دہشت گردی کی جنگ۔۔۔ کامیابی ناکامی کا تجزیہ

کیا پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے میں درست حکمت عملی کی جانب گامزن ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو پاکستان اور دنیا بھر میں ہمارے بارے میں تسلسل سے کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا کر دبائو میں لانے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان اس جنگ میں دوغلی پالیسی پر گامزن ہے۔ جبکہ عملی طور پر پاکستان دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ جنگ پاکستان کی داخلی خودمختاری اور سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے،کیونکہ اس جنگ کے نتیجے میں بطور ریاست پاکستان نے سب سے زیادہ سیاسی، سماجی، انتظامی، مالی اور انسانی نقصان اٹھایا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے پھیلائو میں ہماری اپنی داخلی سیاست، تضادات، فیصلوں اور پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہے، کیونکہ دہشت گردی کے جو بیج یہاں پر ریاستی، حکومتی اور سیاسی حمایت کے ساتھ بوئے گئے تھے، وہی ہماری ریاست کے بحران اور اسے کمزور کرنے کا ایک بڑا سبب بھی بنے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہماری ریاست کو ماضی کی غلطیوں کا ادراک بھی ہے اور اس کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔
یہ بحث پاکستان میں موجود ہے کہ کیا ہماری ریاست، حکومت اور اس سے متعلقہ اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کوئی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں؟ یہ بحث اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہاں کچھ لوگ یہ مایوسی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں اور آج بھی یہ جنگ تضادات کی بنیاد پر لڑی جارہی ہے۔ اس میں داخلی اور خارجی دونوں عوامل، لوگ، ادارے اور گروہ موجود ہیں جو ہماری ریاست کو سوالیہ نشان بناکر پیش کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی کامیابیوں کو دو تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اول: انتظامی، سیکورٹی اور فوجی آپریشن کے تناظر میں، اور دوئم: فکری محاذ پر جاری کام کو آگے کس انداز میں بڑھایا گیا ہے۔
پچھلے دنوں نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) نے اپنی پہلی تین سال پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملات میں اپنا مقدمہ پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے بقول پاکستان میں 2017ء میں ماضی کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں 58 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 2017ء میں دہشت گردی کے 681 واقعات ہوئے جو ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ فوج اور سول سیکورٹی اداروں نے دو لاکھ کے قریب کومبنگ آپریشن کیے، جس نے خاطر خواہ نتائج دیے۔
اسی طرح نیکٹا کے مقابلے میں ایک این جی او نے بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بارے میں رپورٹ جاری کی ہے۔ اس این جی او کے سربراہ دانشور، لکھاری اور تحقیق عامر رانا ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس گزرے برس میں ماضی کے مقابلے میں16فیصد واقعات میں کمی ہوئی ہے، اور 370 واقعات اور ان میں 815 افراد ہلاک اور1736 زخمی ہوئے۔ یہ تعداد ظاہر کرتی ہے کہ ہماری ریاست نے اس مرض کا بہتر علاج تلاش کیا ہے۔ بلوچستان اور فاٹا خاص طور پر کرم ایجنسی سال 2017ء میں بالترتیب 288 اور 253 ہلاکتوں کے سبب حساس ترین علاقے شمار ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار اور ان جیسے مقاصد رکھنے والے گروہوں نے58 فیصد واقعات کی ذمہ داری قبول کی، جبکہ 37 فیصد حملے قوم پرستوں اور 5 فیصد حملے فرقہ وارانہ عمل کی وجہ سے ہوئے۔ مگر اس کے باوجود کہ 2017ء میں واقعات کم ہوئے، انتہاپسند تنظیمیں اب بھی ایک مہلک خطرہ ہیں، اور خطرے کی بڑی علامت داعش جیسی تنظیموں کا ابھرنا ہے۔ اسی رپورٹ میں معروف صحافی شہزادہ عرفان احمد کی پنجاب کی صورت حال پر تفصیلی رپورٹ بھی موجود ہے جس میں انہوں نے پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران اور سی ٹی ڈی کے ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات کو اپنے تجزیے کی بنیاد بنایا ہے۔ انہوں نے پنجاب میں اٹھائے گئے بعض اہم اقدامات میں بہتری اور کچھ مسائل کا تفصیلی ذکر کیا ہے جو قابلِ توجہ ہے، اور اس پر عملدرآمد کے نظام کو مؤثر بنانا ہوگا۔
اس رپورٹ کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے ایک ابہام موجود ہے، کیونکہ یہ نظر آتا ہے کہ اس پلان پر موجود ابہام نے ہمیں زیادہ بہتر نتائج نہیں دیے جو ہم لے سکتے تھے۔ ان کے بقول حکومتی سطح پر یہ ابہام تھا کہ اس پلان پر عملدرآمد کس حکومتی شعبے کی ذمہ داری ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر نئے حالات میں نیشنل ایکشن پلان پر زیادہ غور کرنے اور نئی تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنا کہ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے میں ہم نے کچھ نہیں کیا، مکمل طور درست نہیں۔ یقینی طور پر ہمیں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، جو ہوا ہے اس کا تجزیہ کرکے اپنی اب تک کی ناکامیوں اور خامیوں کا بھی تجزیہ کیا جانا چاہیے۔
اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم داخلی سیاست کے مسائل اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محاذآرائی کے درمیان کچھ اس انداز سے گھر چکے ہیں کہ ہماری ریاستی اور حکومتی ترجیحات میں فرق پڑا ہے۔ ریاست، حکومت اور اداروں کو جو توجہ اس اہم اور حساس معاملے پر دینی چاہیے اس میں کوتاہی کے کئی پہلو نظر آتے ہیں۔ ایک مسئلہ سول اور ملٹری تعلقات میں بداعتمادی بھی ہے۔ اس میں جو تضادات ابھرتے ہیں وہ حکومت اور فوج کے درمیان نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں، اور اس تناظر میں سب کو سرجوڑ کر ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جو قابلِ قبول بھی ہو اور ریاستی مفاد میں ہو۔
اسی طرح زیادہ مؤثر حکمت عملی کے لیے ہمیں فکری محاذ پر اہلِ دانش، میڈیا، استاد، شاعر، ادیب، علمائے کرام، صوفیہ اور دیگر رائے عامہ بنانے والے افراد اور اداروں پر خصوصی توجہ دینی ہوگی اور ان کو اس فکری جنگ میں سپاہی کے طور پر شامل کرکے متبادل بیانیہ یا نئے بیانیہ کی طرف لانا ہوگا۔ سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل سمیت محرومی کی سیاست، طرزِ حکمرانی کے بحران اور عوام کی زندگیوں کو مشکل بنانے کے عمل کو ختم کرکے ہم دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو یقینی طور پر جیت سکتے ہیں۔