سیکولر زم کی فکری بنیاد

محمد زاہد صدیق مغل
اس مختصر مگر اہم مضمون میں ہم سیکولرزم کی اصل علمی بنیاد کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ سیکولرزم کی اصل انسانیت پرستی (Humanism) یعنی انسان کو عبد نہیں بلکہ آزاد (Autonomous) اور قائم بالذات(الصمدSelf-determined) گردانتاہے،دوسرے لفظوں میں انسان کو اصلاً عبد کے بجائے Humanسمجھناہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سیکولرزم اس بات پر نہایت شدومد سے زور دیتا ہے کہ ایک عادلانہ معاشرتی نظام کی تشکیل کے لیے ہمیں انسانیت کی سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے نہ کہ کسی خاص مذہب، رنگ یا نسل وغیرہ کی بنیاد پر، یعنی معاشروں کی بنیاد ایسی قدر پر استوار ہونی چاہیے جو ہم سب میں مشترک ہے اور وہ اعلیٰ ترین اور بنیادی قدر مشترک شے اس کے نزدیک ’انسانیت‘ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتی۔ سیکولر حضرات اپنے دعوے کی معقولیت ثابت کرنے کے لیے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’آیا پہلے اور اصلاً ہم انسان ہیں یا مسلمان؟‘ عام طورپر اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ اصلاً تو ہم انسان ہیں اور مسلمان بعد میں، مسلمان ہونے کے لیے پہلے انسان ہونا ضروری ہے جس سے ثابت ہوا کہ ہماری اصل انسانیت ہے نہ کہ مسلمانیت۔ یہی وہ تصور ہے جس کے ذریعے سیکولرزم مذہب کو فرد کا نجی معاملہ بنا ڈالتا ہے، کیونکہ انسانیت کو اصل قرار دینے کے بعد زیادہ معقول بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ اجتماعی نظام کی بنیاد ایسی شے پر قائم کی جائے جو سب کی اصل اور سب میں مشترک ہو تاکہ زیادہ وسیع النظر معاشرہ وجود میں آسکے۔ نیز اگر مذہب کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دینے کو روا رکھا جائے گا تو پھر ہمیں رنگ، نسل، اور زبان وغیرہ کی بنیاد پرقائم ہونے والے معاشروں کو بھی معقول ماننا پڑے گا۔ انسان کی اصل انسانیت قرار دینے کے بعد مذہب کا نجی معاملہ بن جانا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے اور یہی نقطہ تمام سیکولرنظام ہائے زندگی (چاہے وہ لبرلزم ہو یا اشتراکیت) کی اصل بنیاد ہے۔ (سیکرلرزم سے ہماری مراد ایسانظام زندگی ہے جو وحی سے علی الرغم انسانی کلیات یعنی حواس و عقل وغیرہ سے تشکیل دیا گیا ہو)۔ اسی فکر کے تحت ہم اس قسم کے جملے سنتے ہیں کہ ’ہمیں انسانیت کے پیمانے پر سوچنے کی ضرورت ہے، سب کے نظریات و خیالات کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے کیونکہ سب لوگ انسان ہیں،۔ حیرت انگیز اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مفکرین ٹی وی مباحثوں میں جب سیکولرحضرات سے گفتگو فرماتے ہیں تو انسانیت کی بنیاد پر اپنے دلائل قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے یا تو انہیں دوران گفتگو پے در پے شکست ہوتی چلی جاتی ہے اور یا وہ کمزور دلائل اور تاویلات کا سہارا لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ درحقیقت انسانیت پرستی کو رد کیے بغیر مذہب کو اجتماعی زندگی میں شامل کرنے کی کوئی معقول علمی دلیل فراہم کرنا ممکن ہے ہی نہیں۔
آیئے ایک مرتبہ پھر اس سوال پر غور کریں کہ ’آیا پہلے اور اصلاً میں انسان ہوں یا مسلمان؟ اس سوال کا واضح اور قطعی جواب یہ ہے کہ ’میری حقیقت اور اصل مسلمان(بمعنی عبد) ہونا ہے، جبکہ انسان ہونا محض میری مسلمانیت(عبدیت) کے اظہار کا ذریعہ ہے‘۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ میری اصل عبد یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونا ہے، جبکہ میری انسانیت ایک حادثہ اور اتفاقی امر ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یوں سوچیں کہ اگر میں انسان نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ ایک صورت یہ ہے کہ میں جن یا فرشتہ ہوتا، دوسری صورت یہ ہے کہ میں حیوانات، جمادات یا نباتات کی اجناس سے تعلق رکھتا۔ مگر میں کچھ بھی ہوتا ہر حال میں مخلوق ہوتا، یعنی اپنے وجود کی ہر ممکنہ صورت میں میری اصل مخلوق (عبد)ہونا ہی ہوتی، یہ اور بات ہے کہ میری عبدیت کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا۔ مثلاً اگر میں پودا ہوتا تو میری عبدیت کا اظہار پودا ہونے میں ہوتا، اگر میں فرشتہ ہوتا تو یہ ملکوتیت میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ بنتی، اور جب میں انسان ہوں تو میری انسانیت میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ الغرض میرا حال تو تبدیل ہوسکتا ہے لیکن میرا مقام بہرحال مخلوق (عبد) ہوناہی رہے گا، اور یہ بہر صورت ناقابل تبدیل ہے۔ میرے وجود کی حالت میرے لیے ان معنوں میں اتفاقی ہے کہ میں اپنی کسی حالت کا خود خالق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس حالت میں چاہا، مجھے میری مرضی کے بغیر تخلیق کردیا۔ پس ثابت ہوا کہ میری اصل مسلمانیت (یعنی عبدیت) ہے نہ کہ انسانیت۔ ہم نے عبدیت کو مسلمانیت سے اس لیے تعبیر کیا کیونکہ اصلاً تو ہر عبد مسلمان ہی ہوتا ہے چاہے وہ اس کا اقرار کرے یا انکار، اگر وہ اس کا اقرار زبان اور دل سے کرلیتا ہے تو مومن و مسلم (اپنی حقیقت اور اصل کا اقرار کرنے والا اور تابعدار)کہلاتا ہے، اور اگر ماننے سے انکار کرے تو کافر(یعنی اپنی حقیقت کا انکار کرنے والا) ٹھیرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کافر کوئی نئی حقیقت تخلیق یا دریافت نہیں کرتا بلکہ اصل حقیقت(مسلمانیت، یعنی اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے) کا انکارکرتاہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ میری حقیقت عبد ہونا ہے اور انسانیت محض میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ ہے تو یہ سمجھنا بالکل آسان ہوگیا کہ میری انسانیت کا وہی اظہار معتبر ہوگا جس میں عبدیت جھلکتی ہو، نہ کہ میری خود کی مرضی اور نفس پرستی۔
چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری عبدیت کے اظہار کا واحد معتبر ذریعہ صرف اور صرف اسلام ہے، لہٰذا میری انسانیت معتبر تب ہی ہوگی جب میری زندگی کا ہر گوشہ اسلام کے مطابق ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ترجمہ) جو کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے طریقے سے اپنی عبدیت کا اظہارکرے گا تو اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا۔ اور: (ترجمہ)اظہارِ عبدیت کا واحد معتبر طریقہ اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔
اس تفصیل کے بعد یہ سمجھنا بھی آسان ہوگا کہ جب ہماری انسانیت محض اظہارِ عبدیت (اسلام) کا ذریعہ ہے تو اس کا اظہار زندگی کی ہر شے میں ہونا ضروری ہے، چاہیے اس کا تعلق میری نجی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔
سیکولر حضرات جب انسانیت پرستی کا دعویٰ کرتے ہیں تو درحقیقت انسان کی عبدیت کا انکار کرکے اُسے آزاد اور قائم بالذات تصور کرتے ہیں۔ یعنی اگر میں انسان کو عبد نہیں مانتا تو لامحالہ اسے آزاد مانوں گا کیونکہ اس دنیا میں انسان کے دو ہی مقامات ممکنہ طور پر تصور کیے جا سکتے ہیں، یا تو اُسے عبد سمجھا جائے گا، یا پھر آزاد مانا جائے گا، ہر صورت میں اس کی حقیقت کے بارے میں ایک ایمان لانا لازم ہے، اور اس ایمان کے بغیر کسی نظام زندگی کی ابتدا مقصود نہیں ہوسکتی۔ جب انسان کو آزاد مانا جاتاہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نفس کے سوا کسی اور کا تابع نہیں، اور یہی وہ شے ہے جسے قرآن نے “ہوائے نفس کی بندگی”سے تعبیر کیاہے۔ لہٰذا ضررت اس امر کی ہے کہ ہم انسانیت پرستی کو اُس کی تمام تر شکلوں میں کلیتاً رد کریں، کیونکہ انسانیت کا غلبہ درحقیقت سرمایہ داری کی بالادستی کا دوسرا نام ہے جس کا لازمی نتیجہ عبدیت اور مذہب کا زوال ہے۔ ہمارا یہ دعویٰ محض نظریاتی یا خیالی دعویٰ نہیں، بلکہ مغربی دنیا میں جہاں جہاں بھی انسانیت پرستی کے مظاہر عام ہوئے (مثلاً سائنس و ٹیکنالوجی، نیشنلزم، لبرلزم، اشتراکیت وغیرہ کی شکل میں) وہاں مذہب ایک بالادست معاشرتی حقیقت نہیں بلکہ دیگر کھیل تماشوں کی مانند محض نفسیاتی سکون حاصل کرنے کا ایک ذاتی حربہ بن کر رہ گیا ہے۔ جسے مغرب میں اب Spritual Luxuryکہاجانے لگاہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقتِ حال سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔