ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی شخصیت تو ویسے کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن تحقیق، تصنیف اور ترجمے کے شعبوں میں ان کا ایک نمایاں مقام ہے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ ایک ماہر لغت نگار، قابلِ فخر مدرس، مترجم اور زبان دان ہیں اور ایک بہترین قلم کار ہیں جن کی کئی قابلِ قدر تصانیف سامنے آچکی ہیں۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ اردو لغت بورڈ میں بطور مدیراعلیٰ بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں پروفیسر ہیں اور اب مرحوم میجر آفتاب حسن کے قائم کردہ جامعہ کراچی میں شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمے کے سربراہ بھی ہیں۔2013ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان نے جو آکسفورڈ اردو انگریزی لغت شائع کی ہے وہ اس کے مدیراعلیٰ ہیں، جو ایک انتہائی ضخیم اور معیاری اردو انگریزی لغت ہے اور 85 ہزار اندراجات پر مشتمل ہے۔
ڈاکٹر رئوف پاریکھ طویل عرصے سے تدریس اور تحقیق کے کام سے وابستہ ہیں۔ اپنی علمی، تحقیقی و ادبی مصروفیتوں میں سے انہوں نے بچوں کے ادب کے لیے اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ وقف کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف بچوں کے لیے طبع زاد کہانیاں لکھی ہیں بلکہ بچوں کے انگریزی ادب سے منتخب اور شاہکار کہانیوں کے رواں اور عمدہ تراجم بھی کیے ہیں۔
ہیرے والا شتر مرغ
زیرتبصرہ کہانیوں کا مجموعہ ’’ہیرے والا شترمرغ‘‘ ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی تصنیف کردہ طبع زاد اور انگریزی سے ترجمہ کی ہوئی کہانیوں کا انتخاب ہے جو اعظم طارق کوہستانی، مدیر ماہنامہ ’’ساتھی‘‘ نے سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ ادارہ مطبوعات طلبہ کراچی نے اسے معیاری سفید کاغذ پر اچھے گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ کچھ کہانیاں طبع زاد ہیں اور اس سے پہلے کہیں شائع نہیں ہوئیں، کچھ کہانیوں میں ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی اجازت سے کچھ ردوبدل کیا گیا ہے۔ کُل 19 چھوٹی بڑی کہانیاں ہیں جن میں سے 4 انگریزی سے اردو میں ترجمے ہیں۔ پہلی کہانی ’’بیگم شیر کی توبہ‘‘ ایک علامتی کہانی ہے اور سبق آموز ہے۔ دوسری کہانی ’’چلتے ہو تو مری کو چلیے‘‘ دلچسپ اور مہم جُو ٹائپ کی ہے جس میں گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر والوں نے اپنے بچے کی شرارتوں سے نجات حاصل کرنے اور اُسے ایک مستقل سبق سکھانے کے لیے اُس کے چچا کے یہاں مری بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ بچے نے مری جانے کی خوشی میں اپنے دوست کو بھی جانے پر راضی کرلیا۔ مری میں تفریح، سیرسپاٹے کے تصور میں مگن وہ دوست کے ساتھ مری پہنچ گیا جہاں تفریح کم اور مشقت زیادہ تھی۔ چچا جو غصے کے بہت تیز مشہور تھے اُن کے نافذ کردہ نظام الاوقات کے مطابق صبح نمازِ فجر سے پہلے اٹھنا، فجر کے بعد ورزش، ناشتا اور روزانہ کوئی نہ کوئی مُشقّتی کام کرنا لازمی ہوتا تھا۔ سیر و تفریح کا بھی وقت ملتا مگر بہت کم۔ غرض کہ گھر والے اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہے اور دو ماہ کی چھٹیوں میں بچہ اپنے گھر والوں اور چچا عرفان کے گھر کسی کو تنگ نہ کرسکا بلکہ کام کا بندہ بن گیا، اور ایک پنتھ دو کاج کے مصداق سدھر بھی گیا۔ تیسری کہانی کا عنوان ہے ’’ہرنوٹے نے کہانی لکھی‘‘۔ یہ کہانی ایک ہرنوٹے (ہرن کا بچہ)، خرگوش اور چوہے کے تین کرداروں پر مشتمل ہے اور سبق آموز ہے، جس میں خرگوش کو شیخی اور بڑ ہانکنے کی سزا ملتی ہے اور وہ شکاریوں کے پھندے میں پھنس جاتا ہے، جبکہ ہرن کا بچہ اور چوہا اسے نجات دلاتے ہیں، لیکن اس کہانی کا نام ’’ہرنوٹے کی نئی کہانی‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ چوتھی کہانی ’’ہاتھی کی سائیکل‘‘ بھی ایک اخلاقی سبق کی حامل کہانی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی پڑی ہوئی شے کہیں ملے تو وہ ہماری نہیں ہوجاتی۔ جیسے اس کہانی میں ہاتھی کے بچے نے ایک انسانی بچے کی سائیکل کو ہتھیا لیا اور جھوٹ بول کر اسے اپنی سائیکل بتانے لگا۔ جنگل کے جانوروں نے ایکا کرکے بچے کو اس کی سائیکل واپس دلوانے کا فیصلہ کیا اور ہاتھی کے بچے سے کہا کہ وہ سائیکل کو واپس کردے، مگر اس نے واپس کرنے کے بجائے تیزی سے بھگانا شروع کردی، اس کے تعاقب میں جانور بھاگے تو فرار ہونے کے لیے اس نے رفتار اتنی بڑھائی کہ ایک بڑے پتھر سے ٹکرا کر سائیکل سے گرپڑا اور بے ہوش ہوگیا۔
چوتھی کہانی کا عنوان ہے ’’مسٹر عجیب و غریب‘‘ جو ایک ایسے عجیب و غریب شخص کے حلیے کے بارے میں ہے جس نے دھوتی اور قمیص پر ٹائی باندھ رکھی تھی اور اس کا تکیہ کلام ’’کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں‘‘ تھا۔ پانچویں کہانی کا عنوان ’’مفت مشورہ‘‘ ہے۔ یہ ایک ننھی چڑیا کی کہانی ہے جو سردیوں میں اپنا گھونسلا بنانا چاہتی تھی مگر اسے گھونسلا بنانا نہیں آتا تھا۔ اس نے بہت سے تنکے جمع تو کرلیے لیکن ان کو جوڑنا نہ آیا۔ ہدہد نے اسے چونچ سے درخت کھود کر گھونسلا بنانے کا مشورہ دیا، لیکن اس کوشش میں چڑیا نے اپنی چونچ کو زخمی کرلیا۔ خرگوش نے اسے زمین کھود کر بل بنانے کا مشورہ دیا جو اس کے بس میں نہ تھا، بھالو نے اسے غار میں رہنے کا مشورہ دیا، چمگادڑوں اور نوکیلے پتھروں کی وجہ سے اس میں بھی رہنا چڑیا کے لیے ناممکن تھا۔ آخر کو ایک حکیم ہمدد نے اسے صحیح مشورہ دیا کہ وہ کسی چڑیا کے پاس جائے اور اس سے سیکھے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اپنا گھونسلا بناکر اس میں رہنے لگی۔
چھٹی کہانی ’’ریچھ کی حجامت‘‘ ہے، جس میں ایک بندر جنگل کے ایک درخت پر شہد کی مکھیوں کا چھتّا دیکھ کر اس کو کھانے کی فکر میں تھا مگر شہد کی مکھیوں کے کاٹنے سے ڈرتا تھا، بھالو کو آتے دیکھ کر اس نے اسے بیوقوف بناکر شہد کی مکھیوں کے چھتّے پر حملہ کرواکے اسے درخت سے نیچے گروادیا۔ مکھیوں نے غصے میں بھالو کو کاٹ کاٹ کر اس کا منہ جگہ جگہ سے سُجا دیا۔ بندر نے چالاکی سے خشک پتوں میں آگ لگادی جس سے شہد کی مکھیاں بھاگ گئیں اور وہ سارا شہد چٹ کرگیا اور بعد میں ریچھ کی حجامت بنانے لگا۔ مگر اناڑی پن اور گھبراہٹ کی وجہ سے قینچی بالوں کے بجائے اس کے کان پر چلادی جو ذرا سا کٹ گیا اور خون بہنے لگا تو بندر اسے جنگل کے ڈاکٹر ہمدرد کے پاس لے گیا جس نے اس کی مرہم پٹی کردی۔ ریچھ کی سالگرہ پر سب جانور جمع تھے، وہ بندر کی حرکتوں سے نالاں تھے اور انتہائی غصے میں تھے اور اسے سبق سکھانا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر ہمدرد نے نہ صرف ریچھ کی مرہم پٹی کردی بلکہ اس کی سالگرہ کے لیے ایک فروٹ کیک بھی بناکر سب جانوروں کو اس کی طرف سے کھلادیا۔ بندر جانوروں سے اپنی جان بچاکر شہد کے چھتے والے درخت پر پہنچا تو شہد کی مکھیاں اس پر ٹوٹ پڑیں اور کاٹ کاٹ کر اس کے پورے جسم کو سجا دیا تو وہ بھی گرتا پڑتا ڈاکٹر ہمدرد کے پاس پہنچا اور مرہم پٹی کروائی۔ سب جانور وہاں موجود تھے۔ بندر بہت شرمندہ ہوا اور بھالو سے معافی مانگی۔ بھالو نے اس کو معاف کردیا اور کیک کھلایا۔ اگلی کہانی ہے: ’’بیماری ہزار نعمت ہے‘‘، جو جھوٹ موٹ بیمار پڑ کر گھر کے کام اور اسکول سے فرار حاصل کرنا تھا مگر دوائی کو گملے میں پھینکتے ہوئے چھوٹے بھائی پپو نے دیکھ کر اپنی امی سے شکایت کردی اور پول کھل گیا اور بیماری کا بہانا ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ اگلی کہانی ’’وہ آواز کس کی تھی؟‘‘ ایک لڑکے کی کہانی ہے جو ایک آری مل جانے کی وجہ سے صرف تفریحاً باغ میں نیم کا درخت کاٹنا چاہتا تھا لیکن درخت نے مکالمے کے ذریعے انسانی زندگی کے لیے اپنی افادیت بتاکر اسے اس کام سے باز رکھا۔ یہ مختصر کہانی بھی معلوماتی اور سبق آموز ہے۔ ’’نازک صاحب کا بکرا‘‘ ایسے دو بکروں کی کہانی ہے جو بظاہر ایک جیسے تھے لیکن ایک سیدھا سادا اور دوسرا انتہائی لڑاکا خونخوار، کسی کے بھی حتیٰ کہ قصائی کے بھی قابو میں نہیں آتا تھا۔ وہ بکرا تو کسی کے قابو میں نہ آیا اور بھاگ گیا، نازک صاحب کا بکرا آسانی سے اس کے دھوکے میں ذبح کردیا گیا اور نازک صاحب کی شیخی دھری رہ گئی۔ ’’میں بڑا ہوکر کیا بنوں گا؟‘‘ سوچ کے گھوڑے دوڑانے کا نام ہے کہ ڈاکٹر، پائلٹ، مریض، حجام اور ہر ایک کام آسان نہیں ہے۔ اس لیے سوچ بچار کے بعد فیصلے کی ضرورت ہے۔ یہ کہانی فکاہیہ طرز کی ہے۔ ’’چھت پر اونٹ‘‘ ایک دلچسپ کہانی ہے جس میں اسکول کی چھت پر دو اونٹ دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ یہ اونٹ چھت پر کیسے پہنچے۔ چھت پر جانے کے لیے کوئی زینہ نہ تھا، جب ضرورت پڑتی تو لکڑی کی سیڑھی استعمال کرتے۔ یہ لڑکوں کی شرارت تھی جسے ہیڈ ماسٹر صاحب نے عقلمندی سے حل کرلیا۔ لڑکے اپنے اپنے بستروں کے گدوں کو جمع کرکے چھت تک لے گئے تھے اور ان پر ہنکا کر اونٹوں کو اوپر لے گئے اور اسی طرح ہیڈ ماسٹر صاحب کے کہنے پر واپس لے آئے۔ ’’ہمارے پڑوسی‘‘ ایسے پڑوسیوں کی کہانی ہے جن سے سب تنگ ہیں۔ کوئی ریڈیو اور موسیقی زور سے بجاتا ہے، تو کوئی رات گئے دوستوں کی شوروغل کی محفل سجاتا ہے، اور موٹر سائیکل بغیر سائلنسر کے چلاتا ہے اور سوتوں کو جگاتا ہے، کوئی جانور پالتا ہے اور جانوروں کی گندگی سے پڑوسی تنگ آتے ہیں، کوئی چیزیں ادھار لے جاتا ہے اور واپس نہیں کرتا۔ ’’امتحان میں فیل ہونے کے طریقے‘‘ ایک طنزیہ اور مزاحیہ مضمون ہے جس میں فیل ہونے کے آزمودہ نسخے بتائے گئے ہیں جن پر عمل کرکے زندگی بھر پاس نہ ہونے کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ دلچسپ مضمون ہے جس پر الٹا عمل کرکے یا عمل نہ کرکے کامیابی کا حصول ممکن ہے۔
ان طبع زاد کہانیوں کے بعد ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی کہانی ’’دس لاکھ کا نوٹ‘‘ مارک ٹوین کا ترجمہ ہے۔ یہ دلچسپ کہانی ایک ایسے غریب آدمی کی ہے جو امریکہ سے لندن پہنچ گیا تھا، خوبی قسمت سے دس لاکھ کا نوٹ مل گیا تھا جس کا کھلّا نہیں ہوسکا، مگر اس کی موجودگی کی وجہ سے ہر ایک نے اس کی ضرورت پوری کردی اور وہ ایک کمپنی کا حصہ دار بھی بن گیا۔ قسمت نے یاوری کی اور وہ امیر ترین آدمی بن گیا۔ ’’ہیرے والا شتر مرغ‘‘ مشہور ادیب ایچ جی ویلز کی انگریزی کہانی کا ترجمہ ہے۔ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جس میں ایک شتر مرغ کی قیمت تین ہزار پونڈ لگائی گئی تھی کیونکہ یہ مشہور ہوگیا تھا کہ شتر مرغ نے ایک قیمتی ہیرا نگل لیا تھا۔ مگر دراصل یہ دو آدمیوں کی سازش تھی جنہوں نے یہ مشہور کردیا تھا کہ ان شترمرغوں میں سے ایک نے ہیرا نگل لیا ہے، جو جھوٹ تھا۔ یہ بات مشہور ہونے سے شترمرغوں کی قیمت بڑھتے بڑھتے ان کی نیلامی کا فیصلہ ہوا اور بہت مہنگے داموں ان کی نیلامی چھوٹی، اور وہ دونوں آدمی مالدار ہوگئے۔ ’’پہاڑی کے بھوت‘‘ اس مجموعے کی آخری کہانی ہے جو واشنگٹن ارونگ کی کہانی کا ترجمہ ہے اور ایک شخص کی مہم جوئی کی کہانی ہے جو اچھی طبیعت کا انسان تھا مگر کچھ کام کاج نہیں کرتا تھا البتہ ہر ایک کے کام آتا تھا، اور وہ اور اس کا کتّا گھومتے اور آوارہ گردی کرتے رہتے تھے، ایک دن وہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ گئے اور ان کا واسطہ بھوتوں سے پڑا۔ یہ کہانی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، دلچسپ اور مہم جوئی سے بھرپور ہے۔