بو علی سیناؒ

۔980ء میں پیدا ہوئے، 1037ء میں انتقال ہوا۔ طبیب، ماہر لسانیات، شاعر اور سائنس دان تھے۔ 21 سال کی کم عمر میں پہلی کتاب شائع ہوئی۔ بوعلی سینا نے تقریباً 45کتب لکھیں۔ فارسی اور عربی کے عالم تھے۔
٭ دل آزاری سب سے بڑی معصیت ہے۔
٭ زیادہ خوش حالی اور زیادہ بدحالی دونوں برائی کی طرف لے جاتی ہیں۔
٭ میری دو تمنائیں ہیں۔ اوّل یہ کہ خدا کا کلام سنتا رہوں، دوسری، خدا کا کوئی بندہ دیکھتا رہوں۔
٭ اتنا کھائو جتنا ہضم کرسکو، اتنا پڑھو جتنا جذب کرسکو۔
٭ بہترین قول ذکر ہے۔ بہترین فعل عبادت اور بہترین خصلت علم ہے۔
٭ بیماریوں میں سب سے بری بیماری دل کی ہے، اور دل کی بیماریوں میں سب سے بری دل آزاری ہے۔
٭ قلتِ عقل کا اندازہ کثرتِ کلام سے ہوتا ہے۔
٭ مباحثہ عقل کے لیے صیقل اور جاہلوں کے لیے تخمِ عداوت ہے۔
٭ زندگی میں تین چیزیں نہایت سخت ہیں:
(1) خوفِ مرگ، (2) شدتِ مرض، (3) ذلتِ قرض۔
٭ جو شخص تادیبِ دنیا سے راہِ صواب اختیار نہ کرے وہ عذابِ عقبیٰ میں بھی گرفتار ہوگا۔
٭ خواہشِ نفس تجھے طائر فی القفس بناتی ہے، اس کو مٹا کر حقیقی آزادی کا لطف اٹھا۔
٭ حکیم وہ ہے کہ دنیا سے احتراز رکھے، اپنی قسمت پر رضامند ہو اور مقدارِ عمل سے زیادہ بات نہ کہے۔
٭ تلوار، توپ اور بندوق سے اس قدر خلقت نہیں مرتی جتنی کہ بسیار خوری سے مرتی ہے۔
٭ انسان کی بہترین خصلت علم ہے۔
٭ بغیر بھوک کے غذا نہ کھائیں اور جب بھوک تیز ہو جائے تو بھوکے نہ رہیں۔
٭ ترش غذا جلد بوڑھا کرتی ہے، بدن کو دبلا کرتی اور پٹھوں کے لیے مضر ہے۔
٭ شیریں غذا بدن کو گرم کرتی ہے اور نمکین غذا بدن کو خشک اور دبلا کرتی ہے۔
٭ مزیدار غذا عمدہ اور اچھی ہے، جلد ہضم ہوتی ہے اور بھوک کو بڑھاتی ہے، اور بدمزہ غذا کو دیر میں طبیعت قبول کرتی ہے اور بھوک کو گھٹاتی ہے۔

بیت الحرام

قریشِ مکہ نے بیت الحرام کی تعمیر نو کے وقت ابراہیمی بنیادوں میں سے چھ ذراع اور ایک بالشت زمین چھوڑی تھی۔ اُس وقت کعبہ کی کرسی 4 ذراع اور ایک بالشت رکھی، بلندی 9 ذراع، عرض ایک طرف کا 20 اور ایک طرف کا 22، طول ایک طرف کا 31 اور ایک طرف کا 32، اور چھ ستون بنائے، دروازہ ایک، دروازے کی بلندی سطح مطار سے 6 اور طول 9 فٹ۔
حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے 64ھ میں تعمیرِ نو کے وقت ارتفاع 9 ذراع سے بڑھاکر 18 ذراع کردیا، اندرکے ستون تین کرا دیے۔
حجاج بن یوسف نے 72ھ میں تعمیر نو بہ تغیرِ خفیف کی، موجودہ وقت کعبۃ اللہ کی بلندی 27ذراع (40 فٹ چھ انچ ہے)۔
طول (دروازے والی دیوار) 48 فٹ (مقابل کی دیوار) 46 فٹ۔
عرض (حجرِ اسود رکن یمانی) 30 فٹ (مقابل کی دیوار) 33 فٹ۔
دروازہ صرف ایک، طول 9 فٹ، کرسی 6 فٹ۔
حطیم، عرض 9 فٹ۔
اندر صرف تین ستون۔
موجودہ رقبہ
141000 (ایک لاکھ اکتالیس ہزار مربع میٹر)
اس میں سے تہ خانہ، 20 ہزار مربع میٹر۔
گرائونڈ فلور 54 ہزار مربع میٹر۔
پہلی منزل 47 ہزار مربع میٹر۔
مسعی 20 ہزار مربع میٹر۔
اب حرم شریف میں دو لاکھ پچاس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔
)بحوالہ کشکول برکاتی صفحہ نمبر 128)

مقصد عبادت

بیان کیا جاتا ہے، ایک شخص کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ بہت زیادہ نیک ہے، ہر وقت اللہ پاک کی عبادت کرتا رہتا ہے۔ بادشاہ نے اس کی شہرت سنی تو اس کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمارا دل چاہتا ہے آپ کی زیارت کریں۔ ہوسکے تو کسی دن ہماری یہ خواہش پوری کیجیے اور ہمارے دربار میں تشریف لائیے۔
یہ شخص عبادت گزار تو واقعی تھا لیکن اس کی یہ ساری محنت صرف لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے تھی۔ بادشاہ کا پیغام ملا تو دل میں بہت خوش ہوا۔ سوچا، بادشاہ ضرور انعام و اکرام سے نوازے گا۔ یہ سوچ کر اس نے فیصلہ کیا کہ بادشاہ کے پاس جانے سے پہلے کوئی ایسی دوا پی لینی چاہیے جس سے کسی قدر کمزور ہوجائوں۔ مجھے نحیف و نزار دیکھ کر بادشاہ کو یقین آجائے گا کہ میں واقعی بہت زیادہ عبادت کرتا ہوں۔
اپنے دل میں فیصلہ کرکے اس نے ایک دوا پی لی۔ لیکن اس سلسلے میں غلطی یہ ہوئی کہ کمزور کردینے کی دوا کی جگہ ایسا زہر پی لیا جو آدمی کو فوراً ہلاک کردیتا ہے۔ چنانچہ وہ ریا کار زاہد فوراً ہلاک ہوگیا۔
حضرت سعدیؒ نے حکایت میں دنیا پرست عابدوں کی مذمت کی ہے اور ایک ریاکار کی مثال دے کر یہ بتایا ہے کہ ایسی ہر ایک بات جو صرف مخلوق کو خوش کرنے کے لیے ہو، زہر پینے کی مانند ہے کہ اس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے۔ عبادت کی اصل روح اور اصل مقصد تو یہ ہے کہ خدا کے ساتھ انسان کا رشتہ اس طرح استوار ہوجائے کہ کوئی اور رشتہ ویسا مضبوط نہ ہو۔
٭٭٭

نوآزاد ممالک کو مشورہ

اپنی مانگ کو کم کرو اور اپنی ضرورت کی چیزیں خود مہیا کرو۔ ہماری ضرورتیں ہم کوکمزور اور جراحت پذیر بناتی ہیں۔ ہم کیوں اپنی ضرورتوں کو بڑھا کر دوسروں کے مقابلے میں اپنی کمزوری کوبڑھائیں۔[موہن داس کرم چند گاندھی۔ 1946ء۔ الرسالہ دہلی، جنوری 1978ء۔ صفحہ 22]