صفدر علی چودھری مرحوم کا ایک مطبوعہ انٹرویو

.13جنو ر ی 2018ء کو اسلامک پبلی کیشنز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس جاری تھا کہ عزیزم مدثر ابن صفدر علی چودھری کا فون آیا۔ میں نے فون سنا تو مدثر نے اطلاع دی ’’چچا جان! ابوجی کا انتقال ہوگیا ہے‘‘۔ میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر پوچھا: ’’کس وقت؟‘‘ اس نے بتایا کہ طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ ہم منصورہ ہسپتال لے کر آئے، مگر پہنچتے ہی ابوجی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اب ہم میت لے کر واپس محافظ ٹاؤن جارہے ہیں۔
مجلس میں موجود تمام رفقا صفدر علی صاحب کے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے۔ جناب چودھری محمد اسلم سلیمی صاحب، جناب لیاقت بلوچ صاحب، جناب امیرالعظیم صاحب، جناب میاں محسن فاروق صاحب، جناب طارق محمود صاحب اور جناب جاوید صاحب سبھی غم زدہ ہوگئے اور مرحوم کے لیے سب کے لبوں پر تحسین و تعریف کے الفاظ کے ساتھ دعائیہ کلمات آگئے۔ اسی وقت محسن فاروق صاحب نے بتایا کہ ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ اوکاڑہ میں بزرگ رکن جماعت علی حسین صاحب کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ مجلس میں مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ اسی روز بعد نمازِ عشاء دونوں مرحومین کا جنازہ پڑھا گیا اور وہ اپنے چاہنے والوں کو غمزدہ چھوڑ کر ابدی نیند سوگئے۔
مرحوم بھائی صفدر علی صاحب کے ساتھ کم و بیش باسٹھ، تریسٹھ سال سے بہت ہی قریبی تعلق تھا۔ ان کے بارے میں تفصیلی مضمون ان شاء اللہ جلد لکھوں گا۔ اس وقت فوری طور پر برادرِ مکرم کے بارے میں جناب حافظ محمد ایوب صاحب بزرگ رکنِ جماعت اسلامی نے اسلام آباد سے ایک خط بھیجا ہے اور فرمائش کی ہے کہ یہ خط اور صفدر علی چودھری مرحوم کا ایک انٹرویو جس کی فوٹو کاپی لف ہے، اخبارات اور رسائل میں شائع کیا جائے۔
حافظ محمد ایوب صاحب بڑی پیاری شخصیت کے مالک ہیں۔ موصوف کا صفدر علی مرحوم اور راقم الحروف دونوں کے ساتھ بہت ہی مشفقانہ تعلق رہا ہے۔ اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’آج اخبارات میں مرحوم و مغفور جناب صفدر علی چودھری کی وفات کے بارے میں خبر پڑھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مورخہ 8 جولائی 2012ء کو مطبوعہ صفدر علی چودھری صاحب کا ایک انٹرویو میری فائل سے ملا۔ آپ کو بھیج رہا ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ صفدر صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ نیکیوں میں برکت عطا فرمائے، خطاؤں سے درگزر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ دعاگو۔ طالب دعا: حافظ محمدایوب۔‘‘
صفدر بھائی سے یہ انٹرویو ان کے ایک قدردان صحافی جناب مقصود گوہر نے 2012ء میں لیا تھا جو روزنامہ ’’نئی بات‘‘ میں بعنوان ’’میں ریٹائرمنٹ کو نہیں مانتا‘‘ 8 جولائی 2012ء کو اشاعت پذیر ہوا۔ انٹرویو کے مطابق ’’صفدر چودھری جماعت اسلامی کے دیرینہ کارکن ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی اور ملکی سیاست کی تاریخ ہیں۔ انھوں نے اقتدار کے ایوانوں اور سیاست کی بھول بھلیوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ شعور کی آنکھ کھولتے ہی انھوں نے اپنے آپ کو مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے حوالے کردیا تھا۔ اس حوالے سے صفدر چودھری کا کہنا ہے: میں نے 1957ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1960ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران ٹیچنگ کورس ’’ایس وی‘‘ پاس کیا، پھر 14اکتوبر 1962ء کو اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔ 1963ء میں میری شادی ہوئی۔ میرا رشتہ طے ہونے اور شادی ہونے میں مولانا مودودی کی مشاورت کا بڑا عمل دخل تھا۔
میری شادی 14اپریل 1963ء کو ہوئی۔ شادی کے بعد میں نے گریجویشن کی۔ 1968ء میں ایم اے سیاسیات کا امتحان پاس کیا اور اسی سال جماعت اسلامی کا رکن بنا اور مجھے مرکز میں [معاون] ناظم نشرواشاعت و تعلقاتِ عامہ مقرر کیا گیا۔ [مولانا نعیم صدیقی ناظم شعبہ تھے۔ بعد میں انھوں نے اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے ذمہ داریوں سے معذرت کی تو مجھے اس شعبے کا ناظم بنادیا گیا۔ چودھری غلام جیلانی مدیر ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ کی وفات پر مجھے اس رسالے کا انچارج بھی بنادیا گیا۔] یوں پبلک ریلیشننگ اور صحافت کا سلسلہ ایک ساتھ شروع ہوا۔ ہمارے پاس وسائل زیادہ نہیں ہوتے تھے، حتیٰ کہ اپنی ٹرانسپورٹ بھی نہیں تھی مگر میری ذمہ داری کا تقاضا تھا کہ متحرک ہوکر کام کیا جائے، چنانچہ 18سو روپے میں عطاء الحق قاسمی سے سیکنڈ ہینڈ ہنڈا 50 خریدی گئی۔ سمجھ لیں کہ جماعت اسلامی [شعبہ نشرواشاعت] کے پاس یہ پہلی ٹرانسپورٹ تھی۔ میں نے مختلف حلقوں میں آنا جانا شروع کیا۔ لوگوں سے ذاتی تعلقات بنائے۔ خصوصاً صحافتی اور ادبی حلقوں سے خاصا میل ملاپ رہا۔
[میرے روابط میں] دائیں بازو والے بھی تھے اور بائیں بازو والے بھی۔ اشتراکی دوست نہیں مانتے تھے کہ میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ میں سمجھتا تھا محض دفتر [کے اندر] بیٹھنے سے میرے فرائض کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ اس لیے میں نے متحرک ہونے کا فیصلہ کیا۔ سینئر صحافیوں میں سے کوئی صحافی ایسا نہیں ہوگا جس نے میری موٹرسائیکل پر سفر نہ کیا ہو۔ ابتدائی دنوں میں جماعت اسلامی کا دفتر ذیلدار پارک اچھرہ میں ہوتا تھا۔ مولانا مودودی جماعت اسلامی کے امیر تھے جبکہ میاں طفیل محمد سیکرٹری جنرل تھے۔ شعبہ خواتین میں مولانا مودودی کی بیگم جماعت اسلامی کی سیکرٹری جنرل تھیں۔ وہ زمانہ جماعت اسلامی کو تنظیمی حوالے سے مضبوط کرنے کا تھا جس کے لیے دن رات کام کرنے کی ضرورت تھی، اور کام کیا بھی گیا۔ میں صبح سے رات گئے تک کام کرتا تھا۔
میرے فرائض شام چار بجے تک تھے مگر ذمہ داری کا تقاضا اور اپنے اندر کا جنون اور جذبہ تھا کہ ہم رات گئے تک متحرک رہتے تھے۔ مجھے ناظم نشرواشاعت کے طور پر مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور اب سید منورحسن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران بہت سے تاریخی واقعات میرے سامنے وقوع پذیر ہوئے۔ بہت سی سیاسی شخصیات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے سعودی عرب، بنگلہ دیش، ایران اور افغانستان جانے کا موقع ملا، اور پھر لائن آف کنٹرول کے اندر چند قدم اپنے شہید بیٹے مظفر نعیم کے ساتھ گیا۔ مولانا مودودی میرے پہلے امیر جماعت تھے۔ 1960ء سے 1972ء تک میں نے ان کے ساتھ کام کیا، لیکن جب ان کی امارت ختم ہوئی تو انھوں نے مجھے بلاکر کہا کہ باقی شعبوں سے تو آج میرا تعلق ختم ہوگیا کیوں کہ نئے امیر جماعت میاں طفیل محمد آگئے، لیکن شعبہ نشر و اشاعت کا میں مستقل امیر ہوں اور جب تک میں دنیا میں ہوں، ہر ہفتے آپ کو آنا ہے اور اپنے شعبے کی رپورٹ مجھے دینی ہے۔
[مولانا کی ہدایت کے مطابق] میں ہر ہفتے ان کے ہاں حاضر ہوتا رہا اور ہر ہفتے کی جماعت کی اہم خبروں اور دیگر سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرتا رہا۔ 1979ء میں مولانا سید مودودی کا انتقال ہوا تو یوں سمجھیے کہ اُس وقت تک وہی میرے امیر رہے۔ پھر میں نے میاں طفیل محمد صاحب اور ان کے بعد قاضی حسین احمد صاحب کے ساتھ کام کیا۔ مجھے بھٹو مخالف تحریک میں صحافتی فرائض ادا کرتے ہوئے شدید تشدد کا نشانہ بناکر اپریل 1977ء میں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں [کئی ہفتوں تک] غیر قانونی طور پر نظربند رکھا گیا۔ وفاقی انجمن صحافیان (پی ایف یو جے) کے صدر محترم نثار عثمانی کی خصوصی ذاتی کوششوں سے رہائی ملی۔ جیل سے مجھے سیدھا میو ہسپتال میں امراضِ قلب کے وارڈ میں چار دن تک زیر علاج رکھا گیا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری صاحب نے کہا: ’’مولانا مودودی ریٹائرمنٹ کو نہیں مانتے تھے اور نہ ہی میں مانتا ہوں۔ مولانا مودودی کا کہنا تھا کہ آدمی کو آخری سانس تک متحرک رہنا چاہیے۔ میں ان کی سوچ سے اتفاق کرتا ہوں۔ لہٰذا ریٹائرمنٹ کے باوجود اسی طرح متحرک ہوں۔ اسی طرح جماعت کے لیے کام کررہا ہوں، گو کہ میری ایک آنکھ کی بینائی متاثر ہوچکی ہے مگر میں نے اسے کبھی مسئلہ نہیں بنایا۔ مجھے کہیں بھی آنا جانا پڑے بلاتردد پہنچ جاتا ہوں۔ ریٹائرمنٹ سے یہ فرق پڑا ہے کہ اب [کسی حد تک] گھر کو بھی توجہ دینے کا موقع ملا ہے۔ پہلے تو میری بیگم کو بھی پتا نہیں ہوتا تھا کہ میرے دفتری اوقات کیا ہیں۔ انھیں منصورہ جاکر پتا چلا کہ ہمیں شام چار بجے چھٹی ہوجاتی ہے۔ یہ معلوم ہونے کے بعد انھوں نے اپنے ردعمل کا اظہار بھی کیا مگر پھر انھیں بھی حسبِ سابق حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا، البتہ ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی کبھی اس طرح کی بھی صورت حال ہوتی ہے کہ ’’پہلے گھر آتے نہیں تھے، اب گھر سے جاتے نہیں ہیں‘‘ لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔ میرے آج بھی پہلے جیسے معمولات ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا: ’’میں اپنی گزری ہوئی زندگی سے پوری طرح مطمئن ہوں۔ ہر طرح سے ساتھ دینے والی بیوی ملی۔ سعادت مند اور فرماں بردار اولاد ملی۔ پوری زندگی پورے خلوص کے ساتھ دینِ اسلام کے لیے کام کیا۔ کشمیر میں جہاد کرتے ہوئے میرا بیٹا شہید ہوگیا، اس سے زیادہ اطمینان اور کیا ہوسکتا ہے کہ میں ایک شہید کا باپ ہوں۔‘‘ (روزنامہ ’’نئی بات‘‘، 8 جولائی 2012ء)
صفدر بھائی کے اس ذاتی انٹرویو میں بہت سی باتیں قارئین تک پہنچ جائیں گی جو ان کے جاننے والوں کے لیے ہرگز نئی نہیں ہیں۔ مرحوم کے بارے میں ان کے قریبی احباب کے سینوں میں اتنی یادیں موجزن ہیں کہ اگر جمع کی جائیں تو ضخیم کتاب بن جائے۔ ان شاء اللہ مرحوم کے بارے میں مزید بھی لکھا جائے گا۔ ان کے جنازے کے موقع پر کئی احباب کو روتے ہوئے دیکھا جو اس بات کی علامت ہے کہ مرحوم لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔ اب جسمانی لحاظ سے چلے گئے، مگر روحانی طور پر اب بھی احباب کے ساتھ ہیں۔