سر آبِ رواں کس کو بقا ہے
اٹھایا جس نے سر، اک بلبلہ ہے
بساطِ جہاں کی ہے اتنی کہانی
کہ اللہ ہے باقی، باقی ہے فانی
صفدر علی چودھری، جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، یہ تو یاد نہیں کہ ان سے پہلی ملاقات کب، کہاں اور کیسے ہوئی، مگر یہ حقیقت ہے کہ پہلی ہی ملاقات کے بعد کچھ ایسی اپنائیت ہوگئی کہ زندگی کا طویل عرصہ ان کی رفاقت میں یوں گزرا کہ کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی، نہ اس کی فرصت ملی اور نہ ہی اس پر غور کی کبھی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ میری زندگی میں کیسے آئے، بس یہی احساس رہا کہ وہ ہمیشہ سے میرے شناسا، ہمدرد، دوست، مخلص مشیر، دُکھ سُکھ کے ساتھی، محسن اور مربی… مختصر یہ کہ میرے اپنے تھے۔
وہ ہجر کی رات کا ستارہ، وہ ہم نفس، ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ
صفدر علی چودھری نے 1941ء میں بھارتی پنجاب کے شہر جالندھر میں چودھری دین محمد کے آنگن میں آنکھ کھولی۔ ابھی بچے ہی تھے کہ مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آئی، چنانچہ بچپن ہی میں والدین اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی سعادت حاصل کی اور اوکاڑہ میں آباد ہوئے۔
یہیںسے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ یہی وہ دن تھے جب وہ مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فکر سے متاثر ہوئے اور اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ بنے۔ اوائل عمر کی یہ راست فکر ان کے جسم و روح میں ایسی رچ بس گئی کہ آخری سانس تک امیدِ بہار کے ساتھ اس شجر سے پیوستہ رہے اور کبھی مایوسی اور نا امیدی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ ساہیوال سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے سیاسیات کے لیے جامعہ پنجاب میں داخلہ لیا۔ یہاں ان کے اندر موجود قائدانہ صلاحیتیں خوب نکھر کر اور ابھر کر سامنے آئیں، چنانچہ پہلے اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے ناظم بنائے گئے، پھر جب متحدہ پاکستان میں سید منور حسن جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تو صفدر علی چودھری صوبہ مغربی پاکستان (موجودہ پورے پاکستان) کے ناظم بنائے گئے۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں نہایت محنت اور تن دہی سے ادا کیں، مگر جمعیت کی مصروفیات کو تعلیم میں آڑے نہیں آنے دیا، چنانچہ 1967ء میں سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری امتیازی حیثیت سے حاصل کی۔ ان کی اعلیٰ تعلیمی صلاحیت کے اعتراف میں انہیں جامعہ پنجاب میں بطور لیکچرار تدریس کی پیشکش کی گئی، مگر وہ تو خود کو اپنے مقصدِ حیات کے لیے وقف کرنے کا عہد کرچکے تھے، چنانچہ بانی امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ہدایت کے مطابق اپنی خدمات جماعت اسلامی کے مرکز کو پیش کردیں، جہاں انہیں ممتاز شاعر و ادیب مولانا نعیم صدیقی ناظمِ نشرواشاعت جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ نائب ناظم مقرر کیا گیا، اور جلد ہی اس ذمہ داری سے مولانا نعیم صدیقی کی سبک دوشی کے بعد صفدر چودھری صاحب ناظمِ نشر و اشاعت بنا دیئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی وہ جماعت کے باقاعدہ رکن بھی بن گئے۔ قبل ازیں وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن تھے۔ ناظم نشرواشاعت کی حیثیت میں انہوں نے ذرائع ابلاغ میں جماعت کی دعوت اور سرگرمیوں کی بھرپور ترویج و اشاعت کے لیے تن، من، دھن کھپا دیا۔ وہ حرکت میں برکت کے قائل تھے، اپنے شخصی تحرّک، اخلاص اور باغ و بہار شخصیت کی بدولت جلد ہی ذرائع ابلاغ سے وابستہ اپنوں اور پرایوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ وہ جہاں بھی جاتے اپنی شخصیت کا جادو جگاتے، چنانچہ بہت سے صحافی اور دانشور ایسے تھے جو جماعت اسلامی کی تو کھل کر مخالفت کرتے مگر صفدر چودھری کی محبت کا اعتراف بھی کرتے، اور یوں بالواسطہ جماعت کے کام آتے۔ ان کا ہی کمال تھا کہ انہوں نے اپنے دور کے بے شمار اہلِ صحافت کو کچھ ایسی کیفیت سے دوچار کردیا کہ ؎
اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بعد وہ میاں طفیل محمد مرحوم اور قاضی حسین احمد مرحوم کے دورِ امارت میں بھی جماعت کے مرکزی شعبہ نشرواشاعت کے ناظم رہے۔ اپنے دور میں انہوں نے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر شعبے کو وسعت بھی دی اور اسے جدت آشنا بھی کیا۔ پھر قاضی حسین احمد صاحب نے انہیں شعبہ تعلقاتِ عامہ کی ذمہ داریاں سونپیں تو یہاں بھی انہوں نے شب و روز محنت کر کے اس نئے شعبے کو متحرک و فعال رکھا۔ ’’وہ فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں بھی جنوں میرا‘‘ کی چلتی پھرتی تصویر تھے، اور کام کرنے کے لیے بالائی نظم کی ہدایات کا انتظار نہیں کرتے تھے بلکہ خود نت نئے منصوبے روبہ عمل لاتے رہتے تھے، چنانچہ ناظم نشرواشاعت اور ناظم تعلقاتِ عامہ دونوں ہی جہتوں میں انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کی اور حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر حسبِ ضرورت مختلف سرگرمیاں منظم کرتے رہے۔ انہوں نے جہادِ افغانستان اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے سلسلے میں مختلف سیمیناروں اور فکری نشستوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں، دانشوروں اور اہلِ فکر و نظر کو جہاد اور تحریک کے عملی پہلوئوں سے روشناس کرانے کے لیے افغانستان اور کشمیر کے دورے کرائے، جن سے واپسی پر ان اہلِ قلم نے دوروں میں آنکھوں دیکھے حالات کی روداد سپردِ قلم کرکے اہلِ وطن کو جہاد کے مقاصد، سرگرمیوں اور کامیابیوں سے آگاہ کیا۔ ان دوروں کے دوران صفدر چودھری صاحب اپنے ہم سفروں کی اتنی خدمت کرتے کہ کوئی بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ 2005ء میں آزاد کشمیر اور صوبہ خیبر کے بعض علاقوں میں ہولناک زلزلہ آیا تو انہوں نے کئی وفود زلزلہ زدہ علاقوں میں بھیجے جن میں مردوں کے علاوہ خواتین بھی شامل تھیں۔
ہم خیال صحافیوں کو منظم کرنے کے لیے انہوں نے دو سطحوں پر کام کیا، ایک جانب اگر ’’حلقۂ صحافت‘‘ منظم کیا تو دوسری جانب قدرے وسیع تر مقاصد کی خاطر ’’لاہور میڈیا فورم‘‘ کو بھی وجود میں لائے۔ اسی طرح افغانستان اور کشمیر کے شہدا کے والدین سے رابطہ استوار رکھنے کے لیے ’’مجلس والدین شہدا‘‘ بھی قائم کی، ان سب تنظیموں کے ذمہ داران تو متعلقہ شعبوں سے وابستہ لوگ ہی ہوتے تھے مگر پسِ پردہ مدارالمہام صفدر علی چودھری صاحب کی ذات ہوتی تھی۔ وہ صلے اور ستائش کی پروا کیے بغیر خاموشی سے خدمت پر یقین رکھتے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے وسائل کی کمی کو کبھی جواز نہیں بنایا۔ راقم الحروف ذاتی طور پر آگاہ ہے کہ وہ قرض پکڑ کر بھی احبابِ صحافت اور دوستوںکی ضروریات بلکہ خواہشات کی تکمیل کا اہتمام کرتے۔ انہیں کسی دوست کی تکلیف یا پریشانی کے بارے میں علم ہوتا تو مدد کی درخواست کا انتظار نہیں کرتے تھے بلکہ خود آگے بڑھ کر دوسروں کے کام آنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ روزنامہ جسارت اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے مرحوم مدیر عبدالکریم عابد گلے کے کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہوئے تو صفدر صاحب نے برطانیہ میں ڈاکٹروں سے رابطہ کرکے عابد صاحب کی طبی رپورٹیں انہیں بھجوائیں اور خود عابد صاحب کو علاج کی غرض سے برطانیہ بھجوانے کے لیے انتظامات ذاتی دلچسپی اور دوڑ دھوپ سے مکمل کیے، اور اس مہنگے علاج کے لیے وسائل کا انتظام بھی کیا، یہ الگ بات ہے کہ عبدالکریم عابد صاحب نے علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے سے انکار کردیا اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے اسی موذی مرض کے ساتھ ربع صدی سے زائد بھرپور صحافتی زندگی گزاری۔
جماعت اسلامی کے ترجمان ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ کے مدیر چودھری غلام جیلانی کے انتقال کے بعد صفدر علی چودھری صاحب کو یہ ذمہ داریاں تفویض کی گئیں تو انہوں نے عملی صحافت میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ اس دور میں انہوں نے ’’ایشیا‘‘ کی مجلسِ ادارت میں راقم الحروف کو بھی شامل کیا تو یہ تجربہ ہوا کہ یہ مجلس محض خانہ پری کی خاطر نہیں تھی بلکہ صفدر صاحب گوالمنڈی لاہور کی فوٹو مارکیٹ میں واقع ’’ایشیا‘‘ کے مختصر سے دفتر میں اس مجلسِ ادارت کے باقاعدہ اجلاس منعقد کرتے اور رسالے کے معیار اور اشاعت کی بہتری کے لیے مشاورت کرتے۔ ان اجلاسوں میں کام و دہن کی لذت کا اہتمام بھی ہوتا جس میں سادگی کے ساتھ ساتھ صفدر صاحب کی دریا دلی کا مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملتا۔ ان کی یادیں ذہن میں امڈی چلی آتی ہیں، سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا لکھا جائے اور کیا چھوڑ دیا جائے۔ ان کی وفات سے یوں محسوس ہورہا ہے کہ خاموش ہوگیا ہے چمن اک بولتا ہوا ؎
یادیں اس کی یاد رہیں گی
ہر دل میں آباد رہیں گی
جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں دارالضیافہ اور دارالاخوۃ کے جماعت اسلامی کے مہمان خانوں کے علاوہ صفدر چودھری صاحب کا گھر تیسرا مہمان خانہ تھا، جہاں ان کے چاہنے والے کشاں کشاں چلے آتے تھے اور بھرپور محبت اور اپنائیت کے ساتھ ہر وقت تناول ماحضر کا اہتمام پاتے تھے جس کا سبب یہ تھا کہ صفدر صاحب نے تحریکِ اسلامی کو اپنا ہی اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا بلکہ اپنے تمام اہلِ خانہ کو بھی اسی رنگ میں رنگ دیا جو اسلامی جمعیت طلبہ اور طالبات کے بعد آج جماعت کے فعال ارکان ہیں۔ صفدر صاحب چونکہ صرف لاہور میں نہیں پورے ملک میں ایک ہر دل عزیز شخصیت کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے، اس لیے لاہور کے علاوہ ملک بھر سے آنے والے مہمانوں کے لیے ان کا گھر قیام و طعام کے لیے ہمہ وقت کھلا رہتا تھا۔ اس ضمن میں ان کے بچوں کے علاوہ ان کی اہلیہ کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے جو ماتھے پر شکن لائے بغیر صفدر صاحب کے ہر طرح کے مہمانوں کی خاطر مدارات کا اہتمام خوش دلی سے کرتی رہیں۔
جہادِ آزادیٔ کشمیر میں صفدر صاحب کا بیٹا مظفر نعیم شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا تو صفدر چودھری اور اُن کے اہلِ خانہ نے اس صدمے کو نہایت صبر و تحمل سے برداشت کیا، خصوصاً مظفر نعیم کی والدہ کو اللہ تعالیٰ نے کمال درجے کا صبرِ جمیل عطا فرمایا اور انہوں نے مظفر کی شہادت کو اپنے لیے ایک سعادت سمجھ کر قبول کیا۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را…!!!
صفدر علی چودھری ایک باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ ان جیسا ہمہ وقت متحرک، مصروف اور بھاگ دوڑ کرنے والا شخص شوگر جیسے جان لیوامرض میں کیسے مبتلا ہو گیا…! تاہم حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے حتی المقدور کبھی بیماری کو خود پر طاری نہیں ہونے دیا اور اپنی جماعتی ذمہ داریاں بیماری کے باوجود تندہی سے ادا کرتے رہے، حتیٰ کہ صحت اتنی خراب ہوگئی کہ انہیں فرائض سے سبکدوش ہونا پڑا۔ گزشتہ چند برس سے شدید علالت کے باعث محافظ ٹائون میں اپنے گھر بلکہ بستر تک محدود ہوگئے تھے کہ ذیابیطس کے مرض کے باعث ان کو ایک ٹانگ سے محروم ہونا پڑا تھا۔ تاہم اس آزمائش کو انہوں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا تھا۔ ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے کبھی کبھار ٹیلی فون کرتا تو اپنی عادت کے برعکس مختصر الفاظ میں اپنی صحت کے بارے میں بتاتے اور اللہ تعالیٰ کے شکر کے کلمات ادا کرتے۔ وفات سے مہینہ بیس دن قبل ان کی عیادت کے لیے گھر جانا ہوا تو مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے، مگر سچ یہی ہے کہ ان کے لہجے میں وہ بشاشت معدوم تھی جو ان کی شخصیت کا خاصا تھا۔13 جنوری کو اچانک اطلاع ملی کہ وہ منصورہ ہسپتال میں علاج کے دوران اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر جہانِ ابدی کی طرف کوچ کر گئے ہیں ؎
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
اسی شب رات نو بجے ان کی نمازِ جنازہ محافظ ٹائون کے اے بلاک کے گرائونڈ میں ادا کی گئی۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ شہر سے باہر اس دور دراز علاقہ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے امڈے چلے آئے تھے۔ ہر آنکھ اشک بار اور ان کی محبت کی مقروض دکھائی دے رہی تھی۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ محمد ادریس، مرحوم کے فرزند مبشر نعیم چودھری نے مختصر الفاظ میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور شیخ الحدیث والقرآن مولانا عبدالمالک نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، جس کے بعد وہ مقامی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔ حق مغفرت کرے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں…