پروفیسر سید گل محمد شاہ گل بخاری

موجودہ عہدِ زوال میں اب بھی ہمارے ہاں ایسے رجالِ کار کی کمی نہیں ہے جو نامساعد اور ناسازگار حالات اور وسائل کی کم یابی کے باوصف اپنے اپنے شعبے میں بے مثال اور یادگار خدمات بڑی تندہی کے ساتھ سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ ان کی محنت، لگن، کام اور جستجو کو دیکھتے ہوئے نہ صرف رشک آتا ہے بلکہ بے اختیار یہ کہنے کو بھی جی چاہتا ہے کہ
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ’’ہے‘‘
ایسے ہی نمایاں اور بے مثل افرادِ کار میں باب الاسلام و صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک فردِ فرید پروفیسر سید گل محمد شاہ بخاری کا نامِ نامی بھی شامل ہے، جنہوں نے تعلیم، علم اور ادب میں گراں قدر کارہائے نمایاں سرانجام دے کر یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ اگر جذبۂ صادق اور عزم مصمم ہو تو وسائل کی کمی آڑے آسکتی ہے اور نہ ہی چھوٹے شہر میں قیام بڑے امور کی انجام دہی میں سدِّ راہ بن سکتا ہے۔
شاہ صاحب موصوف ایک ممتاز اور معروف معلم، ادیب، شاعر اور مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے گئے مقرر بھی ہیں۔ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر دینی، علمی اور اصلاحی موضوعات پر ان کی تقاریر اپنے اندازِ بیان اور دقیقہ رسی کے سبب ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘ کا علمی مظہر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کی تقاریر ازحد پسند کی جاتی ہیں۔ انہیں صوبے بھر میں منعقدہ پروگرامات میں مذکورہ موضوعات پر خطاب کے لیے بصد اشتیاق اور اصرار دعوت دی جاتی ہے۔
پروفیسر سید گل محمد شاہ بخاری کو ان کی عمدہ تصانیف اور تالیفات کی بنا پر آٹھ مرتبہ صدارتی ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔ نقد انعامات اور سرٹیفکیٹس جو انہیں تاحال معتدبہ تعداد میں مل چکے ہیں وہ اس پر مستزاد ہیں، لیکن اس کی تفصیل جاننے سے قبل شاہ صاحب کے سوانحی نقوش پر ایک نظر:
پروفیسر سید گل محمد شاہ بخاری کے والدِ محترم کا نام سید غلام شاہ بخاری ہے۔ انہیں علمی اور ادبی حلقوں میں ان کے ادبی نام گل محمد شاہ گلؔ بخاری سے شہرت حاصل ہے۔ 21 اگست 1960ء کو شہداد کوٹ میں جنم لینے والے بخاری صاحب نے تعلیم میں ایم اے اسلامک کلچر، ایم اے پولیٹکل سائنس، ایم اے سندھی ادب، ایم اے مسلم ہسٹری، ایم اے عربی اور ایم اے فارسی کی اسناد حاصل کر رکھی ہیں، اور آج کل بہ حیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج شہدادکوٹ میں پڑھا رہے ہیں۔ شاعری کی شروعات اوائل میں غیر شعوری طور پر 1977ء سے، لیکن 1989ء سے شعوری طور پر کی۔ اس حوالے سے اپنا استاد ڈاکٹر نذیر احمد جروار کو گردانتے ہیں۔ نثر میں بھی خامہ فرسائی کی باضابطہ ابتدا مذکورہ سال ہی سے، لیکن باقاعدہ طور پر آغاز 1988ء سے کیا۔ نثر میں اپنا راہ نما معروف ادیب ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کی تاحال 15شعری مجموعوں سمیت 58 کتب منصۂ شہود پر آکر سندِ پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ نثر میں اشاعت پذیر ہونے والی کتب کی تعداد 40 ہے، جن میں 5 تراجم اور 3 مرتب کردہ کتب بھی شامل ہیں۔ ان کی بعض اہم کتب ایسی بھی ہیں جو سندھی زبان و ادب میں بڑی اہمیت کی حامل گردانی جاتی ہیں، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں:
(1) سندھی میں باونجاھ اکرن مطابق پھریون نعتیہ دیوان ’’سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘
(2) سندھی باونجاھ اکرن موجب پھریون حمدیہ دیوان ’’سبحان جی ساراھ‘‘
(3) سندھی مہ اضافی اُچارن سان 80 ردیفن تی مشتمل پھریون غزلیہ دیوان ’’دیوان گل بخاری‘‘
(4) ’’انسان نامو‘‘۔ انسان سے متعلق طویل نظم معانی اور تشریح کے ساتھ۔
(5)منظوم ’’آتم کہانی‘‘ نثری تشریح کے ساتھ۔
(6)’’اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار سو سے زائد اسمائے گرامی اور حاشیہ میں معانی مع تشریح کے دیے گئے ہیں۔
شاہ صاحب کو جو صدارتی ایوارڈ ان کی کتب پر عطا کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں:
(1) 1991ء میں سابق صدرِ پاکستان غلام اسحق خان مرحوم نے صدارتی ایوارڈ دیا۔
(2) 1993ء میں سابق صدر (قائم مقام) وسیم سجاد نے صدارتی ایوارڈ عطا کیا۔
(3) 1995ء میں سابق صدر فاروق احمد خان لغاری نے صدارتی ایوارڈ دیا۔
(4) 1999ء میں سابق صدر محمد رفیق تارڑ سے صدارتی ایوارڈ ملا۔
(5) 2008ء میں سابق صدرِ پاکستان جنرل پرو یزمشرف کے نمائندے کے طور پر سابق نگراں وزیراعظم محمد میاں سومرو سے صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔
(6) 2012ء میں سابق صدر آصف زرداری کے نمائندے کے طور پر سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک سے ایوارڈ پایا۔
(7) 2012ء میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری سے ایوانِ صدر میں صدارتی ایوارڈ ملا۔
(8) 2015ء میں موجودہ صدرِ پاکستان ممنون حسین کے عوض ترکی کے مفتیٔ اعظم ڈاکٹر رحمنی پاران سے صدارتی ایوارڈ وصول کیا۔
دیگر مختلف ایوارڈز جن کی تعداد دو درجن سے بھی زیادہ ہے، نقد انعامات اور اسناد اس پر مستزاد ہیں۔ انہیں نعتیہ دیوان ’’برہان شریف‘‘ لکھنے پر حکومتِ پاکستان کی جانب سے عمرہ بھی کرایا جاچکا ہے۔ پاکستان کے بیشتر بڑے شہروں (بشمول اسلام آباد) میں علمی اور ادبی تقریبات میں بہ کثرت شرکت کرچکے ہیں۔ مطالعہ کتب کے حد درجہ شائق ہیں اور متواتر سلسلۂ تصنیف وتالیف میں محو رہتے ہیں۔ پروفیسر سید گل محمد شاہ گلؔ بخاری ایک اچھے منتظم بھی ہیں۔ موصوف بانی سیرتؐ لائبریری شہداد کوٹ، ڈائریکٹر سیرتؐ اکیڈمی شہداد کوٹ، صدر مرکزِ تعلیم القرآن ٹرسٹ شہداد کوٹ، جنرل سیکرٹری علمی ادبی تنظیم شہداد کوٹ کے طور پربھی سرگرم عمل ہیں۔
شاہ صاحب کی چند مزید معروف کتب کے نام درج ذیل ہیں:
(1) سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن جی آئینی م
(2) ایمان ء اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جی نظر م
(3)عزیز نامو
(4) سندھی بولی م ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم
(5)ثنائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم (نعتیہ شاعری) صدارتی ایوارڈ یافتہ
(6)سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم (حمدیہ اور نعتیہ شاعری)
(7)سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم (صدارتی ایوارڈ یافتہ)
(8) تعارف القرآن
(9) رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم
(10) تاریخ جاے ورق۔ تقابلی مطالعو
(11)ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم (صدارتی انعام یافتہ)
(12)فکرِ حبیب (مولانا حبیب اللہ شہداد کوٹی کے کلام کی ترتیب اور تقدیم)
(13)سچی سرور جو سنھیو (ترجمہ)
(14)سندھی م حدیث نگاری
(15)درسِ قرآن جا بنیادی اصول
(16)دل کی باتیں (اردو شاعری)
(17)سندھی ادب میں کتب ِسیرت (اردو)
(18)موتی میڑیا مون (شعری مجموعہ)
(19) سندھی م سیرتؐ نگاری
(20) سجن ء سانیھ۔ رشید خان واہی کا کلام (ترتیب اور مقدمہ)
(21)تذکرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم (نعتیہ شاعری)
(22) مقدس زندگی جنھن جو قسم اللہ کنیو آھی
(23)آبِ کوثر (نعتیہ دیوان)
(24)مدحِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
(25) اسلام جی دعوت م عورتن جو حصو (ترجمہ)
(26)پنھنجومٹ پانؐ ، سمیت دیگر کئی کتب
پسندیدہ کتب: تفہیم القرآن، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم، خطباتِ مدارس
پسندیدہ ادیب: ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی، اردو میں پیر کرم شاہ الازہری
پسندیدہ شاعر: علامہ اقبالؒ، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ،ماہر القادریؒ
شخصی اوصافِ طبع: حد درجہ خوش اخلاق، خوش مزاج اور مہمان نواز ہیں۔ سچے عاشقِ رسول واقع ہوئے ہیں۔ پڑھنے پڑھانے سے بھی گہر اشغف رکھتے ہیں۔
رہائش : گل محمد شاہ اسٹریٹ، ڈرب محلہ شہداد کوٹ
موبائل نمبر:0300-3472633
0333-7502633