محمد راشد شیخ
تاریخ کے ہر دور میں ایسی شخصیات موجود رہی ہیں جنہوں نے اپنے مقامی ماحول و اثرات سے آگے بڑھ کر اپنے شعبے میں کارکردگی دکھائی ہے۔ فنِ خطاطی میں بھی ایک ایسی ہی شخصیت نے ہمارے عہد میں اپنی انفرادی کوشش، انتھک محنت اور لگن سے بے پناہ شہرت حاصل کی ہے، جن پر اہلِ پاکستان کو بجا طور پر ناز ہے۔ ہماری مراد استاد شفیق الزماں خان سے ہے، جن کا عالمی سطح پر دنیائے خطاطی میں اعلیٰ مقام اور معتبر نام ہے اور جنہوں نے شدید ریاض اور محنت کے بعد اس فن میں وہ مقام حاصل کرلیا ہے، جو تمام عمر کی محنت کے بعد بھی مشکل ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ خوش نصیبی کی انتہا دیکھیں کہ استاد شفیق الزماں کو یہ منفرداور بلند مقام یوں ملا کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خطاطی کے لیے منعقدہ مقابلۂ خطاطی جیتنے کے بعد پہلے پاکستانی کی حیثیت سے آپ 1991ء سے اب تک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خطاطی کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔
استاد شفیق الزماں 1956ء میں چکلالہ (راولپنڈی) میں پیدا ہوئے، جہاں آپ کے والد پاکستان ایئرفورس میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ بچپن ہی سے آپ کو مختلف فنون خصوصاً خطاطی، نقاشی اور مصوری سے بے پناہ دلچسپی تھی۔ دو سال بعد آپ کے والد کا تبادلہ چکلالہ سے کراچی ہوگیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی۔ بعد ازاں ذاتی محنت سے خطاطی، نقاشی، مصوری و دیگر فنون میں مسلسل ترقی کی منازل طے کیں۔ 1979ء میں آپ مدینۂ منورہ پہنچ گئے۔ مدینۂ منورہ میں آپ نے عالمِ اسلام کے عظیم خطاطوں کے کام کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ بالآخر آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ ترکی سے تعلق رکھنے والے بیسویں صدی کے سب سے بڑے خطاط استاد حامد الآمدی (متوفی 1982ء) کا کام سب سے معیاری ہے۔ آپ نے استاد حامد کے فن کو اپنا معیار (IDEAL) اور نصب العین بنالیا اور اُن کی روش کے مطابق کام کرنے لگے۔ اس دوران مسلسل محنت، مشاہدے و مطالعے کی بنا پر آپ نے فن خطاطی میں بہت کم عرصے میں حیرت انگیز طور پر ترقی کی۔ یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ استاد شفیق الزماں نے کبھی کسی استاد کے آگے زانوئے تلمذ تہ نہ کیا، بلکہ استاد حامد کے انداز کو اپناتے ہوئے ذاتی محنت سے یہ بلند مقام حاصل کیا۔ اس دوران استاد حامد کے شاگرد اور دیگر خطاط جب کبھی ترکی سے مدینہء منورہ آتے تو آپ سے اُن کی ملاقات ہوتی۔ ان ملاقاتوں کے ذریعے بھی آپ نے استاد حامد الآمدی کے فن کے بہت سے اہم نکات معلوم کیے اور ان سے اپنے فن میں ترقی کی۔ استاد شفیق الزماں نے ایک ملاقات کے دوران راقم کو بتایا تھاکہ اس فن کی خاطر انھوں نے رات رات بھر محنت کی ہے۔ ساری رات خطاطی کی مشق کرتے اور پھر سارا دن بورڈ نویسی کا کام کرتے۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ خونِ جگر سے معجزۂ فن کی نمود کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں قیام کے دوران استاد شفیق الزماں کو کئی اعزازات حاصل ہوئے۔ 1986ء میں مدینۂ منورہ میں اسلامی خطاطی کی قومی نمائش میں انھیں اوّل انعام ملا، جب کہ پاکستان میں 1987ء کی ادارۂ ثقافت پاکستان کی قومی نمائش منعقدہ لاہور میں آپ کے فن پارے کو دوسرا انعام دیا گیا۔جاننے والے جانتے ہیں کہ جس شخص کو پہلا انعام دیا گیا اس کے فن کا استاد شفیق کے آگے کیا مقام ہے اور اسے کن وجوہات سے پہلا انعام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد استنبول میں واقع اسلامی ورثہ کے تحفظ کے کمیشن (ICIPICH)کی جانب سے منعقدہ تیسرے عالمی مقابلۂ خطاطی 1992ء میں خطِ ثلث جلی میں آپ نے ساری د نیا کے خطاطوں میں دوسرا انعام پایا۔
استاد شفیق الزماں اور اہلِ پاکستان کے لیے سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ 1991ء سے اب تک وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے فن کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ وہ حضرات جنہیں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مسجد تعمیراتی لحاظ سے تین حصوں میں منقسم ہے۔ ایک ترکی عہد کی سرخ رنگ کی تعمیر، دوسری شاہ سعود کی تعمیر اور تیسری شاہ فہد کی جدید اور عظیم الشان تعمیر۔ مسجد نبویؐ کے تمام مقدس مقامات بشمول روضۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، ریاض الجنۃ، اصحابِ صفہ کا چبوترہ، منبرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مقاماتِ مقدسہ ترکی تعمیر کے اندر موجود ہیں۔ مسجد کے اس حصے کی تعمیر سلطان عبدالمجید خان کے عہد میں (1848۔1860ء مطابق 1265۔1277ھ) جاری رہی۔ ترکوں نے اس مسجد کی تعمیر میں کس قدر خلوص و احترام کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ دورانِ تعمیر یہ انتظام کیا گیا کہ ہر معمار حافظِ قرآن ہو۔ اس مقدس مسجد کی بنیاد اس طرح رکھی گئی کہ ہر پتھر رکھنے سے قبل ہر معمار غسل ادا کرتا، دو نوافل پڑھتا اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا، پھر وہ پتھر اپنے مقام پر رکھتا۔ ہر پتھر رکھنے میں یہ التزام جاری رہا۔ اس دور میں گو کہ تعمیراتی صنعت آج کی طرح ترقی یافتہ نہ تھی، مگر ترکوں نے مسجد کی عمارت کی مضبوطی اور استحکام کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ مسجد کے تمام ستونوں پر مرکب دھات پگھلا کر ڈالی گئی تاکہ حرم مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروبام پر گردشِ زمانہ اثرانداز نہ ہو۔ مسجد کے حسن و جمال کے لیے بھی ترکوں نے انتہائی کوشش کی۔ اُس دور کے عظیم ترک خطاط استاد عبداللہ زہدی آفندی کو سلطان عبدالمجید خان نے اپنے محل میں مدعو کیا اور مسجد نبویؐ میں خطاطی کرنے کے لیے ہدایات دی تھیں۔ سلطان خود بھی خطاط اور اس فن کے تمام رموز سے آگاہ تھے۔ سلطان نے مسجد میں خطاطی کے لیے زہدی آفندی کو 7500 قرش (ترکی سکہ) ماہانہ پر مامور کیا۔ مسجد کے اس حصے میں 260گنبد ہیں اور اکثر گنبدوں کا محیط تقریباً15 میٹر ہے، ہر گنبد کے اندر خطِ ثلث میں خطاطی کی گئی تھی۔ عبداللہ زہدی نے برس ہا برس تک مدینۂ منورہ میں رہ کر تمام گنبدوں کے علاوہ مختلف دیواروں اور دروازوں پر اس قدر خوبصورت کام کیا جو کہ آج بھی نیا معلوم ہوتا ہے۔جب یہ کام برسوں کی محنت کے بعد پایۂ تکمیل کو پہنچا تو اسے دیکھنے والے اس قدر مسحور ہوئے کہ انھوں نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ اس قدر خوبصورت کام کوئی انسان بھی کرسکتا ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ کام فرشتوں نے کیا ہے۔ البتہ تقریباً ڈیڑھ صدی گزر جانے کی وجہ سے، بعض گنبدوں پر خطاطی مدہم پڑ گئی تھی، نیز مختلف وقتوں میں متاثرہ شدہ آیات پر مختلف خطاطوں نے اپنے قلم سے درستی کی کوششیں کیں، جن سے اصل کا حسن برقرار نہ رہ سکا۔1991ء میں سعودی تعمیراتی کمپنی دلہ (DALLAH) کی جانب سے ایک ایسے خطاط کے انتخاب کے لیے مقابلے کا انعقاد کیا گیا جو نہ صرف متاثرہ شدہ حصوں کو درست کرسکے اور عبداللہ زہدی کے قلم سے قلم ملاسکے، بلکہ کئی گنبدوں میں بالکل نئی خطاطی کرے۔ اس مقابلے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے سربراہ استاد حامدالآمدی مرحوم کے مدینۂ منورہ میں مقیم شاگرد خطاط احمد ضیاالدین ابراہیم تھے۔ اس مقابلے میں بالاتفاق استاد شفیق الزماں کا انتخاب عمل میں آیا اور یہ طے ہوگیا کہ آپ سے بہتر اس کام کو کوئی انجام نہیں دے سکتا۔ یہ کام 1991ء سے اب تک مسلسل جاری ہے اور کئی ہزار فٹ خطاطی کی جاچکی ہے۔ اس دوران استاد شفیق الزماں نے 1991ء سے 1994ء تک خطاطی کے پرانے کام کی تجدید و ترمیم کی، جبکہ 1994ء سے اب تک آپ بالکل نئے سرے سے گنبدوں میں خطاطی کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام دروازوں کے نام اور مختلف بورڈ بھی آپ ہی کی خطاطی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ استاد شفیق الزماں نے اپنی مہارت اور اجتہادی ذوق سے کام لے کر پرانے کام سے بہتر معیار پیش کیا ہے۔ پرانی خطاطی میں آپ کو یہ فنی کمزوری نظر آئی کہ گنبدوں میں آیاتِ قرآنی کو جہاں چاہا جگہ کے حساب سے روک دیا گیا تھا، مگر اب آپ یہ اہتمام کررہے ہیں کہ گنبد خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے آیت کے اختتام پر ہی مکمل کیا جارہا ہے۔ اختیار کردہ قرآنی آیات چھوٹی بڑی ہیں، اسی طرح گنبد بھی چھوٹے بڑے ہیں مگر ان میں خطاطی اس مہارت سے کی جارہی ہے کہ دیکھنے میں یکسانیت اور پڑھنے میں تواتر برقرار رہے۔ کہیں سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ گنبد میں خطاطی بہت گنجان ہوگئی ہے یا کہیں جگہ خالی ہے۔ یہ کام انتہائی دشوار اور فنِ خطاطی میں بے پناہ صلاحیت کا متقاضی تھا جسے الحمدللہ استاد شفیق الزماں بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔گزشتہ رمضان المبارک میں استاد شفیق الزماں کو ایک اور بلند مقام نصیب ہوا جو صدیوں میں کسی خوش نصیب خطاط کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ اعزاز یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک کی جالیوں کے اوپر دیوار پر اب تک ترکوں کے دور کی خطاطی خطِ نسخ میں لکھی ہوئی نظر آتی تھی۔ اب اس خطاطی کی جگہ استاد شفیق الزماں کی لکھی خطِ ثلث جلی میں خطاطی تین عدد پینل کی شکل میں نصب کی گئی ہے۔ سونے کے پانی سے لکھی یہ خطاطی اس قدر خوبصورت خط میں استاد شفیق نے لکھی ہے کہ بار بار دیکھنے سے بھی سیری نہیں ہوتی۔ ایک سعودی ٹی وی چینل سے روزانہ یہ خطاطی بار بار دکھائی جاتی ہے۔ ہم یہاں قارئین کی دلچسپی کی خاطر دو عدد تصاویر پیش کررہے ہیں جن میں پہلی تصویر میں استاد شفیق اپنے اسٹوڈیو میں سونے کے پانی سے ان آیات کی خطاطی کو حتمی شکل دیتے نظر آرہے ہیں، دوسری تصویر میں جالیوں کے اوپر دیوار پر خطاطی کا ایک پینل تنصیب کے بعد نظر آرہا ہے، جبکہ تیسری تصویر میں تینوں پینل جالیوں کے اوپر نظر آرہے ہیں۔
1993ء اور 2014ء کے ایام حج کے دوران راقم کو کئی مرتبہ قرآنی آیات کی خطاطی کے اس مبارک کام کی زیارت اور اس کی باریکیوں کے مشاہدے کا موقع ملا۔ اس دوران استاد شفیق الزماں کے اسٹوڈیو (جو حرمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ہی ہے) میں انھیں کام کرتے ہوئے دیکھا اور اس کام کے تمام مراحل سے آگاہی ہوئی۔ اس کام میں کتنی محنت درکار ہے اور یہ کام کتنا دقیق اور صبر آزما ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ساری رات محنت کے بعد محض ایک میٹر طوالت کی خطاطی گنبد پر منتقل ہوتی ہے۔ پہلے مخصوص کاغذ پر استاد شفیق الزماں خطاطی کرتے ہیں، پھر اس کی سوزنگ کی جاتی ہے، یعنی الفاظ کے کناروں پر سوئی سے سوراخ کیے جاتے ہیں، پھر مسجد کے متعلقہ حصے میں یہ خطاطی گنبد پر منتقل کی جاتی ہے اور بالآخر برش اور جرمنی کے ساختہ خصوصی رنگوں کی مدد سے یہ کام مکمل کیا جاتا ہے۔ مسجدِ نبویؐ میں ہر تعمیراتی کام صرف رات کو ہوتا ہے۔ مدینۂ منورہ میں نوتعمیر شدہ مسجد احسان میں بھی استاد شفیق الزماں نے خطِ ثلث جلی اور خطِ کوفی میں اپنے فن کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ کے ٹرمینل نمبر 3 کی مسجد بخاری میں بھی آپ کی خطاطی کا خوبصورت کام خطِ ثلث جلی میں موجود ہے۔
استاد شفیق الزماں ہر تین سال بعدپاکستان آتے ہیں، یہاں ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شائقینِ خطاطی ان سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں اور اس فن کے باریک نکات سیکھتے ہیں۔ان کے علاوہ مختلف ٹی وی چینلز والے اور اخبارات و رسائل سے وابستہ حضرات بھی ان سے ملاقات اور انٹرویو لینے کے لیے آتے ہیں۔استاد شفیق اپنی مرنجان مرنج طبیعت اور سادگی کی بنا پر ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آتے ہیںاور اگر کوئی خطاطی میں کچھ لکھانا چاہے تو اسے انکار نہیں کرتے۔چند برس قبل جب وہ مدینہء منورہ سے کراچی تشریف لائے تھے تو ایک نئے بینک کے مالک ان سے ملنے گھر آئے اور گزارش کی کہ ان کے بینک کا نام استاد شفیق اپنے خوبصورت خط میںلکھ دیں۔استاد شفیق نے چند روز کی مہلت لی اور خط ثلث جلی میں دو مختلف طریقوں سے بینک کا نام لکھا ،پہلے سادہ ثلث (ثلث عادی )میں اور اس کے بعد ہلال کے اندر۔چند روز بعد بینک کے مالک بینک کے نام کی خطاطی لینے آئے اور استاد شفیق صاحب سے پوچھا :اس کے عوض آپ کو کیا پیش کروں؟استاد شفیق نے فرمایا :کچھ نہیں ،یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ اب تک میں نے بینک کا نام نہیںلکھا تو عرض ہے کہ بینک کا یہ نام پورے پاکستان میں پھیل چکا ہے اور اب تک کروڑوں افراد نے دیکھا ،پسند کیا اورر وزانہ دیکھتے ہیں۔ بینک کا نام ہے ’’بینک اسلامی‘‘۔
راقم الحروف کو بھی آپ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ اس عرصے میں تقریباً ہر سال آپ کی کراچی آمد کے موقع پر آپ سے ملاقات اور استفادے کے مواقع حاصل ہوئے۔ ایک اہم بات جو راقم نے استاد شفیق الزماں کی صحبت میں محسوس کی، وہ یہ ہے کہ آپ کے مزاج میں تکمیل پسندی کا عنصر غالب ہے۔ آپ جو کام بھی کرتے ہیں، اس قدر محنت سے کرتے ہیں کہ اسے درجۂ کمال تک پہنچا دیتے ہیں۔ راقم نے نہ صرف آپ کے قلم سے خطاطی دیکھی ہے بلکہ نقاشی، زخرفہ، تصویر سازی، ڈبل پنسل سے کیا گیا کام، چاک سے کیا گیا کام، برش اور رنگوں سے کیا گیا کام دیکھا ہے۔ ہر کام سے آپ کی یہی خصوصیت ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ استاد شفیق الزماں نہایت سادہ مزاج ہیں اور شہرت سے دور رہتے ہیں۔ راقم کی موجود گی میں ایک انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ساری رات خطاطی کا مقدس کام کرتے ہوئے ان کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ تو انھوں نے فرمایا تھا کہ اس کام کے دوران انھیں کچھ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اس عالم میں نہیں بلکہ کسی اور ہی عالم میں پہنچ گئے ہیں۔
قحط الرجال کے اس دور میں اہلِ پاکستان میں استاد شفیق الزماں جیسا خطاط اور دیگر اسلامی فنون کا ماہر موجود ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اب تک آپ کی بے پناہ صلاحیتوں سے اہلِ وطن خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھاسکے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مسجدِ نبویؐ کے عظیم الشان کام کی تکمیل کے بعد استاد شفیق الزماں کو مدعو کیا جائے اور انھیں مناسب سہولیات فراہم کی جائیں کہ وہ یہاں باقاعدہ خطاطی، نقاشی و دیگر فنون کی تعلیم دیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو امید ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی فنون کے بقا و ترقی کا مناسب انتظام ہوجائے گا۔