انفلوئنزا، وبائی نزلہ و زکام ، علاج اور حفاظتی تدابیر

گزشتہ چند روز سے پاکستان کے میدانی علاقے خشک سردی کی زد میں ہے، جس کی وجہ سے اکثر لوگ وبائی نزلہ و زکام کا شکار ہورہے ہیں۔ ہمارا میڈیا، نشریاتی ادارے اور ٹیلی وژن کی خبریں عوام میں آگاہی اور حفظِ ماتقدم کی تدابیر کی تشہیر کے بجائے اس مرض سے ہونے والی ہلاکتوں کی خبریں دے کر عوام میں اس مرض کا خوف و ہراس پیدا کررہے ہیں۔ قبل ازیں یہی رویہ کالے یرقان (ہیپاٹائٹس سی) ایڈز، ڈینگی بخار کے بارے میں اختیار کیا گیا۔ بلاشبہ وبائی امراض سے سینکڑوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ لوگ طاعون، ہیضہ، چیچک، ملیریا وغیرہ کے پھوٹنے سے خوفزدہ رہتے تھے اور یہ امراض آبادیوں میں موت کا پیغام بن کر آتے تھے۔ اللہ کے فضل اور صحت کے عالمی ادارے WHO کی کوششوں سے یہ مہلک امراض قابو میں ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ موسم کی شدت اور خصوصاً اسموگ (دھند کی ’’ترقی یافتہ‘‘ صورت) اس مرض کو عام کرنے کا ذریعہ ہیں، تاہم اس مرض کا خوف پیدا کرنے کے بجائے مرض کے اسباب کو دورکرنے، مرض سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنے اور مرض کی صورت میں توجہ سے علاج کرنے کی تلقین زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
گزشتہ ماہ پورا یورپ، برطانیہ اور امریکہ جہاں شدید سردی پڑتی اور برف باری ہوتی ہے، بری طرح اس وبائی مرض کی زد میں رہے، اور وہاں کے ہر ٹیلی وژن یا وہاں سے تشریف لانے والے مہمان سے یہی خبر ملی کہ عوام الناس ’’فلو‘‘ کی زد میں ہیں اور جدید ترین سہولتوں، صفائی ستھرائی کے مثالی انتظامات اور مؤثر ادویہ کے باوجود عام لوگ اس مرض سے پریشان نظر آئے، گویا کہ یہ مرض صرف مقامی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ ایشیا، افریقہ اور برصغیر ہندو پاک کے تمام لوگ بلاامتیاز اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب موسم تبدیل ہوتا ہے تو تبدیلی کے ساتھ ہی نزلہ زکام بھی اپنی آمدکی خبر دیتے ہیں اور غریب و امیر، مرد و خواتین، بچے بوڑھے سب اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔
اسباب: اس مرض کے اسباب کے بارے میں جدید طب کا نظریہ ہے کہ یہ ایک وبائی وائرس سے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس چھینک سے پیدا ہونے والی غیر طبعی Blow کے ذریعے، سانس کے ذریعے جب بہت سے لوگ کسی مجمع، بس یا ٹرین میں سفر کررہے ہوں، تولیہ کے استعمال سے ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتے ہیں اور خاص طور پر بچوں، بوڑھوں اور ان لوگوں پر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے پہلے ہی نمونیہ کی وجہ سے کمزور ہو جاتے ہیں۔اسی طرح وہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیںجو طویل عرصے سے کھانسی کا شکار رہے ہیں، جو ایسے ماحول میں کام کرتے ہیں جہاں دھواں یا تیل کے جلنے سے کاربن کی وافر مقدار موجود ہو۔قدیم طب کے مطابقلوگ موسم کی تبدیلی میں احتیاط نہیں کرتے، دن کو دھوپ کی وجہ سے گرمی کا احساس ہوتا ہے، صبح و شام کے اوقات میں زیادہ سردی ہوتی ہے، صبح دم آدمی ٹھنڈی ہوا میں ننگے سر یا گرم مفلر ٹوپی کے بغیر سیر کرتا ہے، اسّی فیصد متوسط اور غریب عوام سفر کی بنیادی سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے موٹر سائیکل پر سفر کرنے پر مجبور ہیں، دفتر یا اپنی ڈیوٹی پر پہنچنے کے لیے پیدل سفر کرنا پڑتا ہے، ایسے میں ٹھنڈی ہوا گردن کے پٹھوں، نتھنوں کی باریک غشائے مخاطی (MUCAS MEMBRANE) پر اثرانداز ہوتی ہے، ورم ہوتا ہے اور خون کی گردش میں تیزی آنے کی وجہ سے پہلے ہلکی چھینکوں کا آغاز ہوتا ہے، بعد ازاں چھینکوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ناک بہتی ہے، نزلی مادےنتھنوں سے قطروں کی صورت میں اتنی تیزی سے آتے ہیں کہ رومال یا ٹشو پیپر تر ہوجاتے ہیں، حلق میں خراش ہوتی ہے، مرض کی شدت کی صورت میں آنکھوں سے بھی پانی نکلتا ہے۔ جب یہ پانی ناک سے نکلے تو زکام کہلاتا ہے اور جب یہی گاڑھا پانی ریزش کی صورت میں حلق اور سانس کی نالی سے نکلے اور اسے تھوکنے کی نوبت آئے تو یہ نزلہ کہلاتا ہے۔ عموماً زکام کی ابتدائی صورت عدم توجہ سے نزلہ کی صورت اختیار کرتی ہے۔ آج کے جدید دور میں اسی نزلہ و زکام کی بگڑی صورت کو انفلوئنزا یا فلو کہا جاتا ہے۔
اگر یہ کیفیت دو تین روز سے تجاوز کرجائے تو ہلکا بخار اور سردرد، جسم کا دُکھنا، کندھوں کا دُکھنا، جسم میں تھکاوٹ اور اکثر اوقات کھانے سے جی کا اچاٹ ہوجانا اس مرض کا خاصا ہے۔
علاج: اس مرض کو وبائی یا عارضی سمجھ کر توجہ نہ دینا خطرناک ہوسکتا ہے، اب تو ہمارے ذرائع ابلاغ اس کے مہلک ہونے کی خبر بھی سنارہے ہیں، تاہم یہ مہلک مرض نہ بھی ہو تو غفلت نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اگر توجہ نہ دی جائے تو کھانسی اور بخار سے فوری کمزوری لاحق ہوجاتی ہے، عدم توجہ سے سردرد، شقیقہ کا مرض لاحق ہوسکتا ہے، بچوں میں نمونیہ کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ لہٰذا جوں ہی اس مرض کا حملہ ہو، فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ طبی نقطۂ نظر سے قبض اُم الامراض ہے۔ اگر مریض کو قبض ہو تو فوری قبض دور کیا جائے۔ بازار میں عموماً جلاب آور گولیاں ملتی ہیں جن میں جمال گوٹہ ہوتا ہے، ان سے اجتناب برتنا ضروری ہے ۔گلقند (اگر خالص میسر آجائے)200 گرام، مغز بادام (10 عدد)، بنفشہ، سنامکی گھوٹ کر پانی ملا کر نوشِ جان کریں۔ بے ضرر قبض کشا ہے اور نزلہ زکام کو دور کرتا ہے۔
ہوالشافی: عناب(10 دانہ)، سپستاں (6 گرام)، میتھی دانہ(3 گرام)، گائوزبان (3 گرام) قہوہ بناکر صبح و شام ایک ایک کپ استعمال کریں۔
گندم کا چھان (10 گرام)، الائچی سبز (3 عدد) کا قہوہ بناکر نیم گرم استعمال کریں۔
شربتِ توت سیاہ، شربتِ زوفا، عرق گائوں زبان ملا کر صبح و شام استعمال بھی فائدہ مند ہے۔
اس مرض سے بچنے کے لیے خود کو سردی سے بچائیں اور جوں ہی اس مرض کا حملہ ہو ایک دو دن مکمل آرام کریں۔ اعضا شکنی اور بخار آرام سے کم ہوگا۔
بازار میں تیارہ شدہ ادویہ میں خمیرہ تریاق نزلہ، خمیرہ ابریشم، خمیرہ گائو زبان، لعوق سپستاں، شربتِ صدوری، شربتِ صدر، لال شربت مختلف دوا ساز اداروں کے میسر ہیں، اگر خالص مل جائیں تو مفید علاج ہے۔ہمارے ہاں کھانے کے بعد چائے کا استعمال بہ طور غذا کیا جاتا ہے۔ بے جا استعمال نے اس کی طبی افادیت کا خاتمہ کردیا ہے۔ وبائی صورت میں اگر چائے کے بجائے حسبِ ذیل قہوہ کو معمول بنایا جائے تو ایک حد تک لوگ اس مرض سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
بادیان خطائی(2 گرام)، دارچینی(ایک گرام)، سبز چائے دو گرام، الائچی سبز (3 عدد)، لیموں کا خشک چھلکا(ایک عدد)کھانے کے دس پندرہ منٹ بعد اس قہوہ کا استعمال زیادہ مفید ہے۔
خود کو اس تکلیف دہ مرض سے محفوظ رکھنے کے لیے احتیاط زیادہ مفید اور ضروری ہے۔ جو لوگ زکاممیں مبتلاہوں وہ چھینک کی صورت میں مجلس سے اٹھ جائیں اور ناک پر رومال رکھیں۔ باہر نکلتے ہوئے سر پر گرم ٹوپی، مفلر استعمال کریں یا گرم چادر سے جسم کو اچھی طرح سرد ہوا سے بچائیں۔ ان ایام میں خشک بادام، کشمش اور اخروٹ قوتِ مدافعت پیدا کرتے ہیں۔ ناشتے میں اپنے مزاج کے حساب سے مقدار کا تعین کرلیں۔
اسکول جانے والے ننھے بچوں کے لیے ایسے لباس کا انتخاب کریں جس سے سر، گردن اور سینہ اچھی طرح ڈھکا ہوا ہو اورسرد ہوا کے جھونکوں سے بچائو ممکن ہوسکے۔ اس شدید موسم میں مائیں بچوں کو سونے سے پہلے نہلا کر گرم بستر کے سپرد کردیں۔ نہلا کر اسکول نہ بھیجیں۔ یہ بہت حد تک مرض سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ مرغن کھانوں، گرم گجریلے کے ساتھ ناقص تیل میں تیار کردہ کھانوں کے ساتھ کولڈ ڈرنکس کے استعمال سے بچیں۔
تکلیف ہو یا نہ ہو، سونے سے پہلے نیم گرم پانی میں نمک حل کرکے غرارے کریں اور نیم گرم پانی کا استعمال کریں۔ وہ اصحاب جو پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں، وضو کرتے ہیں، نتھنوں اور حلق کی وضو کے دوران پانی سے صفائی کرتے ہیں، مرض ان پر حملہ نہیں کرپاتا۔ لوگوں میں نماز کو فروغ دینے اور باوضو رہنے کی تحریک چلائی جائے۔ فلو ایسے معاشرے سے بھاگ جائے گا۔ (ان شاء اللہ)