نقوش عظمت رفتہ

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب

نام کتاب : نقوشِ عظمت ِرفتہ
مصنف : مولانا اسحق بھٹی
صفحات : 536 قیمت 1200 روپے
ناشر : سعید احمد بھٹی۔ محمد اسحق بھٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔205/3 جناح اسٹریٹ، اسلامیہ کالونی، ساندہ۔ لاہور
فون نمبر : 0301-4768918
+92-042-37143677
ای میل : mishaqbhattiri2002@gmail.com
اسٹاکسٹ
مکتبہ اسلامیہ
لاہور:G/F028 ہادیہ حلیمہ سینٹر، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار لاہور
0300-0997821-22-23-24, 042-37244973-37232369
فیصل آباد: بیسمنٹ سمٹ بینک، بالمقابل شیل پیٹرول پمپ کوتوالی روڈ، فیصل آباد
0300-0997826-27-28-, 041-2631204-2641204
ای میل:
maktabaislamiainfo@gmail.com
ویب سائٹ:www.maktabaislamia.com.pk
کتاب ملنے کا پتہ:
(1) کتاب سرائے: الحمد مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار لاہور 042-37239884, 042-37320318
(2) مکتبہ قدوسیہ: رحمن مارکیٹ غزنی اسٹریٹ، اردو بازار لاہور042-37351124, 042-37230585
(3)المکتبۃ السلفیہ: شیش محل روڈ، لاہور 042-37237184, 042-37230271
(4)علم و عرفان پبلشرز: الحمد مارکیٹ،40 ۔ اردو بازار، لاہور042-37232336, 042-37352332-
مولانا اسحق بھٹی مرحوم پکے اہلِ حدیث عالم تھے۔ تحریک ِ اہلِ حدیث کی تاریخ پر ان کی قابلِ قدر تصنیفات ہیں۔ وہ مشاق اہلِ قلم تھے، انہوں نے بھرپور علمی زندگی گزاری۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا محمد اسحق بھٹی اردو کے صاحب ِ طرز ادیب اور انشا پرداز ہیں۔ وہ بہت سی کتابوں کے مصنف و مولف اور بلند پایہ محقق ہیں۔ وہ مستند عالمِ دین بھی ہیں۔ ان کی زندگی کا طویل حصہ صحافت میں بسر ہوا ہے۔ انہوں نے ہر طرح کے مسائل پر لکھا ہے اور ان کے موضوعات و مباحث کا دائرہ ادب وسیاست، تاریخ و تعلیم، سیرت و سوانح، مذہب و صحافت اوراس کے مختلف گوشوں تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کی تحریروں میں معلومات اور علمی نکات کی فراوانی پائی جاتی ہے۔ ان کے قلم اور زبان دونوں سے لطائف کے پھول جھڑتے ہیں۔ وہ تحریر میں افکار کے موتی پروتے ہیں۔ ان کی تحریرات متن کے حسن اور اسلوبِ نگارش کی رنگینی سے آراستہ ہوتی ہیں۔ افکار و معانی کا طلسم قاری کے احساسات پر چھا جاتا ہے۔ ان کے گلشن زار الفاظ ومضامین کا زائر و سائر ایک بار دیکھا، دوبارہ دیکھنے کی ہوس کا نعرہ لگاتا ہے اور اس کے سحر حلال سے باہر نہیں نکل سکتا۔ وہ مختصر اور مفصل دونوں طرح کی تحریریں لکھنے پر قادر ہیں۔ ان کے اختصار میں اعجاز اور تفصیل میں دلکشی کی خوبی موجود ہوتی ہے۔ وہ بات سے بات پیدا کرتے اور مباحث کو پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن تحریر و نگارش کی رنگینی، بیان کی طوالت اور واقعات کی تفصیل کا احساس نہیں ہونے دیتی۔
یہ کتاب نہایت دلچسپ، معلومات افزا ور فکر انگیز ہے۔ میں نے اس کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے اور ذہن و فکر کو اس کی معلومات و افکار سے آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ معلوم نہیں میرے خیالات پہلے ہی ایسے تھے یا کتاب پڑھتے ہوئے مصنف کی فکر کے سانچے میں ڈھلتے چلے گئے۔ اس کی سطر سطر پر مجھے یہ خیال آیا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ یہ بات کسی ادیب اور مصنف کے فن کی کامیابی کی بڑی مثال ہے۔
مصنف نے جن شخصیات پر قلم اٹھایا ہے انہیں تاریخ، مذہب، سیاست اور علم و تہذیب و ادب کا زندہ جاوید ناقابلِ فراموش حصہ بنادیا ہے۔ مصنف تذکرہ نویسی کے فن کا ایسا ماہر استاد، پختہ علم ادیب اور بے مثال انشا پرداز ہے کہ لوگ اس امید پر موت کو گلے لگانے کو تیار ہوجائیں گے کہ انہیں اس تذکرہ نویس کی توجہ اور قلم نصیب ہوجائے۔‘‘
نقوشِ عظمتِ رفتہ کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے۔ پہلا ایڈیشن مکتبہ قدوسیہ سے 1996ء میں شائع ہوا، اور عرصے سے نایاب تھا۔ اب یہ دوسرا ایڈیشن محمد اسحاق بھٹی انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہوا ہے۔ مولانا اسحاق بھٹی تحریر فرماتے ہیں:
’’ابتدائی دورِ زندگی ہی سے مجھے شخصیات سے دلچسپی رہی ہے، میں چاہتاتھا کہ جن حضرات سے کسی نہ کسی انداز میں میرا تعلق رہا ہے یا جن کو میں نے دیکھا ہے اور ان سے متاثر ہوا ہوں، ان سے متعلق خاکہ نویسی کی صورت میں اپنے تاثرات کا اظہار کروں، چنانچہ یہ فریضہ سرانجام دیا جارہا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب کی تقطیع کے پندرہ سو سے زائد صفحات کمپوزنگ کے مرحلے سے گزر چکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی رکھی اور قلم و قرطاس سے رابطہ قائم رہا تو ان شاء اللہ بہت سی شخصیات کے سوانحی خاکے ضبطِ تحریر لائے جائیں گے۔ یہ پہلا مجموعۂ شخصیات جو 21 حضرات کے واقعات و کوائف پر محیط ہے ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ کے نام سے خوانندگان محترم کی نذر کیا جارہا ہے، اس کے بعد کے مجموعے ان شاء اللہ دوسرے ناموں سے پیش کیے جائیں گے۔
میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں لکھا جائے، اس کی زندگی کے اُن تمام پہلوئوں کو واضح کردیا جائے، جن سے لکھنے والا بالواسطہ یا بلاواسطہ مطلع ہوا، تاکہ اس کی شب و روز کی سرگرمیوں کے زیادہ سے زیادہ گوشے نکھر کر قارئین کے سامنے آسکیں اور ان کی مدد سے اس کی عادات و اطوار اور گفتار و کردار کا صاف طور پر مشاہدہ کیا جاسکے، چنانچہ شخصیات سے متعلق میں اسی انداز کو اپنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوں، اس کا بہتر فیصلہ قارئین کرام ہی کرسکتے ہیں۔
اس اندازِ نگارش کے بعض پہلوئوں سے کچھ حضرات کو اختلاف ہوسکتا ہے، مگر میں ان کی خدمت میں بہ درجہ غایت احترام کے ساتھ عرض کروں گا کہ وہ اپنے تمام اوصاف بوقلموں کے باوجود انسان تھے اور لغزشِ فہم و فکر کا شکار ہوسکتے تھے اور متعدد مواقع پر دانستہ یا نادانستہ طور سے شکار ہوئے۔ اسے چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟ تاریخ کی بات تاریخ کے حوالے کردینی چاہیے تاکہ واقعہ بھی معرضِ بیان میں آجائے اور شخصیت کا بھی مکمل طور سے مشاہدہ کیا جاسکے۔ یاد رہے ہم احترامِ شخصیت کے تو ضرور قائل ہیں، لیکن شخصیت پرستی کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔
اگر انسان کا ہیولا اسی دنیا کے لغزش آلود آب و گل سے تیار ہوا ہے اور اس کے فہم نے اسی فضائے معصیت آمیز میں کروٹ لی ہے تو لازماً اس کا ذہن کسی نہ کسی شکل میں اس سے متاثر ہوگا اور اس کے سوچ بچار کی تہوں میں یہاں کے نہجِ فکر کی آمیزش ہوگی۔ اور میرے خیال میں یہی انسان کی اصل خوبی ہے کہ وہ جہاں پیدا ہوا اور جہاں رہتا اور زندگی بسر کرتا ہے اس کے تقاضوں کو خوب سمجھتا اور ان تقاضوں کی روشنی میں اپنے عمل و حرکت کی سمتیں متعین کرتا ہے اور انہی کو پیش نگاہ رکھ کر سفرِ حیات کی مختلف منزلوں پر قدم زن ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان منزلوں میں وہ درست چال بھی چلے گا اور کسی موڑ پر ٹھوکر بھی کھائے گا۔
ہم صحابہ کرامؓ کی زندگی کے نشیب و فراز کی وضاحت تو کرتے ہیں، ائمہ دین اور محدین و فقہا کے واقعات کی چھان بین میں بھی نہایت مستعد واقع ہوئے ہیں، اور رجال و روات حدیث کی بھی علمی، عملی اور ذہنی و فکری کاوشوں کے ہر پہلو کو مرکزِ نگاہ بلکہ ہدفِ نقد و جرح ٹھیراتے ہیں، لیکن تعجب ہے کہ اپنے ممدوح علماء کے بارے میں سکوت کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا اُن سے غلطی کے ارتکاب کا امکان نہیں؟
میں اس اسلوبِ فکر کا نہ حامی ہوں، نہ حامل۔ میں جس شخص کے متعلق لکھتا ہوں، اس کی وہ تمام عادات و اطوار و کمالات و اوصاف جن سے میں آگاہ ہوا، قارئین کے علم و مطالعے میں لانا ضروری سمجھتا ہوں۔ اگر اُس نے زندگی کے سفر کی الٹی سیدھی طویل منزلوں میں کہیں ٹھوکر کھائی ہے اور معاشرے یا جماعت یا افراد پر اس کے کسی نوعیت کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں تو اس کا تذکرہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ حقیقتِ حال لوگوں کے سامنے آئے اور وہ آئندہ اس کے غلط نتائج سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔
مجھے زندگی میں بہت سے علما و اکابر کی خدمت میں حاضر ہونے، ان کے ارشادات سننے اور ان کی رفاقت اور رہنمائی میں کام کرنے کے مواقع میسر آئے ہیں، ان میں مختلف فقہی مسالک کے حاملین بھی ہیں، عام اہلِ علم اور اصحابِ تحقیق بھی ہیں، سیاست دان بھی ہیں، شعر و انشا اور ادب و صحافت سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں اور غیر مسلم بھی ہیں۔ یہ تمام حضرات ایک لمبی قطار میں سامنے کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ان میں سے اس وقت پہلی قسط کے طور پر اکیس اصحاب کے متعلق اپنی یادداشتیں اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بیانِ واقعہ میں میری یادداشت نے میرے قلم کے ساتھ پورا تعاون کیا ہے، کسی مقام پر دونوں میں اختلاف رونما نہیں ہوا اور کسی بات کو حوالۂ قرطاس کرنے میں کسی موقع پر مجھے کسی نوع کی پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا پڑا۔ الحمد للّٰہ علی ذالک حمدا کثیرا کثیرا
جس بزرگ میں جو اہم بات دیکھی یا جو قابلِ ذکر بات ان سے متعلق کسی سے سنی، اس کے حوالے کے ساتھ بغیر کسی تکلف کے خانۂ ذہن سے نکال کر سطحِ کاغذ پر رکھ دی۔
امید ہے لائقِ احترام قارئین ان یادداشتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے میری فروگزاشتوں سے مطلع کریں گے۔ یادداشتوں کے آئندہ مجموعوں میں ان شاء اللہ بعض زندہ شخصیات سے بھی آپ کو متعارف کرایا جائے گا۔
وماتوفیقی الا باللہ، علیہ توکلت و الیہ انیب
21 اگست 1996ء (5 ربیع الثانی1417ھ)‘‘
کتاب میں جن شخصیات کا تذکرہ ہے وہ درج ذیل ہیں:
سید محمد دائود غزنوی، حافظ محمد گوندلوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا کرم الٰہی، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا عبدالقدوس میواتی، مولانا عبدالخالق قدوسی، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، خواجہ عبدالوحید، خواجہ عبدالحئی فاروقی، سید محمد متین ہاشمی، حمید نظامی، سید ابوالحسنات قادری، کوثر نیازی، قاضی حبیب الرحمن منصور پوری، گیانی ذیل سنگھ، ڈاکٹر محمد ایوب قادری، سحر گل خاں، مولوی شمس الدین۔
محمد اسحاق بھٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے مولانا اسحاق بھٹی کی دو غیر مطبوعہ کتب ’’محفلِ دانش مندان‘‘ اور ’’مولانا محمد حنیف بھوجیانی‘‘ بھی شائع کی گئی ہیں۔
کتاب بڑے سائز میں سفید کاغذ پر خوبصورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے۔

لمحہِ موجود اور تعلیماتِ اقبال

نام کتاب : لمحہِ موجود اور تعلیماتِ اقبال
(علامہ اقبال کے شاہینوں کے لیے اقبالی تحفہ)
مصنف : پروفیسر رشید احمد انگوی
پرنسپل (ر) گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ
ڈائریکٹر الخلیل قرآنک ریسرچ سینٹر
صفحات : 64 قیمت 100 روپے
ناشر : الخلیل قرآنک ریسرچ سینٹر۔ 16 جی مرغزار کالونی۔ ملتان روڈ لاہور
0300-4723514
اس خوبصورت مختصر کتاب میں علامہ اقبال ؒ کے 75 منتخب اشعار کی نہایت آسان زبان میں شرح کی گئی ہے۔ پروفیسر رشید انگوی تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ کتاب بظاہر پاکستان کے مایوس کن حالات میں امید کی کرن بن کر پیغام دیتی ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ قرآن مجید اور تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت طلب کرتے ہوئے ارشادات و افکارِعلامہ اقبالؒ کے ذریعے اصلاح و انقلابِ معاشرہ کے مشن میں لگ جایئے اور نوجوانوں کو مہم نوا بنایئے، ان شاء اللہ تعالیٰ ماحول کی تاریکیاں چھٹ جائیں گی اور ایک خوبصورت، روشن اور تابناک قومی منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوگا جس کی تخلیق میں آپ کا تعمیری کردار شامل ہوگا۔ بقول اقبال ؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ