پاکستان سے نمٹنے کی امریکی حکمت عملی

رچرڈ اولسن/ترجمہ: لیفٹیننٹ کرنل(ر) غلام جیلانی خان
یہ مضمون رچرڈ اولسن(Richard Olson) نے لکھا ہے جو ’’نیویارک ٹائمز‘‘ (10 جنوری 2018ء) کے صفحہ اوّل پر شائع ہوا ہے۔ اولسن چار سال تک اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر (2012ء تا 2016ء) رہے۔ سفارت کار لوگ جس جگہ جاتے ہیں وہاں کے سیاسی، سفارتی، عسکری اور سماجی موضوعات پر گہری نظر رکھتے ہیں، کیریئر ڈپلومیٹ ہوتے ہیں، ایک طویل عرصہ دشتِ سفارت کی سیاحی میں گزارا ہوتا ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ہے، اس لیے ان کا تجزیہ بہت وزن دار اور معلوماتی ہوتا ہے۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور اس کے سفیر جہاں جاتے ہیں اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں وہاں کی عوامی اور حکومتی خواہشوں اور امنگوں کا مشاہدہ اور مطالعہ کرکے واشنگٹن کو مطلع کرتے رہتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے مشیروں کی جو ٹیم بیٹھی ہے اُن میں دو ٹیمیں بہت وقیع شمار کی جاتی ہیں۔ ان کا تعلق پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ یعنی وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ سے ہوتا ہے۔ چونکہ یہ مضمون ایک ایسے سفیر کا ہے جس نے ابھی چند ماہ پہلے اسلام آباد میں چار سال رہ کر متعدد بار جی ایچ کیو اور وزیراعظم ہاؤس میں جاکر آرمی چیف اور چیف ایگزیکٹو سے کئی ملاقاتیں کیں اور ان کی تفصیلات واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کو ارسال کیں، تو ان کے خیالات، مشورے اور سفارشات ٹرمپ کے مشیروں کے لیے فوری توجہ کا مواد ہوں گی، اور چونکہ ’’دی نیویارک ٹائمز‘‘ امریکہ کی تین سربرآوردہ پرنٹ میڈیا مطبوعات میں سے ایک ہے اس لیے بھی رچرڈ اولسن کا یہ آرٹیکل ایک خاص اہمیت کا حامل ہوگا (باقی دو اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ اور’ دی وال اسٹریٹ جرنل‘ ہیں)
میرا خیال تھا کہ اولسن نے جن اہم افکار و خیالات کو آرٹیکل میں بیان کیا ہے ان کو بنیاد بنا کر اپنے کالم کا مواد بنادوں۔ لیکن پھر سوچا کہ اگر اس کا ترجمہ کردوں تو اس کا اثر زیادہ، براہِ راست اور قابلِ توجہ ہوگا۔ اس لیے یہ ترجمہ حاضر ہے۔ اس میں مَیں نے بعض انگریزی الفاظ و اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ کرنے کے بجائے اردو میں املا کردیا ہے۔کچھ عرصے سے یہ اصطلاحات اور یہ الفاظ پرنٹ میڈیا کے قارئین کے لیے زیادہ اجنبی نہیں رہے… (مترجم)
’’گزشتہ ہفتے پاکستان کی فوجی امداد معطل کرنے کا صدر ٹرمپ کا فیصلہ جو اُن الزامات کے جلو میں آیا کہ ’’پاکستان نے ہمیں سوائے ’جھوٹ اور فریب‘ کے کچھ بھی نہیں دیا، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ایڈمنسٹریشن نے اس ہارڈ لائن اپروچ کی پیروی کی ہے جس کا اشارہ صدر موصوف نے اگست 2017ء میں دیا تھا۔
گزشتہ جمعرات کو وزارتِ خارجہ نے اس بات کی توثیق کردی کہ پاکستان کو ملنے والی وہ تمام فوجی امداد معطل کردی گئی ہے جس میں وہ ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ بھی شامل ہے جو پاکستان کو انسدادِ دہشت گردی کے آپریشنوں کی مد میں اس کی طرف سے خرچ کی گئی رقوم کی واپسی کے طور پر دیا جاتا تھا۔
اور اس کے علاوہ وہ ’’فارن ملٹری فنانسنگ پروگرام‘‘ بھی روک لیا گیا ہے جس سے امریکی اسلحہ جات خریدے جاتے تھے اور امریکی ٹریننگ اور دوسری خدمات فراہم کی جاتی تھیں۔ یہ فیصلہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی 1.3 ارب ڈالر (1300 ارب روپے) امداد روک دے گا۔
جذباتی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فیصلہ شاید ایک ایسے ملک کو سزا دینے کے عمل میں اطمینان بخش محسوس ہوگا کہ جس نے گزشتہ 16 برسوں سے افغانستان میں امریکی دشمنوں کی مدد کی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایڈمنسٹریشن کی یہ اپروچ بیکار ثابت ہوگی۔ بہت سے امریکی لوگوں کے خیال کے برعکس ہمارے مقابلے میں پاکستان کو ہم پر دباؤ ڈالنے کے زیادہ مواقع اور وسائل فراہم ہیں۔
پاکستان کی پالیسی اور امریکی آپشنز کی محدودات (Limitations) کو بہتر طور پر سمجھنے کی چابی خطے کے جغرافیہ اور اس کی تاریخ میں چھپی ہوئی ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ یہ ہے کہ وہ دریائے سندھ کے اطراف میں ایک باریک سے ایسے زمینی ٹکڑے کی طرح واقع ہے جس کا دفاع ممکن نہیں۔ اس ٹکڑے کے مشرق میں ہموار میدانی علاقے ہیں اور مغرب میں ایسے پہاڑ ہیں جن میں جارحانہ طبع والے قبائل آباد ہیں۔ پاکستان کا یہ کمزور اور نازک جغرافیہ کوئی ایسی بڑی محدودیت نہ ہوتی اگر اس کی تاریخ ایک ایسے حریف کی طویل دشمنی سے عبارت نہ ہوتی جس کا نام انڈیا ہے۔
1947ء میں اپنے قیام سے لے کر آج تک پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ اس کی قومی سلامتی اس کے مشرق میں واقع ایک عجیب و غریب شکل کے انڈین جانور (Behemoth) کی طرف سے معرضِ خطر میں ہے۔ پاکستانی ایک طویل عرصے سے اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کے مشرق میں ان ہموار میدانوں میں انڈین پنجاب کی جانب سے یلغار کرتے ہوئے بھارتی ٹینک آئیں گے اور لاہور اور اس سے بھی پرے نکل جائیں گے اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ہم امریکی، پاکستان کی طرف سے پیش کیے جانے والے اس بھارتی خطرے کی حقیقت سے لاکھ اتفاق نہ کریں لیکن میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ پاکستان کا ہر فرد انڈیا کو اپنے وجود کے لیے ایک خطرہ تصور کرتا ہے۔
انہی حقیقی یا خیالی بھارتی خطرات کے پیش نظر پاکستان ان سے نمٹنے کے لیے غیر روایتی عسکری حل تلاش کرتا رہا ہے… بالخصوص پراکسی جنگوں کی شکل میں… یہی وجہ ہے کہ پاکستان آرمی اور اس کی جاسوس ایجنسی (آئی ایس آئی) چوری چھپے ہر قسم کے اینٹی انڈیا اور اینٹی افغان گروپوں کو سپورٹ کرتی آرہی ہے۔
1980ء کے عشرے میں امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف ایسی ہی ایک پراکسی وار کی حمایت کی تھی، لیکن جب 1989ء میں سوویت افواج افغانستان سے نکل گئیں تو امریکہ نے پاکستان کی حمایت کرنے کی پالیسی ترک کردی، اور 1990ء میں پریسلر ترمیم کے ذریعے ہم نے پاکستان کو سزا دینے کی خاطر اُس کی امداد اس لیے بند کردی کہ پاکستان جوہری ہتھیار بنا رہا تھا۔
لیکن پاکستان کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کی سرزمین پر وہ مجاہدین آکر بیٹھ اور بس گئے تھے جنہوں نے افغان جہاد میں امریکہ کی مدد کی تھی اور جس کے نتیجے میں سوویت یونین کو واپس جانا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ فاٹا میں پشتونوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جس کے باعث پاکستان، افغانستان سے قطع تعلق نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے پاکستان نے طالبان کو بشمول حقانی نیٹ ورک کہ جس نے صدر ریگن کے دور میں امریکہ کی مدد کی تھی، اپنی سرزمین پر سے آپریٹ کرنے کی اجازت دے دی اور گاہے گاہے ان کو خاموش سپورٹ بھی فراہم کرتا رہا۔
وہ جغرافیائی حالات جو پاکستان کے لیے تشویش کا باعث بنے تھے، وہی امریکہ کو بھی درپیش ہیں۔ گزشتہ 16برسوں میں ہم جو زمین بند (Land-Locked) افغانستان میں آپریٹ کررہے ہیں تو اس کا انحصار پاکستانی فضاؤں کے استعمال پر ہے۔ ایسی پروازیں ایران کی فضاؤں میں نہیں کی جا سکتیں، کیونکہ ان کے ساتھ ہمارا اس سلسلے میں کوئی اس طرح کا معاہدہ نہیں جس طرح کا پاکستان کے ساتھ ہے۔ ان دونوں ملکوں کے سوا کوئی اور آپشن اچھا آپشن نہیں۔
وسط ایشیائی ریاستوں کی طرف سے شمالی افغانستان کو انصرامی مدد پہنچائی جا سکتی ہے، لیکن اس کے بارے میں مزید کچھ کہنا یا تبصرہ کرنا بے سود ہوگا۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر ہماری آرمی کی حالتِ زار اس وہیل مچھلی کی طرح ہوگی جو سمندر سے نکل کر خشکی پر آکر تڑپنے لگتی ہے۔‘‘
رچرڈ اولسن سابق امریکی سفیر جو چار برس تک اسلام آباد میں رہے اور 2016ء میں واپس گئے، پاک امریکہ تعلقات پر اپنے آرٹیکل میں آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’امریکہ نے افغانستان کے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ 2001ء سے بش ایڈمنسٹریشن نے پاکستان کے لیے ایک بڑا امدادی پیکیج دینا شروع کردیا، اور پاکستان، افغانستان کی جنگ میں ہماری جو مدد کررہا تھا اس کا خرچہ ہم نے نقد ادا کرنا شروع کردیا۔ لیکن پاکستانیوں کی نگاہ میں یہ ادائیگی اس مقصد کے لیے تصور کی جانے لگی کہ یہ پاکستان میں اندرونی دہشت گردی کے انسداد کا معاوضہ ہے۔ ان کی نظر میں 50000پاکستانی جانوں اور بے حساب مالی نقصانات کی لگائی ہوئی یہ امریکی قیمت ایک نہایت نفرت انگیز اور بہت بری ڈیل تھی۔
اس کے باوجود کہ ہم نے اوباما ایڈمنسٹریشن کے دور میں ایک ارب ڈالر سالانہ پاکستان کی ڈویلپمنٹ کے لیے دیئے، لیکن پھر بھی اس کے بدلے میں امریکہ کو وہ کچھ حاصل نہ ہوسکا جو امریکہ چاہتا تھا۔ وہ پاکستانی جرنیل جو راولپنڈی میں بیٹھے افغانستان پالیسی کو چلانے کے ذمے دار ہیں ہم اُن کو کبھی بھی اس بات کا قائل نہ کرسکے کہ ان کو امریکہ اور طالبان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ یعنی ہماری کوشش تھی کہ پاکستان، طالبان کی مدد ترک کردے اور امریکہ کا ساتھ دے۔
میں ذاتی طور پر اس تلخ تجربے کا گواہ ہوں کہ مجھے اسلام آباد میں چار سال تک پاکستان کے سامنے اس امریکی خواہش کی رٹ لگانے کا موقع ملا لیکن میں پاکستانی جرنیلوں کو نہ خرید سکا…! وہ جرنیل اچھی طرح جانتے تھے کہ جب تک امریکی فوج افغانستان میں موجود ہے، اس کی موجودگی کا دارومدار پاکستان پر ہے، جبکہ پاکستان کا دارومدار امریکہ پر نہیں۔
یہی وہ تضاد تھا جو واشنگٹن اور راولپنڈی کے درمیان تھا، اور جس کی وجہ سے امریکہ کے تعلقات، بالخصوص اوباما ایڈمنسٹریشن کے آخری برس میں، زیادہ کھل کر منظرِعام پر آگئے۔
تلخ و ترش ہی سہی، حقیقت یہی ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد پر امریکی اثر رسوخ بتدریج زوال کا شکار ہوا… [راولپنڈی سے مراد پاک فوج اور اسلام آباد سے مراد پاکستان کی سویلین حکومت ہے۔ مترجم]… اور جب امریکی امداد کا لیول کم ہونے لگا اور ہم نے پاکستانی پالیسی سے ترش روئی کا مظاہرہ کیا تو چین کی طرف سے پاکستان کی امداد میں اضافہ ہوگیا۔
چین نے پاکستان میں تقریباً 62 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کی اور سی پیک (CPEC) کے تحت پاکستانی انفرااسٹرکچر کو ڈویلپ کرنا شروع کیا۔ یہ چین کے ’’ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ پراجیکٹ کا ایک حصہ ہے۔ پاکستان میں اتنے بڑے منصوبے میں اتنی کثیر سرمایہ کاری کے سامنے وہ امریکی امداد ہیچ ہوگئی جو ہم نے آج تک پاکستان میں کی تھی۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو نیچا دکھانے اور اس کو سزا دینے کی جو کوشش ٹرمپ انتظامیہ کررہی ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دوسرے ممالک کی طرح اگر کوئی کھلے بندوں پاکستان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پاکستان کا ردعمل شدید ہوتا ہے اور وہ اس بات کا بہت برا مناتا ہے۔ اس لیے اس امر کے آثار نظر آرہے ہیں کہ پاکستان، افغانستان میں ہماری پوزیشن کو کس کس طرح کمزور اور ضعیف کرسکتا ہے۔
بہتر اپروچ یہ ہوگی کہ ہم ’’اندرونِ خانہ‘‘ (پرائیویٹ طور پر) اعلیٰ ترین سطح پر اور صاف صاف لفظوں میں پاکستانیوں پر واضح کردیں کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی کوئی بھی صورت تبھی برقرار رہے گی جب پاکستان، طالبان سے (بشمول حقانی نیٹ ورک) اپنے روابط ختم کردے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی شہرت یہ ہوچکی ہے کہ اس کی پالیسیاں ہارڈلائن ہیں اور وہ گزشتہ تمام امریکی پالیسیوں کے برعکس جارہی ہیں، اس لیے پاکستان کو بھی امریکہ کی طرف سے یہ حتمی اور قطعی پیغام دے دیا جائے۔
لیکن کسی ٹوئٹ کا راستہ اختیار کرنا اور اس طرح کھلے عام یہ اعلان کردینا کہ ہم پاکستان کو دی جانے والی ہر قسم کی امداد ختم کررہے ہیں، کوئی ایسا راستہ نہیں جس سے کسی کامیابی کی امید رکھی جاسکے۔ امریکہ، مسئلہ افغانستان صرف اور صرف سیاسی طور سے حل کرسکتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ اس تصادم کا بھی آخری حل یہی ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔ لیکن ہماری پالیسی کا بیشتر رخ دوسرے ذرائع اور دوسری بہانہ سازیوں کی طرف جارہا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ یہ بات کھلے عام کہہ چکی ہے کہ وہ افغان تنازعے کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر سمجھ نہیں میںآرہا کہ یہ مذاکرات کیوں شروع نہیں کیے جا رہے۔‘‘

تبصرہ مترجم

قارئینِ گرامی! آپ نے ایک سابق امریکی سفیر کے خیالات پڑھے۔ میں رچرڈ اولسن کے اس آرٹیکل پر آپ کی توجہ دو باتوں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ ہے کہ اولسن، صدر اوباما کے دور میں سفیر تھے، اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں اوباما کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، جبکہ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی سے وابستہ ہیں۔ اگر 2016ء کے امریکی الیکشن میں ڈیموکریٹ کامیاب ہوجاتے تو آج ہلیری کلنٹن، صدر ہوتیں اور پاکستان کے بارے میں ان کی اپروچ وہی ہوتی جو اولسن کے اس مضمون میں بیان کی گئی ہے۔ لیکن ٹرمپ چونکہ ری پبلکن ہیں اس لیے اس پارٹی کی سوچ الگ ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں پی ٹی آئی اور نون لیگ کی سوچ میں اختلاف ہے اسی طرح امریکہ میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ ٹرمپ کا نقطۂ نگاہ اور اوباما کا مؤقف ایک نہیں ہوسکتا۔ اور ٹرمپ کی ٹوئٹ، ہلیری کی ٹوئٹ نہیں بن سکتی تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ گزشتہ 16برسوں سے افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور اُسے کوئی ایسی راہ نظر نہیں آتی جو اس سپرپاور کی اَنا کی تشفی کرسکے، کیونکہ سپرپاور کی اَنا بھی سپر ہوتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا جب عراق پر حملہ کیا گیا تھا تو ساری دنیا نے اس حملے کی مخالفت کی تھی۔ صرف برطانوی دُم چھلّا بش کے ساتھ تھا۔ لیکن اس کے باوجود حملہ ہوا اور مشرق وسطیٰ کا سارا نقشہ بدل دیا گیا۔ اور امریکہ کے ساتھ ناٹو بھی تو ہے اور انڈیا بھی ہے… سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کون ہے؟
یہ ایک بڑا ہی اہم سوال ہے۔ امریکہ نے کل ہی اپنے باشندوں کو انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ بلوچستان، فاٹا اور پاکستان کے مشرقی شہروں کا سفر نہ کریں… اس کا مطلب کیا ہے؟…کیا ہم میں سے کسی نے اس وارننگ کا مفہوم سمجھا ہے؟… حکومت کیا کررہی ہے؟… چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارے وزیراعظم، ٹرمپ کی ٹوئٹ آتے ہی بیجنگ جاتے اور اب تک بیجنگ کے چار پانچ دورے کرچکے ہوتے اور چینی وزیر دفاع اپنے عسکری مشیروں کے ہمراہ اسلام آباد تشریف لاتے اور ان کو بلوچستان اور فاٹا اور لاہور کا دورہ کروایا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تو کیا امریکی حملے کی صورت میں ہمیں چینی ردعمل کے کیف و کم کا اندازہ ہوچکا ہے؟… میرا خیال ہے نہیں ہوا۔
ایک اور پہلو بھی مدنظر رکھیے۔ کیا ہماری کوئی حکومتی یا فوجی شخصیت پیانگ یانگ بھی گئی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم نے امریکہ کی اس دھمکی پر وہ ردعمل ظاہر نہیں کیا جو امریکہ اور بھارت کے لیے بھی کسی جوابی انتباہ کا سبب بنتا؟ ہمیں جنرل ناصر خان جنجوعہ کو شمالی کوریا بھیجنا چاہیے تھا تاکہ پاکستان کی سلامتی کو جو خطرات امریکہ کی طرف سے لاحق ہیں ان پر صدر کم جونگ ان کا ردعمل لیا جاتا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر امریکہ نے پاکستان پر کسی بھی اسکیل کا حملہ کیا تو ایک لمحہ ایسا بھی آئے گا جب پاکستان کو اپنا جوہری ترکش کھولنا پڑے گا۔ ایسے میں کیا یہ جوہری جنگ برصغیر تک محدود رہے گی یا اس کا دائرہ بھارت کے علاوہ اسرائیل اور سعودی عرب تک بھی پھیل جائے گا؟ یہ سوال اہم ہیں۔ اور امید ہے کہ اس پر متعلقہ اربابِ اختیار سوچ بچار کررہے ہوں گے۔ اگر بھارت لاہور پر حملہ آور ہوتا ہے تو پاکستان یا اس کے سپورٹرز کس طرف جائیں گے؟… ہمیں یہ سوال اپنے سپورٹرز سے کرنا چاہیے۔
بتایا جارہا ہے کہ چین کے علاوہ ہم روس کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں۔ لیکن کیا پیوٹن اسلام آباد آرہے ہیں؟…کیا جنرل باجوہ، ماسکو جارہے ہیں؟… کیا روسی وزیر دفاع یا نائب وزیر دفاع پاکستان کے دورے کا کوئی پروگرام رکھتے ہیں؟… 1971ء کی پاک بھارت جنگ یاد کیجیے۔ اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے روس، امریکہ اور یورپی ممالک کا ایک طویل دورہ کیا تھا اور پاکستان کے ساتھ جنگ کی صورت میں ان ممالک کے ردعمل اور سپورٹ کو واپس آکر اپنی فوج کے ساتھ شیئر کیا تھا۔ لیکن آج تو اس بچے کھچے پاکستان کو ایک مہیب خطرے کا سامنا ہے۔ کیا ہمارے کسی وزیراعظم نے، اندرا گاندھی کی تقلید کی کوشش کی ہے؟ ذاتی مفادات اور قومی مفادات ایک نہیں ہوتے۔ یہ اگر ہوں بھی تو حب الوطنی کا تقاضا تھا کہ ان اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کی سلامتی کا سوچا جاتا۔
اور مجھے تو روس کی حمایت پر بھی کوئی زیادہ اعتبار نہیں۔ اس کے اسٹیک، پاکستان میں کیا ہیں؟ اور ہاں ایک اور بات کا خدشہ بھی نجانے کیوں محسوس کررہا ہوں کہ روس کہیں پاکستان سے 1980ء کے عشرے میں امریکہ کا ساتھ دینے کا بدلہ لینے کی کوشش نہ کربیٹھے… سپرپاورز کی حکمت عملیاں عجیب ہوتی ہیں۔
عراق، لیبیا اور یمن پارہ پارہ ہوگئے، شام کا 90فیصد تعمیراتی ڈھانچہ مسمار ہوگیا، اس کی آبادی کا 70فیصد حصہ ہلاک کردیا گیا یا دوسرے ممالک میں جاکر مہاجرت کی اَن گنت مشکلات کا سامنا کررہا ہے… کیا یہ سب کچھ برسوں سے روس نہیں دیکھ رہا تھا؟… اور یہ سوال بھی ذہن میں رکھیے کہ وہ شام کی جنگ کے آخری ایام میں طرطوس اور انطاکیہ میں کیوں آیا تھا؟ اس سے شام کو کیا فائدہ پہنچا؟ اگر روس، شام میں آیا بھی تو اُس وقت جب مشرقِ وسطیٰ کے تمدن کا شیرازہ بکھر چکا:

آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

پاکستان کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے۔
ہمارے میڈیا کو باقی سارے بے معنی موضوعات ترک کرکے امریکی حملے اور پاکستانی ردعمل پر بحثیں کرنی چاہئیں۔ خدا نہ کرے اگر کوئی حادثہ ہوگیا تو پھر سارا میڈیا بیک آواز ہوکر شور مچانے لگے گا… اور پھر ایک زینب نہیں، ہزاروں لاکھوں زینبیں ہمارے لیے آزمائش بن جائیں گی… ہمیں اس لمحے کی فکر کرنی چاہیے۔
(کرنل (ر) غلام جیلانی خان سابق فوجی، عسکری تجزیہ نگار اور امور جنگ پر کئی کتابوں کے مترجم اور مولف ہیں۔ آج کل معاصر قومی اخبار روزنامہ “پاکستان” میں کالم تحریر کرتے ہیں)