تحریر: مشفق خواجہ/ تدوین و تلخیص: محمود عالم صدیقی
آپ بیتی لکھنا ایک ایسا مشغلہ ہے جس کے ذریعے آپ بیتی لکھنے والا جھوٹ کو سچ بناکر اس لیے پیش کرتا ہے کہ پڑھنے والوں کے دلوں پر لکھنے والے کی عظمت کا سکہ بیٹھ جائے۔ کوئی اپنی خاندانی عظمت کا رعب جھاڑنے کے لیے دوسرے معروف لوگوں کے آبا و اجداد کو اپنے شجرہ نسب میں داخل کرلیتا ہے، تو کوئی دوسروں کے کارہائے نمایاں کو اپنی محنت کا صلہ اور نتائج بناکر پیش کرتا ہے۔ سیاستداں اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کو دوسروں سے منسوب کرکے ان کی خوبیوں اور کارناموں کو اپنی ذات سے منسوب کرکے اپنی سوانح حیات کو چار چاند لگاتے ہیں۔ لیکن اس جہانِ پُرفریب و منافق معاشرے میں گنتی کے چند ایسے دیانت دار لوگ بھی ہیں جو اپنے جھوٹ اور فریب کا خود پردہ چاک کرتے ہیں اور اپنا کچا چٹھا کھول کر دوسروں کے سامنے رکھ دیتے ہیں، اور اپنی بددیانتیوں میں کوئی کتربیونت نہیں کرتے۔ میں ایسے ایک دلیر صحافی سے آپ کا تعارف تو آخر میں کرائوں گا، پہلے ان کی صحافتی زندگی اور کامیابیوں کا ذکر کردوں۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز لکھنؤ کے ایک اردو روزنامے سے ہوا جس کا نام ’’حقیقت‘‘ تھا، اس کے بعد ’’قومی آواز‘‘ اور دیگر اخباروں میں کام کرتے رہے۔ اردو صحافت سے دل بھر گیا تو انگریزی صحافت کے مزے چکھے۔ چند انگریزی اخباروں میں کام کرنے کے بعد انگلستان روانہ ہوگئے تاکہ اپنی انگریزی صحیح کرنے کے ساتھ انگریزوں کے صحافتی کردار سے آگاہی ہوسکے۔ وہاں برسوں رہے۔ بہت سے چھوٹے بڑے اخباروں میں کام کیا۔ آخری چند برس مشہور زمانہ انگریزی اخبار روزنامہ ’’ٹائمز‘‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن رہے۔ یقینا یہ ان کی انگریزی زبان دانی اور اکتسابی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ یہ اعزاز اب تک برصغیر کے چند ہی صحافیوں کو حاصل ہوا ہے۔
صحافی کو کھانے پینے کے بے شمار مواقع حاصل ہوتے ہیں
موصوف کو صحافت کا پیشہ اس لیے پسند آیا کہ اس میں مفت کھانے پینے کے مواقع اکثر ملتے رہتے ہیں۔ بن بلائے دعوتوں میں شریک ہونا ایک خوشگوار تجربہ تھا، فرماتے ہیں: ’’مفت خوری، پارٹیوں میں شرکت کرنے، بلاتکلف ہر جگہ پہنچنے اور منتظمین کو خفا ہوکر واپس جانے کی دھمکی دینے کی ایسی عادت پڑی کہ آج تک نہیں چھوٹی‘‘۔
چوری اور سینہ زوری کا صحیح مفہوم
موصوف نے صحافتی زندگی کے ابتدائی دور میں مفت خوری کے ساتھ چوری کا شغل بھی اختیار کیا۔ اس کی تفصیل خود ان کی زبان سے سنیے: ’’دفتر کے ایک کونے میں غیرفروخت شدہ اخبارات کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔ یہ وہ پرچے ہوتے جو ہاکر واپس کرجاتے تھے۔ میں ہر دوسرے تیسرے دن سیر سوا سیر اخبارات اپنے سینے پر جماکر شیروانی کے پورے بٹن گلے تک بند کرکے دفتر سے سیدھا نیک بخت بنیے بانکی لال کی دکان کا رخ کرتا۔ بانکی لال دس بارہ آنے میں یہ ردی خرید لیتا‘‘۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا محاورہ تو سنا تھا لیکن سینے پر چوری کا مال جمانے کی بات پہلی بار سننے میں آئی۔ ’’چوری اور سینہ زوری‘‘ کا مفہوم بھی صحیح طور پر پہلی مرتبہ سمجھ میں آیا۔
اعزہ کی ریاکاری کی تقلید
یہی وہ زمانہ تھا جب مصنف کو اپنے اعزہ میں ’’چاروں طرف خون کو کھولا دینے والی ریاکاری‘‘ نظر آتی تھی۔ اس افسوس ناک صورتِ حال کا ردعمل خاصا خوفناک تھا۔ فرماتے ہیں: ’’ابتدائی زندگی کا بیشتر زمانہ محض ان اعزہ کی ضد میں، مَیں نے شراب، جوئے اور حرام کاریوں میں گزارا‘‘۔
اچھائی کا جواب اچھائی سے تو سبھی دے لیتے ہیں لیکن برائی کا جواب برائی سے دینا کسی کسی کا کام ہے۔ مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے شراب نوشی اور قمار بازی کے مشاغل کو گھر سے باہر کی بری صحبت کا نتیجہ نہیں بتایا۔ اس کارنامے کا سہرا بھی اپنے اعزہ کے سر باندھا ہے۔
بہرحال یہ وہ حالات تھے جن میں موصوف کی تربیت ہوئی اور انہوں نے صحافت کی دنیا کے تجربات حاصل کیے اور ممتاز صحافی کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ کیونکہ خود، لوگوں کو بہت جلد موصوف کی شرانگیزی (Nuisance Value) کا احساس ہوگیا تھا۔ ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ ایسے ہی موقعوں پر کہا جاتا ہے۔
انگلستان میں قیام کے دوران اپنے مشاغل کے بارے میں وہ فرماتے ہیں: ’’مسائلِ حاضرہ پر یا ادبی و علمی مسائل پر جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ شوق کی بنا پر نہیں بلکہ محض تنہائی کی وجہ سے تھا۔ چنانچہ جب روچسٹر میں شام کو ساحلی علاقوں کے رنگ برنگے شراب خانوں اور ناچ گھروں میں وقت گزاری کا مشغلہ ہاتھ آیا تو پھر کچھ لکھنے پڑھنے کا اور کوئی بھی سوال نہیں رہ گیا‘‘۔ مصنف خوش قسمت ہیں کہ انہیں زندگی بسر کرنے کے بہتر مواقع ملے۔ جو مزا کتابی چہروں میں ہے وہ کتابوں میں کہاں!
کرایہ ادا کیے بغیر رہائش کا گُر
لکھنؤ میں جو پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی تھی، وہ لندن میں بھی کام آئی۔ یہاں انہوں نے کرائے کے ایک مکان میں کرایہ ادا کیے بغیر ڈیڑھ برس قیام کیا۔ وہ کس طرح؟ اس کی تفصیل خود ان ہی سے سنیے: ’’ریجنٹ کورٹ میں، مَیں تقریباً ڈھائی سال رہا۔ ایک سال تو باقاعدہ کرایہ دے کر رہا اور باقی ڈیڑھ سال بالکل مفت۔ بات یہ ہوئی کہ عمارت کسی دوسری کمپنی نے خریدلی جس کو میری موجودگی کا اس وجہ سے علم نہیں ہوا کہ میں نے اپنی کرائے کی کتاب واپس بھیج دی تھی۔ نئی کتاب میرے پاس آئی نہیں اور کرایہ نامہ (Rent Book) کی غیر موجودگی میں کرایہ دینے کا سوال ہی نہیں تھا۔ آخر میں چپ چاپ شیفیلڈ سے جنوبی ویلز چلا گیا‘‘۔ شیروانی میں پرانے اخباروں کو چھپانا تو آسان ہے لیکن ایک پورے فلیٹ کو مالکوں کی نظر سے چھپا کر رکھنا کوئی معمولی بات نہیں۔ انگلستان والے اڑتی چڑیا کے پَر گن لیتے ہیں، حیرت ہے کہ وہ ایک فلیٹ میں رہتے ہوئے صحافی کو نہیں دیکھ سکے!
محترم صحافی نے درجنوں ملازمتیں کیں۔ جتنی آسانی سے وہ کسی ملازمت کو چھوڑتے تھے اتنی ہی بلکہ اُس سے زیادہ آسانی سے دوسری ملازمت مل جاتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی ملازمت کے حصول میں دقتوں کا سامنا بھی ہوتا تھا اور بے روزگاری کے وقفے طویل اور تکلیف دہ ہوجاتے تھے۔ کتاب میں ایک جگہ انہوں نے اپنی بے روزگاری کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان کا نام غیر ذمہ دارانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگیا تھا۔ اس کی تفصیل انہوں نے نہیں بتائی، ممکن ہے کہ انگلستان میں بھی وہ شیروانی کا فراخ دلانہ استعمال کرتے رہے ہوں، یا ممکن ہے ملازمت دینے والوں کو معلوم ہوگیا ہو کہ موصوف اردو میں افسانہ نگاری کا شوق فرماتے ہیں۔
بے روزگاری کے مشغلے
بے روزگاری کا زمانہ کس طرح گزرتا تھا، اس کی تفصیل بھی خاصی دلچسپ ہے: ’’جہاں کہیں کسی ادارے میں صحافتی جگہ کا آسرا دیکھتا، وہاں ایک درخواست داغ دیتا۔ مجھے معلوم تھا کہ زیادہ تر مدیرانِ جرائد میرے نام سے نہ صرف بخوبی واقف تھے بلکہ پوری طرح بیزار ہوچکے تھے۔ ہر اخبار میں، مَیں نے کم از کم دو تین بار درخواست ضرور بھیجی تھی۔ گارجین میں، مَیں نے 23 بار درخواست بھیجی اور ٹائمز میں 27 بار۔ بلکہ ایک بار تو ٹائمز کے منیجنگ ایڈیٹر نے بہت ہی سختی سے ڈپٹ کر لکھا ’’میں آپ کو حتمی طور پر مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں نہ کوئی جگہ ہے اور نہ مستقبل قریب میں کسی جگہ کے خالی ہونے کا امکان ہے‘‘۔
بے روزگاری کے زمانے میں ان کے ذہن میں طرح طرح کے خیال آتے تھے، مثلاً ایک بار انہوں نے سوچا کہ اگر انگلستان کے تمام صحافی کسی ہوائی حادثے کا شکار ہوجائیں تو شاید حالات بدل جائیں۔ جو لوگ مجھ کو اب تک پوچھ نہیں رہے، وہی ملازمت کی پیش کش کرنے پر مجبور ہوں گے۔
لکھنؤ کی اخباری برادری کے تین طبقے
اس آپ بیتی میں مصنف نے ہندوستان کی صحافت کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے، وہ دلچسپ ہی نہیں عبرت ناک بھی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’اخباری برادری میں تین طبقے ہوتے ہیں (1) ایک تو بذاتِ خود ایڈیٹر صاحبان جو سرکاری دعوتوں میں گورنروں، وزیروں یا ڈائریکٹر صاحبان سے خلوص جتانے میں مصروف رہتے ہیں۔ (2) دوسرے طبقے میں نمائندگانِ خصوصی ہوتے ہیں جو کمپنیوں، اداروں اور سفارت خانوں وغیرہ کی طرف سے خبریں گھڑتے ہیں، غیر ملکی دورے کرتے ہیں اور سفارت خانوں سے وہسکی کی بوتلیں وغیرہ قبول کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بیرونی حکومتوں کی مخصوص خدمات بھی انجام دیتے ہیں جس کے صلے میں کبھی کبھی ان کو سفید فام سیکریٹریوں یا دوسری آبرو باختہ عورتوں سے جو اسی مقصد کے لیے ملازم رکھی جاتی ہیں، ربط ضبط کا موقع عطا کیا جاتا ہے۔ (3) تیسرے درجے میں اسٹاف رپورٹر قسم کے اصحاب ہوتے ہیں۔ خود شعبہ ادارت میں ان کی حیثیت تھرڈ ڈویژن کلرک سے زیادہ نہیں ہوتی ہے مگر مقامی جلسوں، دعوتوں اور پریس شو وغیرہ میں یہ ضرورت سے زیادہ اپنی اہمیت منوانے پر مُصر رہتے ہیں۔ یہ لوگ ہر جگہ ایک گروہ کی شکل میں پہنچتے ہیں۔ زیادہ تر منتظمین سے جھگڑتے رہتے ہیں۔ اپنی کم مائیگی یا احساسِ کمتری کا بدلہ تباہ کن تبصرے اور تنقید کی صورت میں لیتے ہیں۔ اسی گروہ کے لوگ مجھ کو جلد ہی جاننے لگے اور یہ بات میرے لیے خاصی مفید ثابت ہوئی، کیونکہ جب کہیں میں کھانے پینے پہنچتا تو سب اس مفروضے میں مبتلا رہتے کہ میرے پاس دعوت نامہ تو ہوگا ہی‘‘۔
دہلی کے اخباری حلقے
یہ تو لکھنؤ کی صورتِ حال تھی۔ یہ مصنف اور صحافی جب دہلی پہنچے تو وہاں انہیں ایک نئی دنیا نظر آئی: ’’دہلی کے اخباری حلقوں میں امریکی مفادات اور پالیسیوں کی وکالت و تحفظ کے لیے ایک بڑی مؤثر لابی ہمیشہ سے رہی ہے۔ ان میں ایسے لوگ آج بھی ہیں جو چھوٹے چھوٹے مفادات (مثلاً شراب، عورت اور غیرملکی دوروں) کی خاطر پورے ملک و قوم کو گروی رکھ دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ایک بڑا حلقہ ایسے دلالوں کا بھی ہے جو محض اپنے ڈیل ڈول، قیمتی سوٹ اور کار کے برتے پر خود کو جرنلسٹ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ مشکل میں مبتلا صحافیوں کی چھوٹی موٹی خدمت بھی کردیتے ہیں، مثلاً سفارت خانوں کی کاک ٹیل پارٹیوں کے دعوت نامے یا ترجمے کا کام لاکر دینا۔ ترجمے کا کام، ایک خاص اصطلاح ہے۔ طریق کار یہ ہوتا ہے کہ کسی ملک کے سفارت خانے کا دلّال کسی مشکل میں مبتلا جرنلسٹ کو خبرنامے یا کتابچے لاکر دیتا ہے جس کے ترجمے کا معاوضہ اسی دلّال کے ذریعے ملتا ہے جو مترجم کے لیے تو اچھا خاصا ہوتا ہے لیکن اصل معاوضے کا ایک چوتھائی ہوتا ہے۔ باقی تین چوتھائی دلّال خود ہضم کرجاتا ہے۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طریقِ کار سے بیگم رضیہ سجاد ظہیر نے بھی احتراز کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا‘‘۔
اس حقیقت نگار صحافی کے بزرگ اور آبا و اجداد
اس صدی کے شروع میں لکھنؤ میں منشی امیر احمد علوی بڑے پائے کے ادیب گزرے ہیں، یہ محسن کاکوروی کے نواسے تھے۔ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کئی ادبی سوانح عمریاں ’’یادگار انیس‘‘ اور ’’طرّہ امیر‘‘ وغیرہ خاص شہرت رکھتی ہیں۔ امیر احمد علوی کے صاحبزادے مشیر احمد علوی ناظر کاکوروی بھی خاصے مشہور شاعر اور نثرنگار تھے۔ زیرنظر آپ بیتی کے مصنف ان ہی ناظر کاکوروی کے فرزند ہیں۔ ان کا نام ہے قیصر تمکین اور کتاب ’’خبرگیر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ قیصر تمکین افسانہ نگار بھی ہیں۔ ان کے دو افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں لیکن ادب میں ان کا نام افسانوں کی وجہ سے نہیں، اس حقیقت نگاری کی وجہ سے زندہ رہے گا جس کی تفصیل مندرجہ بالا سطور میں پیش کی گئی ہے۔
(ماخوذ: مشفق خواجہ کے منتخب مضامین،
از ڈاکٹر انورسدید)