افراتفری پر مبنی سیاست سے عوام کو کیا ملے گا؟

بروزجمعرات 25 جنوری 2018ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ’’کاوش،، حیدرآباد کے ادارتی صفحہ پر معروف کالم نگار جاوید لانگاہ کے زیرنظر شائع ہونے والے کالم کے مندرجات سے اختلاف کے باوجود اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے تاکہ سندھ کے ایک مؤثر حلقہ کی سوچ اور فکر سے آگہی ممکن ہوسکے

جس طرح ایک فرد کی ناسازیٔ طبع یا صحت یابی کی نشانیاں اور علامات ہوا کرتی ہیں، بعینہٖ اداروں، ملکوں اور ریاستوں کی مجموعی صحت کو سمجھنے اور پرکھنے کی بھی واضح نشانیاں اور اشارے موجود ہوتے ہیں، جنہیں دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیرتذکرہ ادارہ یا ریاست کتنے پانی میں ہے؟ جس وفاقی ریاست کے ہم سب باشندے ہیں، اس کے سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچے کی جانچ پڑتال کے لیے کسی بھی ماہر طبیب کی تشخیص کی ضرورت نہیں ہے، جو گہری سوچ بچار کے بعدآہِ سرد بھرتے ہوئے یہ بتلاتا ہو کہ مرض پرانا اور سارے جسم میں پھیل چکا ہے۔

ہمارے ہم عصر دور میں جاری ملک کی سیاسی، معاشی اور سماجی افراتفری اور مکمل بحران اس امر کا واضح غماز ہے کہ اس ملک کے سات عشروں پر محیط پرانے سوالات اور مسائل آج بھی روزِ اوّل کی طرح اسی طرح سے موجود اور حل طلب ہیں جس طرح اوائل میں سامنے آئے تھے، اور اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امراضِ کہنہ کی صورت اختیار کرکے سارے ریاستی وجود کو مبتلائے آزار کرچکے ہیں۔ گزشتہ کچھ ایام میں پرانے پاکستان (جب بنگلہ دیش نہیں بنا تھا) کی دو بڑی شخصیات سائیں جی ایم سید اور مجیب الرحمن کا سوشل میڈیا پر بہت زیادہ ذکر ہوتا رہا ہے۔ جی ایم سید کو سالگرہ کے حوالے سے سوشل میڈیا نے یاد کیا جبکہ دوسری جانب پرانے پاکستان کی دوسری سب سے بڑی سیاسی شخصیت مجیب الرحمن کے ذکر کو کسی اور نے نہیں بلکہ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کی مقبول شخصیت اور لیڈر نوازشریف نے زندہ کیا۔ یہ ایک عجیب طرفہ تماشا ہے کہ پاکستان کی 1970ء کی دہائی کے بعد کی تاریخ میں سندھ، بلوچستان اور موجودہ کے پی کے مجیب الرحمن کو بنگالیوں کا ہیرو اور مظلوم اقوام کے لیے جدوجہد کا ایک استعارہ قرار دیتے رہے جبکہ پنجاب کے عوام اور سیاست دان مجیب کو ’’غدارِ اعظم‘‘ اور ملک توڑنے والا گردانتے رہے (پنجاب کے ماسوا دیگر تین صوبوں کی جانب سے مجیب الرحمن کو بنگالیوں کا ہیرو اور جدوجہد کا استعارہ قرار دیا جانا کالم نگار کی مبالغہ آرائی ہے۔ یہ رائے محض ایک مخصوص طبقے کی ہی ہوسکتی ہے، اکثریت کسی طور بھی اس سوچ و فکر کی حامل نہیں ہے… مترجم)۔ آج تاریخ عجیب موڑ پر کھڑی ہوئی ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے ہاتھوں نااہلی کا زخم کھانے کے بعد پنجاب کا برسرِپیکار عوامی رہنما (مراد ہے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف) اسی ’’غدارِاعظم‘‘ مجیب کی مثال دے کر اپنی مظلومیت کو اپنی تقاریر میں استعمال کرتے ہوئے ریاستی طاقتور اداروں سے مخاطب ہے۔ سائیں جی ایم سید اور مجیب الرحمن ملکی تاریخ کے دو ایسے رہنما گزرے ہیں جو ملک کی مروج سیاسی ڈکشنری میں ’’غدار‘‘ کے خطاب سے نوازے گئے ہیں۔ دونوں جانب سے اپنی عقل اور سیاسی تجربے کی بنیاد پر اس ملک کو ایک کثیرالقومی ریاست کے طور پر مساوات اور جمہوری بنیادوں پر چلانے کی کوشش کی گئیں۔ دونوں رہنمائوں کی کئی باتوں سے اختلافِ رائے کیا جاسکتا ہے لیکن اس ریاست کے بنیادی تضادات اور ان کے حل کی جو بات وہ کرتے رہے، تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ مذکورہ بنیادی تضادات حل نہ ہونے کی وجہ سے ہماری ریاست سات دہائیوں پیشتر جن روگوں میں مبتلا تھی، آج جی ایم سید اور مجیب الرحمن تو نہیں رہے لیکن اس ملک کے ان بنیادی مسائل نے اب ایک دلدل کی سی صورت اختیارکرلی ہے۔

ملک کے ساتھ کیے جانے والے ناکام سیاسی تجربات اور تضادات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے غیر فطری اور غیر مقبول پالیسیوں کی تشکیل کے باعث ایک ایسی ناامیدی اور مایوسی نے جنم لیا ہے جس سے ایک مستقل افراتفری کا ماحول پیدا ہوچکا ہے۔ شاید اس وقت دھرتی پر افریقہ کی کوئی کمزور اور قبائلی ریاست ایسی غیر یقینی اور “Chaos”کی بھینٹ چڑھی ہوئی نہ ہوگی جیسی ابتر صورتِ حال ہمارے ملک کو درپیش ہے۔ تجربات، خراب حکمرانی اور سارے نظام میں عام افراد کو اجنبیت کا سامنا جیسے مسائل نے حد درجہ زیادہ مایوسی کو جنم دیا ہے۔ پارلیمنٹ سمیت سارے ادارے ایک ایسا مذاق بن کر ابھرے ہیں جن کا ہر روز ہی مضحکہ اڑایا جاتا ہے۔ مایوسی کو اس حد تک بڑھاوا دے دیا گیا ہے کہ چھوٹے بڑے واقعے یا دادرسی کے لیے متاثرہ شخص اور گروہ براہِ راست ملک کے بڑے جج اور بڑے جنرل کا نام لے کر انصاف کی فریاد کرتے ہیں۔ قصور میں ایک چھوٹی بچی کے ساتھ زیادتی ہو، کراچی میں کسی نوجوان کا جعلی پولیس مقابلے میں مارا جانا ہو، پینے کا صاف پانی چاہیے، میڈیکل کالجوں میں داخلہ ہو، یا پھر اسپتالوں کا انتظام و انصرام… آج کا ملکی میڈیا اور عوام آخری امید کے طور پر ملک کے دو ’’چیفس‘‘ چیف جسٹس اور آرمی چیف کا نام لے کر اُن سے نوٹس لینے اور معاملات میں مداخلت کرنے کی اپیلیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

مجھے سیاست کے طالب علم کے طور پر اُس وقت بے حد حیرت ہوتی ہے جب ملک کے جانے پہچانے دانشور، صحافی، وکلاء اور ادیب، سوشل ایکٹوسٹ سوشل میڈیا پر اس نوع کی پوسٹیں رکھتے ہیں کہ ملک کے چیف جسٹس یا آرمی چیف نے فلاں مسئلے کا نوٹس لیا۔ یہ پہلا ملک ہوگا جہاں کے اہلِ دانش و بینش مجموعی تباہی اور سسٹم کی ابتری پر اتنی خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوں گے۔ کیا ایک وفاقی ریاست جس کی سپریم کورٹ کا بنیادی کام ملک کے آئین اور قانون کی تشریح اور متنازع امورکو نمٹانا ہو، اس کا سب سے بڑا جج اپنے ادارے کی ستّر برس کی کمزوریوں، بدعنوانیوں اور ناانصافیوں کو دور کرنے کے بجائے اپنا قیمتی وقت اسپتالوں کے دوروں، پینے کے پانی کی فراہمی اور طویل میڈیا ٹاکس میں گزارتا ہو، جب کہ قابلِ احترام چیف جسٹس صاحب کو اس بات کا بہ خوبی علم بھی ہو کہ ان کی ملازمت کی میعاد مختصر اور ملک کے سیاسی انصاف کے نظام کی عمر 70برس ہے۔ دوسری جانب کسی بچی سے جنسی زیادتی کا واقعہ ہو، پولیس کے ہاتھوں کسی کا مارا جانا ہو، اس نوع کے واقعات دراصل متعلقہ علاقے کی حد کے صوبیدار یا ایس پی کے مکمل اختیارات کی ذیل میں آتے ہیں، اور ایسے واقعات پر جب ملک کی فوج کے سپہ سالارکو پکارا جاتا ہے اور وہ اپنے ترجمان ادارے کے ذریعے اس پکار کا جواب دیتے ہیں تو کیا یہ خوشی کی بات گردانی جائے، یا پھر ایک آہِ سرد بھر کر اس پر اظہارِ افسوس کیا جائے کہ ملک میں انصاف اور اداروں کا قصہ تمام ہوچکا ہے؟ 20 کروڑ آبادی کے اس ملک میں ہر فرد کسی نہ کسی طرح سے ناانصافی اور زیادتی کا شکار ہے۔ ایک بڑی طبقاتی خلیج اور عدم مساوات میں رہنے والے اس معاشرے میں لاکھوں افراد فریاد کناں ہیں۔ قتل کے ہزاروں کیس سول کورٹس سے سپریم کورٹ تک التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ لاکھوں افراد گھروں اور ملکیتوں پر قبضے کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد لاپتا اور اُن کے اہلِ خانہ واپسی کی آس میں اپنے پیاروں کی راہ تک رہے ہیں۔ اب ان کروڑوں مصیبت کے ماروں، ستائے گئے اور انصاف کے منتظر لوگوں میں سے کتنوں کے لیے جدید ملکی میڈیا اپنی کمرشل اور سیاسی ترجیحات میں سے وقت نکال کر آواز اٹھا پائے گا، اور چیف جسٹس اور آرمی چیف اپنی گوناگوں مصروفیات پر مبنی شیڈول کے باوجود نوٹس لے کر ان میں سے کتنے متاثرین کو انصاف مہیا کرپائیں گے، اس کے اعداد و شمار سوشل میڈیا کے ان ’’آشاوادی‘‘ سماج سدھارکوں کی پوسٹوں میں دیکھیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی چھوٹی یا بڑی ریاست کا سیاسی، سماجی، معاشی اور دفاعی ڈھانچہ اداروں اور اُن میں تقسیم شدہ ذمہ داریوں کو ایمان داری کے ساتھ سرانجام دینے پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ڈھانچہ ایک ایسی عمارت کی مانند ہوتا ہے جس کی بنیادیں مضبوط رکھنے کے باوجود اس کی پیہم اور متواتر دیکھ بھال اور مرمت ہوتی رہتی ہے۔ دنیا میں مالدیپ جیسی چھوٹی ریاست سے لے کر امریکہ اور یورپ کی مضبوط ریاستوں تک کوئی بھی ایسی ریاست نہیں ہے جہاں روزمرہ کی سماجی، معاشی اور معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف وہاں کے عوام مروج اداروں کے بجائے وقتی آسروں اور سہاروں کے پیچھے دوڑتے ہوں!

مندرجہ بالا تجزیے کا مقصد اس بنیادی نکتے کو واضح کرنا تھا کہ کس طرح سے ہماری ریاست ان بنیادی باتوں کی تکمیل نہیں کرپائی ہے جو ساری دنیا کی ریاستیں اور ملک بآسانی کررہے ہیں۔ مضمون کے آغاز میں جس ناانصافی کی بات کی تھی، وہ ہر شعبے اور ہر اُس جگہ سے جھلک رہی ہے جہاں کچھ ہونے اور بدلنے کی امید باقی ہوتی ہے۔ ملک کی جس پارلیمنٹ اورجمہوریت سے آگے چل کر جس خیر اور اچھائی کی امید ہے، اس پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل جاری ہے۔ جس شخص اور پارٹی کو اس اسمبلی کے ذریعے ملک پر حکمرانی کرنے کی خواہش ہے، وہ اس پارلیمنٹ پر سو بار لعنت بھیج کر اس کے اندر جانا چاہتا ہے۔ اپنے نام سے ملک کی ابھرتی ہوئی بڑی پارٹی کے رہنما کو اپنے ’’جذبات‘‘ پر قابو ہے اورنہ ہی اپنے ادا کردہ ’’الفاظ‘‘ پر۔ ملک کے اقتدار پر براجمان پارٹی بہ ظاہر اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی حزبِ مخالف کی سب سے بڑی جماعت بنی بیٹھی ہے۔ اس کا لیڈر نظریاتی جلال کی ایسی کیفیت میں آچکا ہے جہاں وہ محب وطن قوم کا ہوتے ہوئے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ’’غدار‘‘ کا لبادہ اوڑھ بیٹھا ہے، اور اس سے نجات کے لیے ملک کے تمام طاقتور ادارے بے تاب ہیں۔ نوازشریف مست ہاتھی پر سوار ہوکر اس راستے پر نکل پڑے ہیں جس راہ پر اس ملک کا 70 برس سے سنبھالا ہوا Narrative (بیانیہ) پڑا ہے اور وہ اسے پامال کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب نئوں دیرو کی سنگِ مرمر کی قبروں میں رکھی شہیدوں کی قطار کی وارث پارٹی اور اس کی قیادت ہے جو اپنے رہنمائوں کی روایت اور سیاست کے برعکس ’’چالاکی‘‘ سے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اقتدار میں اپنا حصہ لینے اور ملکی اسٹیبلشمنٹ سے نئی پارٹی کے آسرے میں پی پی اس راستے اور روایت پر چلنے کی سعی میں ہے جو روایت قبل ازیں نوازشریف نبھاتے رہے ہیں۔

مجموعی طور پر ملک میں سیاسی بیگانگی، معاشی تنگی اور سماجی ناانصافی نے جس Chaos کو جنم دیا ہے، اس کا کوئی بھی واضح اور امید افزا علاج دکھائی نہیں دیتا۔ ملک کے سیاستدان، دانشور، دفاعی تجزیہ نگار، صحافی اور انسانی حقوق کے علَم بردار روزانہ ٹی وی شوز اور اپنی اخباری تحاریر میں ان دیہاتی بڑی بوڑھیوں کے سے انداز میں مشورے دے رہے ہیں جو کسی بستر سے لگے ہوئے مریض (یا مریضہ) کی طبیعت معلوم کرنے کے لیے باہم جمع ہوتی ہیں اور دورانِ عیادت ساتھ ساتھ اپنے ٹوٹکوں اور سنی سنائی باتوں کی پٹاری کھول کر مفت مشورے بھی دینے میں لگی رہتی ہیں۔ ان ابتر اور مخدوش حالات میں کوئی ذمہ دار ادارہ یا فرد ملک اور اس ریاست کے بنیادی اصولوں کو زیربحث لانے اور حل کرنے کے لیے آج بھی تیار دکھائی نہیں دیتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ افراتفری کب تک چلتی ہے اور آگے چل کر یہ کون سا نیا رنگ اپناتی ہے۔