آج مسلمان ایمان کے اتنے کمزور درجے پر پہنچ چکا ہے کہ وہ اپنے ایمان کا سودا بھی کرلیتا ہے۔ ایک فردِ واحد سے لے کر اجتماعیت تک، ریڑھی والے سے لے کر شاپنگ سینٹرز تک، اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک، رعایا سے لے کر حکمرانوں تک ہر پاکستانی اپنا کام ایمان داری سے ادا نہیں کررہا جس کی وجہ سے معاشرے میں بے سکونی، بے چینی پھیلتی جارہی ہے اور ہم اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ یہ سب ہمارے معاملات کا ہی نتیجہ ہے، یا پھر ہم اس حقیقت سے واقف ہیں لیکن حقیقت کے سامنے جوابدہی کا خوف ختم ہوگیا ہے، قبر کے عذاب سے غافل ہیں، یا اللہ کے سامنے حاضر ہونے سے منکر ہیں، یا پھر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ ہونے سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ آج کے مسلمان نے دین کو صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ تک محدود کردیا ہے۔ اخلاقیات، معاشرت، سیاست، معیشت اور آپس کے معاملات میں سے دین کو نکال دیا ہے، جس کا نتیجہ بے سکونی کی صورت میں نکلا ہے، لیکن اس سب کے باوجود ہم بند آنکھوں کے ساتھ چلتے جارہے ہیں، اپنی سمت سے غافل دوڑے چلے جارہے ہیں، نتائج کو بھلائے خود کو جنت کا حقدار سمجھتے ہوئے ہم شتر بے مہار کی طرح چلتے جارہے ہیں، اور اس حقیقت سے غافل ہیں کہ اس سب کے بعد اندھیرا ہی ہمارا مقدر ہوگا۔
ابھی وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، اندھیرا، گھپ اندھیرے میں بدل جائے، ہمیں روشنی پھیلانی ہوگی، روشنی نہیں پھیلا سکتے تو کم از کم دیے ہی جلانا شروع کردیں۔ آغاز اپنی ذات سے کریں۔ اقبال کی بتائی ہوئی خودی کو بیدار کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی سنتوں کو اپنائیں، ان کی طرزِِ معاشرت کو اپنائیں، اپنے اندر دین کے فہم کو اُجاگر کریں۔ آج ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے، خود کو بدلنے کی ضرورت ہے، اپنے ضمیر کی آواز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آئیے ہم عہد کریں خود کو بدلنے کا، کیوں کہ تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے ہی ہوتا ہے۔ آئیے اپنی اصلاح کریں کیوں کہ معاشرے ہم ہی سے مل کر بنتے ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
فرح وہاب
تیموریہ زون کراچی
ذمہ دار کون؟
جس قوم میں بے حیائی عام ہوجائے وہاں جوان موتیں ہوتی ہیں۔ آج کل تیزی سے بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات منظرعام پر آرہے ہیں۔ اس کے ذمہ دار بے حیائی پھیلانے والے تمام عناصر ہیں خواہ وہ میڈیا کی شکل میں ہوں یا کسی اور روپ میں۔ اس میں والدین کی غفلت اور لاپروائی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایک دور تھا (1980-90ء کی دہائی) جب قریبی رشتہ دار، بزرگ، پڑوسی ایک دوسرے کے بچوں پر نگاہ رکھتے تھے اور ان کو روکتے ٹوکتے تھے، کہانیاں قصے سنائے جاتے تھے جو دینی معلومات پر مشتمل تو نہیں ہوتے تھے لیکن ان میں بڑا اخلاقی سبق موجود ہوتا تھا۔ پہلے تربیت والدین اور بزرگ کرتے تھے کہ کسی اجنبی کے ساتھ نہ جانا، نہ کسی سے کچھ لے کر کھانا،اگر کوئی تنگ کرے تو وہاں سے بھاگو، شور مچاؤ اور فوراً ہمیں بتاؤ۔ بچوں پر نگاہ ہوتی تھی کہ کون کہا ںہے؟ کیا کررہا ہے؟ کہاں جارہا ہے؟ کہاں سے آرہا ہے؟ لیکن آج بچوں کو میڈیا، تعلیمی اداروں اور موبائل و انٹرنیٹ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ والدین کو کچھ معلوم نہیں کہ بچے کیا سیکھ رہے ہیں، کہاں جاتے آتے ہیں، کیا دیکھتے ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ والدین اب تو جاگ جائیں، آپ کا بچہ آپ کی ذمہ داری ہے، اس کی حفاظت اور تربیت کے آپ خود ذمہ دار ہیں؟ اپنے بچے کو وقت دیں، اسے مشینی بچہ بنانے کے بجائے انسان کا بچہ بنانے کی تگ ودو کریں۔ بزرگ اپنا کردار نبھائیں، بچوں کو بنیادی اخلاقیات سکھائیں، ان پر نگاہ رکھیں، ان کے مسائل حل کریں۔ میڈیا پر ریٹنگ کی دوڑ میں شور مچانے والوں سے دردمندانہ التجا ہے کہ درندوں کے ہاتھوں روندے گئے معصوم ننھے پھولوں کی تصاویر دکھانے کے بجائے صرف اتنا سوچیں کہ یہ خدانخواستہ آپ میں سے کسی کی بچی یا بچہ ہوتا! تو ہر بچہ ہمارا ہے، ہر بچے کو بچانا ہے۔ میڈیا پر سیکس ایجوکیشن کا شور مچانے والو، ذرا اخبارات اور نیٹ پر سرچ کرو تو جان جاؤ گے کہ جن ممالک میں سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے وہاں اس طرح کے واقعات بالرضا و بالجبر عام ہیں۔ والدین اور بزرگ اپنے بچوں کو خود ہی اچھائی برائی کا شعور دیں، اور پیمرا چینلز کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کروائے۔ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اگر ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کو نبھائیں۔ یاد رکھیں لڑکوں سے زیادتی بھی قبیح عمل ہے، اس عمل کے باعث قومِ لوط عذاب کا شکار ہوئی تھی۔ لڑکوں کی بھی عزت ہوتی ہے۔ انہیں کمتر نہ سمجھیں۔
زہرا یاسمین