منو بھائی

اپنے لندن والے الطاف بھائی سے پہلے پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ’’بھائی‘‘ کے نام سے مشہور ہونے والے منو بھائی بھی 19 جنوری 2018ء کو طویل علالت کے بعد راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔ اُن کی یہ حسرت اُن کے ساتھ ہی قبر میں اتر گئی کہ کوئی انہیں بیٹا، چاچا، ماما، تایا، دادا یا نانا بھی کہہ لیتا۔ دس سال کے بچے اور 100 سال کے بوڑھے سب انہیں منو بھائی ہی کہتے۔ ان کے قریبی دوستوں کے مطابق ان کی اہلیہ بھی جلدی یا غصے میں انہیں منو بھائی کہہ کر ہی پکارتی تھیں۔ موت کے وقت ان کی عمر 84 برس 11ماہ تھی، اور وہ ایک بھرپور زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہورہے تھے۔ انہوں نے ادب، صحافت، تعلقاتِ عامہ، ایڈورٹائزنگ، تراجم، شوبز، ٹریڈ یونین اور خدمتِ خلق میں دیر تک یاد رکھا جانے والا کام کیا۔ صحافت میں پروف ریڈنگ، نیوز ایڈیٹنگ، رپورٹنگ اور کالم نگاری… ادب میں پنجابی اور اردو شاعری کے ساتھ کہانی، افسانہ اور ناول… شوبز میں ڈراما نگاری و اداکاری… ٹریڈ یونین میں پی پی ایل ورکرز یونین، پنجاب یونین آف جرنلسٹس، پریس کلب اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی عہدیداریاں… تعلقاتِ عامہ میں پی پی ایل کے چپڑاسی، روزنامہ جنگ کے دفتر سے وزیراعظم اور صدرِ پاکستان بلکہ عالمی رہنمائوں تک، تھڑا باز ادیبوں اور شاعروں، حلقۂ ابابِ ذوق اور ترقی پسند مصنفین کے فاقہ کش ارکان سے لے کر سرکاری سرپرستی میں اعلیٰ عہدوں کے ساتھ ادب کی ’’سیوا‘‘ کرنے والوں تک… ایڈورٹائزنگ میں میڈاس اور دوسرے تشہیری اداروں تک… اور خدمتِ خلق میں سندس فائونڈیشن کے تحت تھیلے سمیا کے مریضوں کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے والے منو بھائی واقعی ایک کامیاب اور بھرپور انسان تھے۔ انہوں نے عبدالکریم عابد کی طرح موت سے چند گھنٹے قبل اپنا آخری کالم اپنے اخبار کو بھجوایا جس میں پاکستان کو تھیلے سیمیا فری ملک بنانے کی ان کی خواہش کے ساتھ قارئین سے اس مشن کو جاری رکھنے کی اپیل کی گئی تھی۔ دکھی انسانیت خصوصاً تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جماعت اسلامی کے ادارے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے تشہیری پمفلٹ پر سب سے پہلا پیغام منو بھائی کا ہے، جبکہ قاضی حسین احمد کا پیغام 7 ویں نمبر پر ہے۔
6 فروری 1933ء کو وزیرآباد میں ایک ریلوے ملازم محمد خلیل قریشی کے گھر پیدا ہونے والے منو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا۔ میٹرک مشن ہائی اسکول وزیر آباد سے کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور چلے گئے جہاں انہیں پروفیسر غلام جیلانی برق، پروفیسر عثمان اور مختار صدیقی جیسے صاحبِ علم اور دانشور اساتذہ کی صحبت میسر آئی۔ غالباً1956ء میں انہوں نے قومی کتب خانہ والے محمد صفدر کے اخبار روزنامہ تعمیر سے 50 روپے ماہانہ پر بطور سب ایڈیٹر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ اس اخبار میں ان کے ایک ساتھی سب ایڈیٹر سید سعود ساحر بھی تھے جو الحمدللہ بقیدِ حیات اور ملک کے ایک نامور اور جرأت مند صحافی ہیں۔ منو بھائی نے اس اخبار میں ’’اوٹ پٹانگ‘‘ کے نام سے کالم بھی لکھے۔ اس وقت تک وہ ایک مستند شاعر اور ادیب کی حیثیت حاصل کرچکے تھے۔ شاعری میں انہیں اپنے ماموں شریف کنجاہی، احمد ندیم قاسمی اور فیض احمد فیض کی سرپرستی حاصل تھی۔ ابتدا میں منیر بن خلیل اور بعد میں منیر قریشی کے نام سے لکھتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے روزنامہ امروز کے ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی کو اپنی ایک نظم بھیجی، جنہوں نے اسے ’’منو بھائی‘‘ کے قلمی نام سے شائع کردیا۔ اس کے بعد سے منیر قریشی نے بھی اپنے قلمی نام کو اپنا اصلی نام بنالیا۔ اُس زمانے میں راولپنڈی کے علمی و ادبی حلقوں میں شورش ملک، فتح محمد ملک اور منو بھائی کیمبل پور اسکول آف تھاٹ کہلاتے تھے۔ روزنامہ ’’تعمیر‘‘ سے منو بھائی مسلم لیگی رہنما خان عبدالقیوم خان کے حامی اخبار ’’ناقوس‘‘ میں چلے گئے۔ یہ اخبار ایوبی مارشل لا لگنے پر بند ہوگیا، جس کے بعد منو بھائی دوبارہ تعمیر میں آگئے۔ اس دور میں معروف کمیونسٹ لیڈر دادا امیر حیدر سے منوبھائی کی بہت دوستی تھی۔ روزنامہ تعمیر ہی سے وہ احمد ندیم قاسمی کی دعوت پر امروز لاہور میں آئے اور رپورٹنگ کے ساتھ ’’گریبان‘‘ کے نام سے کالم لکھنا شروع کردیا۔ 1970ء میں وہ کچھ عرصہ روزنامہ ’’مساوات‘‘ میں بھی رہے مگر جلد ہی واپس امروز میں چلے گئے۔ یکم اکتوبر 1981ء کو لاہور سے روزنامہ جنگ کا آغاز ہوا تو وہ اس اخبار سے بطور کالم نگار وابستہ ہوگئے۔ اس اخبار کی فائونڈر ٹیم میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ 1981ء سے مرتے دم تک وہ اس اخبار سے وابستہ رہے، البتہ درمیان میں کچھ عرصے کے لیے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ اور شاید کسی ایک اور اخبار میں بھی چند دن کے لیے گئے، لیکن بہت جلد واپس آگئے۔ اس طرح انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا طویل ترین وقت اس اخبار میں گزارا۔
منوبھائی کے ساتھ راقم کا ذاتی حوالہ بھی کسی قدر دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ 1970ء کی دہائی میں ہمارے جو عزیز رشتے دار ملک کے دوسرے علاقوں خصوصاً سندھ سے لاہور آتے وہ دو افراد سے ملتے یا کم از کم ان کی زیارت کرنے کی خواہش کا اظہار ضرور کرتے۔ یہ دو افراد جناب عبدالقادر حسن اور جناب منو بھائی تھے۔ مگر اُس وقت خود ہماری اُن تک رسائی نہیں تھی، ہم اپنے مہمانوں کو ان سے خاک ملاتے!1981ء میں چونکہ حُسنِ اتفاق سے میں اور منو بھائی دونوں ایک ہی ادارے میں اکٹھے ہوگئے اس لیے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگرچہ علمی اور سیاسی اعتبار سے میرے اوراُن کے درمیان زمین آسمان کا فرق تھا۔ نظریاتی اور صحافتی سیاست میں بھی میرے اور اُن کے درمیان فاصلے تھے۔ مگر وہ ہمیشہ محبت اور شفقت فرماتے۔ جب کبھی وہ صبح کے اوقات میں اپنا کالم لے کر دفتر آتے، ہمارے پاس نیوز روم میں گھنٹہ آدھا گھنٹہ ضرور بیٹھتے، چائے پیتے اور ہلکی پھلکی گفتگو کرکے نکل جاتے۔ نیوز روم میں نہ تو وہ بوجھل گفتگو کرتے اور نہ کسی کی دل آزاری کا سبب بنتے۔ 2007ء میں مَیں نے روزنامہ جنگ چھوڑ دیا تو قدرت نے ملاقات کا ایک اور سامان پیدا کردیا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر رضا کاظمی نے لاہور سے ’’پنجاب کی آواز‘‘ کے نام سے حالاتِ حاضرہ کا ایک پروگرام شروع کیا جس کے کمپیئر ناصر نقوی جبکہ شرکاء میں منو بھائی اور راقم الحروف شامل تھے۔ یہ پروگرام ہم لوگ دو ڈھائی سال تک ہفتے میں دوبار کرتے رہے۔ اس دوران منو بھائی کی صحت گرنے لگی تو راقم نے تجویز پیش کی کہ پروگرام میں منو بھائی کا ریڈیو کالم شامل کرلیا جائے۔ راقم نے منو بھائی سے درخواست کی کہ بی بی سی لندن کے اردو پروگرام میں ابن انشاء کا ریڈیو کالم شروع ہوا تھا، اسی طرز پر آپ بھی کالم لکھ دیا کریں جسے ہم میں سے کوئی پڑھ دیا کرے گا۔ اس موقع پر راقم نے غیر ضروری طور پر یہ تذکرہ بھی کردیا کہ ابن انشاء کا پہلا ہی ریڈیو کالم بہت مقبول ہوا تھا لیکن اس کے بعد وہ بیماری کے باعث کالم نہیں لکھ سکے اور آخر کار ان کا انتقال ہوگیا، اس طرح اُن کا پہلا کالم ہی آخری کالم ثابت ہوا۔ جس پر منو بھائی نے برجستہ کہا کہ تمہاری تجویز اچھی ہے لیکن اس کے ساتھ جو تاریخی شرط ہے وہ خاصی کڑی ہے۔ تاہم انہوں نے باقاعدگی کے ساتھ ریڈیو کالم شروع کردیا جو چند ماہ پہلے تک ’’روبی امتیاز‘‘ کی آواز میں ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہوتا رہا۔
چند سال قبل لاہور پریس کلب کے انتخابات کے موقع پر راقم نے بعض سینئر صحافیوں کے ساتھ مل کر یہ مہم چلائی کہ لاہور پریس کلب جیسے باوقار ادارے کا صدر کوئی نامور اور ممتاز صحافی ہونا چاہیے، جسے یا تو بلامقابلہ صدر منتخب کروادیا جائے یا بآسانی جتوادیا جائے۔ اس حوالے سے منو بھائی، سید انور قدوائی اور سید عباس احمد کے نام فائنل ہوگئے۔ پہلے دو افراد نے منو بھائی کے حق میں رضاکارانہ طور پر سرنڈر کردیا کہ اِس سال منو بھائی اورآئندہ آنے والے برسوں میں وہ صدارتی امیدوار ہوجائیں گے۔ خوش قسمتی سے منو بھائی تیار ہوگئے اور انہوں نے تکنیکی ضرورت کے تحت اپنی لائف ممبرشپ سے دست برداری اور کونسل ممبرشپ کی بحالی کے لیے درخواست بھی دے دی جسے الیکشن کمیشن کے چیئرمین عزیز مظہر مرحوم نے فوری طور پر منظور بھی کرلیا، مگر بعض صحافیوں نے ایسا مذموم پروپیگنڈا کیا کہ دلبرداشتہ ہوکر منو بھائی نے انتخاب لڑنے سے معذرت کرلی، ورنہ وہ بآسانی یہ انتخاب جیت سکتے تھے۔ منو بھائی کو کاسمو پولیٹن کلب لاہورکی اعزازی ممبر شپ دینے کی تقریب میں، اور لاہور پریس کلب کی تقریبِ پذیرائی ’’میری باتیں میری یادیں‘‘ میں منو بھائی کی شخصیت اور خدمات پر بات کرنے والوں میں راقم بھی شامل تھا جو میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
1990ء کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں منو بھائی کے گھر چوری ہوگئی اور چور دیگر سامان کے ساتھ منو بھائی کا ٹی وی سیٹ بھی لے گئے۔ منو بھائی نے اپنے کالم میں چور سے کم از کم ٹی وی واپس کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ خبریں وغیرہ سن سکیں۔ اتفاق سے اُن دنوں منو بھائی کے علاقے میں میرے ایک ہمسائے انسپکٹر ملک امداد حسین تعینات تھے، انہوں نے کچھ دن بعد چور کو پکڑ کر سامان برآمد کرلیا۔ وہ برآمد شدہ سامان مع ٹی وی سیٹ لے کر رات گئے ہمارے دفتر آئے اور مجھے ساتھ لے کر منو بھائی کے گھر یہ سامان پہنچایا، جس پر منو بھائی نے ’’چور صاحب شکریہ‘‘ کے عنوان سے ایک اور خوبصورت کالم لکھ دیا۔ ایک زمانے میں جنگ ورکرز یونین خاصی فعال تھی۔ راقم بھی اس یونین کا عہدیدار تھا۔ اس زمانے میں اخبار کے تمام بااختیار افسران یونین کی مخالفت میں مالکان سے بھی دو ہاتھ آگے تھے، لیکن منو بھائی اُن چند مؤثر لوگوں میں شامل تھے جو یونین کی اخلاقی اور مالی مدد کرتے تھے، اور یقینا اس کے لیے میر شکیل الرحمان کی ناراضی مول لے لیتے تھے۔ اس زمانے میں ایک بار جب راقم کو سٹی اور ڈاک ایڈیشنز کا مشترکہ ایڈیٹر بنایا گیا تو سٹی صفحات پر روزانہ ایک نیوز فیچر دینے کا فیصلہ ہوا۔ راقم کا خیال تھا کہ نیوز فیچر صرف منو بھائی، ریاض بٹالوی اور مولوی سعید اظہر لکھ سکتے ہیں۔ لیکن منو بھائی اور ریاض بٹالوی نے دیگر مصروفیات کے باعث معذرت کرلی جبکہ سعید اظہر جو اُس وقت روزنامہ پاکستان میں تھے ان کے ساتھ شرائط طے نہ پاسکیں۔
منو بھائی نے ریڈیو پاکستان کے لیے کچھ فیچر اور ڈرامے بھی لکھے، لیکن انہیں اصل شہرت ٹی وی کے ڈراموں سے ملی۔ سونا چاندی، جھوک سیال، دشت اور عجائب گھر ان کے یادگار ڈرامے تھے۔ منو بھائی اپنے ڈراموں کے تمام کردار اردگرد کے ماحول سے چنتے تھے۔ ایک ڈرامے میں ’’ماماجی‘‘ کا معروف کردار انہوں نے روزنامہ جنگ لاہور کے ایک مرحوم افسر کو سامنے رکھ کر لکھا تھا۔ منو بھائی نے ایک ڈرامے میں اداکاری بھی کی۔ اس ڈرامے میں انہیں لکنت کا شکار ایک شخص کا کردار دیاگیا تھا، مگرجب وہ کیمرے کے سامنے آئے تو فرفر پورے جملے بول گئے۔
غالباً1990ء کی دہائی میں انہوں نے ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں بھی کام کیا۔ عظمیٰ گیلانی، توقیر ناصر اور دوسرے ٹی وی لیجنڈز کے ساتھ میڈاس ایڈورٹائزنگ میں کام کرتے رہے، اور اشتہارات میں عوامی جملوں اور دلچسپ فقروں پر مبنی کاپی لکھنے کی طرح ڈالی۔
منو بھائی سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے اور ان کی زندگی میں اس کا عکس بھی نظر آتا ہے، لیکن وہ مذہب مخالف ہرگز نہیں تھے۔ وہ مذہبی شعائر اور مذہبی اسکالرز کا احترام کرتے تھے اور آخری عمر میں تصوف کی جانب مائل ہوگئے تھے۔ حامد میر کے بقول وہ واصف علی واصف کے باقاعدہ مرید تھے۔ بائیں بازو کے نظریات کے باعث وہ جوانی کے دنوں میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں خاصے سرگرم رہے۔ وہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس، پی ایف یو جے اور پریس کلب کے عہدیدار رہنے کے علاوہ پی پی ایل ورکرز یونین کے صدر بھی رہے۔ یہاں ان کا مقابلہ اپنے دوست محمد ادریس مرحوم کے ساتھ تھا، جنہوں نے آخری دن مقابلے سے دست بردار ہوکر منو بھائی کو ذہنی اذیت سے بچالیا۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ 1960ء میں جب صحافیوں کے لیے پہلا ویج بورڈ ایوارڈ آیا تو اس میں عامل صحافیوں کی نمائندگی منہاج برنا مرحوم کے ساتھ منو بھائی نے کی۔
منو بھائی کا اصل حوالہ کالم اور شاعری تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کالم کی دنیا میں انہوں نے طویل عرصے تک راج کیا۔ وہ قارئین کے دلوں کو چھونے والے کالم لکھتے تھے۔ عام آدمی کے مسائل، مشکلات، اس کی بے چارگی اور حکومتی نظام اور معاشرتی رویوں میں اس کی بے بسی ان کے خاص موضوعات تھے۔ ان موضوعات پر قلم اٹھاتے تو قلم توڑ دینے کا محاورہ ان پر صادق آتا۔ پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کے سابق سربراہ ڈاکٹر شفیق جالندھری کی بے مثال کتاب ’’کالم نگاری‘‘ میں ابراہیم جلیس اور منو بھائی کی سب سے زیادہ تحسین کی گئی ہے۔ اس کتاب میں ملتان کے ایک شاعر کی موت پر منو بھائی کا کالم حوالے کے طور پر دیا گیا ہے جسے آج بھی پڑھا جائے تو اچھا بھلا انسان رو پڑتا ہے۔ یہ کالم اب ان کی کتاب ’’جنگل اداس ہے‘‘ میں شامل ہے۔ انسانی حقوق، شہری آزادیاں اور حکمرانوں کے رویّے بھی ان کے کالم کے موضوعات رہے ہیں۔ وہ اپنے کالم کے دوران ایسے دلچسپ اور چبھتے ہوئے جملے تحریر کرتے جس کا لطف قاری دیر تک اٹھاتا۔ آخری دنوں میں وہ بین الاقوامی سیاست، عالمی کساد بازاری، مارکیٹ اکانومی جیسے خشک موضوعات پر بھی کالم لکھنے لگے تھے، مگر ان کی اصل وکٹ عوامی مسائل و نفسیات تھے۔ کاسمو پولیٹن کی تقریب میں انہوں نے خود بتایا تھا کہ انہیں کالم نگار اُس دکھی ماں نے بنایا تھا جو اُن کے اخبار میں اپنے گمشدہ بچے کی خبر لگوانے آئی تھی۔ بچے کے کوائف نوٹ کرتے ہوئے منو بھائی نے بچے کے کپڑوں کی رنگت پوچھی تو دکھیاری ماں نے کہا: گمشدگی کے وقت اس نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے مگر اب تو وہ میلے ہوچکے ہوں گے۔
منو بھائی نے تھیلے سیمیا کے مریض بچوں ہی کے لیے دن رات کام نہیں کیا بلکہ تعلیم کے فروغ کے لیے بھی عملی کردار ادا کیا۔ انہیں کتب بینی کی گرتی ہوئی شرح پر ہمیشہ سے تشویش تھی۔ اس معاملے میں انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہورکو اپنی ایک لاکھ 45 ہزار 464 کتب عطیہ کرکے اپنے لیے صدقۂ جاریہ کا اہتمام کرلیا۔
منو بھائی کی شاعری خصوصاً پنجابی شاعری بڑی ہی متاثر کن ہے۔ اس شاعری میں بھی عوامیت، طبقاتی ناہمواری، غریب کی عملی مجبوریوں اور نفسیاتی الجھنوں کا تذکرہ ہے۔ منو بھائی نے زیادہ تر نظم پر کام کیا۔ ان کی ایک نظم جس نے بڑی شہرت پائی اور خود منو بھائی اس کا بار بار تذکرہ کرتے تھے، ملاحظہ فرمائیں:
اودی خوب دیہاڑے سن
بھک لگدی سی منگ لینے ساں
مل جاندا سی کھا لیندے ساں
نہیں سی ملدا رو پیندے ساں
روندے روندے سوں رہندے ساں
ایہہ وی خوب دیہاڑے نیں
بھک لگدی اے منگ نئیں سکدے
ملدا اے تے کھا نئیں سکدے
نئیں ملدا تے رو نئیں سکدے
نہ رویے تے سوں نہیں سکدے
منو بھائی کی نثر اور شاعری کی اب تک کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں پنجابی شاعری کا مجموعہ ’’اجے قیامت نہیں آئی‘‘، منتخب کالموں پر مشتمل کتاب ’’جنگل اداس ہے‘‘ کے علاوہ ’’فلسطین فلسطین‘‘ اور ’’محبت کی ایک سو نظمیں‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ مختلف زبانوں سے لیے گئے مضامین کو ترجمہ کرکے منو بھائی نے ’’انسانی منظرنامہ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ منو بھائی نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ کالم نگار، ادیب، شاعر، رپورٹر، ڈراما نگار، اداکار، ٹریڈ یونینسٹ، مترجم، دانشور، فیچر نگار، کہانی نویس، افسانہ نگار، ایڈورٹائزر، کاپی رائٹر، شہری و انسانی حقوق کا سرگرم اور متحرک علم بردار اور دکھی انسانیت کا عملی خدمت گزار منیر احمدقریشی تو لاہور کے ایک قبرستان میں دھرتی کی خوشبودار مٹی کی چادر اوڑھ کر سوگیا ہے لیکن زندگی کے درجنوں شعبوں میں اس کی خدمات اور کام ’’گریبان‘‘ والے منو بھائی کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اسی گریبان کے بارے میں ایک بار ایڈیٹر جنگ میر شکیل الرحمن نے منو بھائی سے کہا تھا کہ اخبار کا صفحہ نمبر 2 جہاں آپ کا کالم چھپتا تھا وہاں اہم خبروں کا دبائو بڑھ گیا ہے، اگر آپ اجازت دیں تو اہم خبریں صفحے کے اوپر والے حصے میں اور آپ کا کالم صفحہ کے نچلے حصے میں لے آئیں۔ جس پر منو بھائی نے کمال معصومیت سے کہا تھا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر صفحہ کے اوپر والے حصے میں ’’گریبان ‘‘ کے نام سے چھپنے والے میرے کالم کو صفحے کے نچلے حصے میں شائع کرنا ہو تو اس کا نام گریبان بس ’’پائنچہ‘‘ کردیں۔