ماورائے عدالت قتل یا ریاستی دہشت گردی

کراچی میں ماورائے عدالت قتل بدترین حکمرانی کا مظہر ہے، اس ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ کئی بے گناہ انسانوں کی جان لے چکا ہے جو برسوں سے جاری ہے۔ اس تسلسل کو فی الحال رائو انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کے قتل نے توڑ دیا ہے۔ نقیب کے ضعیف والد محمد خان کو عمر کے ایسے وقت میں بیٹے کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں والدین کو نوجوان بیٹے سے کئی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور جوان اولاد کی میت کو کندھا دینا مشکل ہوتا ہے۔
کراچی سمیت پورے ملک میں کئی دہائیوں سے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جہاں زبان و نسل کی تمیز کے بغیر جاری ہے وہیں ریاست کی بدلتی ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف پالیسیوں کے نتیجے میںکن لوگوں اور افراد کو ’’قومی مفاد‘‘ میں ماورائے عدالت قتل کرنا ہے اس میں بھی تبدیلی آتی رہی ہے۔ اسی تبدیلی کے نتیجے میں چند دہائیوں سے محسود قبائل بھی نشانے پر ہیں۔ وہ لوگ جو قبائلی علاقوں میں آپریشن اور ڈرون حملوں سے بچ بچا کر کراچی پہنچے اُن کو کراچی میں ایک منظم منصوبے کے تحت پہلے اخبارات میں خبریں لگاکر بدنام کیا گیا کہ وہ دہشت گرد ہیں، اور پھر وقتاً فوقتاً دہشت گردی کے چند واقعات بھی ہوئے جو آج تک سوالیہ نشان ہیں کہ ان کے پچھے مقامی دہشت گرد تھے یا کوئی اور؟ اس سوال کا تو جواب نہیں ملا لیکن اس دوران یہ ضرور ہوا کہ کراچی کے لوگوں کو اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے بار بار سناکر اور خبریں لگا کر ڈرایا جاتا رہا کہ ’’کراچی کے گردو نواح کے علاقے سہراب گوٹھ وغیرہ میں کئی محلے ایسے ہیں جہاں اب صرف محسود قبائل کے ہی افراد ملتے ہیں، اور ان میں دہشت گرد ہیں‘‘۔کچھ چھاپے بھی پڑے،گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن نقیب اللہ محسود کے قتل نے ماضی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات،گرفتاریوں اور پولیس مقابلوں سمیت ہر چیز اور عمل کو اب مشکوک کردیا ہے اور کئی سوالات اٹھادیے ہیں۔
نقیب اللہ محسود کا تعلق جنوبی وزیرستان کے گاؤں بہادر خان کلے سے تھا۔ اس نے دس سال پہلے اپنے گاؤں میں اپنے رشتہ داروں میں ہی شادی کی اور اس کے تین بچے ہیں۔ نقیب اللہ محسود کا اصل نام نسیم محسود تھا اور اس کے دو بھائی اور چھے بہنیں ہیں۔ اس کے چچا کے مطابق نقیب نے اپنی شہادت سے چند روز قبل ہی فون کرکے اپنی بیٹیوں نو سالہ نائلہ، سات سالہ علینہ اور بیٹے دو سالہ عاطف کو کراچی لانے کے لیے کہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نقیب اپنے بیٹے کو آرمی میں افسر بنانے کا خواہش مند تھا۔ نقیب محسود کے بھائی فریداللہ دبئی میں کام کرتے ہیں۔ جیسے ہی انہیں نقیب کی ہلاکت کی خبر ملی تو وہ فوری طور پر اپنے آبائی گاؤں پہنچ گئے۔ ان کا چھوٹا بھائی عالم شیر طالب علم ہے۔ 4 بہنیں شادی شدہ اور دو غیر شادی شدہ ہیں۔ نقیب کی خواہش تھی کہ وہ اپنی بہنوں کی شادی میں اپنا حصہ ڈالے، اس لیے اُس نے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں کپڑے کی دکان کھولنے کا ارادہ کیا تھا۔ ساٹھ سالہ والد محمد خان اپنے بیٹے کو انصاف دلانے کے لیے وزیرستان سے کراچی پہنچے، انہوں نے جرگے کے حاضرین سے خطاب کے دوران کہا کہ نقیب اللہ محسود پورے پاکستان کی آواز تھا، اُس نے زندگی بھر کوئی ایسا کام نہیں کیا جو باعثِ شرم ہو۔ جس نقیب کو رائو انوار نے ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر جعلی پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا وہ نقیب محسود کراچی کے ابوالحسن اصفہانی روڈ پر شیر آغا ہوٹل پر بیٹھا ہوا کسی سے بات کررہا تھا۔ وہ فون پر کسی کو بتا رہا تھا کہ اس کے دبئی سے پیسے آنے والے ہیں۔ مخبر نے یہ خبر نازک میر کو دی جس سے نقیب نے ایک لاکھ ایڈوانس کے عوض دکان کرایہ پر لی تھی۔ نازک میر یہاں موجود دوسرے مخبر مجرموں میں سے ہے جو پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد جیل نہیں گئے بلکہ مخبر بن گئے۔ گزشتہ دس برسوں تک ملیر کے بے تاج بادشاہ اور قانون سے بالاتر رائو انوار کو ایسے مخبروں کی ضرورت پڑتی رہی جو ان کے غیرقانونی دھندوں میں سہولت کار رہے۔ نازک میر بھی ایسا ہی ایک سہولت کار تھا جس نے دبئی سے آنے والے پیسوں کا سنا اور رائوانوار ٹیم کے اہم رکن شعیب شوٹر کو اطلاع کردی۔ شعیب شوٹر نے چوکی انچارج اکبر ملا سے نقیب کو اٹھانے کے لیے کہا۔ اکبر ملا3جنوری کو دوپہر تین بجے نقیب کو اپنے دو دیگر دوستوں حضرت علی ولد شیر علی اور محمد قاسم ولد دائود سمیت اٹھاتا ہے۔ 6جنوری کو رات10بجے نقیب کے دونوں دوستوں کو چھوڑا جاتا ہے اور اسے اس ’امید‘ کے ساتھ روکا جاتا ہے کہ آنے والی بڑی رقم ان کے ہاتھ آجائے گی۔ تاہم جب نقیب سے کچھ ملنے کی امید ختم ہوجاتی ہے تو اسے دیگر تین ’’دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ شاہ لطیف ٹائون کی اس خالی عمارت میں قتل کیا جاتا ہے جہاں پر ’انکائونٹر‘ کے لیے ایک ڈیکوریٹر سے ضروری سامان پہنچوایا جاتا ہے۔ 12اور13جنوری کی درمیانی شب رائو انوار الیکٹرونک میڈیا کے اپنے ’’سنڈیکیٹ‘‘ کو اطلاع کرتا ہے کہ انکائونٹر کے لیے پہنچو۔ ٹی وی پر انکائونٹر کی خبر چلتی ہے اور اگلے دن اخبارات رپورٹ کرتے ہیں:’’پولیس مقابلے میں چار دہشت گردوں کو مارا گیا، دہشت گردوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان، لشکرجھنگوی، القاعدہ اور داعش سے تھا‘‘۔ بڑے بڑے سورما رپورٹر اور اخبارات اس خبر کو شائع کرتے ہیں حسب معمول کسی سوال کے بغیر، اور یہ پوچھے بغیر کہ ایک دہشت گرد کا ایک وقت میں القاعدہ اور داعش سے کیسے تعلق ہوسکتا ہے؟ میڈیا نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ ایک شیعہ نوجوان کیسے القاعدہ کا کمانڈر ہوسکتا ہے؟ میڈیا نے تو یہ بھی نہیں پوچھا کہ ہتھکڑی لگے نوجوان کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں؟ میڈیا نے کبھی یہ سوال بھی نہیں اٹھایا کہ جن کو بلوچ دہشت گرد کہہ کر مارا گیا وہ تو بدقسمتی سے ایک ایسے گوٹھ میں پیدا ہوئے تھے جس کو ایک بڑے ہائوسنگ پروجیکٹ میں شامل ہونا تھا۔ رائو انوار سے ایسے سوال نہیں پوچھے جاتے۔ اور میڈیا سوال کیوں کرتا؟ کیوں کہ جس میڈیا سے ان کا روز رابطہ ہوتا تھا ان کو کھل کربتاتا ہے کہ ان کو پارسل ملتے ہیں وہ تو صرف قاتل ہیں۔ رپورٹر جانتے تھے کہ کچھ ’’پارسل‘‘ وہاں سے آتے ہیں، کچھ زمینوں کی وجہ سے مارے جاتے ہیں، تو کچھ بدقسمت پیسے نہیں دے پاتے۔ ہاں یہ ضرور پوچھا جاتا ہے کہ اب جب خواجہ اظہار کے معاملے پر وزیراعلیٰ سندھ آپ کو معطل کرچکے ہیں تو اس کا کراچی آپریشن پر کیا اثر پڑے گا؟ ان بڑے بڑے دہشت گردوں کو منہ کون دے گا؟ 12 اور 13جنوری کی درمیانی رات کا پولیس مقابلہ، اس کی میڈیا رپورٹنگ رائو انوار کی طرف سے گزشتہ دس برسوں کے دوران کیے گئے 64 مقابلوں سے مختلف نہ تھا جس میں وہ 262’’دہشت گردوں‘‘ کو ’’انجام‘‘تک پہنچا چکا تھا۔ آج سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ نقیب واحد بے قصور نہیں تھا، پہلے آواز کیوں نہیں اٹھی؟ یقینا نقیب واحد بے قصور نہیں جو پولیس کی وردی میں ملبوس دہشت گرد رائو انوار کے ہاتھوں مارا گیا۔ تاہم نقیب ذریعہ ضرور بنا۔17جنوری کی صبح ہاشم خان مندوخیل اور علی ارقم نامی نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر نقیب کی تصویریں شیئر کیں اور رفتہ رفتہ فیس بُک اور ٹوئٹر پر یہ معاملہ اٹھتا رہا، تاہم مین اسٹریم میڈیا اس کو خبر ماننے پر تیار نہیں تھا۔ شام تک اتنا ماحول بن گیا کہ سوشل میڈیا سے احتجاج کی آواز بلند ہوئی تو 18جنوری کی دوپہر کو کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرے میں ایک بڑی تعداد شریک ہوئی جس میں ہر زبان اور رنگ ونسل کے پاکستانی موجود تھے۔ دریں اثناء پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے سوشل میڈیا پر واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کو حکم جاری کیا کہ تحقیقات کریں۔ وزیر داخلہ نے ڈی آئی جی جنوبی آزاد خان کی ایک رکنی کمیٹی تشکیل دی تو آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے ایڈیشنل آئی جی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی اور تحقیقات کا حکم جاری کیا۔ کمیٹی میں ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ اور ڈی آئی جی جنوبی آزاد خان بھی شامل تھے۔ اس کے بعد یہ مین اسٹریم میڈیا کے لیے خبر بن گئی، باَلفاظِ دیگر مجبوری بن گئی کہ اس کو نشر کریں۔ دریں اثناء نقیب کی ماڈلنگ کی تصویروں نے بھی ٹی وی چینلز کو راغب کیا۔ تحقیقات شروع ہوئی تو کمیٹی نے ایس ایچ او امان اللہ مروت، ڈی ایس پی ملک الطاف اور ایس ایس پی رائو انوار سے تفتیش کی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ نہ صرف مقابلہ جعلی تھا بلکہ نقیب اللہ بھی بے قصور تھا۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات حکومت کو ارسال کیں۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ متعلقہ افسران کو معطل کیا جائے تاکہ شفاف تحقیقات ہوسکے۔ مزید برآں ملزمان بشمول رائو انوار کے نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جائیں۔ اگرچہ حکومت نے رائو انوار کو عہدے سے ہٹادیا لیکن اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ رائو انوار نے پہلے تو کمیٹی پر جانب داری کا الزام لگاکر حاضر ہونے سے انکار کیا اور پھر موقع ملتے ہی اسلام آباد سے دبئی اڑان بھرنے کی منصوبہ بندی کی۔ تاہم اللہ کی منصوبہ بندی کچھ اور تھی۔ جعلی این او سی پر پکڑا گیا اور آف لوڈ کردیا گیا۔ دبئی فرار کی خبر پر سپریم کورٹ نے اپنے سوموٹو کی ہنگامی سماعت کی اور رائو انوار کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم صادر کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے فوری طور پر نام ای سی ایل میں شامل کردیا۔ ادھر کراچی میں انکوائری کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی سہراب گوٹھ کے جلسے میں پہنچے اور نقیب کے بے قصور ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سچل پولیس گلشن اقبال میں محسود ہال حجرے میں پہنچی اور نقیب کے والد کی طرف سے رائو انوار اور اس کی ٹیم کے 9 دیگر ارکان کے خلاف اغوا، قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر رجسٹرڈ کی۔ رائوانوار پہلے کبھی کسی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا، کیوں کہ وہ قانون سے بالاتر اور قانون کو گھر کی لونڈی سمجھنے والے طاقت ور حلقوں کا آدمی تھا۔ اب جب اللہ تعالیٰ نے رسّی کھینچ لی ہے تو ان حلقوں نے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ رائو انوار اب قانون کی گرفت سے نہیں پچ سکے گا۔ اطلاعات کے مطابق اب تک 65 ایسے افراد جن کے پیارے غائب ہوئے ہیں اور 50 ایسے افراد جن کے پیارے جعلی مقابلوں میں مارے گئے ہیں، سامنے آچکے ہیں۔ اب جب کیس کی شنوائی ہوگی تو وہ بھی بطور مدعی پیش ہوں گے۔ رائو انوار کے اِس دفعہ قانون کی گرفت سے نکلنے کے امکانات کم ہیں، لیکن اگر نکلا بھی تو بڑی عدالت میں سینکڑوں بے گناہوں کے قتل کا حساب لازم ہے کہ اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ رائو انوار وردی میں ملبوس قاتل اور دہشت گرد تھا جس نے اس شہر ، خاص طور پر ملیر میں دہشت گردی کا راج قائم کیا تھا۔ اب شاید کچھ عرصے کے لیے بلوچ دہشت گردوں کے نام پر بلوچوں، اور طالبان، القاعدہ اور لشکرجھنگوی کے نام پر پختونوں، پنجابیوں، سندھیوں اور اردو زبان بولنے والے بے گناہوں کے قتل کچھ عرصے کے لیے رک جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نقیب اور دیگر بے گناہوں کا خون اس ملک میں قانون کی بالادستی کا سبب بنے۔
لیکن یہ سوال کل بھی اہم تھا کہ اس دہشت گردی، ماورائے عدالت قتل کے پیچھے کون ہے؟ اور کیا صرف رائوانوار ہی یہ کام کرتا رہا ہے؟ اس کا جواب یقینا ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔ اس سے قبل ایس ایس پی چودھری اسلم ماورائے عدالت مقابلوں میں انتہائی شہرت کے حامل پولیس افسررہے ہیں، اس کے علاوہ کئی پولیس مقابلے اس شہر میں ہوئے جن میں سے زیادہ تر مشکوک ہی ٹھیرے ہیں اور رائو انوار اس تاریخ کا تسلسل ہے۔ بدقسمتی سے ہماری ریاست اور اس کے تمام ادارے یا تو اس حوالے سے بے بس ہیں، یا پھر وہ کسی نہ کسی طرح ان ماورائے عدالت اقدامات کی سرپرستی یا حوصلہ افزائی کررہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ گورکھ دھندہ جاری ہے اور رائو انوار جیسے لوگ مظلوموں کو کھلے عام نشانہ بناتے ہیں۔
رائو انوار تین برسوں کے دوران 124 پولیس مقابلوں میں 318 ’’دہشت گرد‘‘ ہلاک کرنے کا دعویٰ کرچکا ہے، تاہم کسی بھی مقابلے کے دوران رائو انوار یا اُس کے کسی ساتھی کو کسی دہشت گرد کی گولی چھو کر بھی نہ گزر ی۔ جب یہ باتیں شروع ہوئیں تو میڈیا کے لیے اس نے ایک دو بار مقابلے میں اپنے ساتھیوں کے زخمی ہونے کی خبریں پھیلائیں، اور نقیب کے واقعے سے پہلے جس قسم کی صورت حال تھی کون تحقیق کرنے کی ہمت کرسکتا تھا کہ یہ زخمی اصلی ہیں یا جعلی۔ ایس ایس پی رائو انوار دہری شہریت کا حامل پولیس افسر ہے اور اس کی ریٹائرمنٹ 2018 میں ہوگی، جس سے قبل ہی اس نے اپنی تمام فیملی کو بیرون ملک منتقل کرکے اثاثے بھی منتقل کردئیے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ رائو انوار کون ہے؟ اور اشرافیہ و ریاستی اداروں کا منظورِ نظر کیسے بنا؟ معروف صحافی طارق حبیب سے جب فرائیڈے اسپیشل نے گفتگو کی تو انہوں نے رائو انوار کے قریبی ذرائع کی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’’رائو انوار 1980ء میں ایس ایس پی ہاربر کے پاس کلرک بھرتی ہوا، پھر اے ایس آئی بنایا گیا۔ ترقی کے لیے اہم شخصیات کا منظورِ نظر رہا، جائز و ناجائز کام کرتا رہا، نورجہاں اور چودھری شریف کا منہ بولا بیٹا رہا، بے نظیر کا منہ بولا بھائی اور زرداری کا یارِ خاص قرار پایا، ایم کیو ایم آپریشن سے شہرت پائی، فاروق دادا اور الطاف حسین کے بھتیجوں کو مارنے کا الزام بھی اسی کے سر ہے۔ اسی دور میں تشدد کا بھیانک طریقہ چیرا لگانے کا موجد بھی اسی کو قرار دیا گیا۔ جعلی مقابلوں سے جعلی ترقیاں لیتا رہا۔ ایم کیو ایم کی حکومت آئی تو اسلام آباد فرار ہوگیا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی دور حکومت کے ساتھ ہی واپس آیا، ڈی ایس پی گڈاپ تعینات ہوا، اور زرداری کی زمینوں کے معاملات دیکھنے شروع کردیے۔
2014ء میں ملیر سے زمینیں خالی کرواتے ہوئے سندھی نوجوان مارے، ان میں سے ایک نوجوان انیس سومرو کے والد رائو انوار کے گلے کی ہڈی بن گئے، مگر رائو انوار اپنے اثر رسوخ سے بچ نکلا، زاہد علی عابد نے اپنے بیٹے کے قتل کا ذمہ دار بھی اسے قرار دیا، سندھ ہائی کورٹ نے 2015ء میں 50 نوجوانوں کے مارے جانے کو مشکوک قرار دے کر جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا، مگر یہ پھر بھی کلیئر ہوگیا۔
کچھ عرصہ قبل نیاز کھوسو نامی ایک ریٹائرڈ پولیس افسر کے ساتھ ایس ایس پی رائو انوار کے اختلافات سامنے آئے۔ اس نے ہائی کورٹ میں اپنے بیٹے کے اغوا کا الزام ایس ایس پی رائو انوار پر لگایا اور ساتھ ہی رائو انوار پر منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اثاثہ جات بنانے کی تفصیلات بتائیں۔ اس کا الزام تھا کہ 80ہزار تنخواہ پانے والا رائو انوار مہینے میں کم از کم چار مرتبہ دبئی کا دورہ کرتا ہے۔ خبر کے مطابق اہلِ خانہ سے ملاقات کے ساتھ ساتھ وہ منی لانڈرنگ بھی کرتا رہا ہے۔ پٹیشن میں ایک سال کے دوران رائو انوار کی سفری تفصیلات فراہم کی گئی تھیں، تاہم کچھ دن بعد تمام مسائل حل ہوگئے اور نیاز کھوسو کو بھی شاید خاموش کرا دیا گیا۔آج تک رائو انوار کے خلاف کوئی بھی تحقیقات مکمل نہ ہوسکیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار کو بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ نے رائو انوار کو عہدے سے ہٹایا اور پھر چند دنوں بعد ملیر کے ایس ایس پی کا چارج دے دیا، لبیک یارسول اللہ کی ریلی پر فائرنگ کے الزام میں وزیراعلیٰ سندھ نے رائو انوار کو معطل کیا لیکن عمل نہ ہوسکا۔ نہ جانے کون سی طاقت ہے جو صوبے کے وزیراعلیٰ کو اپنے حکم پر عمل درآمد سے بھی روک دیتی ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ رائو انوار اصل میں ایس ایس پی ہے ہی نہیں، اور پچھلے نو سال سے ایس ایس پی کے عہدے پر براجمان ہے۔ اصل رینک ڈی ایس پی کا ہے۔ اب جب کہ آئی جی سندھ نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی بنادی ہے جس کے سربراہ ثنا اللہ عباسی کا کہنا ہے کہ نقیب اللہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور یہ کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اورملیر کے تھانے سچل میں ایس ایس پی رائو انوار کے خلاف قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقتول نقیب اللہ کے والد کی درخواست پر مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ جب کہ رائو انوار تادم تحریر فرار ہے۔ اس سے پہلے کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل میں مبینہ طور پر ملوث معطل ایس ایس پی رائو انوار کو اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر ایک بین الاقوامی پرواز سے اتار لیا گیا تھا۔ رائو انوار اور ان جیسے ریاستی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ تاہم یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کئی جرائم پیشہ افراد بھی رائو انوار کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں، لیکن دنیا کا کوئی قانون اور معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ مجرم یا ملزم کو عدالت کے بجائے میدان میں گولی سے اڑادیا جائے۔ لیکن اس شہر میں یہ کام برسوں سے حکومتی اداروں کی آشیرباد اور عدلیہ کی ناک کے نیچے ہورہا ہے۔ کراچی میں نقیب سے قبل ایسے کئی نوجوان ہیں جنہیں کئی کئی سال جیلوں میں رکھ کر ایک رات اچانک ہتھکڑیاں پہنا کر نیشنل ہائی وے کے اطراف موجود بیابانوں میں لے جاکر قتل کیا جاتا رہا ہے۔ ان میں خواجہ زاہد، محمد امجد، عمار ہاشمی سمیت کئی نوجوان شامل ہیں۔ اگر ان کا کوئی جرم تھا تو انہیں عدالت سے سزا ملنی چاہیے تھی، لیکن خود عدالت لگانا کسی بھی ریاست کے لیے زہر قاتل ہے، اور ویسے بھی جہاں ماورائے عدالت قتل مظلوموں کے ساتھ ظلم ہے وہیں اس طرح کے قتل دہشت گردوں کو مظلوم بنانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسی ریاست کمزور ستونوں پرکھڑی ہوتی ہے جو کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ نقیب اللہ محسود کی ہلاکت مظلوموںکی زندگی کی نوید بن سکتی ہے۔ اس کے پس پردہ’’اصل مجرموں‘‘ کو بے نقاب ہونا چاہیے، چاہے ان کا تعلق لینڈ مافیا سے ہو، سندھ کی اشرافیہ سے ہو یا اُن گروہوں سے ہو جو رائوانوار جیسے لوگوں کو نوجوان ہلاک کرنے کے لیے دیتے ہیں۔