گزشتہ پیر (5 فروری) کے جسارت سمیت کئی اخبارات میں ’’آسامی‘‘، ’’آسامیاں‘‘ نظر سے گزرا کہ خالی آسامیاں پُر کی جائیں گی۔ یہ سرکاری خبر ایجنسی اے پی پی کی جاری کردہ خبر تھی اور اس میں آسامیاں ہی لکھا گیا تھا۔ نیوز ڈیسک پر بیٹھے ہوئے فاضل سب ایڈیٹرز نے تصحیح کرنے کے بجائے مکھی پر مکھی مار دی۔ اس طرح شہر سے مکھیاں تو کم ہوگئی ہوں گی لیکن آسامی (الف پر مد) کا مطلب تو آسام کا رہنے والا ہے جیسے چاٹگامی، بلگرامی وغیرہ۔ یہ لفظ ’’اسامی‘‘ ہے۔ اسی طرح کچھ اخبارات میں ’’آئمہ‘‘ پڑھنے میں آیا۔ یہاں بھی الف پر مد نہیں اور یہ لفظ ’’ائمہ‘‘ ہے، امام کی جمع۔ جب الف پر مد لگائی جائے تو اس کا مطلب ہے الف کو کھینچ کر پڑھا جائے گا۔ تذکیر و تانیث میں اختلاف ہے۔ مد کے اور بھی کئی مطلب ہیں مثلاً مدّ فاضل، یعنی وہ مد جو بیکار ہو، فضول اور بے کار چیز۔ مدمقابل (صفت) مخالف، برابر کا دعوے دار، حریف وغیرہ۔ مد و جزر (عربی) جوار بھاٹا، سمندر کے پانی کا چڑھائو، اتار۔ مد دریا کے پانی کی افزونی کو بھی کہتے ہیں۔ لیکن اسامی اور ائمہ میں الف پر مد نہیں ہے۔ اِمام کا مطلب تو سب کو معلوم ہے: پیشوا، ہادی، نماز میں قیادت کرنے والا۔ لیکن اگر الف پر زبر لگادیں (اَمام) تو اس کا مطلب ہوگا: سامنے یا آگے۔ عربی کی بڑی خوبی یہ ہے کہ زیر، زبر سے مطلب بدل جاتے ہیں۔
ایک عمومی غلطی القاب میں جناب اور صاحب کا استعمال ہے۔ مثلاً سنڈے میگزین میں ایک ادیب کا جملہ ہے ’’جناب وزیر آغا صاحب…‘‘ یہاں جناب اور صاحب میں سے کوئی ایک لفظ کافی تھا یعنی جناب وزیر آغا، یا وزیر آغا صاحب۔ اسی طرح کچھ لکھنے والے ’’نہ صرف‘‘ لکھ کر بھول جاتے ہیں کہ اس کے بعد جملے میں ’بلکہ‘ لانا بھی ضروری ہے۔ مثلاً یہ جملہ دیکھیے: (فلاں صاحب) ’’نہ صرف میرے استاد تھے اور ہیں۔‘‘ یہ جملہ نامکمل ہے۔ اس میں اگر ’اور‘ کی جگہ ’بلکہ‘ لکھا جاتا تو شاید جملے میں جھول نہ رہتا، اور زیادہ بہتر تو یہ ہوتاکہ ’’نہ صرف میرے پہلے استاد تھے بلکہ اب بھی ہیں‘‘۔ تہ کی جگہ عموماً ’’تہہ‘‘ لکھا جارہا ہے۔ اس میں ایک (ہ) کافی ہے، دو کی ضرورت نہیں۔ جب کہ تہہ میں دو ’ہ‘ آرہی ہیں۔ ایک جملہ ہے ’’اخبار کو تہہ کرکے میز پر رکھا‘‘۔ اسی طرح تہہ خانہ، تہہ بہ تہہ وغیرہ۔ اگر دو ’ہ‘ کے ساتھ لکھا جائے تو تلفظ ’’تہے‘‘ ہوجائے گا۔ تہ سے اور بہت سے الفاظ بنتے ہیں مثلاً تہ دار، تہ جمانا، تہ خاک، تہ دام آنا‘ تہ کی بات، تہ میں بیٹھ جانا، تہ دل وغیرہ۔ تہ کا سچا اُس کبوتر کو کہتے ہیں جو گھر نہ بھولے۔ سنڈے میگزین میں ایک ادیب کا یہ جملے دیکھیے’’انہوں نے بہ طور پروف ریڈر کی حیثیت سے مجھے نوکری بھی دی‘‘۔ بہ طور کے بعد ’’حیثیت سے‘‘ کی ضرورت نہیں تھی، یا پھر بہ طور نکال دیا جاتا۔ یہ الفاظ کا اسراف ہے۔ مناسب تھا کہ یوں لکھا جاتا ’’بہ طور پروف ریڈر مجھے نوکری بھی دی‘‘۔ یا ’’پروف ریڈر کی حیثیت سے…‘‘
2 فروری کو ایک کثیر الاشتہار اخبار کے ادارتی صفحہ پر محترم طارق بٹ کے مضمون کا عنوان ہے ’’گھس بیٹھئے‘‘۔ بیٹھئے میں ایک تو املاکی عمومی غلطی ہے کہ اس پر ہمزہ بٹھانے کے بجائے ’’بیٹھیے‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ’’گھس بیٹھیے‘‘ کوئی لفظ نہیں۔ یہ ہندی کی اصطلاح ہے اور بیٹھیے کی جگہ پیٹھیے (پ۔ی۔ٹھ۔یے)ہے۔ اس پر پہلے بھی بات ہوچکی ہے لیکن اردو میں لکھنے والے حضرات بیٹھیے سے سمجھتے ہیں جو گھس کر بیٹھ گیا، اور ’’پیٹھیے‘‘ ان کے لیے نامانوس ہے، مگر اصل لفظ یہی ہے۔ اس کو بلاوجہ ’’مورد‘‘ کرنے یعنی اردو کا جامہ پہنانے کی ضرورت نہیں۔ مزید تسلی کے لیے لغت دیکھ لی جائے۔ یہ لفظ پیٹھنا سے ہے۔ کسی چیز کا کسی چیز میں گھسنا، پیوست ہونا، جمنا، گڑنا، داخل ہونا، در آنا۔ پیٹھے دینا یعنی گھسنے دینا۔ پیٹھنے والا کا مطلب ہوا: زبردستی گھسنے والا، مداخلتِ بے جا کرنے والا۔ جلال کا شعر ہے:
کسی کا تیر جو پہلو میں آکے بیٹھ گیا
تو میرے دل میں در آیا، جگر میں پیٹھ گیا
اس کا مطلب غوطہ خور، غوّاص، کنواں صاف کرنے والا بھی ہے۔ یاد رہے کہ ایک پھل یا سبزی پیٹھا ہے۔ پیٹھے کی مٹھائی تو کھائی ہوگی لیکن اس کا کوئی تعلق ہمارے پیٹھا سے نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھی گھس بیٹھیے لکھنے سے باز نہیں آئیں گے۔
اخبارات میں ’’اعلانیہ‘‘ اور ’’علانیہ‘‘ دونوں طرح کا املا چل رہا ہے، بلکہ ایک ہی اخبار میں یہ دو طرح کے املا نظر آجاتے ہیں۔ یہ عربی کا لفظ ہے اور اس میں ’’علانیہ‘‘ ہی ہے۔ یہ لفظ سورہ الرعد میں آیا ہے۔ اس کا مادہ علن ہے۔ علانیہ کا مطلب تو معلوم ہی ہے: ظاہرا، کھلم کھلا، ڈنکے کی چوٹ کہنا۔ یہ سِرّ کا متضاد ہے۔ اصل میں اعلان بھی عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب بھی اظہار، ظاہر کرنا ہے، چنانچہ اعلان کی وجہ سے اعلانیہ لکھا جانے لگا ہے۔ اعلان کے حوالے سے استاد ناصح کا شعر ہے:
یہ زمیں اچھی نہ تھی، ناسخؔ و لیکن فکر نے
حسن پیدا کر دیا ہے نون کے اعلان سے
ناصر کا شعر ہے:
قتل مجھ کو کیا اچھا ہوا، احسان ہوا
پر برا ہو گا ترے حق میں جو اعلان ہوا
اعلان اشتہار کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
فیض احمد فیضؔ کا ایک مصرع ہے
آج بازار میں پابہ جولاں چلو
ہم ایک عرصے تک اسے جَولاں (ج پر زبر) پڑھتے رہے، جب کہ یہ جُولاں ہے، ج پر پیش یعنی بیڑیاں۔ جب کہ جَولاں کا مطلب ہے: گھوڑا دوڑانا، گھوڑا کدانا۔ اسی سے جَولاں گاہ ہے یعنی گھڑ دوڑ کا میدان، کھیل کا میدان۔
جولانیٔ طبع تو سنا ہی ہو گا۔ لیکن اس کا مطلب طبیعت کا گھوڑا دوڑانا نہ لے لیا جائے۔ ویسے آپ کی مرضی۔
nn