عدم اطمینان، بے چینی و بے قراری کے اس دور میں فشارالدم ایک تکلیف دہ اور خوفناک مرض کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ ایک عام انسان خواہ مرد ہو یا عورت، اسے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اس کا بلڈ پریشر بڑھ نہ جائے۔ کسی آدمی کو فالج ہوتا ہے تو تشخیص یہ ہوتی ہے کہ مریض کا بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ برین ہیمرج (شریان کے پھٹنے سے ناک کے ذریعے اتنا خون آنا کہ موت واقع ہوجائے) کے حملے سے جو لوگ موت سے بچ جاتے ہیں اُن کے مرض کا سبب بھی بلڈ پریشر بتایا جاتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اچھا بھلا صحت مند انسان جوں ہی کھانا کھاتا ہے، فوراً ہی دوا بھی استعمال کرتا ہے۔ پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ بلڈپریشر کی دوا صبح و شام استعمال کی جارہی ہے۔
اسباب: اس مرض کے لیے یہ تعین کرنا کہ اس کی وجہ فلاں خوراک یا فلاں سبب ہے ممکن نہیں۔ مختلف مریضوں میں مختلف حالات میں اس مرض کا سبب مختلف ہوتا ہے، تاہم یہ بات طے شدہ ہے کہ انسان کی خوراک، اس کے معاشی و سماجی حالات، گھریلو زندگی کے معاملات اس مرض میں معاون ہوتے ہیں۔ غصہ، جس پر قابو پانے کے لیے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ پہلوان وہ نہیں جو دشمن کو پچھاڑ دے، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے عالم میں خود کو قابو میں رکھے! کاظمین الغیظ کا درس قرآن پاک میں دیا گیا۔
ماحول اور حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوں… انسان صبر، تحمل، بردباری کی صفات کو اپنائے تو اس مرض کے حملے سے بچ جاتا ہے۔ دوسروں کو معاف کردینا اور خود کو دوسروں سے ادنیٰ تصور کرنا ہمارے مزاج کو نارمل رکھنے میں مددگار ہے۔
ایسے افراد جو اپنے کھانے پینے، سونے جاگنے اور عبادت کے اوقات میں توازن پیدا کرلیتے ہیں وہ اس مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔ موجودہ دور میں جس کو خوش خوراکی کا دور سمجھا جاتا ہے، مرغن، چٹ پٹی اور مسالہ دار غذائوں کا رواج عام ہے۔ موجودہ دور کا انسان مصروف ہے۔ گھر کا سادہ کھانا میسر نہیں۔ ہوٹلوں کے کھانے، جنک فوڈ وغیرہ جو حفظانِ صحت کے اصولوں کے بغیر تیار کیے جاتے ہیں، اس مرض کو بڑھانے میں بنیادی سبب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اعتدال سے خوراک کا استعمال انسان کے لیے مفید ہے، لیکن کسی بھی غذا کا بے جا استعمال اور سیر نہ کرنا، خصوصاً پیدل نہ چلنا، بھنے ہوئے مرغ، روسٹ، بازاری کباب، تلی ہوئی مچھلی، تیز مرچ، شادی بیاہ کے کھانوں میں غذا کو لطف اندوز بنانے کے لیے جاوتری، لونگ اور گرم مسالہ کا استعمال، کھانے کے ساتھ سلاد یا دہی کے استعمال سے اجتناب بھی اس مرض کو پیدا کرتا ہے۔
قبض کو اُم الامراض کہا جاتا ہے۔ میدے کے نان، ڈبل روٹی، باقر خوانی اور ایسی ہی دوسروں غذائوں کا استعمال اس کا سبب ہے۔ اگر صحت مند انسان کو اجابت یا فراغت ہو تو ایک حد تک ایسے امراض سے محفوظ رہتا ہے۔
کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، یا کسی لیبارٹری سے کیمیاوی طور پر اس مرض کا سبب نہ بھی گردانا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی میں معاشی تنگ دستی، گھریلو ناچاقی، بے روزگاری، بچوں کی تعلیم کے کمر توڑ اخراجات، مہنگائی اور ناخالص غذائیں بھی اس مرض کو جنم دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ’’اشرافیہ‘‘ یا اَپر سوسائٹی (Upper Society) میں مے نوشی رواج پارہی ہے، عملاً شراب کے رسیا لوگ بھی اس خطرناک مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں شریانوں میں شحمیات (FATS) کولیسٹرول کے بڑھنے سے خون کی گردش میں رکاوٹ بھی اس کا باعث ہے۔
علامات: اکثر اوقات مریض کھانے کے بعد سر میں بوجھ، آنکھوں سے حرارت کا نکلنا، کندھوں پر بوجھ، بعض اوقات ہاتھ پائوں اور چہرے پر جلن محسوس کرتا ہے۔ عام طور پر لوگ اسے ’’گرمی‘‘ سمجھ کر نظرانداز کردیتے ہیں۔ ابتدا میں اگر توجہ دی جائے تو مرض جلد ختم ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں صحت کے بارے میں غفلت او ر لاپروائی عام وتیرہ ہے۔ یہ بھی المیہ ہے کہ متمدن اور فلاحی ریاستوں میں تیس سال کے بعد ہر شہری کا مکمل میڈیکل چیک اَپ مقررہ مدت کے بعد ہوتا ہے۔ بلڈ پریشر، شوگر، کولیسٹرول بڑھنے اور دیگر امراض کا شائبہ ہوتے ہی مریض کو احتیاط، اور اگر ضروری ہو تو دوا سے صحت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ’’مفت علاج‘‘ کے بلند بانگ دعووں کے برعکس سینکڑوں ہیلتھ سینٹر ہونے کے باوجود ایسی کوئی سہولت میسر نہیں اور عام آدمی بھی ایسی کسی ضرورت کو محسوس نہیں کرتا۔
بلڈ پریشر یا فشارالدم کی اقسام: عام حالات میں ہم بلڈ پریشر کی دو ہی اقسام کو آسانی سے بیان کرسکتے ہیں۔
(1) بلڈ پریشر کی زیادتی (High Blood Pressure)
(2) بلڈپریشر کی کمی(Low Blood Pressure)
بلڈ پریشر کا بڑھنا خطرناک ہے اور فوری توجہ چاہتا ہے، جبکہ بلڈ پریشر کا کم رہنا خطرناک تو نہیں البتہ تکلیف دہ ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کی علامات کا ذکر ہوچکاہے۔ لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressure) میں مریض صبح اٹھنے کو بوجھ محسوس کرتا ہے، جسم میں شدید تھکاوٹ، نقاہت، کندھوں میں درد، پنڈلیوں میں درد، بغیر کوئی مشقت کا کام کیے آرام و سکون کی تلاش، سردیوں میں شدید سردی محسوس کرنا، گرمی میں ہاتھ پائوں کا ٹھنڈا ہونا، سردرد دونوں حالتوں میں ممکن ہے۔ جب بلڈ پریشر بڑھتا ہے تو سردرد میں سر پھٹتا محسوس ہوتا ہے۔ اگر کم پریشر ہو تو سر میں ٹھنڈک اور بوجھ اور نیند کا غلبہ ہوگا۔
علاج: عارضی طور پر کسی ہیجان، غصہ، نفرت یا غذا کے غلط استعمال کی وجہ سے مرض کی کیفیت ہو، اور مریض کو قے آجائے تو وقتی طور پر یہ مرض ختم ہوجاتا ہے۔ مریض کو جب عارضی طور پر مرض کی کیفیت ہو تو وقتی دوا کا سہارا لینا جرم نہیں، لیکن جب کوئی معالج دوا تجویز کرتا ہے تو یہ دوا اتنی دیر کھانی چاہیے جب تک کہ معالج کہے! لیکن عوام میں یہ رویہ پایا جاتا ہے کہ ایک مریض کو دوا سے فائدہ ہوتا ہے تو دوسرا آدمی مشورے کے بغیر وہ دوا میڈیکل اسٹور سے خریدتا ہے اور مسلسل بغیر ضرورت استعمال کرتا ہے جو خطرناک رجحان ہے۔ بلڈپریشر کے لیے عام مستعمل ادویہ پیشاب آور ہیں جن کا تسلسل سے استعمال گردوں کو متاثر کرتا ہے۔
اگر مریض کو عارضی مرض ہو اور موسم گرما میں تربوز میسر آئے تو تربوز یا اس کے پانی کا استعمال کرنے سے فوری افاقہ ہوتا ہے۔ چاٹی کی لسی یا کچی لسی کا استعمال بھی تیز بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے۔ تازہ پانی میں لیموں کا رس نچوڑ کر استعمال کرنا بھی مفید ہے۔
مستقل مرض کی صورت میں اصولی علاج کے بغیر مرض سے نجات ممکن نہیں۔ مریض کو اگر قبض ہے تو اس کو دور کرنا ضروری ہے ۔ مریض کو مستقل طور پر ایسی غذائوں سے بچنا ضروری ہے جن سے خون میں حدت بڑھتی ہے مثلاً انڈہ، گوشت، مچھلی، پائے، پراٹھہ، شادی کے پُرتکلف کھانے۔ سادہ غذا کدو، ٹنڈے، شلجم، گاجر یا سادہ شوربہ جس میں نمک نہ ہو، استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
لو بلڈ پریشر: جن مریضوں کا بلڈپریشر کم رہتا ہے، وہ نمک والی چائے، نمک ملا کر لیموں کا پانی، انڈہ، مچھلی، ایسے کھانے جن میں بادام، پستہ، کاجو شامل ہوں، استعمال کریں۔
دنیا کی آبادی کا 12 سے 20 فیصد طبقہ اس مرض میں مبتلا ہے۔ سیر کو معمول بناکر اور سادہ غذا کے استعمال سے ہم اس مرض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اللہ کا ذکر پریشانیوں کو کم کرتا ہے۔