدوار کا ہوگیا۔ یہ تقرر نہ ہونا بھی اللہ کی خاص مصلحت تھی۔ ہارون کو اس پوسٹ پر متعین نہ کرنے کی وجہ خالصتاً سیاسی تھی، کیونکہ وہ جماعت اسلامی کے ایک ضلعی ذمہ دار کا بیٹا تھا۔ رشید احمد خان صاحب کئی سال جماعت اسلامی ضلع ڈیرہ غازی خان کے امیر اور مرکزی و صوبائی مجالسِ شوریٰ کے رکن رہے ہیں۔
خان صاحب معروف وکیل اور جماعت اسلامی کے رہنما ہونے کے علاوہ خاصے وسیع تعارف کے ساتھ بہت فعال سوشل ورکر بھی ہیں۔ رانا صاحب سے اُس وقت کے کمشنر رانا مقبول نے اُن کے بیٹے کا تقرر نہ ہونے پر بہت معذرت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہارون سے زیادہ کسی کا استحقاق نہیں تھا، مگر ایسی مجبوریاں حائل ہوگئی تھیں جن کا علاج ہمارے پاس نہیں تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس ملک میں یہ وتیرہ اس قدر عام ہے کہ جوہرِ قابل کا قتل روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ بہرحال قصہ کوتاہ یہ کہ ہارون نے حوصلہ نہیں ہارا، نہ ہی کسی جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ اس نے ڈیرہ غازی خان میں ہی گورنمنٹ گرلز کالج میں ملازمت حاصل کرلی۔ یہاں آئی ٹی سینٹر میں بطور انچارج اس کا تقرر ہوا۔ دو سال تک گرلز کالج کی بچیوں کو کمپیوٹر سائنس میں بہترین تعلیم سے آراستہ کردیا۔ ہارون اپنے شعبے میں بے پناہ مہارت رکھتا تھا، مگر سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ ایسا صالح نوجوان تھا کہ طالبات کے درمیان رہتے ہوئے کبھی آنکھ اٹھا کر کسی طالبہ کی طرف نہ دیکھا۔ ایسے نوجوان اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں، جن کی جوانی بے داغ اور جن کا کردار قابلِ رشک ہوتا ہے۔
رشید احمدخان صاحب کا بیان ہے: ’’اس کالج میں میرے ایک بہت قریبی دوست کی اہلیہ پروفیسر تھیں۔ موصوفہ کی میری اہلیہ کے ساتھ بھی اچھی دوستی تھی۔ ایک دن وہ میری اہلیہ سے کہنے لگیں: ’’تم میاں بیوی نے ہارون کو اسی عمر میں بوڑھا بنادیا ہے۔ وہ سراپا جماعت اسلامی بن کر اپنے فرائض ادا کررہا ہے۔ جس وقت بھی اسے دیکھو، نگاہیں نیچی کرکے گردن جھکائے اپنے کام میں مصروف رہتا ہے۔ بات بھی کرو تو سوال جواب میں پوری تشفی کراتا ہے، مگر نظریں زمین پر گاڑے رکھتا ہے۔ میں تو اس کی خالہ ہوں، اللہ کا بندہ مجھ سے بھی مکمل پردہ کرتا ہے۔‘‘ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے خان صاحب کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آگئے۔ انھوں نے سید مودودیؒ کی فکر اور نظامِ تربیت پر مرشد کو ڈھیروں دعائیں دیں، ساتھ ہی اسلامی جمعیت طلبہ اور اس کے ذمہ داران کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے دعائیں دیں کہ وہ بے شمار نوجوانوں کو ایک بہترین تربیت سے گزار کر پاکیزہ زندگی کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔
ہارون کی شادی 2003ء میں ڈاکٹر وردہ گل سے ہوئی جو پبلک ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ ڈیرہ غازی خان کے تاجر جنابِ محمد نواز خاں میرانی کی صاحبزادی ہیں۔ ہارون UMT میں پروفیسر تھا اور اس کی اہلیہ کینرڈ کالج لاہور میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کررہی ہیں۔ اللہ نے میاں بیوی کو تین بچے عطا فرمائے جو بالکل پھولوں جیسے ہیں۔ ان معصوم بچوں کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا کہ پاپا یوں اچانک ان کو داغِ مفارقت دے جائیں گے۔ بڑی بیٹی فاطمہ (عمر13سال)، اس کے بعد بیٹا حسین (عمر12سال) اور پھر چھوٹی بیٹی ہدیٰ (عمر6سال)۔ رشید خان صاحب نے ہارون کی وفات کے بعد بتایا کہ ہم سب انتہائی غم زدہ تھے جبکہ ننھا حسین کمالِ عزم وحوصلے کے ساتھ سب کو تسلی دے کر صبر کی تلقین کررہا تھا۔ اللہ تعالیٰ حسین کو اپنے باپ کی طرح عظیم انسان بنائے۔ اس عمر میں اُس کی صلاحیتیں قابلِ رشک اور پورے خاندان کے لیے باعثِ مسرت ہیں۔
رشید خان صاحب اپنے دوستوں سے ہارون کی ہر کام میں تیز رفتاری پر فکرمندی کا اظہار کرتے تو ہر دوست انھیں تسلی دیتا کہ نوجوان ہارون کو اللہ نے صلاحیتیں دی ہیں اور وہ ان کو ٹھیک اور تعمیری انداز میں استعمال کررہا ہے۔ اپنے دوست اور نائب امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب جناب شیخ عثمان فاروق صاحب سے بھی انھی خدشات کا اظہار کیا تو جواب میں انھوں نے فرمایا: ’’ہارون چین میں پاکستان کا حقیقی معنوں میں سفیر و ترجمان ہوگا۔‘‘ واقعی جو تھوڑی سی مہلت اسے ملی اس میں مرحوم نے پاکستان کا سچا سفیر ہونے کا حق ادا کیا۔ چین کے بہت سے اہم لوگ بھی اس کی وفات پر سوگوار ہوگئے۔ اس کا حلقۂ احباب پاکستان ہی نہیں، چین میں بھی خاصا وسیع تھا۔ کئی چینی شخصیات نے تعزیت کے پیغامات میں مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اپنے غم واندوہ کا اظہار بھی۔
چینی احباب میں سے پاکستان میں متعین نائب سفیر لیجیان یاؤ (Lijian Zhao) نے اپنے تعزیتی پیغام میں جن جذبات کا اظہار کیا وہ گویا تمام چینی دوستوں کا ترجمان ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’منتظم اعلیٰ UMT! بعد آداب عرض ہے کہ ڈاکٹر ہارون رشید کی وفات سے بے انتہا دلی صدمہ ہوا۔ اس خبر نے ہلا کر رکھ دیا۔ UMT ایک قابل پروفیسر سے محروم ہوگئی، سی پیک ایک عظیم مددگار کھو بیٹھی، چینی سفارت خانہ ایک عظیم دوست سے محروم ہوگیا۔ ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرا چھوٹا بھائی داغِ مفارقت دے گیا ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ اگلی منزلوں میں دائمی امن اور خوش حالی کا مستحق ٹھیرے۔ لیجیان یاؤ (Lijian Zhao)‘‘
ہارون جس مجلس میں بھی جاتا، جاننے والوں کے علاوہ اجنبی لوگوں کے لیے بھی مرکزِ توجہ بن جاتا۔ اس کا اندازِ گفتگو بہت پیارا اور اس کی شکل وصورت بہت جاذبِ نظر تھی۔ دھیمے انداز میں گفتگو کرتا، مگر کوئی بات ثقاہت سے گری ہوئی نہ ہوتی۔ ہر بات استدلال سے کرتا۔ تعزیتی خط موصول ہونے پر مرحوم کے والد جناب رشید احمد خان ایڈووکیٹ راقم کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں: ’’میں ایک بار ایک فنکشن میں گیا جہاں ڈاکٹر رحیل صدیقی جو کہ اُس وقت ڈیرہ غازی خان میں ایڈیشنل کمشنر تھے، سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو مبارک ہو آپ کا بیٹا ہارون ذہین اور ہونہار نوجوان ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ اسے مزید تعلیم کے لیے ملک سے باہر بھیج دیں۔ جس پر میں نے جواب دیا کہ ہارون ہمارا اکلوتا بیٹا ہے اور ہمارے پاس باہر بھیجنے کے لیے وسائل بھی نہیں ہیں۔ اس پر انھوں نے کہا کہ وسائل اور فاصلے کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ ایک دفعہ فیصلہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ خود انتظام کردے گا۔ میں نے صدیقی صاحب سے پوچھا کہ آپ ہارون کو کیسے جانتے ہیں؟ تو انھوں نے بتلایا کہ پچھلے ماہ کمشنرآفس میں اُس کے ساتھ میری ملاقات ہوئی اور تقریباً آدھا گھنٹہ ہم آپس میں گفتگو کرتے رہے۔ میں نے اُس سے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا: ڈیرہ غازی خان کا۔ مجھے اعتبار نہ آیا۔ جب میں واپس اپنے دفتر میں آیا تو وہاں ارشد علی خان کاکڑ ملنے کے لیے آئے۔ میں نے ہارون کے بارے میں اُن سے ذکر کیا کہ آج ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی ہے۔ وہ بڑا ذہین اور ہونہار نوجوان ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں ڈیرہ غازی خان کا رہنے والا ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ وہ لاہور یا اسلام آباد سے آیا ہے۔ ڈومیسائل بنوانے کے لیے اپنے آپ کو ڈیرہ غازی خان کا رہائشی ظاہر کرتا ہے۔ ارشد علی خان نے پوچھا کہ اُس کا نام کیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہارون رشید۔ تو انھوں نے کہا کہ آپ کمال کرتے ہیں، وہ رشید احمد خان ایڈووکیٹ کا بیٹا ہے۔ جس پر میں بہت خوش ہوا اور آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ خان صاحب کے بقول: ’’اسی دوران ہارون نے وکالت کا امتحان پاس کرلیا، لیکن میری خواہش کا احترام کرتے ہوئے وکالت نہ کی اور گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔‘‘
ہارون ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سنجیدہ اور محنتی نوجوان تھا۔ اس نے بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی ملتان کی ایوننگ کلاس میں ایم بی اے کے مضمون میں داخلہ لے کر ماسٹر کی ڈگری اپنے کیمپس میں اوّل پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔ اس کے اعلیٰ نمبروں کی وجہ سے اسی یونی ورسٹی میں اسے بطور لیکچرر ملازمت مل گئی۔ اس دوران وہ کوشش کرتا رہا کہ اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے اسکالرشپ مل جائے تو وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِِ ملک چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش پوری کردی اور وہ HEC کا اسکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسے ڈاکٹریٹ کے لیے چین میں داخلہ مل گیا۔ وہاں دو ڈھائی سال گزارے، چینی زبان بھی سیکھی اور اللہ کے فضل سے پی ایچ ڈی بھی کرلی۔ اس عرصے میں ہارون کی والدہ شدید بیمار ہوگئیں۔ اپنی تعلیم کے دوران ہارون کو والدہ کی صحت کی بڑی فکر رہتی تھی۔ رابطہ کرکے مسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ حال احوال معلوم کرتا رہتا تھا۔
ہارون 3 دسمبر 2012ء کو اپنی تعلیم کی تکمیل کرکے واپس پاکستان آیا اور اسی تاریخ کو ڈیرہ غازی خان پہنچا۔ اس کی والدہ کی صحت اُس وقت تک انتہائی خراب ہوچکی تھی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ قدرت ماں بیٹے کی آخری ملاقات کرانا چاہتی تھی، بیٹا ماں کی خدمت میں حاضر ہوا اور قدم بوسی کی سعادت حاصل کی۔ صرف دو دن گزرے کہ اس کی والدہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ پورے خاندان کے لیے اور بالخصوص ہارون کے لیے یہ صدمہ جانکاہ تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو صبر کی نعمت سے نوازا ہے۔ اللہ کی رضا پر سب بڑے چھوٹے راضی تھے۔ ہفتہ بھر ہارون اپنے والد صاحب کے ساتھ تعزیت کے لیے آنے والوں کا استقبال کرتا رہا۔ پھر والد صاحب سے اجازت لے کر لاہور چلا آیا اور یو ایم ٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اس کا تقرر ہوگیا۔ وہ اس ذمہ داری پر آخری دم تک پوری محنت و دیانت سے کام کرتا رہا۔ وہ یونی ورسٹی میں اساتذہ اور انتظامیہ کے علاوہ طلبہ وطالبات کے درمیان بھی نہایت ہر دل عزیز شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ ہارون نے تدریس کے ساتھ اپنا تعلیمی سفر بھی جاری رکھا اور چین ہی کی ووہان یونی ورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی۔ زندگی کا عرصہ مختصر تھا، اس میں یہ ہونہار نوجوان بہت تھوڑے وقت میں بہت سی کامیابیوں کی منازل طے کرتا چلا جارہا تھا۔
جب پاکستان اور چین نے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا تو چینی زبان پر عبور اور چین کے حالات سے پوری طرح باخبر ہونے کی وجہ سے ہارون کو ایک نیا کام سونپ دیا گیا۔ سی پیک کی تکمیل اور کامیابی کے لیے اس نے دن رات ایک کردیا۔ کراچی اور اسلام آباد کے دورے ہر آئے دن درپیش رہتے۔ اس کے علاوہ چین، برطانیہ اور دیگر بیرونی ممالک کے دوروں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ ہارون کی وفات کے بعد جناب رشیداحمد خان صاحب نے راقم کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کی اس تیز رفتاری سے قدرے دل برداشتہ تھے۔ اپنے اکلوتے بیٹے سے کئی بار کہا: ’’اب مزید لمبے سفر نہ کرو، تمھاری رفتار بہت تیز ہے اور مجھے تیز رفتاری سے ڈر لگتا ہے۔ لاہور میں رہ کر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ مرکوز رکھو‘‘۔ لیکن میری ساری تدبیریں اللہ کی تقدیر کے سامنے بے بس ثابت ہوئیں اور وہ 20 دسمبر 2017ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے کر اللہ کے دربار میں حاضر ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس کے شاگردوں، دوستوں اور دیگر متعلمین کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ ایک عظیم انسان تھا۔ ملک وقوم کے مفاد کی خاطر دن رات محنت کی اور اسی انتھک محنت ومشقت کی وجہ سے اپنی صحت کو پس پشت ڈال دیا۔ بالآخر اپنی جان مالکِ کائنات کے سپرد کردی۔ یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ ارْجِعِیْٓ إِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ۔ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ (الفجر89:27-30 ) اس طرح اس ربّ رحمان کا فرمان بالکل صحیح و درست ہے کہ کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۔ وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ۔ (الرحمن55:26-27) سوائے صبر کے کوئی اور راستہ نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا‘‘
واقعی یہ درخشندہ ستارہ ڈوبنے پر ایک ویرانی کا احساس ہونے لگا۔ جماعت اسلامی پاکستان نے ماہِ نومبر و دسمبر 2017ء میں اسلام آباد اور کراچی میں پی ایچ ڈی حضرات کی دوکانفرنسیں منعقد کیں۔ ان کانفرنسوں کے انتظام کے سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ ہارون رشید بھی اس کمیٹی کے رکن تھے۔ منصورہ اور اسلام آباد میں عزیز گرامی قدر سے ملاقاتیں رہیں۔ میرا بیٹا ڈاکٹر ہارون ادریس بھی اس کمیٹی کا رکن تھا اور ان دونوں میں آپس میں بہت قریبی دوستی تھی، وقتاً فوقتاً ایک دوسرے سے رابطہ کرتے رہتے تھے۔ ہارون ادریس بھی بیرونِ ملک (جرمنی) پی ایچ ڈی کے لیے جانے سے قبل UMT میں خدمات سرانجام دیتا رہا تھا۔ ہارون رشید خاں جب بھی ملتا، ہارون ادریس کے بارے میں ضرور پوچھتا۔ میں اس سے کہتا کہ ڈاکٹر، ڈاکٹروں کا حال ہی پوچھتے ہیں۔ تو جواب میں بڑے مؤدب انداز میں کہتا: نہیں جناب یہ ڈاکٹری کا تعلق نہیں بلکہ تحریکی تعلق ہے، جس کی مٹھاس ہم سب محسوس کرتے ہیں۔ واقعی تحریکی تعلق کی شیرینی کا اپنا ہی لطف ہے۔
جناب رشید احمد خان صاحب اور ان کے خاندان کے دیگر ارکانِ جماعت سے میرا کم وبیش 32 سال کا تعلق ہے اور یہ نہایت حسین یادوں پر مشتمل ہے۔ اللہ اس خاندان کو تحریک کے لیے اسی طرح اپنی خدمات پیش کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہارون کی وفات پر جماعت کے تمام قائدین نے خان صاحب کو درد بھرے تعزیتی خطوط بھیجے اور فون پر بھی تعزیت کی۔ محترم امیر جماعت سراج الحق صاحب دیگر جماعتی قائدین کے ساتھ ڈیرہ غازی خان میں مرحوم کی یاد میں منعقدہ اجتماعی دعا کے پروگرام میں شریک ہوئے اور ہارون کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہارون کے وفات پا جانے سے محض ان کے اہل وعیال اور خاندان کے لوگ ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ پوری اسلامی تحریک صدمے سے دوچار ہے۔ ایسے نایاب لوگ قوموں کے لیے انمول اثاثہ ہوتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، رشید احمد خان صاحب کی اہلیہ ام ہارون 5 دسمبر 2012ء کو فوت ہوئیں۔ ان کی وفات کے بعد خان صاحب نے دوسری شادی کی۔ ان کی دوسری بیوی بھی تحریکی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ شاہ جمال میں ڈاکٹر مہر محمد علی صاحب اور ان کا پورا خاندان تحریک کا سرمایہ ہیں۔ خان صاحب کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر محمد علی صاحب کی صاحبزادی اور جماعت اسلامی کی رکن ہیں۔ اللہ تعالیٰ میاں بیوی کی برکات مرحوم ہارون رشید کے بچوں پر قائم رکھے۔ ہارون کی جدائی کے بعد جب بھی خان صاحب سے ٹیلی فون پر بات ہوئی انھیں غم زدہ پایا۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبر کی دولت سے مالامال کردے، بلاشبہ بڑھاپے میں نوجوان بیٹے اور وہ بھی ہارون رشید جیسے نایاب ہیرے کی جدائی بہت بڑے صدمے کا باعث ہوتی ہے۔ بہرحال اللہ کا بندہ اللہ کے فیصلوں پر سرِتسلیم خم کرتا ہے اور اللہ ہی اس کے لیے آسانیاں بھی پیدا فرماتا ہے۔ ہارون وفات سے چند دن قبل منصورہ میں ملا تو حسبِ معمول بہت خوش وخرم تھا۔ مجھے اس کی کامیابیوں پر بڑی مسرت ہوئی اور میں نے اس کو دعائیں دیں۔ کیا معلوم تھا کہ عزیز گرامی الوداعی ملاقات کررہا تھا۔
۔20 دسمبر2017ء کو ریکٹر UMT برادرم حسن صہیب مراد نے راقم کو فون پر اطلاع دی کہ ڈاکٹر ہارون رشید خان فوت ہوگئے ہیں۔ مجھے اس خبر نے ہلا کر رکھ دیا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ بتانے لگے کہ دل کا دورہ پڑا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ساتھ ہی صہیب بھائی نے یہ بھی بتایا کہ غسل اور تکفین کے بعد ہم ان کے جسدِ خاکی کو منصورہ لے آئیں گے اور وہاں نمازِ جنازہ ادا کرکے انھیں ان کے آبائی علاقے راجن پور روانہ کردیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے یہاں کے سب احباب بھی جنازے میں شریک ہوجائیں گے اور پھر دوسرا جنازہ راجن پور میں ہوجائے گا، جس میں مرحوم کے والد اور دیگر عزیز و اقارب کے علاوہ علاقے کے بہت سے لوگ بھی شرکت کی سعادت حاصل کرلیں گے۔ ہم انتظار ہی میں تھے کہ دوسرا فون آیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ بُعدِ مکانی کی وجہ اور مرحوم کی اہلیہ کی فرمائش پر منصورہ آنے کے بجائے براہِ راست ایمبولینس ڈیرہ غازی خان روانہ ہوجائے گی۔ یوں ہم جنازے سے محروم رہ گئے، مگر مرحوم عزیز کے لیے منصورہ میں کئی مرتبہ دعائے مغفرت کی گئی۔ اللہ اس کے درجات بلند فرمائے، وہ درّنایاب تھا۔ اپنے پیچھے جوان بیوہ اور تین معصوم بچے چھوڑ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور برادرم رشید احمد خان صاحب کا سایہ ان کے سروں پر قائم رکھے۔