بھارتی فوج نے مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گولہ باری کی ہے، جس سے افواجِ پاکستان کے چار جوان شہید ہوگئے۔ بھارتی فوج نے مواصلاتی نظام کی مرمت میں مصروف پاکستانی جوانوں کو نشانہ بنایا۔ بھارتی اشتعال انگیزی کے جواب میں پاکستانی فوج نے کارروائی کرتے ہوئے بھارتی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔ حکومتِ پاکستان نے اسلام آباد کے دفتر خارجہ میں بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرکے احتجاج کیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت کو خبردار کیا کہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں اسٹرے ٹیجک غلطی کا باعث بن سکتی ہیں۔ ڈاکٹر فیصل نے مزید کہا کہ بھارت جس زبان میں بات کرے گا اُسی زبان میں جواب دیا جائے گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی بھارتی فوج کی لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال گولہ باری کی مذمت کی۔
لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلااشتعال گولہ باری اور فوجیوں اور شہریوں کی شہادت کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، البتہ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد لائن آف کنٹرول پر فائرنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ لائن آف کنٹرول کا محاذ مسلسل گرم ہے۔ ہر چند روز کے بعد کسی نہ کسی سیکٹر میں بھارتی فوج کی جانب سے گولہ باری کا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں مسلسل صبر و برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ جوابی کارروائی بھی ضروری ہوجاتی ہے، جیسا کہ اِس مرتبہ سفارتی اور عسکری دونوں زبانوں میں جواب دیا گیا۔ اسی عرصے میں بھارتی حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اُس کے فوجیوں نے آزاد کشمیر کی حدود میں ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ بھی کی ہے۔ جس کی پاکستان کی جانب سے تردید کی گئی، لیکن یہ دعویٰ پاکستان کے خلاف بھارت کے عزائم کو پوری طرح عیاں کررہا ہے۔ نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت کے جارحانہ رویّے میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں انتہا پسند اور دہشت گرد جماعت بی جے پی کو اقتدار میں لانے کی پشت پر عالمی طاقتیں ہیں۔ اس کی شہادت یہ ہے کہ گجرات کے فسادات میں براہِ راست ملوث ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد کی وجہ سے نریندر مودی کو خود امریکی ذرائع ابلاغ نے ’’گجرات کا قاتل‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ امریکی حکومت کی جانب سے نریندر مودی کو دہشت گرد قرار دینے کی وجہ سے امریکہ میں اس کے داخلے پر پابندی تھی۔ ان حقائق کے باوجود نریندر مودی کے انتخابات میں منتخب ہونے کے راستے میں موجود رکاوٹوں کو ہٹانے میں عالمی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ امریکہ نے نریندر مودی کے چہرے سے ’’دہشت گردی‘‘ کا داغ دھویا۔ بھارت میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی انتہا پسندی کے خلاف جو آوازیں تھیں اُن کو غیر مؤثر کرنے کے لیے ’’کارپوریٹ میڈیا‘‘ نے اہم کردار ادا کیا۔ بھارت کا کارپوریٹ میڈیا اور سرمایہ داروں کا طبقہ عالمی سرمایہ داری کا شراکت کار ہے، اور یہی طبقہ نریندر مودی اور بی جے پی کا سرپرست ہے۔ اسی تناظر میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان گہرے تعلقات کو نریندر مودی اور نیتن یاہو نے ذاتی دوستی میں تبدیل کردیا ہے۔ امریکہ اور عالمی طاقتوں نے بھارت کو ایشیا و افریقہ کے مسلمان ممالک کے درمیان اسی لیے خصوصی کردار دیا ہے۔ عالمی طاقتوں نے آر ایس ایس جیسی متعصب اور دہشت گردی کا پس منظر رکھنے والی جماعتوں کو مسلم دشمنی کے پس منظر کی وجہ سے آگے بڑھایا ہے۔ یہی طبقہ جنوبی ایشیا میں ہندو مسلم کشیدگی کم کرنے کے راستے میں اصل رکاوٹ ہے۔ بھارت کے مہاتما گاندھی بھی کوئی مسلمان دوست شخصیت نہیں تھے۔ مسلمانوں کے بارے میں اُن کی نمائشی ہمدردی بھی برداشت نہیں ہوئی اور آر ایس ایس کے ایک سیوک ناتھورام گوڈسے نے گاندھی کو قتل کردیا۔ گاندھی کا قاتل ناتھو رام گوڈسے بھارت کے موجودہ حکمران طبقے کا ’’ہیرو‘‘ ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں عالمی قوتوں کا مؤقف کتنا ’’منافقانہ‘‘ ہے۔ پاکستان بھارت کشیدگی کا خاتمہ اور دونوں ملکوں میں دوستی پاکستان کی اصل خواہش ہے، لیکن بھارت کے حکمران یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے مسلمان شودر کی حیثیت قبول کرلیں۔ اس خواہش کے لیے بھارت کو امریکہ اور عالمی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ علامہ اقبال امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک کی قوت و طاقت کا مرکز ’’یہود‘‘ کو یہ کہہ کر قرار دے چکے ہیں کہ ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ سمیت ہر مغربی ملک کا اصل حکمران اسرائیل ہے۔ یہی اسرائیل کی طاقت کا اصل راز ہے۔ اس لیے جس قوت کو بھی عالمی طاقت بننے کا شوق ہے، اُسے ’’اسرائیل‘‘ کی حکومت کی حمایت حاصل کرنی ضروری ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان موجودہ تعلقات کا یہی راز ہے۔ اسی پس منظر میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھارت کا ’’تاریخی‘‘ دورہ کررہے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات صرف 25 برسوں پر محیط ہیں، لیکن یہ ایسے تعلقات ہیں کہ جو قوموں اور ملکوں کے تعلقات سے بلند نظر آتے ہیں۔ اسی پس منظر میں بھارت کے فوجی سربراہ کی اشتعال انگیز تقریروں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں، حالانکہ وہ اس بات سے واقف ہیں کہ دونوں ممالک جوہری طاقت ہیں اور پاکستان کی جوہری طاقت ہی براہِ راست جنگ کے سلسلے میں سب سے بڑی روک ہے۔ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے خلاف امریکی اور بھارتی مشترکہ عزائم کا بھی یہی سبب ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں اس عرصے میں عراق، افغانستان، لیبیا اور شام کو کھنڈر بناچکی ہیں۔ امریکی صدر کا ٹوئٹ اور ان کی کابینہ کے دھمکی آمیز بیانات قومی سلامتی کے لیے خطرات کو ظاہر کررہے ہیں۔ کیا اس پس منظر میں حکمرانوں اور سیاسی قیادت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے…؟