مغرب سے مشرق تک پھیلتاہوا اخلاقی انحطاط

مغرب ڈوب رہا ہے لیکن لگتا ہے اُس کے ساتھ ساری دنیا ڈوبنے جارہی ہے۔ بے راہ روی نے مغربی معاشرے کو بے شمار خباثتیں تحفے میں دی ہیں اور اس بے لگام جنسی آزادی کے نتائج اُن کے سامنے ہیں۔ امریکی ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ میں امریکہ میں جنسی تشدد کے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، اس کے مطابق ہر 5 عورتوں میں سے ایک عورت اور ہر 71 مردوں میں سے ایک مرد کو اس کی زندگی میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔91 فیصد عورتیں عصمت دری اور جنسی ہراس سے متاثر ہیں، اور اسی طرح 9 فیصد مرد بھی۔ 8 فیصد جنسی تعلقات ان کے کام کی جگہ پر ہی انجام پاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہر 4 لڑکیوں میں سے ایک، اور ہر 6 میں سے ایک لڑکا، 18 سال کی عمر سے پہلے جنسی ہراس کا شکار ہوچکا ہوتا ہے۔ 34 فیصد افراد کے ساتھ جنسی طور پر اپنے ہی خاندان کے افراد کی طرف سے زیادتی کی گئی ہے۔ 12.3 فیصد عورتیں 10 سال یا اس سے کم عمر میں جنسی ہراس کا شکار ہوتی ہیں، اور 30 فیصد 11 سے 17 سال کے درمیان۔ جبکہ 27.8 فیصد مرد 10 سال یا اس سے کم عمر میں جنسی ہراس کا شکار ہوتے ہیں۔

ایک تہائی سے زیادہ خواتین جو 18 سال کی عمر سے پہلے عصمت دری کا شکار ہوئی ہیں، بڑی عمر میں بھی عصمت دری کا نشانہ بنی ہیں۔ جو افراد بچوں کو جنسی ہراس کا نشانہ بناتے ہیں ان میں 96 فیصد مرد اور 76.8 فیصد بڑی عمر کے افراد ہیں۔ ریسرچ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 325000 بچوں کو ہر سال جنسی ہراس کا خطرہ ہوتا ہے۔ لڑکیوں میں عصمت فروشی کے آغاز کی اوسط عمر 12 سے 14 سال، اور لڑکوں میں 11 سے 13 سال ہے۔5 میں سے ایک عورت اور ہر 16 میں سے ایک مرد یونیورسٹی میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنے ہیں۔ جنسی زیادتی کی 63 فیصد رپورٹ پولیس کو نہیں دی گئی، بلکہ صرف 12 فیصد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی رپورٹ کی جاتی ہے۔ یہ ہے مغرب، یہ ہے اس کا عروج… لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ ہم بہت تیزی کے ساتھ اس مغرب کو اپنا رہے ہیں… اسے اوڑھنا، بچھونا بنارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ بے راہ روی اور انسانیت کی تذلیل اب ہمارے معاشرے میں بھی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ قوموں کی تباہی’’ ٹیکنالوجی‘‘ کی کم صلاحیتوں سے نہیں آتی، بلکہ انہیں اخلاقی انحطاط برباد و تباہ کرتا ہے۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اب ہمارے یہاں بھی وہ چیزیں ہورہی ہیں جن کا معاشرتی بگاڑ کی راہیں ہموار کرنے میں کلیدی کردار ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں سیاسی اور معاشی مسائل موجود ہیں، وہیں بڑھتا ہوا اخلاقی انحطاط ہمارے لیے بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے۔ جنسی اخلاقی جرائم مغربی دنیا کے لیے تو زیادہ تعجب کا باعث نہ تھے، مگر ہمارے معاشرے میں ان مکروہ افعال کی وجہ سے معاشرتی تنزلی عیاں ہوتی جارہی ہے۔ عام آدمی تو کجا، مذہبی ذہن رکھنے والا بھی محفوظ نہیں۔ یہ مغربی تہذیب اور جدیدیت کے اثرات کا شاخسانہ ہے معروف صوفی، ادیب اور فلسفہ جدید پر گہری نظر رکھنے والے دانشور احمد جاوید نے اس حوالے سے کہا تھا کہ ’’جدیدیت ہمارے مذہبی حلیے کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں اندر سے ماڈرنائز کرچکی ہے‘‘۔ احساسِ زیاں کا بھی شعور ختم ہوتا جارہا ہے۔ جدیدیت کی مصنوعی دنیا میں بے لگام ٹیلی ویژن اور اس کے بعد اب آزاد اور کسی اخلاقی ضابطے کی پابندی کے بغیر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا وہ تباہی مچارہے ہیں جس کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر یہی صورت حال رہی تو پاکستان کا مستقبل خطرے میں ہے۔

اس وقت پاکستان کے شہری علاقے ہوں یا دیہی علاقے… بے راہ روی عروج پر ہے۔ زینب کیس تو چاول کا ایک دانہ ہے۔ کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بدترین ظلم و تشدد کے ساتھ ساتھ ان کی ہلاکت کے پے درپے واقعات سامنے آرہے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی واقعہ رپورٹ نہ ہوتا ہو۔ معاصر انگریزی اخبار ڈان کی اردو ویب سائٹ نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق بچوں سے زیادتی کو دنیا بھر میں اہم مسئلہ مانا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سمیت ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ خطوں میں بھی بچے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک کروڑ 50 لاکھ 15سے 19 برس کی لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایشیا میں 10 لاکھ سے زیادہ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں یا زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جسم فروشی ایک ایسا ناسور ہے جو غربت کے شکار علاقوں میں بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ بچوں کا بہت بڑی تعداد میں لاوارث ہونا ہے جنہیں ’’اسٹریٹ چائلڈ ‘‘ کہتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں کے بچے بھی اس ناسور کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ ایک لاکھ 70 ہزار بچے سیکس ٹریڈ میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بچے لاوارث (اسٹریٹ چائلڈ) ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی سیکس ٹریڈ میں ملوث بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بہت سے بچے دوسرے بچوں کے لیے عصمت فروشی کی ترغیب کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔

غیر سرکاری سطح پر کام کرنے والی تنظیم ’ساحل‘ کی ایک تازہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی نے لکھا ہے کہ پاکستان میں سال 2017ء کے پہلے چھے ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 768 واقعات پیش آئے، جن میں سے 68 ضلع قصور سے رپورٹ ہوئے۔ اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ اخباروں سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے پتا چلا کہ جنوری 2017ء سے جون 2017ء کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں پیش آئے۔ ضلع قصور جو 2015ء میں ویڈیو اسکینڈل کی وجہ سے خبروں میں رہا، وہاں 2016ء میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے کُل 141 کیسز میں سے99 جنسی تشدد اور ریپ اور پھر قتل کیے جانے کے تھے۔

ڈان نے ’ساحل‘ کی ہی ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان میں بھی بچے جسم فروشی میں ملوث ہیں، اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جیسے کہ غربت، ان کا لاوارث ہونا، جبری مشقت اور محنت مزدوری وغیرہ۔

چائلڈ پورنو گرافی کی صنعت بھی ہر روز ترقی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ اربوں ڈالر کی پورنو گرافی کی صنعت میں چائلڈ پورنوگرافی کا حصہ 100 ارب ڈالر سالانہ (100 کھرب روپے سے زائد) سے زیادہ لگایا جاتا ہے۔ فحش فلمیں بنانا (پورنوگرافی) امریکہ سمیت کئی ممالک میں قانونی ہے، لیکن چائلڈ پورنو گرافی کی کسی بھی ملک میں اجازت نہیں، اس کے خلاف بھرپور اقدامات بھی بعض اوقات نظر آتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے چائلڈ پورنو گرافی دنیا بھر میں فروغ پا رہی ہے۔کئی ممالک میں انٹرنیٹ پر بچوں کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی کا مواد آزادانہ طور پر موجود ہے، ان میں تمام خطوں کے ممالک شامل ہیں۔ ایک مثال جاپان سے لی جا سکتی ہے، جہاں چائلڈ پورنو گرافی کی ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے 387 سے مقدمات درج ہیں، جبکہ چائلڈ پورنوگرافی پیش کرنے اور بنانے کے حوالے سے 724 مقدمات درج ہیں، اور اس حوالے سے اب تک درج کیے جانے والے مقدمات کی تعداد تقریباً 1142 ہے۔ میکسیکو چائلڈ پورنوگرافی کے حوالے سے دنیا بھر میں بدترین صورت حال کا شکار ہے، جہاں کے اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں۔ چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے ایک بین الاقوامی آپریشن میں 12 ممالک میں پھیلے ہوئے نیٹ ورک کے 60 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ جن ممالک میں اس حوالے سے آپریشن کیا گیا اُن میں میکسیکو، امریکہ، ارجنٹائن، برازیل، چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، اسپین، گوئٹے مالا، پیراگوئے، یوراگوئے اور وینزویلا شامل تھے۔ آسٹریا کے تفتیش کاروں کے مطابق دنیا کے 77 ممالک ایسے ہیں، جہاں انٹرنیٹ سے چائلڈ پورنوگرافی کا مواد ڈائون لوڈ کیا جاتا ہے۔ یہ تفتیش کار یہ بھی سامنے لائے کہ پورنوگرافی کا زیادہ تر مواد مشرقی یورپ میں فلمایا جاتا ہے اور برطانیہ میں ویب پر ڈالا جاتا ہے، جبکہ ویب سائٹس روس کی ہوتی ہیں اور اس کا ہوسٹ آسٹریا، امریکہ یا روس کا کوئی سرور ہوتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ڈائون لوڈ کی کم سے کم قیمت 89 ڈالر ہوتی ہے، 24 گھنٹے کے اندر 8000 سے زیادہ کلک وصول کرنے والی ویڈیوز کو ویب سائٹس 48 گھنٹے کے اندر بند کردیتی ہیں۔ تفتیش کاروں نے اپنی تحقیق میں مزید انکشاف کیا کہ پورنو گرافی کے مواد کا 51 فیصد حصہ امریکہ، جب کہ 20 فیصد روس سے حاصل کیا جاتا ہے۔

چائلڈ پورنوگرافی کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کو ترجیح دی جانے لگی ہے، جس کی ایک وجہ ان ممالک میں درپیش امن و امان کی صورت حال اور سستا ہونا ہے۔ ان میں نیپال، بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان اور پاکستان سمیت کئی ممالک شامل ہیں۔ چائلڈ پورنوگرافی کے نیٹ ورک مبینہ طور پر پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ سرگودھا میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کارروائی کرتے ہوئے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا، جو چند بچوں کو ناروے لے کر جا رہا تھا۔ یہ شخص چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث تھا۔ ڈان اخبار کے مطابق اس شخص کے قبضے سے 65000 وڈیو کلپس اور تصاویر برآمد ہوئی تھیں۔

اس ساری صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ یکم جنوری 2018ء سے 20 جنوری 2018ء تک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے چند واقعات سامنے آ چکے ہیں، جو کے قصور، سانگھڑ، مردان اور ٹنڈو آدم میں ہوئے۔ یہ وہ واقعات تھے جو اخبارات اور سوشل میڈیا کے توسط سے منظرعام پر آئے۔ سانگھڑ میں 5 سال کے بچے کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی، واقعے کے مبینہ ملزمان بھی گرفتار ہوئے۔ دوسرا واقعہ ٹنڈوآدم میں پیش آیا، جہاں ایک بچی کا ریپ ہوا، واقعے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد ایک ملزم اور ملزمہ کو گرفتار کیا گیا۔ تیسرا واقعہ قصور میں 6 سالہ بچی کے ساتھ پیش آیا، جس کوزیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ جب کہ مردان میں بھی بچی زیادتیکے بعد قتل ہوئی۔کسی بھی قسم کی جنسی زیادتی کے حوالے سے بچے مجرموں کا ایک آسان شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال بچوں کے ریپ، اور ریپ کے بعد قتل کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میںزیادتی کا شکار ہونے والے زیادہ تر بچوں کی عمر اوسطاً 5 سے 11 سال ہوتی ہے۔

2017ء کے یہ اعداد و شمار غیر سرکاری تنظیم ساحل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے حاصل کیے گئے ہیں، تاہم یہ معلوم رپورٹوں پر مشتمل ہیں، یہ مکمل نہیں ہیں، اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ سال 2017ء کے مکمل اعداد و شمار ابھی میسر نہیں، ان پر کام جاری ہے، معلوم اعداد و شمار کے مطابق 1441 بچوں کا ریپ کیا گیا، 15 واقعات ایسے تھے جن میں ریپ کو باقاعدہ فلمایا بھی گیا، زیادتی کے بعد 31 فیصد بچوں کو قتل کردیا گیا۔ 66 فیصد واقعات دیہی، جبکہ 34 فیصد شہری علاقوں میں پیش آئے۔

بچوں سے زیادتی کے مقدمات میں 3215 افراد کو نامزد کیا گیا، یا وہ اس میں کسی نہ کسی حوالے سے ملوث پائے گئے۔ ان افراد میں ایک بڑی تعداد بچوں کے جاننے والوں پر مشتمل تھی۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء میں بچوں کے ساتھ مجموعی طور پر زیادتی اور تشدد کے 4139 واقعات ہوئے، جن میں بچوں کے اغوا کے بعد زیادتی کے واقعات بھی شامل ہیں، جب کے 100 بچے زیادتی کے بعد قتل بھی کیے گئے۔2016ء میں خیبر پختون خوا کے ضلع سوات میں ایک گروہ پکڑا گیا، جو بچوں کو اغوا کرنے کے بعد اُن کو مختلف لوگوں کے ساتھ جنسی افعال پر مجبور کرتا تھا، جب کہ پنجاب کے شہر کوٹ ادو میں بھی ایسا ہی ایک گروہ پکڑا گیا، جو کہ بچوں کو اغوا کرکے اُن کی زیادتی کی ویڈیوز بناتا تھا۔ لاہور اور سرگودھا میں بھی ایسے ہی کچھ عناصر سیکورٹی اداروں کی گرفت میں آئے، جن سے 26 بچوں کو بازیاب بھی کیا گیا۔ سندھ میں بدین سے 2 افراد کو گرفتار کیا گیا، جو 11 سے 15 سال کی لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کے زیادتی کی ویڈیوز بناتے تھے اور اس کے بعد انہیں قتل کرکے دفنا دیتے تھے۔

صرف سال 2016ء میں 6759 افراد بچوں سے زیادتی میں ملوث پائے گئے۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ گزشتہ 10 برس کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو کئی حقائق سامنے آتے ہیں۔

2008ء سے 2017ء تک بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کچھ مخصوص شہروں میں ہی اس قسم کے واقعات ہورہے ہیں۔

2008ء سے2017ء تک کے اعداد و شمار سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ تقریباً 1100 خواتین بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث رہیں یا سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ پنجاب مسلسل گزشتہ 15 سال سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں سب سے آگے ہے، اس کے بعد سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کا نمبر ہے، چاروں صوبوں کے مختلف بڑے شہروں میں ہر سال اوسطاً 15 سے 50 بچوں کا کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں سب سے زیادہ بچوں کے اغوا کی وارداتیں ہوتی ہیں۔

گزشتہ برس سوشل میڈیا پر بہت شور تھا کہ پاکستان کے شہری فحش سائٹس دیکھنے میں سب سے آگے ہیں۔ تحقیق کے اُصول کے مطابق اس خبر پر یقین نہیں کیا جا سکتا تھا، اس کی بنیادی وجہ خبر کی کہیں سے بھی کسی بھی قسم کی تردید یا تصدیق کا نہ ہونا تھا۔ دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ جس بلاگ یا ویب سائٹ کو بنیاد بناکر خبر شائع کی گئی، وہ غیرمعروف اور غیر مستند تھی۔

اس سائٹ کے مقابلے میں بھارت کے خبر رساں ادارے انڈین ٹائمز یا برطانوی اخبار دی انڈی پینڈنٹ پر شائع کی گئی فہرست کے مطابق پاکستان پہلے 20 ممالک میں شامل ہی نہیں تھا، یہ تحقیق دنیا کی فحش مواد کی 3 بڑی ویب سائٹس کی واچ لسٹ کے مطابق شائع کی گئی تھی، ان ہی ویب سائٹس کا ڈیٹا باقی پورن ویب سائٹس بھی استعمال کرتی ہیں۔ گزشتہ سال کے ساتھ ساتھ 2016ء میں بھی فراہم کی جانے والی فہرست کے مطابق پاکستان پہلے 20 ممالک میں شامل نہیں تھا۔

بچوں سے زیادتی کرنے والوں کی نفسیات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ امریکہ کی دی نیویارک سوسائٹی فارچائلڈ ابیوز کی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر ہیلتھ اینڈ مینٹل ہائی جین ڈاکٹر میری ایل کہتی ہیں کہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کی نفسیات کو حتمی طور پر بیان کرنا مشکل ہے، ایک جنسی حملہ آور کسی بھی وجہ سے متحرک ہوسکتا ہے، اس کی بایولوجیکل وجوہات بھی ہوتی ہے، حملہ آور کی نفسیات منتشر ہوتی ہے، اسے بچوں کے چہرے متوجہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر میری ایل مزید بتاتی ہیں کہ جنسی حملے کا شکار بھی کسی دوسرے بچے کو شکار بنا سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پورن ویڈیوز دیکھنا بھی اس جانب متوجہ کرسکتا ہے۔ وہ دیگر وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ نشے کا شکار افراد، معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ انتقاماً اس چیز میں ملوث ہوسکتے ہیں، لیکن ان سب چیزوں کے باوجود آپ کسی ایک بھی وجہ کو اہم یا بنیادی وجہ نہیں کہہ سکتے۔ چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث افراد بھی بچوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں، عمومی طور پر یہ لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور بچے کے کسی واقف کار کو اُکسا کر اس کام پر لگا دیتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ مغرب کے اس تحفے سے بچنے کا علاج کیا ہے؟ جنسی تعلیم کو اس مسئلے کا حل قرار دیا جارہا ہے۔ یہ علاج ہے یا جرائم کے اصل سبب سے فرار کا راستہ؟کیونکہ امریکہ سمیت مغرب میں جہاں جنسی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں کی خوفناک صورت حال اعدادوشمار کے آئینے میں ہمارے سامنے ہے۔ جہاں یہ تعلیم ہے، وہاں بچوںکا زیادہ استحصال ہے۔ اس سلسلے میں جہاں معاشرے اور سماج کو اپنا کردار ادا کرنا ہے وہیں سب سے بڑی ذمہ داری ریاست کی بنتی ہے۔ ریاست کی ناک کے نیچے گھنائونے جرائم ہورہے ہیں، بین الاقوامی جرائم پیشہ افراد پاکستان میں کھل کھیل رہے ہیں، ہمارے بچے اُن کے نشانے پر ہیں، اس کی روک تھام کے لیے جہاں مجرموں پر ہاتھ ڈالنا اور انہیں سزا دلوانا ضروری ہے وہیں بے لگام میڈیا پر ہاتھ ڈالنا اور فحش جنسی مواد کی روک تھام کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

nn