ترجمہ:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائو۔‘‘ الحدید(28:57)
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں یایھاالذین امنوا کا خطاب اُن لوگوں سے ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے ہوئے تھے۔ ان سے فرمایا جارہا ہے کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائو، تمہیں اس پر دہرا اجر ملے گا، ایک اجر ایمان برعیسیٰ علیہ السلام کا، اور دوسرا اجر ایمان بر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں سے ہے۔ ان سے ارشاد ہورہا ہے کہ تم محض زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرکے نہ رہ جائو، بلکہ صدق دل سے ایمان لائو اور ایمان لانے کا حق ادا کرو۔ اس پر تمہیں دہرا اجر ملے گا۔ ایک اجر کفر سے اسلام کی طرف آنے کا، اور دوسرا اجر اسلام میں اخلاص اختیار کرنے اور اس بات پر ثابت قدم رہنے کا۔ پہلی تفسیر کی تائید سورۂ قصص کی آیات 52 تا 54 کرتی ہیں اور مزید برآں اس کی تائید حضرت ابو موسیٰ اشعرؓی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی ہیں جن کے لیے دہرا اجر ہے۔ ان میں سے ایک ہے رجل من اہل الکتاب امن بنبیہ و امن بحمد صلی اللہ علیہ وسلم (بخاری و مسلم) اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے سابق نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لے آیا۔ دوسری تفسیر کی تائید سورۂ سبا کی آیت 37کرتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ مومنین صالحین کے لیے دو گنا اجر ہے۔ دلیل کے اعتبار سے دونوں تفسیروں کا وزن مساوی ہے، لیکن آگے کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری تفسیر ہی اس مقام سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے، بلکہ درحقیقت اس سورت کا پورا مضمون از اول تا آخر اسی تفسیر کی تائید کرتا ہے۔شروع سے اس سورت کے مخاطب وہی لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرکے داخل اسلام ہوئے تھے، اور پوری سورت میں انہی کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ محض زبان کے مومن نہ بنیں بلکہ اخلاص کے ساتھ سچے دل سے ایمان لائیں۔
(تفہیم القرآن، پنجم، ص 333 ،الحدید،حاشیہ55 )
٭ ٭ ٭
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام کرنے والے لوگ
ترجمہ:’’ جو لوگ رسولِ خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے، ان کے لیے مغفرت ہے اور اجرِ عظیم ہے۔‘‘ (الحجرات49 :3)
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں پورے اترتے ہیں اور ان آزمائشوں سے گزر کر جنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے دلوں میں فی الواقع تقویٰ موجود ہے وہی لوگ اللہ کے رسول کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں۔ اس ارشاد سے خودبخود یہ بات نکلتی ہے کہ جو دل رسول کے احترام سے خالی ہے وہ درحقیقت تقویٰ سے خالی ہے، اور رسول کے مقابلے میں کسی کی آواز کا بلند ہونا محض ایک ظاہری بدتہذیبی نہیں ہے، بلکہ باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے۔
(تفہیم القرآن، پنجم، ص72، الحجرات حاشیہ5 )
کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنا
٭… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں تم میں سے کسی آدمی کو اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی چارپائی پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو، اس کے پاس میرے ان احکام میں سے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے میں نے منع کیا ہے، کوئی حکم پہنچے تو وہ کہے کہ میں نہیں جانتا، جو حکم ہم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں پایا ہم نے صرف اس کی پیروی کی۔‘‘
(ابودائود، ابن ماجہ۔ عن ابی رافع رضی اللہ عنہ)
وضاحت:’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکارِ حدیث کے فتنہ میں مبتلا ہونے والوں کی پیشین گوئی فرمادی ہے جو بالکل صحیح ثابت ہوئی کہ آج کے دور میں بھی کچھ لوگ اس فتنہ (کبیرہ گناہ) میں مبتلا ہیں اورجب ان کے سامنے کوئی حدیث پیش کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمیں بس اللہ کی کتاب ہی کافی ہے۔ انکارِ حدیث حقیقت میں قرآن مجید کا انکار ہے کیونکہ قرآن مجید میں بار بار کہا گیاہے کہ ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اللہ رب العزت کی پیروی ہے۔‘‘
(مزید معلومات کے لیے پڑھیے ترجمہ و تفسیر آل عمران 3 ،آیت 31 ء ۔النساء4 ،آیت 80 )