1990ء کا سال، جنوری کے مہینے کی 9 تاریخ تھی، جب مجاہد صفت امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے اعلان کیا کہ آئندہ ماہ یعنی فروری کی 5 تاریخ کو پاکستان بھر میں ’’یوم یکجہتئ کشمیر‘‘ منایا جائے گا۔ اس روز ملک کے طول و عرض میں اپنے کشمیری بھائیوں کی جدوجہدِ آزادی کی حمایت میں عام ہڑتال کی جائے گی اور پوری قوم گلیوں اور بازاروں، سڑکوں اور میدانوں میں نکل کر تحریک آزادی میں کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کے عزم کی تجدید کرے گی۔
امیر جماعت اسلامی نے اس دن کو پُرجوش اور بھرپور انداز میں منانے کے لیے قوم کے تمام طبقات سے سیاسی و سماجی، طبقاتی و علاقائی، لسانی و صوبائی اور فرقہ وارانہ۔۔۔ ہر طرح کے اختلافات فراموش کرکے میدانِ عمل میں نکلنے کی اپیل کی تھی۔ یہ اس مردِ مجاہد کا اخلاص اور یقین تھا کہ پوری قوم واقعی تمام تر گروہی و مسلکی اور سیاسی و علاقائی اختلافات بھلا کر اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت میں متحد و یک جان ہوگئی۔ پنجاب میں اُن دنوں اسلامی جمہوری اتحاد کے نمائندہ میاں نوازشریف وزیراعلیٰ تھے، انہوں نے قاضی صاحب کی اپیل پر فوری طور پر مثبت ردعمل دیا اور صوبے بھر میں یہ دن منانے کا اعلان کردیا۔ وفاق میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، اگرچہ اُن دنوں پیپلزپارٹی اور اسلامی جمہوری اتحاد کے مابین شدید سیاسی محاذ آرائی جاری تھی مگر کشمیر جیسے قومی اہمیت کے مسئلے پر خاموشی یا سردمہری اختیار کرنا اُن کے لیے بھی ممکن نہ تھا، وفاقی حکومت نے بھی 5 فروری کے قاضی حسین احمد کے اعلان کردہ ’’یومِ یکجہتئ کشمیر‘‘ میں بھرپور شرکت کا اعلان کردیا اور اس مقصد کے لیے پورے ملک میں عام تعطیل کا اعلان بھی بے نظیر بھٹو حکومت کی طرف سے کیا گیا۔ اس کے بعد سے ربع صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، مجاہدِ ملت قاضی حسین احمد کا اعلان کردہ ’’یومِ یکجہتئ کشمیر‘‘ پوری قوم پورے جوش و خروش سے ہر سال مناتی ہے۔
قومی روایت کے مطابق اِس سال بھی ملک بھر میں پانچ فروری کو پوری پاکستانی قوم نے اپنے کشمیری بھائیوں کی تحریکِ آزادی سے ہر ہر طریقے سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر آب پارہ چوک اسلام آباد میں بھی پورے پاکستان اور کشمیر کی طرح یکجہتی کشمیر ریلی نکالی گئی ریلیکے شرکاء سے امیر جماعت اسلامی پاکستان اور کشمیری رہنماؤں نے خطاب کیا جس میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد بھی ہاتھوں میں بھارتی مظالم کے خلاف پلے کارڈ اور بینر اٹھائے ریلی میں شریک تھی، ریلی میں مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدارہے، کشمیربنے گا پاکستان ،ٹرمپ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے اور الجہاد الجہاد کے نعرے لگائے گئے۔ سینیٹر سراج الحق نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 8لاکھ سے زائدبھارتی فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کا بازار گرم کررکھا ہے۔ پاکستان کی شہ رگ پر دشمن کا قبضہ ہے ہم نے اس دشمن کا مقابلہ بھی کرنا اور پاکستان کو بھی ظالموں سے آزاد کرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے گلی کوچوں میں سبزہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں کشمیریوں کوکسی بھارتی ظلم وجبر کی پرواہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر سے آنے والے دریاؤں کے پانی سے پنجاب کے جو کھیت زرخیز ہوتے ہیں اس پانی میں کشمیریوں کا لہو شامل ہوتا ہے ہم نے کشمیر سے آنے والے ان پانیوں سے ماؤں بہنوں کی لاشیں دوپٹے چادریں اٹھائی ہیں اور اگر ہم نے جدوجہد آزادی کشمیر سے غداری کی تو حکمرانوں کے گریبان ہوں گے اور کشمیریوں کے ہاتھ۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ میں سب سیاستدانوں سے کہتا ہوں آئیں آپس کی لڑائیاں کشمیر کی خاطر چھوڑ دیں ہمیشہ اقتدار کے لیے لڑتے رہے اور پاکستان کے لیے خون بہانے والے کشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں 12 ہزار خواتین کی عصمت دری کے واقعات ہوچکے ہیں ہر دن مائیں بہنیں نوجوانوں کی میتیں اٹھا کر سرینگر میں سینہ کوبی اور بین کرتی ہیں یہ مائیں بہنیں اہلیان پاکستان کی طرف سے دیکھ رہی ہیں۔ کوہ ہمالیہ تو پگھل سکتا ہے گر سکتا ہے مگر کشمیریوں کا جذبہ آزادی کمزور نہیں پڑ سکتا۔ چالیس دن تک سرینگر میں کرفیو پر کشمیری بھوکے پیاسے تو رہے مگر بھارتی فوج کی طرف سے اپنے گھروں میں بسکٹ اور چاول کے پھینکے گئے ڈبوں کو واپس بھارتی فوج کے منہ پر دے مارا اور اعلان کیا کہ بھوک قبول ہے بھارتی غلامی قبول نہیں ہے۔ سید علی گیلانی شبیر شاہ ،یاسین ملک ، میر واعظ عمر فاروق ، سید صلاح الدین اور غلام محمد صفی جیسے حریت پسند پاکستانی قوم کے ہیرو ہیں، واضح کردینا چاہتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی قوم کوئی سمجھوتہ کرنے دے گی نہ کشمیریوں کی مرضی کے بغیر کوئی مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج کشمیریوں کا قتل عام کررہی ہے۔ دوسری طرف مودی کو وزیراعظم دعوت پر بلاتے ہیں تحائف دیے جاتے ہیں۔ تجارت اور دوستی کی بات کی جاتی ہے جوکہ اہل کشمیر کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، حکمرانوں کے ایسے رویوں پر شرمندگی ہے بار بار ان رویوں کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے بغیر بھارت کے ساتھ مذاکرات دوستی اور تجارت نہیں ہوسکتی بار بار ایسی دوستی اور تجارت کو مسترد کرتے ہیں ، پرویز مشرف نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کیا بھارت کے ساتھ ساز باز کی خود پرویز مشرف دور کے وزیر خارجہ نے اس ساز باز کا انکشاف کیا ہے اور کہا ہے کہ سید علی گیلانی کی وجہ سے یہ پلان ناکام ہوا ،ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان بھی مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کا اعلان کرے۔ 4 سال تک پاکستان کا وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچا ہے۔ خصوصی نائب وزیر خارجہ برائے کشمیر مقرر کیا جائے کشمیری رہنماؤں کے بیرونی دوروں کا انتظام کیا جائے۔ مستقل ریاستی کشمیر پالیسی وضع کی جائے۔ اقوام متحدہ 33بار حق خود ارادیت کا وعدہ کرچکی ہے مگر کشمیریوں کے استصواب رائے پر گونگی بہری اور آندھی ہے اور مسئلہ کشمیر پر ہمارے وکیل بھی کمزور آندھے گونگے اور بہرے ہیں جب تک قوم سڑکوں پر نہیں آئے گی حکمرانوں کو ترجمانی کی توفیق نہیں ملے گی۔ نوازشریف خود کو کشمیری پتر کہتا ہے مگر آج تک نوازشریف کے منہ سے کشمیر کا ذکر نہیں سنا۔ نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمد اسلم ،سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر سردار اعجاز افضل نے بھی یکجہتی کشمیر ریلی سے خطاب کیا۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے شہر اور صوبائی دارالحکومت لاہور میں بھی اس موقع پر زندہ دلانِ لاہور کا جوش و خروش حسبِ سابق دیدنی تھا۔ صوبے کے عوام کی نمائندہ اسمبلی کا خصوصی اجلاس اس موقع پر منعقد ہوا جس میں ایجنڈ ے پر کشمیری بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی اور بھارتی فوج کے ظلم و ستم کی مذمت کے سوا کچھ نہ تھا۔ چنانچہ تمام جماعتوں کے ارکان نے اپنے روایتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مکمل اتفاق اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے مثال جدوجہدِ آزادی پر کشمیری بھائیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے اسے رکوانے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا۔ اجلاس میں سو فیصد اتفاقِ رائے سے کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کی حمایت میں قرارداد منظور کی گئی۔
صوبائی دارالحکومت کی چھوٹی بڑی تمام دینی و سیاسی، سماجی و طبقاتی تنظیموں نے اپنی قومی ذمہ داری سمجھ کر اس دن کو منانے کا اہتمام کیا، چنانچہ پورا شہر صبح سے شام تک جہادِ آزادئ کشمیر کے حوالے سے جلسوں، جلوسوں، ریلیوں، سیمیناروں، ہاتھوں کی زنجیروں، اور مختلف النوع سرگرمیوں کا مرکز بنارہا۔ پیپلز پارٹی نے بھی اِس دفعہ اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے پانچ فروری کے موقع کو مناسب سمجھا تھا، چنانچہ لاہور کی قدیم جلسہ گاہ موچی دروازہ میں یکجہتئ کشمیر جلسے کا اہتمام کیا گیا، جس میں سابق صدر آصف علی زرداری نے خود بھی شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے نوجوان کو سمجھانا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ کیوں ہے۔۔۔ ہم کشمیر کے لیے جدوجہد کریں گے۔۔۔ بہت سے لوگ کشمیری بھائیوں سے فرق نہیں کرنا چاہتے، مگر پیپلز پارٹی اور پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ وفا کریں گے۔
حکمران مسلم لیگ (ن) نے اس موقع پر الحمرا ہال سے فیصل چوک تک ریلی نکالی جس کی قیادت وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کی۔ ریلی کے اختتام پر اپنے خطاب میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اگر بھارت اور عالمی برادری چاہتی ہے کہ خطے میں امن ہو تو پھر مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہوگا۔
’’یومِ یکجہتئ کشمیر‘‘کے سلسلے میں جماعت اسلامی لاہور کے زیراہتمام ہر سال کی طرح امسال بھی شاہراہِ قائداعظم پر بہت بڑے ’’کشمیر مارچ‘‘ کا اہتمام کیا گیا تھا جو اسٹیٹ بینک چوک سے شروع ہوکر فیصل چوک پر اختتام پذیر ہوا۔
کشمیر مارچ میں تمام مکاتبِ فکر کے افراد، مزدور، طلبہ، کسان، ڈاکٹرز، انجینئرز اور وکلا سمیت مردوخواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کشمیر مارچ کی قیادت سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ، امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اللہ مجاہد، مرکزی صدر جمعیت اہلحدیث ابتسام الٰہی ظہیر، مرکزی نائب صدر اسلامی تحریک پاکستان حافظ کاظم رضا نقوی، مرکزی رہنما جمعیت علماء پاکستان قاری زوار بہادر، مرکزی سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان امیرالعظیم، جماعت اسلامی کے پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اختر، سیکرٹری جنرل کسان بورڈ ارسلان خان خاکوانی، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لاہور انجینئر اخلاق احمد، نائب امراء جماعت اسلامی لاہور ملک شاہد اسلم، ضیاء الدین انصاری، انجینئر خالد عثمان، جے آئی یوتھ لاہورکے صدر شاہد نوید ملک، صدر الخدمت فاؤنڈیشن لاہور عبدالعزیز عابد، سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی لاہور اے ڈی کاشف، سیکرٹری سیاسی کمیٹی لاہور چودھری محمودالاحد، چودھری منظور حسین گجر، وقار ندیم وڑائچ، لاہور کے سیاسی زعماء ذوالفقار بھٹی، عابد میر بٹ، احسن شاہد، احسان چودھری،عبدالقیوم چودھری و دیگر مذہبی اور سیاسی قائدین نے کی۔ کشمیر مارچ میں حلقہ خواتین جماعت اسلامی لاہور کی رہنما بیگم قاضی حسین احمد، سابق ایم این اے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، عافیہ سرور، ربیعہ طارق، زرافشاں فرحین و دیگر خواتین قائدین نے بھی شرکت کی۔
مارچ کے اختتام پر خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا کہ جماعت اسلامی کشمیر کے مسلمانوں کی ہمیشہ پشتی بان رہی ہے، ہم قاضی حسین احمد کے اس مشن کو آگے بڑھاتے رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور حقِ خودارادیت کی تحریک کا مقصد پاکستان کی تکمیل اور بقاء ہے۔ ہمارے کشمیری بھائی اس تحریک کے دوران اب تک ایک لاکھ سے زائد شہدا کے مقدس لہو کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں جن میں مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے شامل ہیں۔ 1947ء میں بھارت نے انگریزوں سے مل کر کشمیریوں کے خلاف سازش کی۔ بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کررہا ہے جس کی جماعت اسلامی سمیت پوری پاکستانی قوم مذمت کرتی ہے۔ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیری قوم کی رائے معلوم کرنے کے لیے نمائندہ مقرر کرے۔ بھارت 70سال سے کشمیریوں پر ظلم و ستم کی انتہا کیے ہوئے ہے۔ بھارت غرور اور طاقت کے نشے میں اس خطے کو ایٹمی جنگ کی طرف لے جا رہا ہے، اور اس کا یہ غرور اور تکبر اسے لے ڈوبے گا۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اللہ مجاہد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی قیادت حقائق کو سمجھے اور کشمیریوں کو آزادی کا حق دے۔ موجودہ حکمران کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے پوری قوم کے جذبات کے برعکس بھارت سرکار کے ساتھ دوستی کرکے کشمیریوں کے خون کے ساتھ غداری کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تک تحریکِ آزادئ کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں کشمیری زخمی اور اپاہج ہوچکے ہیں، ہر گھر سے جنازے نکل رہے ہیں، عورتوں کی عصمت دری کے دردناک واقعات وادی کشمیر میں معمول بن چکے ہیں۔ بھارتی دہشت گردی اور ظلم و سفاکی کے نتیجے میں پورا کشمیر آگ و خون کی لپیٹ میں ہے کشمیر میں ہونے والے مظالم کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جمہوریت اور امن کے دعویدار بھارت کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوچکا ہے۔ کشمیریوں کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔ پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے، اُس کے ساتھ تجارت کرنا اور دوستی کرنا کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے لیکن کشمیریوں کے خون کے بدلے دوستی اور آلو پیاز کی تجارت مسترد کرتے ہیں۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم ’دفاعِ پاکستان کونسل‘ کے زیراہتمام بھی ایک زوردار کشمیر کانفرنس شاہراہِ قائداعظم کے استنبول چوک میں منعقد کی گئی، جس سے امیر جماعۃ الدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید، لیاقت بلوچ، سیدہ آسیہ اندرابی (ٹیلی فونک)، محمد علی درانی، پیر سید ہارون علی گیلانی، مولانا فضل الرحمن خلیل، کشمیری لیڈر جنرل عبداللہ، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، سیف اللہ خالد، یعقوب شیخ، حافظ عبدالوہاب روپڑی، ایوب خان میو، شمشاد احمد سلفی، مولانا فہیم الحسن تھانوی، ندیم مسیح، شیخ نعیم بادشاہ، ظہیر الدین بابر، رضیت بااللہ، حافظ مدثر مصطفی، ابوالہاشم ربانی، مولانا ادریس فاروقی، حافظ مسعود جانباز، حافظ ابتسام الحسن، طلحہ جرار و دیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد موجود تھے۔ کانفرنس کے دوران ’’کشمیریوں سے رشتہ کیا۔۔۔ لاالٰہ الااللہ‘‘ اور ’’سید علی گیلانی، حافظ سعید قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے جاتے رہے۔