سنجیدہ مطالعہ میں ڈینیل بیل کی کتاب Technology and the Frontiers of Knowledge بھی ایک فکر انگیز تحریر ہے۔ اس میں کچھ اور لوگوں کی تحریریں بھی شامل ہیں، لیکن ان میں ڈینیل کا اسلوبِ نگارش علمی بھی ہے اور جاندار بھی۔ باوجود اس کے کہ وہ ایک مشکل موضوع پر لکھتا ہے۔ مثلاً ثقافت (کلچر) کی تعریف کا تعین کرتے ہوئے وہ دوسروں سے کتنا جدا لگتا ہے۔
ثقافت سے میری مراد علم الانسانیت کے نقطہ نظر سے قدرے محدود ہے جس میں ایک معاشرے سے متعلق تمام غیرمادی عوامل شامل ہوتے ہیں، لیکن (ساتھ ہی) بورژوائی نقطہ نظر سے نسبتاً زیادہ وسعت رکھتا ہے، جو ثقافت کو محض فنونِ لطیفہ کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہمارے سیکولر حضرات بھی بورژوائی طرز فکر کے مطابق ثقافت کو محض فنون لطیفہ سمجھتے ہیں۔ ثقافت سے اُس کی مراد وہ کاوشیں ہیں جو علامات تخلیق کرنے والے شعوری طور پر وجودِ انسانی کو معنی دینے کی کرتے ہیں، اور اس کے لیے اخلاقی او رجمالیاتی جواز تلاش کرتے ہیں۔
اُس کے نزدیک اس لحاظ سے ثقافت انسانی تجربے کو جاری و ساری رکھنے کے عمل کو تحفظ دیتی ہے۔ ڈینیل بیل ٹیکنالوجی کو فنونِ لطیفہ سمجھتا ہے۔ بقول اُس کے ٹیکنالوجی فنون لطیفہ کی طرح انسانی ذہن کی رفعتِ پرواز ہے۔ فنون انسانی احساسات کو جمالیات کے ذریعے سے منضبط کرنے کی کوشش ہوتی ہے تاکہ زندگی کے معنی علامات کی زبان سے بیان کریں اور اس طرح سے فطرت کو نظمِ نو دیں (اور ساتھ ہی)زماں اور مکان کی خصوصیات کی نئی مادی اور احساساتی صورت گری کریں۔ اس طرح اُس کے خیال میں فنون بجائے خود مقصود بالذات ہیں کیونکہ ان کی قدریں اُن کے نفس میں پہلے سے موجود ہیں۔
اس کے مقابلے میں ٹیکنالوجی وسیلہ ہے جس سے انسانی تجربات کو پیداواری منطق کے توسط سے نظم دیا جاتا ہے اور مظاہر فطرت کو اس طرح سے استعمال کیا جاتا ہے کہ اس سے مادی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔
تو کیا فنون اور ٹیکنالوجی کوئی مختلف دائرۂ کار رکھتے ہیں؟ ڈینیل بیل کے مطابق ایسا نہیں۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتا ہے کہ جمالیاتی فن کی اپنی باطنی تکنیک ہوتی ہے جو مقصود بالذات ہے، یعنی وہ خارج میں کسی کا ذریعہ یا وسیلہ نہیں، تکنیک بھی فن کا حصہ ہے جو ثقافت اور سماجی ڈھانچہ کو ایک دوسرے سے ملاتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ دونوں کی تشکیلِ نو کرتی ہے۔
(بحوالہ: ’’میرا مطالعہ‘‘۔ طارق جان)
شکروشکایت
میں بندۂ ناداں ہوں، مگر شکر ہے تیرا
رکھتا ہوں نہاں خانہ لاہوت سے پیوند!
اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمرقند!
تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں
مرغانِ سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند!
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تُو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند!
لاہوت: روحانی مراتب کا وہ عالم جہاں پہنچ کر سالک کو فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ عالم بالا۔
-1 اے باری تعالیٰ! اگرچہ میں ایک بے سمجھ بندہ ہوں، لیکن تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تُو نے مجھے اپنے فضل و کرم سے عالم بالا کے اس چھپے ہوئے پاکیزہ جہان کے ساتھ وابستہ کردیا ہے، جہاں تیری ذات کے سوا اور کوئی نہیں۔
-2تیرے اسی لطف و احسان کی بدولت میں اس قابل ہوگیا ہوں کہ میں نے لاہور سے بخارا اور سمرقند کی سرزمین تک مسلمانوں کے دلوں میں زندگی کا ایک تازہ ولولہ اور جوش پیدا کردیا ہے۔
-3 یہ میرے نغموں ہی کا اثر ہے کہ خزاں کے موسم میں صبح کے وقت گانے والے پرندے میری صحبت میں خوش و خرم رہتے ہیں۔
خزاں کے موسم میں عموماً گانے میں مزہ نہیں آتا۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگرچہ مسلمانوں پر زوال کی حالت طاری ہے، یعنی ان کی زندگی کے چمن زاروں پر خزاں چھائی ہوئی ہے، لیکن اس دور میں بھی میری قوم کے دردمند لوگ میرے شعر ذوق و شوق سے پڑھتے اور ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ان میں انہیں بہار کا مزہ آجاتا ہے۔ یہ دراصل اپنے کلام کی حقیقی حیثیت کا اظہار بڑے ہی دل کش اور پُرتاثیر انداز و اسلوب میں کیا ہے۔
-4 لیکن اے باری تعالیٰ! کیا میرے لیے یہ انتہائی دکھ کی بات نہیں کہ اعلیٰ درجے کے حیات بخش جوہر عطا فرمانے کے بعد مجھے ایک ایسے ملک میں پیدا کردیا، جہاں کے باشندے غلامی پر راضی ہیں؟
اس نظم کا اصل مقصود آخری مصرع ہے۔ یعنی اقبال قوم کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ غلامی پر رضامند ہوجانا کسی بھی قوم کے لیے باعثِ عزت نہیں۔ مسلمان تو اپنے دل کو ایسے تصور سے بھی آلودہ نہیں کرسکتا۔ اس مفہوم کو انتہائی پُرتاثیر بنانے کے لیے یہ اسلوبِ بیان اختیار کیا گیا جو صرف بارگاہِ حق سے فیض یافتہ شاعر ہی اختیار کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نہیں کہا‘ ملک کے باشندے غلامی میں مبتلا ہوگئے۔ کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ ہے جو ہر قوم کو پیش آسکتا ہے۔ فرمایا:
غلامی پر راضی ہوگئے۔ یعنی صرف ظاہری حالت ہی ناسازگار نہیں بلکہ ان کے دلوں میں آزادی کے لیے تڑپ ہی باقی نہیں رہی۔ گویا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں مٹ گیا۔ یہ حالت فرد یا قوم کی زندگی میں دل اور روح کی موت ہے۔