ابو سعدی
حجاج بن یوسف ایک مرتبہ خارجیوں کے ایک گروہ کو سزا دے رہا تھا، کہ اتنے میں اذان کی آواز آئی۔ اُس وقت صرف ایک شخص باقی رہا تھا۔
حجا ج نے عنبسہ سے کہا: ’’اسے اپنے ساتھ لے جا۔ کل صبح حاضر کرنا تاکہ سزا تجویز کی جائے۔ مگر دیکھنا اچھی طرح نگرانی کرنا، کہیں فرار نہ ہوجائے۔‘‘
عنبسہ بیان کرتا ہے کہ جب میں اس خارجی کو ہمراہ لیے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تو اس نے راستے میں مجھ سے پوچھا ’’تم سے کسی قدر نیکی کی امید بھی رکھی جاسکتی ہے؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’بتائو کیا چاہتے ہو؟ شاید خدا مجھے توفیق دے اور میں تم سے نیکی کا سلوک کرسکوں۔‘‘
اس شخص نے کہا ’’خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو الزام مجھ پر لگایا گیا ہے، میں اس سے بری ہوں، میں نے کسی مسلمان کو نقصان نہیں پہنچایا، نہ کسی مسلمان سے جنگ کی، لیکن جانتا ہوں کہ خدا کا حکم برحق ہے اور میں اس کی رحمت اور معافی سے مایوس نہیں ہوں، کیونکہ وہ بے گناہوں کو سزا نہیں دیتا۔ تم سے اتنی درخواست ہے کہ مجھے اپنے گھر جانے کی اجازت دو تو بڑا ہی احسان ہوگا۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے بال بچوں کو رخصت کرآئوں، مستحقوں کے حق ادا کر آئوں، اور اپنی وصیت لکھ کر چھوڑ آئوں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ ان باتوں سے فارغ ہوکر کل صبح تمہاری خدمت میں حاضر ہوجائوں گا۔‘‘
عنبسہ کہتا ہے کہ اس کی بات سن کر مجھے ہنسی آگئی، میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ مجھے خاموش پاکر اس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ میں اپنے دل میں سوچنے لگا کہ خدا پر بھروسہ کرکے اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ شاید واپس آجائے۔ نہ آئے تو ممکن ہے حجاج اسے بھول ہی جائے۔
یہ سوچ کر میں نے اس سے کہا ’’جائو، لیکن پکا وعدہ کرکے جائو کہ کل صبح ضرور آجائو گے۔‘‘
اس شخص نے جواب دیا ’’میں اللہ تعالیٰ کو گواہ کرکے وعدہ کرتا ہوں کہ کل علی الصبح لوٹ آئوں گا۔‘‘
چنانچہ میں نے اسے جانے دیا۔ جب وہ میری نظروں سے غائب ہوگیا تو میں اپنی نیکی کے جذبے اور جوش سے نکل کر ہوش میں آیا اور سوچنے لگا کہ میں نے یہ کیا کیا! بیٹھے بٹھائے حجاج کے عتاب میں پھنس گیا۔
الغرض اسی پریشانی اور پشیمانی کی حالت میں گھر پہنچا اور گھر والوں کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ سب نے مجھے لعنت ملامت کی اور میری ہی طرح وہ بھی پریشان اور فکرمند ہوگئے۔ ہم سب گھر والوں کے حق میں وہ رات اس طرح گزری جس طرح سانپ کے ڈسے ہوئے لوگوں یا مُردہ بچے کی ماں پر گزرتی ہے۔ دہشت اور بے چینی کے مارے کسی کی پلک تک نہ جھپکی۔ آنکھوں میں کٹی وہ رات ساری۔
ابھی مشرقی افق سے سورج کی کرنیں اچھی طرح نمودار نہ ہوئی تھیں کہ کیا دیکھتا ہوں وہی شخص سامنے سے چلا آتا ہے۔
اسے دیکھ کر مجھے بہت تعجب ہوا اور میں نے کہا ’’آئو جواں مرد! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ بھلا کوئی شخص موت کے منہ سے نکل کر پھر موت کے منہ میں آتا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’ہاں، وہ شخص جس کو خدا کی معرفت نصیب ہوچکی ہو اور جو اس کی قدرتِ کمال کا قائل ہو۔ ایسا شخص اگر کسی سے عہد کرے تو اسے پورا کرنا چاہیے۔‘‘
الغرض میں اسے ہمراہ لے کر حجاج کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی سچائی اور وعدہ وفائی کا تمام واقعہ کہہ سنایا۔ یہ سن کر حجاج نے مجھ سے پوچھا ’’کیا تُو چاہتا ہے کہ میں اس کو تجھے بخش دوں؟‘‘
میں نے جواب دیا’’امیر کی مہربانی ہے۔ بندہ بہت ممنون ہوگا۔‘‘
حجاج نے اسے میرے حوالے کردیا اور میں نے اسے آزاد کردیا۔ چلتے وقت اس کے منہ سے شکریے کا ایک لفظ تک نہ نکلا۔ اس سے قدرتاً مجھے تکلیف ہوئی مگر یہ کہہ کر چپ ہورہا کہ ’’دیوانہ آدمی ہے۔‘‘
دوسرے دن وہ میرے پاس آیا اور بہت کچھ معافی چاہ کر بولا’’کل میں نے تمہارا شکریہ اس لیے ادا نہیں کیا کہ میں تمہارے شکریے کو خدا کے شکریے کے ساتھ شریک کرنا نہ چاہتا تھا۔ چنانچہ کل کا سارا دن میں نے صرف خدا تعالیٰ کی شکر گزاری میں گزارا، اس سے فارغ ہوکر آج تمہارے پاس آیا ہوں کہ تمہاری نیکی کا حق ادا کروں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے دوبارہ معافی چاہی اور رخصت ہوا۔
(بحوالہ:جوامع الحکایات و لوامع الروایات، جلد اول۔ مترجمہ: اختر شیرانی۔ انجمن ترقی اردو ہند، دہلی 1943ء، پہلا ایڈیشن)
حکیم امین الدولہ
امین الدولہ کا شمار بیجاپور کے اولیاء میں ہوتا ہے۔ 1086ء تک زندہ رہے۔ نثر و نظم میں بہت سی تصانیف کی ہیں۔ آپ کے مریدوں نے آپ کے اقوال ’’جواہرالاسرار‘‘ کے نام سے جمع کیے ہیں۔
٭ کبھی اس بات کو نہ بھولو کہ جتنے امراض کتابوں میں لکھے ہیں بس ان کے سوا اور کوئی بیماری دنیا میں ہے ہی نہیں۔ کیونکہ بہت سے امراض بلائے آسمانی بن کر نازل ہوتے ہیں۔
٭ اگر بدن میں کوئی ایسا کانٹا چبھا ہو جو آدھا گوشت میں گڑ گیا ہو اور نصف ابھی باہر ہو تو یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ تم اسے نکال ہی لو گے۔ ممکن ہے کہ وہ ٹوٹ جائے اور باقی حصہ بغیر نشتر لگائے نہ نکل سکے۔
٭ لباس اس قسم کا پہننا چاہیے جس کو عوام اور جاہل دیکھ کر حسد نہ کریں اور اعلیٰ طبقے والے تم کو حقیر نہ سمجھیں۔
مقولے
ڈاکٹر جمیل جالبی
٭ عدم تحفظ کا احساس بجائے خود اتنا ظالم احساس ہے کہ معاشرے یا فرد کو آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے دھکیل دیتا ہے۔
٭ ہم نے تبدیلی کے فلسفے کو بھلا دیا ہے۔ زبان علامات کا مجموعہ ہے۔ ان علامات کو ہم الفاظ کا نام دیتے ہیں۔
٭ انسانی فطرت کو کچھ عرصے تک تو دبایا جاسکتا ہے لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کو کچلا نہیں جاسکتا۔
٭ جب کلچر صحت مند نہ ہو تو ہر تخلیقی سرگرمی بے معنی ہوجاتی ہے۔
٭ بہترین اخلاق وہ ہے جو عقل کے مطابق ہو، اور جس سے نہ صرف عمل کرنے والے کو فائدہ پہنچے، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچے۔ بہترین ادب بھی وہی ہے جو عقل کے مطابق ہو اور مفید ہو۔
٭ زبان نہ ہو تو سارا معاشرہ گونگا اور بہرا ہوجائے۔ نہ کوئی کسی سے بات کرے اور نہ کوئی کسی کی بات سنے۔ نہ معاشرت پیدا ہو اور نہ کلچر ترقی کرے۔ دنیا کے سارے کام رک جائیں اور زندگی بسر کرنا دوبھر ہوجائے۔