ساقی فاروقی ۔۔۔ عجب آزاد مرد تھا

اب سے چالیس پینتالیس سال قبل کا واقعہ ہے مگر لوحِ حافظہ پر وہ دوپہر آج بھی یاد بن کر نقش ہے۔ ناظم آباد میں اپنی ہمشیرہ کے گھر ساقی فاروقی لندن سے آکے ٹھیرے ہوئے تھے۔ میں ایک سوشل میگزین سے دورانِ طالب علمی ہی کسبِ معاش کے لیے منسلک ہوچکا تھا اور فیچر و انٹرویو نگاری پہ مامور تھا۔ ٹیلی فون پر وقت لے کر ساقی فاروقی سے انٹرویو کے لیے پہنچا تو وہ گلے میں ایک بڑی سی مالا پہنے، آنکھوں پہ سنہری کمانی کی عینک لگائے، صوفے پہ بیٹھے پائپ پی رہے تھے۔ مجھے عجیب سا لگا، لیکن اتنا عجیب بھی نہیں کہ ان کی بابت جو کچھ سن اور پڑھ رکھا تھا، یہ انداز الگ تھلگ سا ہونے کے باوجود اُن کے اندازِ زیست سے کچھ ایسا بعید بھی نہ تھا۔ ان کی شاعری جو تھوڑی بہت پڑھ رکھی تھی اس میں بھی کج ادا محبوبائوں کے بجائے مگرمچھوں، مینڈکوں اور بھانت بھانت کے جانوروں کی بہتات تھی۔ تو انھیں مالا پہنے، کچھ جوگی بنے، اوپر سے پائپ پیتے دیکھ کر دل نے کہا: ’’ساقی فاروقی کو ایسا ہی ہونا چاہیے‘‘۔ تو پہلا سوال ہی انٹرویو شروع ہونے پر کیا: ’’ساقی صاحب! یہ آپ نے مالا کیوں پہن رکھی ہے؟‘‘
اس کا جو جواب انھوں نے دیا اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک آدمی کو جس طرح وہ رہنا چاہتا ہے اسے اس طرح رہنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ ایک سادہ سے غیر رسمی سوال کے جواب میں انھوں نے اپنے وضع کردہ فلسفۂ زندگی کا بنیادی نکتہ بیان کردیا۔ سچ پوچھیے تو وہ مجھے اچھے لگے۔ ہر قسم کی منافقت، دورنگی، دو عملی اور کاٹ کپٹ سے آزاد ایک خالص اور کھرا آدمی۔ یہ ٹھیک ہے کہ تب بھی اور بعد میں بھی ان کی بہت سی باتوں اور اَن گنت معاملات سے مجھے بہت سے اختلافات بھی رہے۔ ان کی آپ بیتی جو ’’آپ بیتی؍پاپ بیتی‘‘ کے عنوان سے چھپی، کئی لحاظ سے ایک ناپسندیدہ آپ بیتی لگی۔ لیکن جو بات تب بھی اور اب بھی قابلِ لحاظ ہے وہ یہ کہ ساقی فاروقی کوئی بات کہنے سے اس لیے کبھی نہیں رکے بلکہ جہاں انھیں خود کو روکنا چاہیے تھا، وہاں بھی نہیں روکا خود کو کہ پڑھنے والے میرے بارے میں کیا خیال کریں گے، کیا سوچیں گے، کوئی پوچھ بیٹھا تو کیا جواب دوں گا، میری اخلاقیات بلکہ اخلاقی حالت کی بابت یہ جو نیچ اور پست رائے قائم کی جائے گی تو آخر مجھے ان ہی لوگوں میں رہنا سہنا ہے، اور یہ لکھنے پڑھنے کی لت جو آدمی کو لگتی ہے، اس کا مقصد اور کیا ہے اس کے سوا کہ آدمی کو اپنے ہم نفسوں میں، اپنوں اور بیگانوں میں عزت و سرخروئی حاصل ہو، تو ایسا میں کیوں لکھوں کہ برا بھلا کہا جائے، لعن طعن ہو یا گالیاں پڑیں۔ لکھتے ہوئے، یہاں تک کہ بولتے ہوئے بھی ساقی فاروقی نے اس کی پروا کبھی نہ کی، کبھی نہ ہوئی یہ فکرکہ ’’دنیا کیا کہے گی؟ لوگ کن لفظوں میں مجھے یاد کریں گے؟‘‘ اب کوئی چاہے تو اسے بے حیائی کہہ لے، کوئی غیرت مند اسے بے غیرتی کا نام دے لے۔ لیکن ایسے معاشرے میں جہاں جھوٹ، منافقت، دورنگی، دو علمی، دھوکا، جعل سازی، مکر اور چالبازی اور اس طرح کے سو عیوب کردار و گفتار کا حصہ ہوں، نمایاں ترین حصہ… اور ہم ایسے سب لوگوں کو برداشت و گوارا کرتے ہوں بلکہ ان سے معاملات بھی کرتے ہوں، ایسے لوگوں کی بھیڑ میں ایک ایسے آدمی کو ہم کیوں نظرانداز نہیں کرسکتے جو سب سے الگ ہو۔
بس کچھ ایسی ہی باتیں تھیں کہ برسوں بعد ساقی فاروقی دوبارہ لندن سے آئے تو میں نے ان کا ایک اور انٹرویو کیا جو میری انٹرویو کی کتاب ’’یہ صورت گر کچھ خوابوں میں‘‘ شامل بھی ہے۔ جن لوگوں کی اردو شعر و ادب پر نظر ہے وہ خوب واقف ہوں گے کہ ترقی پسند تحریک کے نتیجے میں جب ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا نظریہ عام ہوا اور یہ کہا گیا کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔ ادیب زندگی اور معاشرے کی عکاسی ہی نہیں کرتا، معاشرے کو بہتر بنانا بھی ادیب کا ایک وظیفہ ہوتا ہے۔ لیکن اس تصور کے تحت جب ادبی تخلیقات میں پروپیگنڈے، یہاں تک کہ نعرے بازی کا عنصر در آیا تو اس کے ردعمل میں وہ ادبا و شعرا سامنے آئے جن سے ’’ادب برائے ادب‘‘ کا نظریہ منسوب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادب و شعر کا اوّلین تعلق جمالیات سے اور اس کے فنی محاسن سے ہوتا ہے۔ ادب اگر اپنے وصف میں ادب ہی نہ ہو تو سماج اور معاشرے کا کتنا ہی خدمت گار ہوجائے اس کی نوعیت ہنگامی اور صحافتی ہوگی، اور فنی اعتبار سے اس کا درجہ بڑا نہ ہوگا۔ پہلے نقطۂ نظر کے حامل علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، سجاد ظہیر، فیض احمد فیض وغیرہ تھے، جبکہ ثانی الذکر کی نمائندگی میں ن۔ م راشد، میرا جی، محمد حسن عسکری وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ ساقی فاروقی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ترقی پسند تحریک کے زیراثر کیا، لیکن جیسے جیسے ان کی ادبی آگہی میں اضافہ ہوتا گیا، ان کے نظریات میں تبدیلی آتی گئی اور وہ فیض جیسے مقبول شاعر سے دور اور ن۔م راشد کی شاعری اور ان کے فکر و فن سے نزدیک آتے گئے۔ اختلافِ فکر کے باوجود ساقی فیض صاحب کی شاعری کی حسن کاری کے بہت قائل تھے، لیکن ان کی شاعری میں بھی جہاں کہیں ’’عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی‘‘ جیسے مصرعے آتے تھے، وہ نہایت جرأت مندی سے فیض صاحب کو بھی نظم سنانے سے روک دیتے تھے، یہ کہہ کر کہ ’’فیض صاحب! نظم ’’ہم نے اس پیار میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے، جز ترے اور کو سمجھائوں تو سمجھا نہ سکوں‘‘ پر ختم ہوچکی ہے۔ اب آگے نہ پڑھیے کیونکہ آگے جو مصرعے ہیں وہ شاعری نہیں ہیں۔‘‘
یہ فیض صاحب کی شرافت اور وضع داری تھی کہ وہ واقعی رک بھی جاتے تھے اور آگے نہ پڑھتے تھے، شاید ساقی کی دل داری کے خیال سے یا مزید دل آزارانہ فقروں کے اندیشے سے۔ ہر آدمی کو اپنی عزت پیاری ہوتی ہے اور ساقی کو کبھی اپنی ہی عزت کی پروا نہ رہی تو کسی اور کا خیال انھیں کیوں ہوتا!
میرے انٹرویو میں ساقی نے ایک مزے کا انکشاف یہ بھی کیا تھا کہ ایک مرتبہ فیض صاحب مجھ سے کہنے لگے تسلی دیتے ہوئے کہ ’’فکر نہ کر، راشد اور تیرا زمانہ بھی آئے گا۔‘‘
ساقی نے جواب دیا ’’فیض صاحب! راشد بڑے شاعر ہیں، مجھے تو اُن کے برابر نہ لایئے۔‘‘
فیض صاحب کی پیش گوئی شاید درست ہی تھی کہ پچھلے کچھ برسوں سے ن۔م راشد کی، جو ساقی فاروقی کے گرو تھے، شاعری پر جس تواتر سے کتابیں چھپ رہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ راشد کی شاعری کو نئے سرے سے سمجھنے اور دریافت کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
ساقی کا لڑکپن اور جوانی اسی شہر کراچی میں گزرے۔ تعلیم اپنے گھریلو حالات اور خراب معاشی پس منظر کی وجہ سے گریجویشن ہی تک حاصل کی۔ پھر ادب کا چسکا ایسا پڑا کہ دنیا میں شعر و ادب کے سوا ہر سرگرمی بے معنی نظر آنے لگی۔ مزاج میں غصہ اور اشتعال جوانی میں کچھ زیادہ ہی تھا، کتابیں پڑھنے کا شوق ہو اور کتاب خریدنے کے لیے جیب میں رقم نہ ہو آدمی ویسے ہی انقلابی ہوجاتا ہے۔ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے کہ کتابوں کی کسی دکان پہ جاکر کوئی ادبی رسالہ اٹھا کر پڑھنے لگے، دکاندار نے ٹوک دیا اور مفت میں رسالہ پڑھنے سے روک دیا۔ انھوں نے رسالہ پٹخا اور پائوں پٹختے ہوئے کسی آسودہ حال دوست کے پاس پہنچے، اس سے ادھار لے کر دکان پہ آئے، رسالے کی قیمت ادا کی اور دکان دار کے سامنے ہی رسالہ پھاڑ پھوڑ کے چل دیے۔ دکاندار ہکا بکا دیکھتا رہ گیا۔ یہ دکاندار کی بدتہذیبی سے انتقام لینے کا ساقی کا اپنا جارحانہ انداز تھا۔ لیکن بہ قول ان کے، غربت کے یہ دن جب تکلیف دہ ہوتے ہوتے ناقابلِ برداشت ہوگئے تو ساقی نے لندن کا رختِ سفر باندھ لیا۔ وہاں پہنچ کر محنت مزدوری کرکے کسی طرح ایک ادارے میں اکائونٹنٹ ہوگئے، اور یوں معاشی آسودگی کے دروازے ان پر ایسے کھل گئے کہ سکونِ قلب کے ساتھ شاعری اور ادب پر توجہ کرنے کا وقت مل گیا۔ ساقی فاروقی نے شادی بھی ایک انگریز خاتون سے کی۔ ان کی اہلیہ گنڈی یقینا ایک مضبوط اعصاب والی کشادہ دل خاتون تھیں جنہوں نے ساقی کے ساتھ بآسانی یا بہ مشکل (خداجانے) نباہ کیا۔
ساقی کو جانوروں سے جو رغبت تھی، اس کا پتا ان کی نظموں ہی سے نہیں چلتا، ان کے پالتو کتے سے ساقی کی رغبت و محبت سے بھی ہوجاتا تھا۔ یہ کتا جسے بعد میں ساقی اپنا محسن بھی سمجھتے تھے کہ اس نے ایک مرتبہ ساقی کی زندگی بھی بچائی تھی۔ شام کا وقت تھا، ساقی کسی سنسان پارک میں اپنے کتے کے ساتھ ہوا خوری کررہے تھے کہ ان پر حملۂ قلب ہوا۔ وہیں گر پڑے۔ کتا بھانپ گیا کہ مالک کو مدد کی ضرورت ہے۔ وہ بھونکتا ہوا گیا اور دو ایک پارک میں سیر کرنے والوں کو دانتوں سے اُن کے دامن کو کھینچتا بلکہ گھسیٹتا ہوا لے آیا۔ اور یوں ساقی کو اسپتال پہنچنا نصیب ہوا اور ہنگامی طبی امداد دے کر ان کی جان بچائی گئی۔ کچھ برس بعد یہ جرمن کتا مرا تو ساقی کو سخت صدمہ پہنچا۔ ان دنوں یہ خاکسار’’تکبیر‘‘ میں کالم لکھا کرتا تھا۔ کتے کی موت پر تعزیت کرنے کی ترکیب یہ نکالی کہ شہر کے ممتاز ادیبوں کے تعزیتی بیانات اکٹھا کرکے کالم تیار کیا۔ مشفق خواجہ (مرحوم) نے اس کالم کے لیے ساقی فاروقی کے نام ایک نہایت دلچسپ خط لکھا جو اب بھی کبھی کبھار اخبارات کے ادبی صفحات پر قندِ مکرر کے طور پر نقل ہوتا ہے۔
کیا شبہ ہے کہ ساقی فاروقی ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر اور اپنی دو ایک تنقیدی کتابوں کے حوالے سے نہایت بے لاگ اور روشن دماغ نقاد بھی تھے۔ یہ الگ بات کہ انھوں نے اپنی رسوائی کا سامان اکٹھا کرنے کے لیے ادب میں عجیب عجیب سوانگ رچائے۔ کبھی کسی مشہور ادیب و شاعر کے خلاف طول طویل خط لکھ مارا۔ کبھی کسی کے خلاف کوئی ایسا بیان دے دیا یا کوئی ایسا فقرہ لکھ دیا کہ ادبی حلقوں میں وہ موضوع بحث بن گئے۔ کسی پل نچلے بیٹھنے والے شاعر نہ تھے۔ وہ دھومیں تو مچاتے ہی تھے، گرد وغبار بھی خوب اڑاتے تھے۔ اس میں انھیں کیا مزا آتا تھا، اس کی خبر تو انھیں ہی رہی ہوگی۔ عرصۂ دراز سے صاحبِ فراش تھے۔ پھر وینٹی لیٹر پر منتقل کردیے گئے تھے۔ ان کی بیماری سے جو آخر آخر کو جان لیوا ثابت ہوئی، ادبی دنیا میں سناٹا چھا گیا تھا۔ پہلے لندن سے کوئی خبر آتی تھی تو ادبی دنیا میں وہ ساقی ہی کے حوالے سے ہوتی تھی۔ راشد کے بعد فیض صاحب رخصت ہوئے، پھر سلیم احمد اور مشفق خواجہ کا بلاوا آیا۔ احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا بھی چل بسے۔ یہی ادیب و شعرا اور نقادانِ ادب تھے جن سے ساقی بالعموم الجھتے تھے، جب یہی لوگ نہ رہے تو ساقی کے لیے بھی ادبی زندگی ویران ہی ہوگئی ہوگی۔
اولاد کوئی ہوئی نہیں۔ زندگی آہستہ آہستہ خاموشی اور سناٹے کا شکار ہوتی گئی اور اب جو لندن سے اطلاع آئی کہ ساقی بھی چل دیے تو بے اختیار شعور کی سطح پر یہ شعر ابھر آیا:
اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے
خاک میں بیٹھ گئے خاک اڑانے والے
خدا معلوم دوسری دنیا میں ساقی کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟ لیکن اگر ظاہر و باطن کی یکسانیت میں کوئی پہلو خوبی کا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس خوبی سے ان کے لیے خیربرآمد نہ ہو۔