کراچی میں ملیر ہالٹ ریلوے اسٹیشن کی پٹڑیوں سے اُس پار ایک دُھول بھرا کچّا رستہ اب سے کوئی چار دہائی قبل جامعہ ملّیہ کالج کو جاتا تھا۔ کالج کے پیلے رنگ کی دیواریں ’’ایشیا سُرخ ہے اور سبز ہے‘‘ کے نعروں سے اپنے زمانے کی سیاسی فضا اور سیاسی طلبہ میں کشمکش کا پتا دیتی تھیں۔ یہ خاکسار اُن دنوں نیا نیا ڈھاکا کے 23 مارچ 1971ء کے ملٹری آپریشن کے بعد مشرقی پاکستان کی سرزمین کو کشت و خوں سے رنگین چھوڑ کر بحری راستے سے کراچی آیا تھا اور اسی کالج میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ کالج کے دو سینئر طلبہ اپنی نصابی اور زائد ازنصابی سرگرمیوں میں نمایاں امتیاز رکھنے کے سبب نہ صرف طلبہ و طالبات میں مشہور تھے بلکہ کراچی کے کالجوں میں اپنے کالج کی شناخت تھے۔ شفیع نقی جامعی اور شوکت عابد۔ اوّل الذکر تو دُھواں دھار قسم کے مقرر اور کالج یونین کے صدر تھے، جبکہ مؤخر الذکر اپنی شاعری کی وجہ سے طلبہ میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔ اور اُن کا شعر ؎
پتوں کی طرح تم بھی بکھر جائو گے یارو
گھر سے نہ نکلنا کہ بڑی تیز ہوا ہے
تو ادبی ذوق کے حامل کالج کے اکثر طلبہ کو زبانی یاد تھا۔ ہمارا کالج اُس زمانے میں دائیں اور بائیں بازو کے کیمپوں میں بٹا ہوا تھا۔ کیا طلبہ کیا اساتذہ، کم و بیش سبھی اپنا اپنا نظریاتی تشخص رکھتے تھے۔ شفیع نقی کی سرپرستی پروفیسر عطا اللہ حسینی صاحب کیا کرتے تھے۔ جب کہ ہمارے شوکت عابد کو پروفیسر اخلاق اختر حمیدی کی پُرشفقت توجہ حاصل تھی۔ حمیدی صاحب شاعر تو تھے ہی، استاد بھی اچھے تھے۔ فنِ ابلاغ کے ایسے ماہر تھے کہ ان کے لیکچر کے دوران مجال ہے جو طلبہ کی توجہ بٹ جائے۔
شوکت جو بظاہر ایک مصروف نوکری پیشہ آدمی میں تبدیل ہوچکے ہیں، اپنی غزلوں میں عارفانہ مضامین نہایت پُراثر اور دل کو چھولینے والے انداز میں بیان کرتے ہیں، اُن دنوں لبرل خیالات رکھتے تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ دائیں بازو والوں کے ساتھ تھے اور نہ بائیں کے۔ وہ تب بھی اپنی شاعری کے ساتھ تھے اور اسی حوالے سے اپنی پہچان بنانے کی جستجو میں تھے۔ شخصیت بڑی کڑک دار تھی، موسم سرما میں کوٹ پتلون اور ٹائی لگائے، آنکھوں پر چوڑے فریم والی عینک، جس کے عقب سے اُن کی پُراعتماد نگاہیں مخاطب کو ایسے دیکھتیں جیسے سب کچھ سمجھ کر بھی کچھ نہ سمجھ رہی ہوں۔ اب حال یہ ہے کہ میں شوکت کی خالی خالی نظروں میں جھانکتا ہوں تو ایک دیوار سی نظر آتی ہے۔ میں یہ سمجھنے سے اب تک قاصر ہوں کہ شوکت دیوار کے اِس طرف ہیں یا اُس طرف۔ یہ ان کی صحبت کا فیض ہے کہ نہ سمجھ کر بھی بہت کچھ سمجھتا ہوں۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی
بات دور جا پڑی۔ میں کالج کے دنوں کے شوکت کو یاد کررہا تھا۔ 16 دسمبر 1971ء کو اپنوں کی حماقتوں اور غیروں کی سازشوں سے ملک دولخت ہوا تو ملک کے ایک مؤقر روزنامے کے ادارتی صفحے پر شوکت کی ایک نہایت جذباتی، حبّ الوطنی کے زخمی جذبات و احساسات میں ڈوبی ہوئی ایک تاثر انگیز نظم شائع ہوئی ’’آج ڈھاکا لہو رنگ ہے‘‘۔ نظم کیا تھی، شاعر نے اپنا کلیجہ نکال کر صفحۂ قرطاس پر رکھ دیا تھا۔ نظم نے پڑھنے والوں کو بہت رُلایا، مجھ پر نظم کا تاثر اتنا گہرا مرتب ہوا کہ آج تک اس کی لائنوں کی لائنیں یاد ہیں۔ اس کی وجہ کچھ یہ بھی تھی کہ میں اپنے بچپن کی یادیں اسی خون آلود سرزمین پر چھوڑ کر آیا تھا اور اس کی جدائی اتنی جاں کاہ ثابت ہوئی کہ آج تک خوابوں میں راج شاہی بسا ہوا ہے۔ جہاں ہمارا گھر تھا، عقب میں باغ اور باغ میں ناریل، اَمرود اور نیم کے پیڑ، جن کے ساتھ ہی ایک چوڑا نالہ بہتا تھا، نالے کے اس پار مسجد تھی، جس کے صحن میں دورانِ نماز بھاگ دوڑ اور پھر نمازیوں کی ڈانٹ ڈپٹ۔ ہاں آج بھی اپنے خوابوں میں اِن ہی گمشدہ مقامات پر بھٹکتے بھٹکتے آنکھ کھلتی ہے اور میں اپنے رخساروں کو آنسوئوں سے تر پاتا ہوں۔
شوکت کبھی مشرقی پاکستان نہیں گئے تھے، سقوطِ ڈھاکا سے قبل اور بعد کے مناظر کے وہ عینی گواہ نہیں تھے، لیکن انھوں نے اپنی نظم میں لکھا:
موت کی وحشتِ بے اماں
ہر گلی، ہر دریچے، ہر اک موڑ پر
خیمہ زن ہو گئی ہے۔۔۔
آج ڈھاکا لہو رنگ ہے!
چوں کہ اِن سطروں میں بیان کیے گئے منظروں کو اپنی آنکھوں میں سمیٹے، دل میں اپنے شہر سے فراق کا درد چھپائے اس شہر نامہرباں میں آیا تھا تو مجھے لگا کہ شاید اس نظم کے خالق کی روح بھی میرے ہم راہ، میرے ساتھ تھی۔ یا جو کچھ میں اپنی آنکھوں میں سمیٹ کر لایا تھا شوکت کی شاعرانہ روح نے اس کی تصویر کھینچ لی تھی اور نظم میں پوری شدتِ احساس سے بیان کردیا تھا۔ پتا نہیں کیا ہوا تھا… لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرقی بنگال کو پاکستان سے جدا کرنے میں عالمی سازشوں نے اپنا جو گھنائونا کردار ادا کیا تھا، شوکت نے نہایت بے باکی سے ان پر گرفت کی تھی۔ جب بھارتی ٹینک جن پر مکتی باہنی کے درندے سوار تھے، ڈھاکا میں داخل ہوئے تو عالمی ضمیر سو رہا تھا، امریکیوں کو ویت نام میں اور بھارت کو کشمیر میں اپنے مظالم یاد نہ آئے۔ نظم میں شوکت نے صرف دو تین لائنوں میں کیسا گہرا طنز کیا، یعنی جب ڈھاکا ڈوب رہا تھا، پاکستان ٹوٹ رہا تھا:
’’تو کسی سینیٹر کینیڈی کی نہ آواز اُٹھی
کہ یہ ظلم ہے، زیادتی ہے
یہ تو انسانیت کی بھی توہین ہے…‘‘
سچ پوچھیے تو پہلی بار شوکت کی شخصیت اور ان کے دل کے درد کا ایک نیا رُخ میرے سامنے آیا۔ معلوم ہوا کہ بہ ظاہر سیاست اور قومی معاملات سے لاتعلق اور اپنی شعری واردات میں ڈوبا دکھائی دینے والا یہ نوجوان شاعر کتنے پختہ سیاسی شعور کا مالک ہے۔ آج شوکت کی نظموں میں پاکستانی معاشرے کی شکست و ریخت کے جو مختلف دل گُداز رنگ کبھی سنجیدہ اور کبھی طنزیہ پیرائے میں ملتے ہیں، ان کے سوتے ابتدا ہی سے ان کی شاعری میں موجود تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شوکت کی غزلیں اور نظمیں اپنے بڑے بھائی ثروت حسین کے اثرات سے آزاد نظر آتی تھیں جو نئی نظم غزل کے ایک منفرد اور معتبر شاعر کی حیثیت سے متعارف ہوچکے تھے۔ شوکت کی اپنی ایک الگ شاعرانہ آواز تھی اور اس میں تخلیقی توانائی کا احساس شدت سے ہوتا تھا۔ عام شعرا کی طرح ان کی شاعری میں لجلجاہٹ، دل کو مسوس دینے والا depressive لب و لہجہ، حد درجہ شکستگی جیسی کیفیات کا نام و نشان تک نہ تھا جو اُن دنوں شعر کی مقبولیت کے لیے ضروری تصور کی جاتی تھیں، مثلاً ان کے انٹرمیڈیٹ کے زمانے کا ایک شعر یاد آتا ہے ؎
میں مریضِ فکرو شعور ہوں
مرے حق میں کوئی دُعا کرو
دیکھیے شعر میں بہ ظاہر شاعر اپنی شخصیت کے نہایت گہرے تشویش ناک عیب یا مرض کا اعتراف کررہا ہے لیکن لہجے میں کہیں مایوسی نہیں ہے، ڈپریشن نہیں ہے، حتیٰ کہ اداسی بھی نہیں ہے۔
ہاں ایک بیمار اور مایوس قوم کو ایسی ہی شاعری درکار ہے جو بندگانِ خدا کو اپنی نفسی اور روحانی بیماریوں کے علی الاعلان اعتراف کا حوصلہ دے سکے۔ گرے ہوئوں کو اُٹھا سکے، دل کے اضطراب و بے چینی کو گہرے سکون میں بدل سکے۔ شاعر مشرق نے بجا فرمایا تھا ؎
شاعر کی نوا ہو کہ مُغّنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا
لہٰذا میں نہایت اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ شوکت عابد کی شاعری کے مضامین و موضوعات، اور اسلوبِ بیان میں ایک اعتماد نفس، پختگیٔ شعور اور لب و لہجے میں ایک توانائی ہے جو یاس زدگی کے تھکا دینے والے احساس کے ساتھ اندر ڈوبنے نہیں دیتی۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان کی شاعری باطن کی تاریک اور پُراسرار دُنیا کی سیر نہیں کراتی۔ اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ شوکت کی شاعری کسی قندیل کی طرح تاریک باطن کو روشن بھی کردیتی ہے۔ وہ احساسات جو ہمارے وجود پر مسلط رہے ہیں اور ہم انھیں کوئی نام نہیں دے پاتے، پہچان نہیں پاتے، شوکت کی غزل کا ایک شعر یا نظم کی ایک دو لائنیں، گونگے احساسات کو زبان عطا کردیتی ہیں، ہم کچھ سمجھ جاتے ہیں، کچھ نہیں سمجھتے۔ تخلیقی ابلاغ کا پُراسرار حسن بالعموم ادھوری تفہیم میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ وہ شعر، وہ غزل، وہ نظم جو اپنے معنی کی تمام جہتوں کو قاری پر آشکار کردے، پہلے مطالعے کے بعد اپنے امکانات کی دریافت کے سفر کو مکمل کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑا تخلیق کار ہر عہد میں ازسرنو دریافت کیا جاتا ہے۔
شوکت عابد کو اپنے حوالے سے شاعرانہ خبطِ عظمت کا ادنیٰ سا بھی احساس نہیں، اور نہ میں ایسا کوئی دعویٰ کرکے اُنہیں آزردہ خاطر کرنے کا خطرہ مول لے سکتا ہوں، کیوں کہ وہ پہلے ہی اپنے آپ کو شاعر کی حیثیت سے متعارف کرانے میں متامل ہیں۔
شوکت کے تمام تر شاعرانہ انکسار کے باوجود مجھے کہنے دیجیے کہ اپنی شاعری کے آغاز ہی میں وہ محض احساسات اور محاکات (Images) کی لفظی تصویرکشی کے بجائے خیال و احساس کی آمیزش و یکجائی سے اپنے شعری تجربے کا اظہار کرتے تھے۔ ان کے اشعار میں کوئی نہ کوئی ایسا پُرمعنی خیال ضرور ہوتا تھا جو زندگی اور انسان کی ناقابلِ تفہیم شخصیت کے کسی نہ کسی پہلو کی طرف ہلکا سا اشارہ کردیتا تھا۔
شوکت عابدؔ زمانہ طالب علمی ہی میں ادب کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی کسی بہت اُونچے مقام پر پہنچنے کے آرزومند تھے۔ بی اے کے امتحان میں کراچی میں تیسری پوزیشن کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد انھوں نے شعبہ صحافت، جامعہ کراچی سے ایم اے کیا (یہاں جذبۂ احسان مندی کے تحت یہ ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ اس ناچیز کو بہ حیثیت طالب علم اس شعبے سے وابستہ کرنے والے بھی یہی موصوف ہیں۔ میری اس شعبے میں تمام کامیابیاں اگر کوئی ہیں تو ان کی اسی ایک کرم نوازی کا ہی نتیجہ ہیں)۔
شوکت کچھ عرصہ اخباری صحافت اور پھر اشتہارات کی دنیا سے ایسے وابستہ ہوئے کہ آج تک یہی پیشہ ان کے رزق کا وسیلہ ہے۔
شوکت کی تخلیقی اور روحانی شخصیت کی تعمیر ایک تکون کے گرد گھومتی ہے۔ اس تکون کا نام ہے: قمر جمیل، سلیم احمد اور احمد جاوید۔
قمر جمیل مرحوم کی محبت نے اُنہیں مغرب کے جدید شعراء، جدید رجحانات اور شعری اظہار کی ایک نئی صنف نثری نظم سے متعارف کرایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قمر جمیل کے اطراف شہر کے نوجوان شاعروں اور ادیبوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا، وہ سگریٹ سے سگریٹ سلگاتے بودلیئر، راں بو، ایذرا پائونڈ، ٹی ایس ایلیٹ، سارتر، کرکے گار اور جانے کن کن مغربی شعراء اور فلسفیوں کے افکارِ عالیہ پر اپنے مخصوص انداز میں، جس میں بڑی کشش، جاذبیت اور توجہ کو کھینچ لینے والی روانی ہوتی تھی، روشنی ڈالتے رہتے تھے۔ سب دَم سادھے اُنہیں بولتے اور حیرت اور رعب سے دیکھتے رہتے تھے۔ وہاں مکالمے کی کوئی صورت نہ تھی۔ ابلاغ کا منہ زور دریا یک طرفہ بہتا رہتا تھا۔ شوکت نے قمر جمیل کا جو سب کے قمر بھائی تھے، غیر محسوس انداز میں اثر قبول کیا، ان کی ادبی گفتگوئوں میں بھی وہی فیصلہ کن اعتماد آگیا جو قمر جمیل کے فیضِ تربیت کا نتیجہ تھا۔ قمر بھائی کی طرح وہ تبادلہ خیال، بات چیت اور اتفاق و اختلاف سے کسی ادبی سچائی کی تلاش میں سرگرداں نظر نہیں آتے تھے۔ یہ وصف قمر جمیل کی نوجوان اُمّت کے تمام ہی حواریوں میں پیدا ہوگیا تھا، سوائے احمد جاوید، ثروت حسین اور محمود کنور کے۔ مگر ایک کام جو اس زمانے میں شوکت نے اپنے طور پر شروع کیا اور جس کے صحت مند اثرات خاموشی سے ان کی شاعری پر گہرے طریقے سے مرتب ہوئے، وہ جدید مغربی شعراء کے تراجم تھے۔ لورکا، بودلیئر، رلکے، تادیویش روزے وچ اور جانے کن کن شعراء کے مجموعے وہ بغل میں دبائے پھرتے تھے اور جہاں فرصت میسر آتی تھی اُنہیں اردو میں منتقل کرنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ اپنے ادبی سفر کے آغاز میں یہی کام منٹو بھی کیا کرتے تھے۔ روسی کہانیوں اور ڈراموں کا ترجمہ۔ ایک دن ممتاز مفتی نے اُنہیں ٹوکا، کہا ’’منٹو یہ تم کیا کرتے رہتے ہو، خود کیوں نہیں لکھتے؟‘‘ منٹو نے پلٹ کر بڑا عجیب جواب دیا ’’پیالہ بھرے گا نہیں تو چھلکے گا کیسے؟‘‘ اس فقرے میں فنی اسرار و رموز کی وہ گہرائی پائی جاتی ہے کہ اس کی شرح میں پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ شوکت کو مغربی شعراء کے ترجموں پر کس نے لگایا… گمان نہیں، یقین واثق ہے کہ ترجمے کی نہایت بامعنی سرگرمی کی طرف وہ خود ہی مائل ہوئے ہوں گے۔ کیوں کہ اُن دنوں مذکورہ مغربی شعراء کے کلام میں وہ جس طرح ڈوبے نظر آتے تھے، وہ کیفیت کسی کی نصیحت یا مشورے کے اثرات سے قطعی بے نیاز، کسی اندرونی پکار کی طرف اندھا دھند دوڑنے کا نتیجہ معلوم ہوتی تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ اس دوران شوکت نے اپنی کوئی غزل یا نظم سنائی ہو۔ سناتے کیسے، پیالہ بھرنے میں جو مصروف تھے۔
شوکت میں ایک عجیب بات جو تب بھی تھی اور اب بھی ہے، وہ ادبی رسائل میں چھپنے سے زیادہ چُھپے رہنے کے قائل رہے۔ کچھ یہی حال محمود کنور کا تھا۔ کنور تو ادبی رسالوں میں نہ چھپنے کا ایک رومانی جواز رکھتے تھے۔ کہتے تھے: مجھے ہزاروں سال قبل ان چینی شاعروں کی زندگی بہت ہانٹ کرتی ہے، جو گپھائوں میں شعر کہتے کہتے معدوم ہوگئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ انھوں نے کیا لکھا… مگر شوکت کے پاس تو ادبی رسائل میں نہ چھپنے کا ایسا کوئی جواز بھی نہ تھا، یا کم از کم انھوں نے مجھ سے کبھی ایسی کسی وجہ کا ذکر نہیں کیا۔ انھیں زیادہ سے زیادہ کبھی کبھی اپنے اشعار یا نظمیں قریبی احباب کو سنا کر ہی شانت ہوتے پایا۔ کتنے برس گزر گئے یہ اصرار کرتے ہوئے کہ بھئی شوکت صاحب! اپنا مجموعہ کیوں نہیں لاتے… مزے کی بات یہ ہے کہ انکار بھی نہیں کرتے، یہ بھی دعویٰ نہیں کرتے کہ میں چھپنے چھپانے پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتا۔ جس طرح ہر عمل کا جواز ہوتا ہے، بے عملی کا بھی کوئی نہ کوئی معقول جواز تو ہونا چاہیے۔ بنا کسی معقول و منطقی جواز کے کلام نہ چھپوانا، شعری مجموعہ نہ لانا، کم از کم میری عقل تو اسے سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس معاملے میں ان کا عجیب ہی رویہ رہا ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ جس مجموعے کے لیے میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں، مجھے قطعی یقین نہیں ہے کہ یہ کبھی دن کی روشنی دیکھ سکے گا۔ یہ جو کچھ قلم برداشتہ ان کی شخصیت اور کلام کی بابت سرزد ہورہا ہے، محض اتمامِ حجت کے لیے ہے۔ دل میں دعاگو ہوں کہ خدا کرے میری یہ بدگمانی بھی ان کے سلسلے میں میری دیگر خودساختہ بدگمانیوں کی طرح غلط اور بے بنیاد ثابت ہو۔ میں ایک بار پھر بھٹک گیا۔ ذکر تھا اس تکون کا، جس کے زیراثر شوکت عابد نے اپنا ادبی اور قلبی سفر طے کیا۔ قمر جمیل کی نوجوان اُمت میں شوکت عابد کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے قمر جمیل کے ساتھ ساتھ سلیم احمد کی بھی صحبت اٹھائی۔ سلیم احمد اور قمر جمیل باہم جگری دوست تھے، مگر اپنے ادبی نقطۂ نظر اور رویوں میں دونوں میں بُعدالمشرقین تھا۔ قمر جمیل جدیدیت کے عاشق، سلیم احمد کلاسیکیت کے اسیر۔ قمر جمیل اپنی امت اور اپنے حواری بنانے کے شوقین… سلیم احمد اس نصیحت کے عادی کہ اپنے آپ کو خود تلاش کرو، اپنی شخصیت کو خود بنائو۔ قمر جمیل اپنے پُرجوش سیلابی خطابات سے نوجوان سامعین اور اپنے مداحوں پر چھا جانے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ سلیم احمد بستر پر تکیہ بغل میں دبائے، کوئی ادبی مسئلہ چھیڑ کر، کوئی سوال اٹھا کر خود گہری سوچ میں ڈوب جاتے اور شرکائے محفل کو اپنے اپنے علم و فہم کی نمائش کی پوری آزادی دیتے تھے۔ تو جب شوکت نے عزیز آباد سے، جہاں قمر جمیل اپنے ڈرائنگ روم میں صوفے پر براجمان گہرے فریم کی عینک کے عقب سے، اپنی چھوٹی چھوٹی مگر ذہین آنکھوں سے، جن میں کسی کا مضحکہ اڑاتے ہوئے ایک شرارت آمیز مسکراہٹ بھی کبھی کبھار دوڑ جاتی تھی، اپنا رُخ انچولی کی طرف کیا، جہاں سلیم احمد کا ’’مسکنِ عزیز‘‘ تھا، جس کے دروازے ہر کس و ناکس پر رات گئے تک وا رہتے تھے، ان کی بیٹی عینی ہر نئے آنے والے اجنبی یا شناسا کے لیے اپنے ادیب و نقاد ابّا کی پکار پر چائے بنانے کی پابند تھی، تو شوکت کے ادبی مزاج میں، مَیں نے ایک تبدیلی نوٹ کی۔ شعراء اور ادبی مسائل کی بابت ان کے فیصلہ کن انداز اور تیقن میں رفتہ رفتہ کمی آتی گئی۔ شاعری میں کلاسیکیت کا رنگ جو پہلے بھی بہر صورت موجود تھا، سلیم احمد کی آنکھیں دیکھنے اور جوتیاں اٹھانے سے اور گہرا ہوگیا۔ احمد جاوید صاحب، سلیم احمد سے قمر جمیل تک پہنچے، شوکت عابد قمر جمیل سے ہوکر سلیم احمد تک آئے۔ دونوں باتوں میں کوئی خاص فرق نہیں کہ فیض اٹھانے ہی کی تو بات ہے۔ لیکن ایک واقعہ ایسا گزرا کہ جس کا سان و گمان بھی نہ تھا۔ دونوں دوست ایک ہی صاحبِ مقام بزرگ سے بیعت ہوکر ایک دوسرے کے پیر بھائی بن گئے۔ ظاہراً شریعتِ مطہرہ پر کاربند اور پابندِ صوم و صلوٰۃ… باطناً ہفت افلاک کی جو سیریں ہوئیں، اس کی بابت راوی خاموش ہے۔ مگر کلام بتاتا ہے کہ معاملات اتنے بھی سادہ و سہل نہیں، بلکہ نہایت گہرے، بامعنی اور مجھ جیسے عقل پرستوں کے لیے بڑی حد تک ناقابلِ فہم۔ ناقابلِ فہم اس لیے کہ جو ادبا، شعرا ان دونوں کے شعری امکانات، علم و فضل اور دوست نوازی میں اخلاص و بے تکلفی برتنے پر رطب اللسان رہتے تھے، کوچۂ تصوف سے واپسی پر ان کی عیب جوئی کا لطف اٹھانے لگے۔
مختصراً یوں سمجھیے کہ میں آج کے شوکت عابد کو دیکھتا ہوں، ان کے کلام کا اثر قلب پر مرتب ہوتے، مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں۔ شوکت کتنے بدل گئے، ان کی شاعری اپنے مضامین و اسلوب ہر دو اعتبار سے بدل گئی۔ یہ الگ بات کہ ظاہری زندگی کا چلن وہی ہے۔ اس چلن اور عمومی انسانی رویوں کا ساتھ دینے کے لیے جو کشٹ انھیں اٹھانے پڑے ہیں، اس کا باطنی احوال تو وہ جانیں… میں نے ٹی ایس ایلیٹ کا یہ فقرہ کہیں پڑھ رکھا تھا کہ شاعری شخصیت سے فرار کا نام ہے… سلیم احمد نے ’’غالب کون؟‘‘ میں یہ اضافہ کیا کہ شخصیت سے گریز کرکے اظہارِ ذات کا دوسرا نام شاعری ہے۔ گویا شخصیت، ذات کا اوورکوٹ ہوا… خواہ گوگول کا اوورکوٹ ہو یا غلام عباس کی کہانی کے کردار کا… یہ بات اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ شوکت عابد کی شاعری میں ان کی ذات ہی جلوہ گر ہے۔ اشارۃً عرض گزار ہوں کہ شاعر کی ذات کی تفہیم کے لیے اوورکوٹ سے صرفِ نظر ضروری ہے۔
شوکت عابد غزل، نظم اور نعت تینوں اصناف میں باہم جداگانہ رنگ رکھتے ہیں۔ ان اصناف میں اسلوب کا اختلاف اتنا گہرا ہے کہ ایک نظر میں ان پر تین الگ الگ شاعر کے کلام کا التباس ہوتا ہے۔ یہاں پر انگریزی کا وہ مشہور فقرہ یاد آتا ہے جو اسلوب (Style) کی تعریف کے بیان میں کثرتِ استعمال سے پامال ہوچکا ہے یعنی “Style is the Man”۔ اسلوب (Style) کا نقص یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ فن کار کا تابوت بھی تو ہوتا ہے، جس طرح میں اپنی آنکھوں کی رنگت بدلنے پر قادر نہیں، شاعر یا ادیب کا اپنے اسلوب سے فرار ممکن نہیں۔ کلام بہ زبانِِ خموشی اپنا پتا دیتا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے کہ شوکت کی نظم خارجی مظاہر، غزل باطنی احوال، اور نعت ان کی کامل سپردگی کی آئینہ داری اس طور سے کرتی ہے کہ مضمون ہی نہیں اسلوب بھی جدا ہوجاتا ہے۔ میں اس کا تجزیہ کیا کروں۔ جب اکثر اوقات شاعر ہی نے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہو تو شاعری تو شاعر کی ذات کے نامعلوم پاتال سے ابھر کر صفحۂ قرطاس پر نزول کرتی ہے، اس کی تفہیم و تجزیے کا خطرہ مجھ جیسا غافل کیسے مول لے!
شوکت عابد کی اکثر نثری نظموں میں عصرِ حاضر کی خارجی زندگی کے تضادات، مضحکات اور بوقلمونیوں کو ایک مخصوص انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ لب و لہجہ نہایت طنز آمیز (Satirical) ہے، انوکھا پن یہ ہے کہ یہ طنزیہ لہجہ، درد کے آٹے میں گندھا ہوا ہے… وہ معاصر سماج میں ظلم، عدم مساوات، ناانصافی، درندگی، بے حسی، منافقت اور نفرت و حسد، بالخصوص سیاست و معاشرت میں در آنے والی موقع پرستی کو براہِ راست نشانہ نہیں بناتے، کیوں کہ ان تکلیف دہ حقائق کا ادراک کسے نہیں؟ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ظلم کی بڑھ چڑھ کر مذمت خود ظالم کرتا نظر آتا ہے اور بدعنوانی پر سحر انگیز گفتگو کے فن میں طاق خود بدعنوان شخصیات ہیں۔ جب انسانی کردار میں ایسا ہولناک تضاد و تناقض اور پے چیدگی شخصیت کو ایک معمّا بنا دے تو پھر لفظ بھی اپنی تاثیر کھو دیتے ہیں۔ ایسے میں ان بہ ظاہر ناقابلِ علاج ناسوروں کے لیے طنز کا نشتر ہی آخری امید بن جاتا ہے۔
اکبر الٰہ آبادی سے دلاور فگار تک اسی نشتر نے شعرو سخن کی صورت میں اذیت بھرا نشاط عطا کیا ہے۔ یہی الم انگیز قہقہہ (Tragic Laughter) شوکت عابد کی نثری نظموں میں گونجتا ہے۔ ان کا طنز، درد کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ کیا ایسی نثری نظموں کی مثال کسی اور نثری نظم نگار کے ہاں ملتی ہے؟ یہ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ شوکت عابد کی غزلیں ان کی باطنی اور روحانی دنیا کے اُن ماورائی ارتعاشات کی نمائندہ ہیں، جو اکثر اوقات ماورائے عقل اور گرفتِ اظہار میں بھی مشکل ہی سے آتے ہیں، تاوقتیکہ کوئی نظر ’’خبر‘‘ کے اثر کو زائل کرکے شاعر کے وجدان کی نگراں نہ ہو۔
ایک عام قاری بھی سرسری مطالعے سے جان لے گا کہ شوکت عابد کی غزلوں کے مرکزی استعارے ’’دل و دنیا‘‘ ہیں۔ تصوف میں سلوک کے سفر نے شوکت عابد کو یہ تو سمجھا ہی دیا ہے کہ دل میں دنیا کی رونق اور دنیا سے دل کی وابستگی ہی روح کی ویرانی کا بنیادی سبب ہے۔ یوں دل اور دنیا باہم رفیق بھی ہیں اور رقیب بھی… اہلِ دنیا کے لیے رفیق اور راہِ سلوک کے مسافر کے لیے رقیب… آج کی بے سکونی و اضطراب نے وجود کے مرکزِ قلب پر اپنا اقتدار قائم کرلیا ہے۔ جب دل پر دنیا کی حکم رانی کا راج ہوجاتا ہے تو ساری اذیتیں باہر سے اندر کا رخ کرکے دل کی طمانیت اور سکون کو تاراج کردیتی ہیں۔
شوکت عابد کی شاعری اسی آشوب کا انکشاف ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج کے انسان کے لیے راہِ نجات کیا ہے؟ شوکت کا جواب ہے ’’محبت‘‘… میں اس جواب کی تصدیق کرتا ہوں، کیوں کہ:
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
یہ کائنات، خالقِ کائنات کی محبت کا اظہار ہے… غالباً اسی لیے صوفیہ کے نزدیک شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ کسی دل کو اذیت دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی جان اور انسانی خون، مقدس کعبہ سے بھی محترم ہے۔ ہاں یہ خالقِ کائنات کی محبت ہے جس کی ڈور سے نظامِ شمسی سے لے کر جمادات، نباتات، حیوانات اور اشرف المخلوقات یعنی انسان، سبھی بندھے ہیں۔
ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے
یہ جذبِ باہمی محبت ہی تو ہے، جس سے کوئی اور ہونہیں سکتی۔ محبت کٹے پھٹے اور ٹوٹے دلوں کو جوڑ دینے کی ایک غیر معمولی پُرتاثیر طاقت اپنے اندر رکھتی ہے۔ دوئی اور فاصلہ ہی ہر تنازعے و تضاد کا سببِ اول ہے۔ چناں چہ شوکت عابد کی غزلوں میں محبت کی پکار ان کے درد مند دل سے نکلی ہوئی ایسی صدا ہے جس کی گونج تاریک باطن میں اجالا سا کردیتی ہے۔ یہ اندھے کنویں کی صدائے بازگشت نہیں ہے جو تہ سے اور دیواروں سے ٹکرا کر ویران گونج پیدا کرتی، پکارنے والے تک مایوس و حزیں لوٹ آتی ہے۔
شوکت عابدؔ زمین کے قصے کا سرا آسمان پہ ڈھونڈتے ہیں۔ جو کچھ ظاہر میں ہورہا ہے، اس کا سراغ باطن میں اتر کر لگاتے ہیں۔
نہایت احتیاط کے ساتھ جو بات میں پوری سچائی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اپنے لب و لہجے کی تاثیر اور مضامین کی ندرت دونوں اعتبار سے شوکت کی غزلوں کا ذائقہ اک ذرا مختلف ہے… مختلف بھی اور منفرد بھی۔ اردو کی کلاسیکی شاعری سے قطع نظر ان غزلوں کو پڑھیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا اِدھر پچاس برسوں میں کسی بھی غزل گو شاعر کے یہاں تواتر کے ساتھ ایسے مضامین، ایسی تاثیر کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اگر کوئی ہو تو نشان دہی ضرور کردیجیے گا۔
اردو غزل شوکت عابد کے ذریعے ایک نئے ذائقے، نئے احساس اور نئی معنی آفرینی سے آمیز ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے مجھے اب اپنے قلم کو روک دینا چاہیے اور قارئین سے درخواست کرنی چاہیے کہ جب بھی کارِ دنیا سے دل اچاٹ ہوتا ہوا محسوس ہو، اور وجود خالی خالی سا لگنے لگے تو شوکت عابد کا شعری مجموعہ اٹھانا نہ بھولیں… دنیا آپ کو تھکاتی ہے تو شوکت کی شاعری آپ کو تازہ دم کردے گی۔