محمد شاہد شیخ
سید مود ودیؒ کے رفیقِ کار، بلند افکار، غم گسارو خوش گفتار، ملنسار، مہمان نواز، ہر ایک کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے والے، ہر دل عزیز شخصیت کے مالک محترم صفدر علی چودھری77 برس کی عمر میں داغِ مفارقت دے گئے۔ وہ جالندھر مشرقی پنجاب سے ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرکے والدین کے ہمراہ پاکستان آئے تھے۔ والد ِ محترم چودھری دین محمد نے اوکاڑہ پنجاب کو اپنا مسکن بنایا۔ یہیں سے صفدر علی نے بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگئے۔ بعد ازاں ساہیوال سے بی اے کرکے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ سیاسیات میں داخلہ لیا۔ جامعہ پنجاب میں جمعیت کے ناظم رہے، پھر جب سید منورحسن اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تو مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کے ناظم کی ذمے داری صفدر علی چودھری کے پاس تھی۔ ان کا جمعیت کا دور ولولہ انگیز اور نظریاتی کشمکش کا تھا جب کمیونزم کا سانپ پوری طرح اپنا پھن پھیلا رہا تھا اور مشرقی پاکستان، سندھ و بلوچستان اور سرحد میں قوم پرستی و عصبیت کے بتوں کو کھڑا کردیا گیا تھا، ایسے میں ملک کے تعلیمی اداروں میں اسلامی نظریات کی حامل اسلامی جمعیت طلبہ تھی جو باطل نظریات و خیالات کا کھل کر مقابلہ کررہی تھی۔ قرآن و سنت کی روشنی میں لکھا گیا سید مودودیؒ کا لٹریچر اس کشمکش میں ممد و معاون ثابت ہورہا تھا، جس نے کمیونزم کے سیلاب کے آگے بند باندھا اور اسلامی جمعیت طلبہ نے ملک کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں اپنی کامیابی کا جھنڈا لہرایا۔ اس کامیابی میں ہزاروں گمنام کارکنان اور معروف رہنماؤں کے ساتھ صفدر علی چودھری کا بھی حصہ تھا۔
صفدر علی چودھری نے1967ء میں جامعہ پنجاب سے ایم اے سیاسیات امتیازی نمبروں سے پاس کیا تو انہیں وہاں تدریس سے وابستہ ہونے کی پیش کش ہوئی، لیکن انہوں نے سیدیؒ کی پکار پر لبیک کہا اور جماعت اسلامی کے شعبۂ نشرواشاعت میں نائب ناظم بنادیئے گئے، اور کچھ ہی دنوں میں جماعت اسلامی کی رکنیت کا حلف بھی اٹھالیا تو ناظم شعبہ نشرواشاعت محترم نعیم صدیقی کی جگہ انہیں باقاعدہ ناظم نشرواشاعت (سکریٹری نشر و اشاعت) بنادیا گیا۔ اس شعبے میں نعیم صدیقی صاحب کے ساتھ انہیں سید مودودیؒ کی رفاقت و رہنمائی بھی براہِ راست حاصل رہی۔ چودھری صاحب نعیم صدیقی کی شخصیت سے تو اتنا متاثر تھے کہ انہوں نے اپنے پہلے دو بیٹوں مبشر نعیم چودھری اور شہید مظفر نعیم چودھری کے نام کے ساتھ نعیم کا لاحقہ لگادیا۔ چودھری صاحب کی شادی پتوکی کے ایک معزز استاد کی صاحبزادی ثریا بی بی سے ہوئی تھی۔ اگرچہ اہلیہ کی جمعیت و جماعت سے کوئی باضابطہ وابستگی نہیں تھی لیکن جس طرح خاتونِ خانہ نے تحریکی زندگی میں ان کا ساتھ نبھایا اور دامے، درمے، سخنے، قدمے اپنے خاوند کے ساتھ کھڑی رہیں وہ قابلِِ رشک اور باعثِ تقلید ہے۔ ان کی بڑی صاحب زادی مسرت جمیلہ جماعت اسلامی کی رکن ہیں، ان سے چھوٹے مبشر نعیم چودھری بھی جمعیت کے متحرک کارکن اور مجاہد رہے اور جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ اس کے بعد مظفر نعیم چودھری ہیں جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں غازی کے ساتھ ساتھ شہادت کا رتبہ بھی پایا۔ اس کے بعد منور حسن چودھری ہیں، یہ بھی ایک جہاں دیدہ صحافی ہیں، ایک انگریزی روزنامہ دی نیوز سے وابستہ ہیں، ان کا نام جماعت اسلامی کے سابق امیر و سابق ناظم اعلیٰ جمعیت محترم سید منورحسن سے اظہارِ محبت کے لیے رکھا گیا۔ اس کے بعد ثروت جمیلہ ہیں، یہ ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ایڈمن آفیسر کے بطور فرائض انجام دے رہی ہیں۔ یہ دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طالبات کی معتمدہ عام (مرکزی سیکریٹری جنرل) بھی رہی ہیں، اور چودھری صاحب کے آخری لختِ جگر مدثر حسن چودھری ہیں۔ پورا گھرانہ تحریک سے عملی طور پر وابستہ ہے۔ بہوئیں، پوتے و پوتیاں اور نواسے و نواسیاں بھی چودھری صاحب کی طرح قافلۂ راہِ حق کے مسافر ہیں۔ پورے گھرانے کی تربیت و تعلیم اور تحریک سے وابستگی میں جہاں چودھری صاحب کی اپنی محنت شامل ہے وہیں ان کی اہلیہ کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جو کہ ایک نہایت صابرہ و شاکرہ اور نظریاتی خاتون ہیں، جنہوں نے زندگی میں آزمائشوں کو خندہ پیشانی سے جھیلا ہے۔ مظفر نعیم چودھری کی جہادِ کشمیر میں شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، لیکن صفدر علی چودھری کا گھرانہ کسی غم و الم میں مبتلا ہونے اور رونے دھونے کے بجائے شہادت کی مبارک بادیں وصول کررہا تھا۔ میری اہلیہ تو پہلی ملاقات میں ہی اس گھرانے سے بے حد متاثر ہوئیں اور بڑے فخریہ انداز میں دوسروں کو بتا رہی تھیں کہ میں لاہور میں ایک عظیم ماں سے ملی ہوں جو واقعی شہید کی ماں ہیں۔
محترم صفدر علی چودھری صاحب میرے بھی مربی و رہنما رہے ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات مارچ 1986ء میں ہوئی جب وہ حیدرآباد جماعت اسلامی کے جلسہ عام سے قبل صحافیوں سے ملاقاتوں کے لیے آئے تھے۔ یہ میرا دورِ طالب علمی تھا اور میری حیدرآباد جمعیت کے ناظم کی ذمے داری تھی۔ میں نے دیکھا وہ جہاں بھی جاتے، گھل مل جاتے۔ ان سے ملاقات کے بعد ہر ایک کو اپنائیت کا احساس ہوتا۔ پکا قلعہ گراؤنڈ میں جماعت اسلامی کے کامیاب جلسہ عام کے بعد انہوں نے بعض صحافیوں و فوٹوگرافروں کو بہترین رپورٹنگ پر تحائف بھی دیئے۔ چودھری صاحب جماعت اسلامی کے رسالہ ہفت روزہ ایشیا کے بھی خاصا عرصہ مدیر رہے۔ میری کچھ تحریریں اس میں شائع ہوئیں۔ جب جمعیت کی مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے لاہور جاتا تو چودھری صاحب سے بھی ملاقات کا موقع مل جاتا۔ انہوں نے ہی مجھے صحافت کی طرف مائل کیا۔ پھر ایک موقع پر جب جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت ایک تربیتی اجتماع میں شرکت کے لیے حیدرآباد آئی تو چودھری صاحب بھی ہمراہ تھے، انہوں نے مجھے ایک ٹیپ ریکارڈر خرید کر تحفہ میں دیا اور کہاکہ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان چودھری رحمت الٰہی صاحب سے انٹرویو کروں۔ میں تردد میں پڑ گیا تو انہوں نے کہاکہ میں بھی ساتھ ہوں گا گھبراؤ نہیں۔ یہ انٹرویو میں نے حیدرآباد سے کراچی تک دورانِ سفر کار میں کیا تو صفدر علی چودھری نے اظہارِ مسرت کرتے ہوئے کہاکہ مجھے کہیں لقمہ دینے کا موقع نہیں ملا، آپ نے اچھے سوالات پوچھے۔ یہ انٹرویو غالباً ہفت روزہ ایشیا میں شائع ہوا۔ اس حوصلہ افزائی کے بعد میں نے باقاعدہ صحافت شروع کردی۔1987ء میں جمعیت سے فراغت کے بعد روزنامہ سفیر حیدرآباد سے وابستہ ہوگیا اور1990ء سے تو باقاعدہ قلم کا مزدور بنا ہوا ہوں۔ اس دوران چودھری صاحب کی رہنمائی اور محبت ملتی رہی۔ قرآن کی ایک مشہور دعا ربنا اتنا فی دنیاحسنتہ َ… کی میں نے نئے انداز سے تفسیر کی تو انہوں نے شاباش دی اور اسے ہفت روزہ ایشیا میں نمایاں طور پر شائع کیا۔ میں پھر جب بھی لاہور گیا زیادہ تر قیام و طعام کا اہتمام چودھری صاحب نے کیا۔ یکم جون 1990ء کو میری شادی حیدرآباد جمعیت کی ناظمہ سے ہوگئی۔ یہ شادی کرفیو کے وقفے میں ہوئی تھی، اس لیے سوائے مولانا جان محمد عباسی مرحوم کے بیرونِِ شہر سے کوئی اور جماعتی شخصیت تو شریک نہ ہوسکی لیکن مبارک باد کے پیغامات تقریباً تمام ہی اکابرین سے موصول ہوئے اور چودھری صاحب نے لاہور آنے کی دعوت دے دی۔ چند دن بعد جب میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ لاہور پہنچا تو ریلوے اسٹیشن پر مبشر نعیم چودھری لینڈ کروزر لے کر کھڑے تھے جو محترم قاضی صاحب کے زیر استعمال تھی۔ جب ہم منصورہ پہنچے تو میں اور اہلیہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نوبیاہتا جوڑے کے لیے پُرتکلف دعوت اور ایک ایئرکنڈیشنڈ خصوصی کمرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ تھی محترم چودھری صاحب کی محبت اور اپنائیت، جو صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ وہ ہر تحریکی ساتھی کے لیے بچھ جاتے تھے اور ان کا گھرانہ بھی ان کی تقلید کرتا تھا، اور منصورہ میں جماعتی مہمان خانے کی طرح ان کا دو تین کمروں پر مشتمل فلیٹ بھی مہمان خانہ بنا رہتا تھا۔ ملک و بیرونِِ ملک سے تحریکی ساتھی ان کے مہمان بنتے۔ میں نے کبھی مہمان نوازی کے دوران چودھری صاحب کے چہرے پر پریشانی نہیں دیکھی، اور نہ گھر والے بیزار پائے۔ ان کا یہ عمل خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے تھا۔
محترم صفدر علی چودھری، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے علاوہ محترم میاں طفیل محمد اور پھر محترم قاضی حسین احمد صاحب کے دورِ امارت میں ناظم نشر و اشاعت رہے۔ پھر قاضی صاحب کے آخری دورِ امارت میں انہیں تعلقاتِ عامہ کا ڈائریکٹر بنادیا گیا اور کئی ذمے داریاں وہ ادا کررہے تھے، لیکن مہمان نوازی اور تحریکی ساتھیوں، صحافیوں اور سیاست دانوں سے ان کے تعلقات میں کوئی کمی نہیں آئی، وہ ہر ایک کی خوشی و غم میں شرکت کرتے اور بذریعہ فون و خطوط رابطہ رکھتے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر سابق ناظم کراچی اور سابق امیر حلقہ کراچی جناب نعمت اللہ صاحب سے حلفِ رکنیت چودھری صاحب نے مدینہ منورہ میں لیا تھا۔ نعمت اللہ صاحب نے کہاکہ میں نے مکہ مکرمہ میں جماعت کے حلقہ میں حلف اٹھا لیا ہے تو صفدر صاحب نے کہا کہ اب مدینہ منورہ میں بھی پڑھ لیں۔
صفدر علی صاحب کے جماعت اسلامی کے نظریاتی مخالفین سے بھی بہت خوشگوار تعلقات تھے، اور شاید ہی ملک کا کوئی معروف صحافی ایسا ہو جسے وہ نہ جانتے ہوں اور وہ انہیں نہ جانتا ہو۔ وہ ہردل عزیز شخصیت کے حقیقی معنیٰ میں مالک تھے، میں کچھ عرصہ شدید بیمار رہا اور مختلف بڑے آپریشنوں کے مراحل سے گزرا۔ وہ اور ان کی اہلیہ مجھ سے، میری اہلیہ سے فون کرکے وقتاً فوقتا خیریت دریافت کرتے۔ پھر ایسا وقت بھی آیا کہ وہ ذیابیطس کے عارضے میں مبتلا ہوگئے۔ پہلے ان کا انگوٹھا کاٹا گیا، پھر کچھ سال پہلے ٹانگ جدا کردی گئی اور چودھری صاحب باقاعدہ بسترِ علالت پر آگئے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے وہ منصورہ سے محافظ ٹاؤن منتقل ہوئے تھے۔ چند ماہ قبل میری بھی وہاں ان سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔ محترم انور نیازی صاحب اور ان کے پوتے کے علاوہ اور بھی کچھ احباب موجود تھے۔ خود سے کچھ کھانا پینا بھی مشکل تھا لیکن دماغی طور پر وہ پہلے کی طرح بیدار تھے۔ وہی گفتگو میں چٹکلے بازی، یادیں و باتیں۔ بیماری کی آزمائش میں جہاں اللہ سے ان کا تعلق قائم رہا، وہیں دوست و احباب سے بھی ناتا رہا، اور یہ ہمیشہ ہنستا و مسکراتا آفتابی چہرہ 13 جنوری2018ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، لیکن ایک تابناک کردار، ایک متاثر کن اخلاق اور صحت مند روایات کو ہمارے درمیان چھوڑ گیا۔ وہ دعاؤں میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ اللہ صفدر علی چودھری صاحب کی مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں انہیں بہترین مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔