سالِ نو پر صدر ٹرمپ کی جانب سے داغے جانے والے ٹوئٹ اور اس کے بعد امریکی زعما کے بیانات سے ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان پر امریکہ کے ڈرون حملے بس اب شروع ہونے کو ہیں۔ امریکی صدر کے بیان کے فوراً بعد اُن کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر جنرل مک ماسٹر نے وائس آف امریکہ (VOA)کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ ’’پاکستان بے تحاشا انسانی اور معاشی وسائل سے بھرپور ملک ہے اور اسے عالمی برادری میں ایک دھتکاری ہوئی ریاست نہیں بننا چاہیے‘‘۔ سی آئی اے کے سربراہ مائک پومپیو کا انداز بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ واشنگٹن میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’اگر پاکستان نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو امریکہ اپنا لائحہ عمل خود طے کرے گا‘‘۔ اسی کے ساتھ افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل نکلسن اور اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی کے لب و لہجے میں ’’کچل دینے‘‘ کا عزم نمایاں تھا۔ اس زبانی اعلانِِ جنگ کے ساتھ ہی پاکستان کی امداد پر مکمل پابندی کا اعلان کردیا گیا اور اس کے بارے میں مختلف اعدادوشمار سامنے آئے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کاکہنا تھا کہ 2 ارب ڈالر کی امداد معطل کی گئی ہے، جبکہ وزارتِ دفاع المعروف پینٹاگون کے ترجمان نے روکی جانے والی امداد کا حجم 90 کروڑ ڈالر بتایا۔ آگے بڑھنے سے پہلے دو نکات کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ صدر ٹرمپ نے امریکی امداد پر پابندی کا جو اعلان اپنے ٹوئٹ میں کیا تھا وہ مئی 2016ء سے نافذالعمل ہے جب کیلی فورنیا سے ری پبلکن پارٹی کے رکن کانگریس ڈانا روہراباکر کی تجویز پر امریکی کانگریس نے پاکستان کے لیے امداد پر پابندی لگادی تھی۔ ایوانِِ زیریں میں اپنی تقریر کے دوران رہراباکر نے الزام لگایا کہ پاکستان میں سندھیوں، بلوچوں، عیسائیوں، ہندوئوں، شیعہ، ہزارہ اور ’احمدی مسلمانوں‘ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی ’اندھا دھند‘ امداد پر پابندی لگادی جائے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ 2002ء سے اب تک امداد کی مد میں پاکستان کو 30 ارب ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔ اپنے ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے اسے بڑھاکر 33 ارب ڈالر کردیا۔ یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ اور امریکی زعما جس رقم کو امداد کہہ کر پاکستان پر احسان جتا رہے ہیں وہ سرے سے مدد ہے ہی نہیں، بلکہ یہ افغان جنگ پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی ہے۔ افغانستان کے لیے سارے کا سارا غیر مہلک اسلحہ (non- lethal Hardware) پورٹ قاسم پر اترتا ہے۔ اس سامان کو بندرگاہ پر اتارنے، کسٹم کی جانچ پرتال اور افغانستان کی طرف روانگی کی نگرانی جہازراں کمپنی امریکن پریسیڈنٹ لائنز (American President Lines) یا APLکرتی ہے جس کے لیے پورٹ قاسم پر ایک گودی مختص ہے۔ پورٹ چارجز، درآمدی ٹیکس اور چنگی کے علاوہ بندرگاہ سے طورخم یا چمن تک ٹرکوں کا کرایہ، کارواں کی حفاظت، ڈیزل، منرل واٹر، اسبابِ خورونوش، سگریٹ، ڈائپرز اور امریکی فوج کے لیے دیگر سازوسامان پاکستان اپنے خرچ پر فراہم کرتا ہے جس کی ادائیگی کے لیے Coalition Support Fund یا CSF قائم کیا گیا ہے۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو CSF امریکہ کی جانب سے اس ادھار کی بے باقی ہے جو پاکستان کی طرف واجب الادا ہے۔
خلافِ توقع امریکہ کے ان جارحانہ بیانات پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے شائستہ لیکن دوٹوک ردعمل کا اظہار کیا۔ اس میں نہ تو مداہنت و معذرت کا پہلو تھا اور نہ میاں نوازشریف کی طرح فوج اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف انگشت نمائی۔ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ کا پاکستان سے رویہ اتحادیوں والا نہیں کہ اتحادی ایسا سلوک نہیں کرتے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ تعلق ستمبر 2001ء سے قائم تھا۔ پاکستان نے امریکہ کی افغانستان مہم میں شامل ہوکر بہت بڑی غلطی کی، امریکی مہم میں شامل ہونے سے پاکستان میں دہشت گردی نے جنم لیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا اور اب امریکہ اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے، جبکہ ہم افغانستان میں مزاحمت کاروں کے خلاف جنگ کرکے لڑائی کو اپنی سرزمین پر نہیں لانا چاہتے۔ خواجہ صاحب نے بڑے دوٹوک انداز میں کہا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی معطلی کے بعد مَیں امریکہ سے اتحاد ختم سمجھتا ہوں۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھائو قیامِ پاکستان سے جاری ہے، اور اس کا بڑا عمدہ تجزیہ ایک پاکستانی خاتون نے کئی برس پہلے ہیلری کلنٹن کے سامنے کیا تھا جب ہیلری کلنٹن صاحبہ امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے پاکستان کے دورے پر تھیں۔ اسلام آباد میں عام شہریوں کے ساتھ ایک نشست میں اس خاتون نے کہا کہ ’’پاکستان کے ساتھ امریکہ کا رویہ اس نٹ کھٹ روایتی ساس کا سا ہے جو کسی صورت اپنی بہو سے خوش نہیں ہوتی‘‘۔ اس تبصرے پر ہیلری کلنٹن صاحبہ ہنس ہنس کر دہری ہوگئیں۔ تاہم محترمہ کے قہقہے میں خجالت کا پہلو نمایاں تھا کہ بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی۔ پاکستان کے لیے امریکہ کی مہرو محبت اور غیظ و غضب کا سلسلہ کچھ اس طرح ہے:
قیام پاکستان کے فوراً بعد 1947ء سے پاک امریکی تعلقات کا آغاز ہوا، اور چچا سام نے پاکستان کے شمال (افغانستان اور وسطِ ایشیا) سے سوویت یونین کی شکل میں اٹھنے والی سرخ آندھی کو روکنے کے لیے پاکستان کو عملاً گود لے لیا۔ اس دوران اقتصادی اعانت کے ساتھ عسکری امداد کا آغاز ہوا۔ اُس وقت پاکستان کو 30 لاکھ ڈالر سالانہ کی مدد دی جاتی تھی اور رقم کا بڑا حصہ امریکی گندم کی درآمد میں خرچ ہوتا تھا۔ اس کھیپ کو کراچی کی بندرگاہ سے نیوچالی کے گوداموں تک اونٹ گاڑیوں میں پہنچایا جاتا تھا۔ اونٹوں کی گردنوں سے لٹکتی تختیوں پر چچاسام کی علامتی تصویر کے ساتھ جلی حروف میں Thank You USA لکھا ہوتا تھا۔ اس دوران ایک بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ صدر لنڈن بی جانسن 1961ء میں پاکستان آئے، اُس وقت موصوف نائب صدر تھے۔ کراچی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے انھوں نے اونٹ گاڑیوں کے ایسے ہی ایک قافلے کو دیکھا جو سڑک کے کنارے سے گزر رہا تھا۔ اُس وقت VVIP موومنٹ کے دوران سڑکیں بند کرنے کا رواج نہ تھا۔ ایک اونٹ گاڑی والے نے صدر جانسن کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا تو مسٹر جانسن نے اپنے ڈرائیور سے رکنے کوکہا۔ امریکی نائب صدر گاڑی سے اترے، ساربان سے مصافحہ کیا، اونٹ کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ تعارف کے دوران ساربان نے اپنا نام بشیر احمد بتایا جو غالباً چاکیواڑہ کا رہائشی تھا۔ گاڑی کی طرف واپس لوٹتے ہوئے مسٹر جانسن نے بشیر ساربان سے کہا ’’دوست! کبھی واشنگٹن آکر ملاقات کرو ناں‘‘۔ بشیر نے صحافیوں کے سامنے مسٹر جانسن کی دعوت قبول کرلی اور کراچی میں امریکی سفارت خانے نے بشیر ساربان کے دورۂ امریکہ کا انتظام کیا۔ جب بشیر صاحب نیویارک کے ائرپورٹ پر اترے تو مسٹر جانسن نے ان کا خود استقبال کیا اور انتہائی عزت کے ساتھ اپنے گھر لے گئے جو وہاں سے 2500 کلومیٹر دور امریکی ریاست ٹیکساس میں تھا۔ بشیر کو سابق صدر ہیری ٹرومین نے بھی اپنے گھر مدعو کیا، جس کے بعد لیاری کے اس ساربان کو امریکی دارالحکومت لے جایا گیا۔ نائب صدر کی حیثیت سے لنڈن بی جانسن امریکی سینیٹ کے سربراہ تھے، چنانچہ بشیر نے سینیٹ کا دورہ کیا اور صدر کے چیمبر میں بیٹھ کر ایوان کی کارروائی دیکھی۔ اس تمام عرصے میں بشیر کو امریکہ کے سرکاری مہمان کا درجہ دیا گیا۔ جانسن، سابق صدر ہیری ٹرومین اور دوسرے امریکی رہنما کراچی کے اس نادار و ناخواندہ ساربان کو سربراہانِ مملکت کی طرح اعلیٰ حضرت یا Excellencyکہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ دورے کے اختتام پر خدا حافظ کہتے ہوئے جب مسٹر جانسن نے بشیر سے روایتی انداز میں پوچھا “What else I can do for you my friend?” (میں تمہارے لیے اور کیا کرسکتا ہوں میرے دوست؟) تو بشیر نے بے ساختہ کہا: ’’مجھے مدینہ دکھادو‘‘۔ چنانچہ کراچی واپسی کے بعد بشیر کو اُس کے والدین و اہلِ خانہ سمیت امریکہ کے خرچ پر عمرہ بھی کروایا گیا۔ افسوس کہ اعلیٰ ظرف صدر جانسن کی نشست آج اُس نسل پرست شخص کے پاس ہے جو اوروں کا احترام تو دور کی بات، غریب ممالک کو رعونت سے’غلاظت کا ڈھیر‘ کہتا ہے۔
خیر ذکر پاک امریکہ تعلقات کا ہورہا تھا۔ چاند سی بہو کو ساسو ماں نے1965ء میں پہلی بار آنکھ دکھائی جب بھارت سے جنگ کے دوران پاکستان کی مدد معطل کردی گئی۔ یعنی آزمائش کی گھڑی میں دوست نے آنکھیں پھیرلیں۔ بہت عرصے بعد امداد بحال ہوئی لیکن 1971ء کی پاک ہند لڑائی میں امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا، حالانکہ سیٹو (SEATO) یا معاہدۂ منیلا کے تحت امریکہ پاکستان کی مدد کا پابند تھا۔ کچھ عرصے بعد واجبی سی امداد بحال ہوئی کہ 1979ء میں اسلامی ایٹم بم کا ہوّا کھڑا ہوا اور صدر کارٹر نے پاکستان کی امداد منسوخ کردی۔ تاہم اسی سال افغانستان پر روسی فوجیں چڑھ دوڑیں اور ساس نے ایک بار پھر اپنی بہو کی بلائیں لینی شروع کردیں۔ صدر کارٹر کی جانب سے امداد کی پیشکش کو جنرل ضیا الحق نے ’مونگ پھلی‘ کہہ کر مسترد کردیا۔ جنرل صاحب نے معمولی سے حجم کے لیے مونگ پھلی کا استعارہ استعمال کیا تھا، لیکن صدر کارٹر نے اسے دل پر لے لیا کہ امریکی صدر بننے سے پہلے وہ ’مونگ پھلی کے کاشت کار‘ تھے۔ صدر کارٹر کے مشیر سلامتی برزنسکی کا خیال تھا کہ افغانستان آنے والی روسی فوج کی پیش قدمی روکنا کسی کے بس کی بات نہیں اور ہارتے گھوڑے پر شرط لگانا نقصان کا سودا ہے۔ تاہم افغانوں کی جانب سے روس کی شدید مزاحمت نے امریکی ماہرین کے تجزیوں کو غلط ثابت کردیا، اور 1981ء میں حکومت سنبھالتے ہی صدر ریگن نے خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر روس کے خلاف بھرپور مہم شروع کردی۔ اس دوران پاکستان کے راستے افغانستان میں روسیوں کے خلاف جنگ میں مصروف چھاپہ ماروں کو مدد فراہم کی گئی۔ اس تمام عرصے میں امریکہ سے آنے والے ڈالر لکھے تو پاکستان کے کھاتے میں گئے لیکن امریکی سی آئی اے اور ان کے ایجنٹوں کے ذریعے تقسیم ہوئے۔ افغانستان میں روس کی شکست اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد حسبِ روایت امریکہ نے ایک بار پھر آنکھیں پھیرلیں۔ اسلامی بم کے پس منظر میں پریسلر ترمیم منظور ہوئی اور امداد پر قدغن لگادی گئی۔ حتیٰ کہ 1993ء میں یو ایس ایڈ کا پاکستان دفتر بھی بند کردیا گیا۔ 1998ء میں پاکستان کی طرف سے جوہری تجربات کے جواب میں امریکی امداد ایک بار پھر منجمد کردی گئی۔ 11 ستمبر 2001ء کو نیویارک پر دہشت گرد حملے کے بعد جب پرویزمشرف امریکہ سے آنے والے ایک فون پر ڈھیر ہوگئے تو امریکہ ایک بار پھر مہرومحبت کے ساتھ پاکستان کی طرف مائل ہوا، تاہم جاری ہونے والی مالی مدد افغانستان میں تعینات امریکی فوج کو نقل و حمل اور رسد کی سہولیات فراہم کرنے کا معاوضہ تھا جسے پاکستان کے حساب میں درج کیا گیا۔ 2004ء میں امریکہ نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی امداد دی لیکن رقم پاکستان کو دینے کے بجائے اس سے پاکستان کے ذمے امریکی قرضہ بے باق کیاگیا۔ 2009ء میں امریکی کانگریس نے پاکستان سے شراکت داری ایکٹ (Enhanced Partnership with Pakistan Act) یا کیری لوگر بل منظور کیا جس کے تحت امریکی امداد بڑھاکر ساڑھے سات بلین ڈالر سالانہ کردی گئی۔ تاہم رقم کی تقسیم سیکولر و روشن خیال این جی اوزکے ذریعے ہوئی جس کے نتیجے میں نصاب میں تبدیلی، مدارس کی اصلاح اور’مثبت‘ معاشرتی پروگرامات کے نام پر ہم جنسی کے فروغ کی راہ ہموار کی گئی۔
2006ء میں طالبان نے شدید مزاحمت کا آغاز کیا اور ان کے چھاپہ مار حملوں سے امریکی فوج سراسیمہ ہوگئی۔ تابوتوں اور معذوروں کی آمد نے امریکی رائے عامہ میں ہلچل پیدا کی اور افغانستان سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ شروع ہوا۔ دوسری طرف افغانستان اور عراق میں فوج کشی کے بھاری اخراجات سے امریکی معیشت دبائو کا شکار ہوئی۔ شدید تنقید پر پینٹاگون نے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ کیا اور ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرادیا گیا۔ امریکہ کی عسکری قیادت نے اپنی ناکامی کی وجہ پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانوں اور حقانی نیٹ ورک کو قرار دیا۔ مئی 2011ء میں ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کی ’دریافت‘ سے الزامات میں شدت آئی اور پاکستان کے ’دوغلے کردار‘ پر کھل کر بات ہونے لگی۔ امریکی کانگریس کی ہند نواز احمدیہ کاکس (Ahmadia Caucus) کی بھرپور مہم کے نتیجے میں امداد تو ایک طرف، کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم میں کٹوتیاں شروع ہوگئیں اور 2016ء سے CSF معطل ہے۔
صدر ٹرمپ کے ٹوئٹ کے بعد غیر مبہم بیانات، امریکی رہنمائوں کی لن ترانی اور پاکستان کی جانب سے ’منہ توڑ‘ جواب کے بعد 8 جنوری سے اس معاملے پر سنجیدہ گفتگو کا آغاز ہوا جب پینٹاگون کے ترجمان کرنل روب میننگ نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کی مد میں دیے جانے والے 90 کروڑ ڈالر معطل کیے ہیں۔ انھوں نے وضاحت کی کہ یہ رقم منسوخ نہیں کی گئی بلکہ پاکستان کی جانب سے تعاون تک معطل کی گئی ہے۔ کچھ ایسی ہی بات وزیر دفاع جیمز میٹس نے فرمائی کہ امریکہ اب بھی پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہش مند ہے اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام پر پاکستان کی امداد بحال کردی جائے گی۔ دوسرے روز اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ اب کوئی اتحاد نہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والے اس انٹرویو کے بعد امریکی وزارتِ دفاع میں شدید اضطراب پیدا ہوا اور افغانستان میں تعینات رہنے والے کئی جرنیلوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پاکستان کے عدم تعاون سے امریکی فوج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔کچھ اس طرح کی خبریں بھی سامنے آئیں کہ پاکستان کو مریدکے پر ایبٹ آباد جیسے حملے کا خطرہ ہے جس کے لیے فضائیہ کو چوکنا کردیا گیا ہے۔ ان خبروں سے امریکہ کے عسکری حلقوں میں کوئی ’درمیانی راستہ‘ نکالنے پر غوروفکر شروع ہوا۔ پسِ پردہ بازگشت کے ساتھ امریکہ کے سابق سفیر رچرڈ اولسن نے ایک تقریب میں کھل کر کہہ دیا کہ پاکستان پر پابندیاں امریکہ کے مفاد میں نہیں، اور یہ کہ پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ کا افغان آپریشن جاری نہیں رہ سکتا۔ پینٹاگون کی بریفنگ کے دوسرے دن وزیرِ دفاع خرم دستگیر خان نے کہاکہ پاکستان نے امریکہ سے انٹیلی جنس اور دفاع کے شعبے میں تعاون معطل کردیا ہے۔ تاہم اُنھوں نے واضح کیا کہ امریکہ کو پاکستان کی فضائی حدود اور زمینی راستے استعمال کرنے کی سہولت معطل نہیں کی گئی، جس پر تبصرہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا کہ انٹیلی جنس تعاون معطل کرنے سے متعلق اْنھیں باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ وزیر دفاع کی جانب سے رسد کے لیے سہولتوں کی فراہمی کی یاددہانی کے باوجود پینٹاگون کا اضطراب برقرار رہا اور پس پردہ سفارت کاری یا back channel diplomacy کا آغاز ہوا جس کی تصدیق پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کے بیان سے ہوئی، جنھوں نے 11 جنوری کو ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مختلف سطحوں پر رابطے جاری ہیں۔ انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ بات چیت میڈیا کوریج سے ہٹ کر ہورہی ہے اس لیے فی الوقت اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے قاصر ہیں۔ امریکہ کے دفاعی نامہ نگاروں نے بھی بیک چینل ڈپلومیسی کی تصدیق کی۔ اس کے دوسرے ہی دن امریکہ کی مرکزی کمان کے سپہ سالار جنرل جوزف ووٹل نے جنرل باجوہ سے فون پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے اندر ’کارروائی‘ یا یک طرفہ اقدام کی سختی سے تردید کی اور پاک فوج کے سربراہ کو یقین دلایا کہ امریکہ پاکستان سے اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔
پسِ پردہ باتوں کے ضمن میں اہم انکشاف پاکستان کے وفاقی وزیر جہاز رانی میر حاصل بزنجو نے کیا۔ امریکی ریڈیو VOAسے باتیں کرتے ہوئے جناب بزنجو نے کہا کہ افغانستان رسد پہنچانے کے لیے امریکہ گوادر کی بندرگاہ کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وزیردفاع کی جانب سے سرحدیں کھلی رکھنے کی یقین دہانی، جنرل ووٹل کی جنرل باجوہ سے بات چیت اور اب پینٹاگون کی گوادرمیں دلچسپی کے تناظر میں پسِ پردہ مذاکرات سے ایسا لگ رہا ہے کہ شکوے شکایت اور ناز نخروں کے بعد روٹھی بہو گھر بسا رکھنے پر رضامند ہوگئی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ امریکہ کا جنگی سامان اب پورٹ قاسم کے بجائے گوادر آئے، جہاں سے اسے تیز رفتار ٹرکوں میں پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے 24 گھنٹے کے اندر چمن کے راستے قندھار پہنچایا جاسکتا ہے۔ سی پیک کے تحفظ کے لیے پاک فوج کے جوان تعینات ہیں لہٰذا یہ محفوظ ترین راستہ ہے۔ فوجی سازوسامان کی نقل و حرکت کے دوران بی ایل اے اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کی مدد بھی اب ممکن ہوجائے گی۔ سب سے دلچسپ بات کہ ان خدمات کے عوض معاوضے کا نہ کوئی امکان ہے اور نہ توقع۔ کون کہتا ہے کہ ہم تم میں جدائی ہوگی!