نوازشریف کا بیانیہ ملک کے سیاسی حلقوں میں تیزی سے مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت گرانے کی کوششیں ناکام ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ شکاری خود ہی شکار بن گئے ہیں۔ نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شریف خاندان کی حکمرانی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا، لیکن صرف 6 ماہ کے اندر اندر یہ حال ہوا کہ پی ٹی آئی، پی اے ٹی اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتیں مل کر بھی لاہور کے دل میں بڑا جلسہ کرنے میں ناکام رہیں 28 جولائی کے فیصلے کے بعد نون لیگ ٹوٹی نہیں، شریف خاندان بکھرا نہیں، نوازشریف اور مریم نواز کے ٹرائل سے کچھ بڑی برآمدگی نہیں ہوئی، پاناما فیصلہ وقت کی گرد تلے دب گیا اور یہ اپنی شدت کے باوجودشریف خاندان کو شدید نقصان نہیں پہنچا پایا، پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ نہیں ملے، نوازشریف جلاوطنی میں نہیں گئے، شاہد خاقان عباسی کی حکومت بھی نہیں گری، حدیبیہ کیس سے بھی کچھ نہیں ملا، ٹیکنوکریٹ حکومت بھی نہیں بنی، جب وہ شریف خاندان پر دبائو بڑھانے کے چکر میں تھے تو ایسے میں وہ اس بات کا ادراک کرنے میں ناکام ہوگئے کہ نوازشریف اور مریم کی جانب سے دیا جانے والا بیانیہ آہستہ آہستہ اپنی جگہ بناتا جارہا ہے۔ نوازشریف کی جانب سے مظلومیت کارڈ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کھیلا گیا، اور انہوں نے عمران خان کو خفیہ طاقتوں کا لاڈلا قرار دیا، جس سے مسلم لیگ (ن) کے ووٹر کو احساس ہوا کہ نوازشریف کو مقتدر حلقوں نے غلط طریقے سے اقتدار سے نکالا اور اس سازش میں عمران خان بھی شامل ہوگئے۔ اپوزیشن کی جانب سے اتحاد کے بجائے استعفیٰ دینے کے اعلانات بھی حکومت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس نہ کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہے اور نہ سنجیدگی، اس کے برعکس نوازشریف الیکشن کی تیاری کررہے ہیں، سیاسی تجزیہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) آج بھی پنجاب میں ایک مقبولِ عام سیاسی جماعت ہے، تمام تجربات کے بعد سب متفق ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کو پنجاب کی حد تک سیاسی میدان میں شکست دینا آسان نہیں ہے۔
لاہور کے جلسے میں شیخ رشید احمد اور عمران خان نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان اور استعفوں کو مؤخر کرکے اپوزیشن اتحاد کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ عمران خان اور شیخ رشید کے پارلیمنٹ کو لعنت ملامت کرنے، اور طاہرالقادری کے خلاف قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی۔ قرارداد میں جو وفاقی وزیر بلیغ الرحمان نے پیش کی، دونوں سیاسی رہنمائوں کے پارلیمنٹ کے بارے میں ادا شدہ الفاظ کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ ان دونوں سیاسی قائدین نے پارلیمان کے تقدس کو مجروح کیا ہے
جبکہ وہ خود بھی اسی ایوان کے رکن ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پارلیمان عوام کا نمائندہ ادارہ اور جمہوریت کی علامت ہے، پاکستان کا استحکام اور سربلندی جمہوریت سے وابستہ ہے اور ملک میں کسی دوسرے نظام کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی مذمت کی اور کہا کہ یہ استعفے دیتے ہیں تو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پیپلزپارٹی بھی سمجھتی ہے کہ ان دونوں رہنمائوں کی کوشش ہے کہ ملک میں سیاسی بحران رہے، لیکن یہ حکمت عملی اپوزیشن اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی ہے، اسی لیے ان دونوں کے اعلان پر سب سے پہلا ردعمل پیپلزپارٹی کی جانب سے آیا، دوسرا ردعمل سپریم کورٹ نے دیا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پارلیمنٹ ہی سپریم یعنی ملک کا اعلیٰ ترین اور اہم ترین ادارہ ہے، بلاشبہ جمہوری نظام کی ایک بدیہی حقیقت کی نشان دہی ہے۔ طاہرالقادری پاکستان میں جمہوریت کی عمل داری اور پارلیمنٹ کے تقدس کو خراب کرنے کے ایجنڈے کے تحت کینیڈا سے یہاں آکر کچھ عرصہ کے لیے ادھم مچاتے ہیں اور پھر مقاصد پورے نہ ہونے پر واپس چلے جاتے ہیں، عدالتِ عظمیٰ نے انہیں آئین کی دفعہ 63 سی کے تقاضوں کے تحت پاکستان کا شہری نہ ہونے کے ناتے پاکستان کی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کا نااہل قرار دیا ہوا ہے، اپوزیشن جماعتوں نے ایک ایسے شخص کے ذاتی ایجنڈے کے تحت سجائے گئے پلیٹ فارم پر آنا قبول کرلیا جو سسٹم کی بساط الٹوانے کے منصوبے کی تکمیل کی فکر میں غلطاں ہے۔ اس طرح وہ دانستہ یا نادانستہ ایک غیرملکی باشندے کے فسادی ایجنڈے کی تکمیل میں اس کے معاون بنے ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی موجودہ پارلیمنٹ کا ایک اہم حصہ ہے اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈرشپ اور چیئرمین سینیٹ کا منصب اسی جماعت کے پاس ہے۔ اگر یہ جماعت بھی پارلیمنٹ سمیت سسٹم کو سبوتاژ کرنے والے کسی تخریبی ایجنڈے کا ساتھ دیتی ہے تو اسے ناقص سوچ سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ردعمل میں کہا کہ ان کی پارٹی پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے اور وہ اس کی بے توقیری نہیں ہونے دیں گے۔ پارلیمنٹ سے متعلق رائے قائم کرنا عمران خان اور شیخ رشید احمد کا حق ہے، لیکن اگر وہ اسی پارلیمنٹ میں واپس بھی آنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اپنے رویّے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ان کے اعلان کے بعد تحریک انصاف کے امجد نیازی اور مراد سعید نے بھی استعفوں کا اعلان کیا مگر ابھی تک ایوان میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ غیر سنجیدہ اور بچکانہ رویّے کے باعث قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ اب مذاق بن چکا ہے، تحریک انصاف میں بھی استعفوں کے معاملے پر اتفاق نہیں ہے۔ لیکن استعفوں کے معاملے پر دو دھڑے نمایاں ہیں۔ ایک دھڑا جہانگیر ترین کا ہے جو اس بات کا حامی ہے کہ اب فوری طور پر استعفے دے دینے چاہئیں، لیکن شاہ محمود قریشی کا گروپ ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری اور شفقت محمود کے خیال میں استعفوں کی ضرورت نہیں۔ اس گروپ کا خیال ہے کہ اگر قومی اسمبلی سے استعفے دیئے گئے تو پھر یہ دباؤ بھی ہوگا کہ خیبر پختون خوا اسمبلی سے بھی استعفے دیئے جائیں۔ اس طرح صوبے کی اسمبلی اور حکومت قبل از وقت ختم ہوجائے گی اور مارچ میں سینیٹ الیکشن کی صورت میں انہیں جو نشستیں سینیٹ میں ملنے کا امکان ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ اب استعفے آنے اور نہ آنے کی کیفیت ایسی ہے کہ پارٹی الجھ کر رہ گئی ہے۔ اگر اب استعفے نہیں دیئے جاتے تو لاہور میں اسمبلی پر لعنت بھیجنے کے اعلان کو محض وقتی ابال قرار دیا جائے گا جس کا اعلان شیخ رشید کے اشتعال دلانے پر عمران خان نے کردیا، اور اگر استعفے دیتے ہیں تو یہ بھی سیاسی بے بصیرتی کا مظاہرہ ہوگا۔
اسی سیاسی ماحول میں آئی ایس پی آر کے سربراہ کی میڈیا سے کی جانے والی گفتگو نے بھی توجہ اپنی جانب کھینچی ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک بار پھر یقین دلایا ہے کہ ’’جمہوریت کو فوج سے خطرہ نہیں، جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچتے رہے تو جمہوریت چلتی رہے گی، تاریخ میں پہلی بار آرمی چیف سینیٹ میں گئے اور عوامی نمائندوں کو دفاعی صورتِ حال پر بریفنگ دی۔ آرمی چیف قانون کی پاس داری اور آئین پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی یقین دہانی بار بار کیوں کرانا پڑ رہی ہے؟ یہ بات تو ترجمان کی جانب سے ایک نہیں، متعدد بار کہی جاچکی ہے، لیکن پھر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کیوں اسے دہرایا جاتا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے بالکل درست کہا ہے کہ ملک میں استحکام ہونا چاہیے کیونکہ اگر عدم استحکام ہوگا تو اس کا فائدہ دُشمن اُٹھائیں گے، آرمی چیف نے سینیٹ میں جو گفتگو کی تھی، میڈیا اور سیاست دانوں نے سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا کہ وہ کس قدر سنجیدہ گفتگو تھی۔ حکومت اور اپوزیشن ہر کسی کو سنجیدگی سے غور کرنے اور ایک ایسا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت تھی جس کے تحت دشمن کو یہ پیغام جائے کہ قومی اہمیت کے بنیادی امور پر پوری قوم ایک ہے۔ لیکن ایسی بالغ نظری کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا،یہ صورت حال اس بات کا تقاضا کررہی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی قوتوں، اداروں اور پارلیمنٹ، جمہوریت اور آئین کے حامیوں کو ملک میں سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی کے لیے فی الفور وسیع البنیاد قومی مکالمہ شروع کرنا چاہیے۔