’’چہرہ روشن، اندرون تاریک تر‘‘

محمد قطب
خوبصورت ناموں اور خوشنما الفاظ اور تراکیب سے دھوکا نہ کھایئے۔ کہنے کو تو انقلابِ فرانس کے بعد یورپ میں اور ابراہام لنکن کے فرمان کے بعد امریکہ میں غلامی کی لعنت ختم ہوگئی، اور دنیا نے اس کے خلاف فیصلہ بھی دے دیا۔ مگر حقیقت اتنی خوشگوار نہیں جتنی کہ ان الفاظ میں نظر آتی ہے، کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ غلامی کا وجود اب بھی دنیا میں موجود ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو جبر و استبداد کا دیوتا مختلف بہروپ بدل کر یوں دنیا بھر میں رقصاں نظر نہ آتا۔ اگر غلامی کی لعنت سے فی الواقع دنیا پاک ہوچکی ہے، تو الجزائر میں فرانسیسیوں کی درندگی اور وحشت کے کارناموں کا عنوان کیا ہوگا؟ اور ان تاریک جرائم کو کس نام سے تعبیر کیا جائے گا، جو امریکی اپنے ہم وطن حبشیوں کے خلاف روا رکھے ہوئے ہیں، نیز جنوبی افریقہ کے رنگ دار باشندوں سے اہلِ یورپ کے ظالمانہ طرزعمل کو کیا نام دیا جائے گا۔
آخر غلامی اس کے سوا اور کیا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو غلام بناکر اُس کو اُس کے تمام حقوق سے محروم کردے! یہی غلامی کا حقیقی مفہوم ہے، لہٰذا ہم خوشنما نعروں سے دھوکا نہ کھائیں، بلکہ ان کی اصلیت پہچاننے کی کوشش کریں۔ اور غلامی کی ان مختلف صورتوںپر آزادی، اخوت اور مساوات کے خوبصورت اور خوشنما لیبل چسپاں نہ کرتے پھریں، کیونکہ خوشنما اور رنگین لیبلوں سے کسی شے کی خباثت اور بدی، لطافت اور اچھائی میں تبدیل نہیں ہوجاتی، اور نہ کسی کے مکروہ اور گھنائونے جرائم پر اس طرح کے رنگین پردے ڈال کر انہیں چھپایا جا سکتا ہے۔ خصوصاً جب کہ نسلِ انسانی کو ان کی تلخیوں کا ایک دو دفعہ نہیں، بلکہ بار بار تجربہ ہوچکا ہو۔
اپنے مدعا اور مؤقف کے اظہار و بیان میں اسلام نے کبھی کسی مداہنت سے کام نہیں لیا، بلکہ ہر موقع پر کھل کر ان کا اظہار کیا ہے، تاکہ اس کے اصل عزائم کسی پر مخفی نہ رہیں۔ اس نے صاف اور واضح الفاظ میں غلامی کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو پیش کیا، اس کے اصل اسباب کی نشاندہی کی، اس کے سدباب کے طریقے بتائے اور اس کے کلی خاتمے کی راہ ہموار کی۔
[اسلام اور جدید ذہن کے شبہات/ محمد قطب]

آزادی

ہے کس کی یہ جرأت کہ مسلمان کو ٹوکے
حریتِ افکار کی نعمت ہے خدا داد
چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدۂ پارس
چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد!
قرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر
چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد!
ہے مملکتِ ہند میں اک طرفہ تماشا
اسلام ہے محبوس، مسلمان ہے آزاد!
1۔ انگریزی عہد میں مسلمان کی آزادیٔ فکر اس پیمانے پر پہنچ چکی ہے کہ کسی بات پر اسے ٹوکنے کا حوصلہ نہیں ہوسکتا۔ وہ فکری آزادی کو اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی ایک نعمت سمجھتا ہے۔
2۔ حالت یہ ہے کہ وہ چاہے تو کعبے کو پارسیوں کا آتش کدہ بنا دے، اور چاہے تو اسے یورپ کے بنے ہوئے بتوں سے بھر دے۔
شعر کا مطلب صرف یہ نہیں کہ کعبے سے مسلمان جو چاہے سلوک کرسکتا ہے۔ یہ بھی مراد ہے کہ اسلام کو چاہے تو تاویل سے پارسیوں کی آسمانی کتاب کے مطابق کردے۔ چاہے تو اسے یورپی تہذیب اور علوم و فنون کا مرقع بنادے۔ چونکہ ٹوکنے اور روکنے والا کوئی نہیں، اس لیے ہر مسلمان جو چاہے کرسکتا ہے۔
3۔ آزادیٔ فکر نے اسے یہ بھی حق دے دیا ہے کہ قرآن کو تاویل کا کھلونا بنادے اور اس سے ایک نئی شریعت پیدا کرلے۔
4۔ غرض ہندوستان کی سرزمین میں ایک عجیب تماشا درپیش ہے۔ یہاں مسلمان آزاد ہے اور اسلام قید۔
(مطالب ضربِ کلیم…مولانا غلام رسول مہرؔ)