کسر اور کَسَر

ڈاکٹر انعام الحق جاوید فیصل آبادی بڑے استاد اور مزاح میں ہمارے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اردو میں انگریزی کا تڑکا لگاتے ہیں تو مزا آجاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایم اے اردو اور ایم اے پنجابی میں تغمائے زر (گولڈ میڈل) رکھتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے پنجابی میں پی ایچ ڈی ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ پاکستانی زبانوں کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان سے ہوتے ہوئے مقتدرہ قومی زبان سے منسلک ہوگئے۔ کئی ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں اور برسوں سے اردو کو اپنا اوڑھنا اور پنجابی کو بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔ انگریزی ان کا تکیہ یا پنجابی میں سراہنا ہے اور خوب سراہے جاتے ہیں۔ اردو، پنجابی اور انگریزی میں تحقیق و تنقید کی ڈیڑھ درجن (ممکن ہے اب زیادہ ہوگئی ہوں) کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ کام کیا کرتے رہے اس کے بارے میں خود کہا ہے:
کام کیا خاک کر رہا تھا وہ
صرف ادراک کر رہا تھا وہ
اس ادراک کے بعد جانے اُن کو کیا سوجھی کہ ہمارا امتحان لینے کو ایک سوال نامہ بھیج دیا۔ سوالوں سے بچنے کے لیے تو ہم اسکول کے زمانے میں بھی غَچّا دے جاتے تھے۔ وہ اردو زبان کے اتنے بڑے عالم، نظم و نثر دونوں پر عبور، اور ہم نے اردو باقاعدگی سے پڑھی ہی نہیں، اور جتنی پڑھی وہ بھی پنجابی اساتذہ سے۔
انعام الحق جاوید نے تین سوالات بھیجے ہیں۔ جَتَن یا جتْن۔ کَسَر یا کسْر۔ اور یہ کہ علامہ اقبال نے اپنی نظم شکوہ میں یہ مصرع دیا ہے
’’شکوہ اللہ سے، خاکم بدہن ہے مجھ کو‘‘
جب کہ دیگر علماء کرام نے ’’خاک بدہنم‘‘ استعمال کیا ہے۔ پہلے دو سوال تو آسان ہیں اور یقینا ان کا جواب انعام الحق جاوید کو معلوم ہوگا، کیوں کہ شاعر حضرات وزن کا خصوصی خیال رکھتے ہیں۔ جَتَن بر وزن کفن یا قلم ہے، یعنی ’ج‘ اور ’ت‘ پر زبر ہے۔ یہ ہندی کا لفظ ہے، معنی ڈھنگ، کوشش، تدبیر۔ ایک شعر حاضر ہے ؎
تعویذ، نقش، چلہ کشی، ٹوٹکے، فسوں
ملنے کو تیرے ہم نے ہزاروں جتن کیے
کسی گیت کا بول ہے ’’میں لاکھ جتن کر ہاری‘‘۔
جہاں تک کسر کا تعلق ہے تو اس کے دو تلفظ ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ عربی میں کَسْر بر وزن جَبْر ہے۔ اس کا مطلب ہے توڑنا، شکستگی، زیر کی حرکت، ٹکڑا، حصہ۔ جمع ہے کسُور۔ اردو میں کسْرِ شان، کسرِ نفس کا استعمال عام ہے۔ اسکول میں انعام الحق جاوید کو کسْر کے سوالوں سے واسطہ پڑا ہوگا۔ علم الحساب میں کسْر اکائی کے ایک حصے کو کہتے ہیں۔ کسر غیر واجب، کسر مرکب، کسر مضاف، کسر مفرد وغیرہ۔ اب تو یہ اصطلاحات ہی متروک ہوچکی ہیں، ورنہ حساب کی کتاب میں کسْر کے سوالات ساری کسر نکال دیتے تھے۔ کسر مضاف کے بارے میں کہا جاتا ہے ’’وہ کسر جس میں کسر کی کسر ہو جیسے 2/5‘‘۔ اسی املا کے ساتھ اردو میں کَسَر (ک اور س بالفتح یا زبر کے ساتھ) کا مطلب انعام الحق جاوید کو خوب معلوم ہوگا۔ یہ کَسَر عربی کسْر سے بنالیا ہے۔ یہ مونث ہے۔ مطلب ہے کمی، نقص، جیسے ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔
داغ دہلوی کا شعر ہے:
اتنی ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا
کسر اٹھا رکھنا، یعنی کمی باقی رکھنا، دقیقہ اٹھا رکھنا۔
تسلیم کا شعر ہے:
اب فلک درپئے آزار ہے کیوں
کیا کسر تم نے اٹھا رکھی ہے
اس کا متضاد کسر اٹھا نہ رکھنا، ذرا کوتاہی نہ کرنا۔
عربی کسْرہی سے کسرت ہے یعنی ورزش، مشق، مہارت۔ جیسے کار بکسرت، کسرتی بدن وغیرہ۔ اب رہی بات ’’خاکم بدہن‘‘ کی۔ مطلب واضح ہے کہ (میرے) منہ میں خاک۔ کئی لوگوں نے خاک بدہنم استعمال کیا ہے۔ اس کی وضاحت تو فارسی دانوں کی ذمے داری ہے۔ ہمیں تو اردو بھی ڈھنگ سے نہیں آتی۔ خیال ہے کہ ’’دہنم‘‘ دہن کی جمع ہوگی، یعنی خاک بدہنم کا مطلب ہے دوسروں (یا سب) کے منہ میں خاک۔ اقبال نے انکسار میں خاک اپنے ہی منہ تک رکھی۔ اردو میں اس کا ترجمہ عام ہے کہ جب نامناسب بات کہنے لگیں تو اس سے پہلے کہہ دیتے ہیں ’’میرے منہ میں خاک‘‘۔ خاک کے حوالے سے فارسی میں ایک اور محاورہ ہے ’’خاک شو، پیش ازاں کہ خاک شوی‘‘۔ یہاں خاک انکسار کے معنیٰ میں آیا ہے۔
اب منصورہ لاہور سے جناب محمد انور علوی کے محبت نامے کا ذکر۔ انہوں نے بہت دن بعد یاد کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’فرائیڈے اسپیشل مورخہ 19 تا 25 جنوری میں خود آپ کے قلم سے اصلاح کے نام پر ایک سنگین غلطی سرزد ہوئی تھی، خیال تھا کہ کوئی نہ کوئی صاحب توجہ دلا دیں گے، یا شاید آپ کی اپنی ہی نظر پڑجائے۔ مگر اگلے پرچے میں یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔ ناچار قلم اٹھانا پڑا۔ مذکورہ شمارے میں آپ نے سنڈے میگزین میں شائع شدہ احمد جروار کے مضمون کا پوسٹ مارٹم کیا ہے، پھر آپ نے لکھا ہے ’’آخر میں اقبال کا شعر دیا گیا ہے جس کے پہلے مصرع میں ’’نہیں ہے نا امید اقبال…‘‘ لکھا گیا ہے، جب کہ اقبال نے ’’نومید کہا تھا‘‘۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔
مزید ستم یہ لکھ کر ڈھایا ہے ’’کہ نومید کو ناامید لکھنے سے اقبال کے مصرع میں وزن گڑبڑ ہوجاتا ہے‘‘۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے؟ حضرت شعر کو پھر سے پڑھیے اور دیکھیے کہ وزن پہلے گڑبڑ تھا یا آپ نے گڑبڑ کیا ہے۔ امید ہے ناگوارِ خاطر نہ ہوگا۔‘‘
نہیں صاحب، ہرگز بھی ناگوارِ خاطر نہیں ہوا۔ اپنے احباب کی رہنمائی سے ہم اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ آپ کے توجہ دلانے کا بہت شکریہ۔ جہاں تک شعر کے وزن کی بات ہے تو سچی بات یہ ہے کہ ہمیں اوزان و بحور وغیرہ سے کچھ واقفیت نہیں۔ اب آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ لیکن اتنا اندازہ ہے کہ ’’نومید‘‘ اور ’’ناامید‘‘ کے وزن میں بڑا فرق ہے۔ نومید کے 5 حروف ہیں اور ناامید کے 7۔
(ن+ا+۱+م+م+ی+د)۔ فارسی میں ناامید پر تشدید نہیں ہے، مثلاً داغ کا یہ شعر:
نا امیدی تیرے صدقے تُو نے دی راحت مجھے
کم ہوا جب ایک ارماں، ایک دشمن کم ہوا
لغت میں ناامّید تشدید کے ساتھ ہے (نوراللغات، جلد دوم)۔ اگر ناامید کو بغیر تشدید کے باندھا جائے تب بھی اس میں 6 حروف آتے ہیں۔ کوئی ماہرِ عروض بہتر فیصلہ کرسکتا ہے۔ انور علوی صاحب ہمیں تو خوشی ہے کہ آپ نے نہ صرف مضمون پڑھا بلکہ اصلاح بھی فرمائی۔
اب کچھ اِدھر اُدھر کی۔ لندن میں مقیم جناب آصف جیلانی بہت ہی سینئر صحافی ہیں۔ جسارت میں ان کے مضامین تواتر سے چھپتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے کردوں کے حوالے سے بڑا معلوماتی مضمون لکھا، تاہم اس میں دو جگہ میعاد کی جگہ ’’معیاد‘‘ لکھا ہے۔ یہ غلطی بہت عام ہوتی جارہی ہے جس کی کئی بار نشاندہی کی گئی ہے مگر لوگ تصحیح پر آمادہ ہی نہیں۔ ہم بھی اپنی کوشش کرتے رہیں گے۔
گزشتہ دنوں تقریباً ہر اخبار کی سرخی میں تھا ’’…زرِضمانت ضبط کرلی گئی‘‘۔ ہمارے ساتھیوں نے مونث کا تعین ضمانت سے کیا جو مونث ہے۔ لیکن ذرا اس ترکیب کو الٹ کر تو دیکھیں، ’’ضمانت کی زر ضبط کرلی گئی‘‘۔ ضبطی کا تعلق زر سے ہے جو مذکر ہے، چنانچہ ’’ضبط کرلیا گیا‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ چلتے چلتے اقبالؒ کا ایک شعر:
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز داروں میں