یہ خوبصورت ناول محترمہ جبین چیمہ کی تخلیق ہے۔ ادب یہی ہے کہ اپنے خیالات، احساسات اور جذبات کو خوبصورت زبان میں پیش کیا جائے، جس کا مجموعہ یہ کتاب ہے۔ جناب سلیم منصور خالد تحریر کرتے ہیں:
’’زندگی لمحوں کی آمد کا نام ہے۔
جب خالقِ کائنات کے حکم سے یہ لمحاتی سفر تمام ہوگا تو زندگی کا پہیہ رک جائے گا اور وہی لمحہ قیامت کا لمحہ ہوگا۔ انسان کے لیے اِس زندگی میں اختیار کی نعمت اور انتخاب کی آزمائش بھی خالقِ کائنات کی عطا ہے، یعنی ہماری زندگی اسی اختٹیار و انتخاب کی کشمکش کا دوسرا نام ہے۔
عمراں لنگھیاں بظاہر ایک ساہ سی کہانی پر مبنی ناول ہے، لیکن فی الحقیقت یہ ایسی کہانی ہے، جس میں کئی کہانیاں اپنے انجام کی شاہراہ پر رواں دکھائی دیتی ہیں۔
یہ ناول ہمارے معاشرے کے تضادات کو آشکارا کرتا ہے اور ان ٹوٹتی پھوٹتی حقیقتوں کو بے نقاب کرتا ہے، جن میں ہم بے سمجھی میں، حماقتوں کی مدہوشی میں بطور تماشائی، بطور گونگے گواہ یا پھر بطور فعال کردار اپنا حصہ ادا کررہے ہیں۔
ناول کی کہانی کا بہائو سادہ بیانی اور فطری شستگی میں قاری کو اپنے ساتھ یوں لیے چلتا ہے، جیسے ایک مہربان ماں اپنے بچے کو انگلی تھامے، زندگی کی تلخیوں سے بچانے کے لیے باوقار بے چینی کی علامت بن جائے۔
اس ناول میں جس جگہ کوئی سبق آموز بات آئی ہے تو وہ کسی تکلف کے کندھے پر سوار ہوکر نہیں آئی، بلکہ ٹھیک اپنے مقام پر انتہائی شائستگی سے بقدرِ ضرورت ہی بیان ہوئی ہے۔ ایسی کیفیت کے لیے حالات میں ڈراما نہیں پیدا کیا گیا، بلکہ حالات کی ٹھوکر سے خودبخود چنگاری نے روشنی پیدا کی ہے۔
یہ ناول، ہمارے نظامِ تعلیم کے موجودہ چلن، تربیت کے الٹے رویوں اور سماجی تعلقات میں در آنے والی بیماریوں کو ان کے حقیقی پس منظر میں بیان کرتا ہے۔ اس ناول کا یہ امتیاز ہے کہ اس کا مؤثر پلاٹ، ڈرامائی صورتوں میں کہانی کو یوں تھامے رکھتا ہے کہ قاری پہلے اندازہ لگانے سے قاصر رہتا ہے کہ کہانی کون سا رخ مڑے گی۔ ناول کے کردار کی مناسبت سے، مکالموں کی موزونیت ٹھیک ٹھیک فطرت اور ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی مختلف شیطانی دستاویزات کے زیراثر پیدا ہونے والی بے ہودہ اور باغیانہ ترغیب کا زہر، ’زندگی میری ہے‘ کے پُرفریب نعرے میں ڈھل کر، خاص طور پر نوعمر لڑکیوں کی زندگیوں کو چاٹ رہا ہے۔ اس ناول کے مطالعے سے یہ بات ذہن نشین ہوتی ہے کہ ’زندگی میری نہیں ہے‘ بلکہ زندگی زندوں کے ساتھ ہے اور وہ بھی قدردانوں کے ساتھ ، نہ کہ مفاد اور ہوس کے خونخوار جبڑوں میں تڑپنے کا نام۔
ناول نگار نے بچوں کو فلمی اور افسانوی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کے دلوں میں اس سچائی کو اتارا اور مؤثر انداز سے ذہن نشین کیا ہے کہ آپ کے لیے، آپ کے حقیقی رشتوں کا کیا مقام ہے؟ کسی کی گمراہی اور جھوٹے نگوں کی چمک میں اندھی راہوں پر دوڑنا، ان بے لوث رشتوں پر کون سی قیامتیں ڈھاتا ہے، اور خود فرد کو کن دوزخوں سے گزارتا ہے؟ خصوصاً آج کا سوشل میڈیا اور موبائل فون کن کن عذابوں کو لمحے بھر میں آپ کے سامنے لاکھڑا کرسکتا ہے۔‘‘
کتاب خوبصورت، سہل و سیلس اردو زبان میں ہے جس کو منشورات نے اپنے روایتی اسلوب میں طبع اور شائع کیا ہے۔ ناول کا شروع مندرجہ ذیل تحریر سے ہوتا ہے:
’’وہ کہیں بہت دور سے آئی تھی۔
صدیوں کی تھکن اور گہری نقاہت اس کے چہرے سے ظاہر ہورہی تھی۔
بس سے اُترتے ہی گویا وہ ایک نئے جہان میں پہنچ گئی۔ اردگرد کے مانوس منظر کو اُس نے بہت حیرت اور افسوس سے دیکھا۔ اُسے یوں لگا جیسے اُس کے قدموں تلے آئی ہوئی مٹی بھی کراہ رہی ہو۔
’’آہ، تم کہاں چلی گئی تھیں، ہمیں چھوڑ کر‘‘ یہ خیال اس کی سماعت سے ٹکرایا۔
یہ جون کی ایک تپتی دوپہر تھی اور سورج سوا نیزے پر تھا۔ مگر وہ جانے کس جہان میں پہنچی ہوئی تھی کہ اُسے گرمی، سردی، دھوپ اور چھائوں کسی چیز کا احساس ہی نہیں ہورہا تھا۔ اردگرد کا منظر کافی بدل چکا تھا مگر دور دور تک نظر آتے کھیت اور نہر کے کنارے کنارے اُگے ہوئے درخت بالکل ویسے ہی دکھائی دے رہے تھے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ان سارے مناظر کی ایک ایک علامت سے لپٹ لپٹ کر روئے۔ اس کے اندر کتنی تشنگی تھی، کیسی پیاس تھی؟ کسی اپنے کی جھلک اور ہاتھوں کے لمس کو کتنا ترسی ہوئی تھی۔
اُس کے سر پر جون کی دوپہر کا سورج آگ برسا رہا تھا، مگر سامنے کا مانوس منظر اندر کی آگ کو ٹھنڈا کررہا تھا۔ ایسی آگ جس میں وہ لمحہ لمحہ جلی تھی۔ کیا دوزخ کی آگ اُس آگ سے بھی بڑھ کر ہوگی جو انسان کے اپنے اندر دہکتی ہے اور اسے لمحہ بہ لمحہ جلاتی ہے؟‘‘
nn