امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان پر عائد پابندیاں اس شرط پر ہٹانے کے لیے تیار ہے کہ اسلام آباد مسلح گروپ بالخصوص طالبانِ افغانستان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرے اور پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر حملہ کرنے والوں کا مکمل خاتمہ کرے۔ یہ بات منگل کو سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے محکمہ خارجہ کے بارے میں ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان سولیوان نے بتائی۔ گزشتہ ماہ امریکی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ کم از کم نو سو ملین ڈالر کی فوجی امداد معطل کردی گئی ہے تاوقتیکہ پاکستان افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف عملی کارروائی نہیں کرتا۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ امورکی کمیٹی کے سامنے محکمہ خارجہ کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ افغانستان سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کی اعلان شدہ نئی پالیسی پر عمل درآمد سے ہے۔ امریکہ کی علاقائی تقسیم نے افغانستان کو جنوبی ایشیا کے خطے میں شامل کردیا ہے۔ جبکہ افغانستان جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے درمیان پایا جاتا ہے۔ بلکہ علامہ اقبال نے تو افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا ہے۔ لیکن امریکہ کی جانب سے افغانستان کو جنوبی ایشیا کے خطے میں شامل کرنے کا اصل مقصد افغانستان میں بھارت کو کلیدی کردار دینا ہے، جبکہ بھارت کا افغانستان سے کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے۔ یہ کام امریکہ نے اس لیے کیا ہے کہ وہ سات سمندر پار سے یورپی اقوام کے فوجی اتحاد ناٹو کی مدد سے افغانستان پر قابض ہے، لیکن افغانستان سے جغرافیائی طور پر متصل ممالک پاکستان، ایران، چین، روس اور اس کی اتحادی ریاستوں کا براہِ راست کردار قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ جبکہ افغانستان میں امن پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کی ضرورت ہے۔ افغانستان کی امریکی جنگ ڈیڑھ عشرے سے زائد مدت سے جاری ہے، اس جنگ کو امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ قرار دیا تھا، لیکن اس جنگ کے شروع ہونے کے بعد سے عالم اسلام کا ہر ملک امریکہ کی لگائی ہوئی دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے ڈھونگ کی طرح امریکہ نائن الیون کے حادثے کے اصل ذمے داروں کے شواہد بھی دنیا کے سامنے پیش نہیں کرسکا، لیکن اُس نے اسامہ بن لادن کو دہشت گردی کا ذمے دار اور ملاّ عمر کو اُسے پناہ دینے کا مجرم قرار دے کر ایک عالمی جنگ چھیڑ دی۔ آج نہ ملاّ عمر زندہ ہیں، نہ اسامہ بن لادن، لیکن نام نہاد امریکی وار آن ٹیرر جاری ہے۔ امریکہ کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، جدید ترین جاسوسی ٹیکنالوجی ہے، فضا سے زمین پر بمباری کرنے کی سہولت ہے، اس سب کے باوجود امریکہ پوری فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجود اپنی کامیابی کا اعلان نہیں کرسکا، اور اپنی خفت مٹانے کے لیے سالِ نو کے آغاز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر بذریعہ ٹوئٹر الزام عائد کیا کہ اس نے گزشتہ 15 برس میں 33 بلین ڈالر سے زائد رقم لی اور اس کے مقابلے میں جھوٹ بولا اور امریکہ کو بے وقوف بنا کر دھوکا دیا۔ امریکی سینیٹ کے سامنے محکمہ خارجہ کے دوسری سطح کے قائد کی جانب سے دی جانے والی دھمکی اُس دبائو کا تسلسل ہے جو پاکستان پر اوّل دن سے جاری ہے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکی دھمکی کی شدت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، لیکن پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کو زیادہ سے زیادہ اخفا میں رکھنے کی کوشش بھی جاری رہتی ہے، اس لیے کہ یہ بات امریکہ کے لیے ڈرائونا خواب بن سکتی ہے کہ ان دھمکیوں کے ردعمل میں کہیں پاکستان کے عوام نہ کھڑے ہوجائیں۔ ایسی ہی سیاسی تبدیلی کو روکنے اور عوام کے سامنے امریکی ایجنٹوں کا پردہ چاک ہونے کے خوف سے بچنے کے لیے دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کے آلۂ کاروں کا گٹھ جوڑ اہلِ پاکستان کے سامنے واضح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ دھمکی کے ساتھ ساتھ اپنے غلام حکمرانوں کو تھپکی بھی دیتا ہے کہ کہیں واقعتا وہ سنجیدگی سے سوچنا نہ شروع کردیں اور سابق صدر ایوب خان کی طرح قوم کو یہ نہ بتادیں کہ ہم تو امریکہ کے دوست بننے کے لیے تیار ہیں، لیکن امریکہ ہمیں غلام سے زیادہ کوئی مقام دینے کو تیار نہیں ہیں۔ امریکہ کے سامنے یہ حقیقت بھی ہے کہ پاکستان نے امریکی مخالفت اور دبائو کے باوجود جوہری صلاحیت حاصل کرلی ہے، اور اس سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول سیاست دان ہوں یا جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحق جیسے فوجی اور سول افسر شاہی کے نمائندے، سب نے پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر قسم کے دبائو کا سامنا کیا اور پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی واحد جوہری طاقت بن چکا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے مجاہدین کی مزاحمت نے عالمی نقشہ تبدیل کردیا ہے، لیکن جنرل (ر) پرویزمشرف جیسے فوجی آمروں نے امریکی ڈکٹیشن کو خوف میں آکر قبول کرلیا، اسی وجہ سے امریکہ کو پاکستان کے داخلی امور میں مداخلت کا موقع ملا۔ آج ہمارے سیاسی بحران اور انتشار کا سبب بھی یہی ہے کہ امریکہ نے کمزور سیاسی قیادتوں کی پشت پر ہاتھ رکھ کر انہیں سیاسی طاقت کے انجکشن دیے جس کی وجہ سے کرپشن کا بازار گرم ہے۔ آج قوم ایسی قیادت سے محروم ہے جس کے پاس تدبر بھی ہو، جو جرأت مند بھی ہو۔ جرأت مندی کا تعلق کردار کی مضبوطی سے ہے۔ ہوسِ دولت کے مارے خائن اور بدعنوان حکمران کسی بڑی طاقت کی مزاحمت نہیں کرسکتے۔ یہی آج ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے۔ اسی لیے امریکہ دھمکی اور تھپکی کے ذریعے افغانستان کی شکست کو فتح میں بدلنے کا جتن کررہا ہے اور اُسے اس سلسلے میں بھارت کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔