پشاور میں طویل عرصے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ ایسے وقت میں کیا ہے جب ایک جانب میاں محمد نوازشریف کی وزارتِ عظمیٰ سے نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن)کو سخت نامساعد حالات کا سامنا ہے، تو دوسری جانب سینیٹ کے انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے، اور جس کے متعلق اب تک چہار سو یہ افواہیں گرم تھیں کہ یہ انتخابات نہیں ہوسکیں گے، تیسری طرف مسلم لیگ (ن) نے خیبر پختون خوا اور بالخصوص پشاور میں اپنے وجود کا احساس ایسے موقع پر دلایا ہے جب عام انتخابات کے انعقاد میں صرف پانچ ماہ رہ گئے ہیں۔ ان تمام مناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو کم از کم مسلم لیگ (ن) اپنے نقطہ نظر سے پشاور میں ایک بڑا سیاسی شو کرنے میں ایسے وقت میں کامیاب ہوئی ہے جب سوائے ہزارہ کے باقی سارے صوبے سے صوبائی اور قومی اسمبلی میں اُس کی کوئی خاص نمائندگی نہیں ہے، اور نہ ہی پچھلے ساڑھے چار سالہ عرصۂ اقتدار میں مسلم لیگ (ن) پشاور سمیت پورے صوبے میں کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔ اسی طرح رائے عامہ کے عوامی جائزوں کے مطابق بھی چونکہ پی ٹی آئی تاحال صوبے میں اپنی مقبولیت کا گراف تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ برقرار رکھے ہوئے ہے، لہٰذا ان تمام اسباب کی موجودگی میں مسلم لیگ (ن) کے لیے پشاور میں ایک بڑا جلسہ کرنا اس لیے بھی ایک بڑا چیلنج تھا کہ اس سے قبل نہ صرف پی ٹی آئی وقتاً فوقتاً صوبے میں اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے بلکہ ایک ہفتہ قبل پشاور میں اے این پی بھی اپنی سیاسی قوت کا اچھا خاصا مظاہرہ کرچکی ہے، اور سب سے بڑھ کر NA-4 کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی واضح فتح اور اے این پی کی دوسری پوزیشن کے بعد مسلم لیگ (ن) کا شکست کے بعد ایک بڑے جلسے کا چیلنج ایسے وقت میں قبول کرنا جب پشاور سے اس کے اکلوتے رکن صوبائی اسمبلی اکبر حیات بھی پارٹی سے عملاً نہ صرف لاتعلق ہوچکے ہیں بلکہ اطلاعات کے مطابق وہ عنقریب پی ٹی آئی میں اسی طرح شمولیت اختیار کرنے والے ہیں جس طرح پی ٹی آئی حال ہی میں جمعیت العلماء اسلام (ف) کے چارسدہ سے رکن صوبائی اسمبلی فضل شکور خان، اور اُن سے پہلے چارسدہ ہی سے قومی وطن پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سلطان محمد خان کو اپنی صفوں میں شامل کرچکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کامیاب سیاسی شو کے متعلق یہ بات بلاشک و شبہ کہی جاسکتی ہے کہ اس کے پیچھے اصل دوڑ دھوپ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر امیر مقام کی تھی، جن کے لیے اس شو کی کامیابی سیاسی لحاظ سے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا، کیونکہ سیاسی قوت کا یہی وہ مظاہرہ تھا جس کی بنیاد پر امیرمقام کو خیبر پختون خوا میں شریف خاندان کو اپنی اہمیت اور اہلیت کا یقین دلانا تھا۔ اس موقع پر یہ بات بلاجھجھک کہی جاسکتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس وقت بھی ہزارہ کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت ہے اور میاں نوازشریف آج بھی ہزارہ میں اتنے ہی مقبول ہیں جتنے وہ پنجاب میں ہیں۔
لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی کی طرح آج کل بھی مسلم لیگ (ن) خیبر پختون خوا میں ہزارہ کے سوا کہیں بھی کسی بڑے بریک تھرو کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ اس ضمن میں جہاں تک پشاور کا تعلق ہے یہاں تو ویسے بھی اس کی جڑیں اور سیاسی اثر رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی واضح تصدیق جہاں ماضی کے انتخابی نتائج سے ہوتی ہے وہیں تنظیمی لحاظ سے بھی پشاور مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ کبھی بھی نہیں رہا ہے۔ حالیہ جلسے میں ہزارہ سے مسلم لیگ (ن) کے دو اہم سابق صوبائی صدور اور سابق وزراء اعلیٰ پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب احمد خان عباسی کی غیر حاضری نے بھی جہاں مسلم لیگ (ن) میں صوبائی قیادت کی سطح پر پائے جانے والے اختلاف پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے وہیں ان دو پرانے مسلم لیگی راہنمائوں اور میاں نوازشریف کے وفادار ساتھیوں کی صوبائی دارالحکومت میں پارٹی قائد کے اعزاز میں ہونے والے جلسے میں عدم شرکت سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پرانے مخلص اور دیرینہ راہنمائوں نے امیر مقام کی قیادت کو تاحال دل سے تسلیم نہیں کیا ہے، اور اس نازک موقع پر جب مسلم لیگ (ن) کو اپنی بقاء کے لیے تنکا تنکا جوڑنے اور تمام اختلافات ختم کرنے کی ضرورت ہے، اس کی صفوں میں اب بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح پشاور سے اکلوتے رکن صوبائی اسمبلی اکبر حیات کے حلقے کے سنگم پر ہونے والے جلسے میں اس رکن کی غیر حاضری جسے اگر پارٹی سے کھلم کھلا بغاوت کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا، سے بھی یہ بات ایک بار پھر عیاں ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) تمام تر دعووں کے باوجود اب تک حقیقی معنوں میں ایک منظم نظریاتی سیاسی جماعت نہیں بن سکی ہے، جس کی ایک اور بڑی مثال جہاں بلوچستان میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہونے کے باوجو د اس کی صفوں میں راتوں رات ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں بے آبرو ہوکر اقتدار سے محرومی ہے وہیں پارٹی سے بغاوت کرنے والے ارکانِ اسمبلی کا اگلے ماہ ہونے والے سینیٹ انتخابات کے موقع پر ایک بار پھر پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے امیدواران کے بجائے مخالف امیدواران کو کامیاب کرانے کے خدشات کا سامنے آنا ہے۔ ان امکانات کے تناظر میں میاں نوازشریف سے جو ووٹ کے تقدس کی بحالی کی تحریک کے علَم بردار بن کر قوم کے سامنے آئے ہیں، بجاطور پر یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ انھوں نے تین مرتبہ وزیراعظم بن کر عدلیہ سمیت ریاستی نظام کی جو اصلاح کرنی تھی وہ تو وہ کرچکے ہیں، اب اگر وہ آمدہ سخت اور نامساعد حالات کی پیش بینی کرتے ہوئے تھوڑی سی توجہ پارٹی معاملات پر بھی دے دیں تو شاید اس سے پارٹی کے ساتھ ساتھ ان کا بھی کچھ بھلا ہوجائے گا، اور اگر کبھی انہیں چوتھی بار بھی اقتدار سے غیرآئینی طور پر ہٹانے کی کوشش کی گئی تو وہ بے بسی کی تصویر بننے اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان سے خود کو یقینا محفوظ رکھ سکیں گے، بصورتِ دیگر ان کے ساتھ یہ کھلواڑ اسی طرح ہوتا رہے گا جس طرح اب تک ہوتا آیا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ق) کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور جنرل پرویزمشرف حکومت کے کرتا دھر تا اور چودھری برادران کے دستِ راست اور ان کی سیاست کے ایک اہم کردار مشاہد حسین سید کو عین سینیٹ انتخابات کے موقع پر پارٹی صفوں میں نہ صرف شامل کرنا، بلکہ پارٹی کے ساتھ ہمیشہ ہر مشکل وقت میں مخلص رہنے والوں اور ہر طرح کی قربانیاں دینے والوںکے برعکس انہیں سینیٹ کے ٹکٹ کی یقین دہانی کرانے سے بھی پارٹی کے مخلص اور وفادار کارکنان اور راہنمائوں کو یقینا کوئی اچھا پیغام نہیں دیا گیا ہے۔ شاید یہی وہ عوامل ہیں جن کے باعث اگر ایک جانب مسلم لیگ(ن) آج تک معروف معنوں میں منظم سیاسی جماعت نہیں بن سکی ہے تو دوسری جانب ہماری سیاسی قیادتوں اور سیاسی جماعتوں کا یہی وہ داغ دار کردار اور کمزور سیاسی پہلو ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں نہ تو سیاسی جماعتیں پوری طرح پنپ سکی ہیں اور نہ ہی ہمارے سیاسی جمہوری اداروں کو وہ استحکام اور دوام نصیب ہوسکا ہے جو منظم جمہوری معاشروں کا لازمی اور ضروری خاصہ ہوتا ہے۔