دودھ اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جسے دنیا کی ساری نعمتوں پر فوقیت دی جاسکتی ہے۔ دودھ کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا اور دیگر آسمانی صحیفوں میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ نبیٔ مہربان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لیے دوا نازل فرمائی ہے، پس گائے کا دودھ پیا کرو،کیونکہ یہ ہر قسم کے درختوں کو چَرتی ہے۔ گائے کے دودھ سے علاج کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں شفا رکھی ہے‘‘۔ ہمارے استاد شہید حکیم محمد سعید، نبیٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنایا کرتے تھے کہ گائے کے گوشت میں بیماری اور دودھ میں شفا ہے۔ کسی بھی جانور کے دودھ کا دارو مدار اُس کی عمر، صحت اور خوراک پر ہے کہ اس کی کیسی خوراک پر پرورش ہوئی ہے۔ دیہاتی جانور اور باڑے کے جانور کی خوراک میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اب تو ہم ہر خالص اور حلال چیز میں ملاوٹ کرکے اسے نقصان دہ بنادیتے ہیں۔ اب جانوروں کا دودھ نکالنے سے پہلے انھیں ہارمون کے انجکشن لگائے جاتے ہیں جس سے ان کے جسم میں موجود پانی دودھ میں شامل ہوجاتا ہے۔
دودھ مکمل غذا ہے۔ بچے کی پرورش دودھ پر ہوتی ہے۔ بچے کے لیے ماں کے دودھ سے بہتر کوئی غذا نہیں ہے۔ جو بچے ماں کا دودھ پیتے ہیں وہ صحت مند اور توانا ہوتے ہیں۔ ان کے اندر بیماری سے مقابلہ کرنے کے لیے قوتِ مدافعت موجود ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر گائے اور بھینس کا دودھ استعمال ہوتا ہے۔ سرحدی علاقوں میں بھیڑ کے دودھ کا استعمال عام ہے۔ عرب ممالک میں بکری اور اونٹ کے دودھ کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ایسے بچوںکو جنہیں ماں کا دودھ میسر نہیں ہوتا تھا بکری کا دودھ دیا جاتا تھا۔
آج ہم کوشش کریں گے کہ گائے، بھینس، بکری اور اونٹ کے دودھ کے متعلق بات کریں۔ اچھا دودھ وہ ہے جو تازہ اور صحت مند جانور کا صحت مند طریقے سے نکال کر صحت مند ماحول میں رکھا گیا ہو، اور دودھ نکالنے سے پہلے جانور کے تھن دھوکر صاف کرلیے گئے ہوں، اور جس برتن میں دودھ نکالا جارہا ہو وہ پاک اور صاف ہو۔ اب تو جدید دنیا میں دودھ نکالنے کے پمپ آگئے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ابھی اس کا استعمال نہیں ہورہا ہے۔
ڈبوں میں بند دودھ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک لیکویڈ، اور دوسرا پائوڈر دودھ۔ جانور کے دودھ کو نکال کر مشینوں سے خشک کرلیا جاتا ہے اور اس میں ضروری وٹامن شامل کردئیے جاتے ہیں۔ بعض خشک دودھ مصنوعی کیمیکل (سینتھٹک) سے تیار کیے جاتے ہیں۔ لیکویڈ دودھ پیک کرتے وقت کریم اور مکھن نکال لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ عدالتوں کا یہ فیصلہ بھی موجود ہے کہ یہ دودھ قدرتی دودھ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تازہ دودھ میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے۔ نکالنے سے پہلے ہارمون کے انجکشن لگانے کے علاوہ دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے۔ ہم نے گھر میں پلے ہوئے صحت مند جانور کا دودھ استعمال کیا ہے۔ وہ دکان پر بکنے والے دودھ سے قطعی مختلف تھا۔ کوشش کرکے ایسی دکان سے دودھ حاصل کیا جائے جہاں پر کسی قدر خالص اور پاک صاف دودھ ہو۔
انسانی صحت کے لیے ایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو متوازن ہو، جس سے جسم میں غذائیت بھی حاصل ہو اور وہ بیماریوں کا بھی مقابلہ کرسکے۔ ہمارا جسم گوشت پوست، ریشوں، رگوں اور ہڈیوں کا مرکب ہے۔ ان کی بناوٹ اور نشوونما میں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں ہڈیوں کے لیے کیلشیم، گوشت کے لیے پروٹین، جسمانی حرارت اور طاقت قائم رکھنے کے لیے نشاستہ، خون بنانے کے لیے معدنیات اور امراض سے بچائو کے لیے حیاتین شامل ہیں۔
دودھ ایک مکمل غذا ہے جس میں متذکرہ بالا تمام اجزاء موجود ہونے چاہئیں، جو جسم کو صحت مند رکھ سکیں۔
دیہاتوں میں دودھ بغیر ابالے پینے کا رواج ہے۔ مگر اب جراثیم کا ڈر ہوتا ہے، اس لیے دودھ کو تیز آنچ پر جوش دے کر استعمال کرنا چاہیے۔ اسے بہت دیر تک نہیں پکانا چاہیے، اس سے قدرتی اجزاء جل جاتے ہیں۔
دودھ سیّال ہوتا ہے اس لیے جلد ہضم ہوکرجزوِ بدن بنتا ہے۔ دودھ میں کیلشیم (چونے)کی مقدار تمام غذائوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے، جو ہڈیوں اور اس سے متعلقہ اعضا کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بعض تیزاب جو کہ غذا کے ہضم ہونے کے عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں، اعتدال پر آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تیزابیت اور زخمِ معدہ کے مریضوں کو دودھ کا استعمال بتایا جاتا ہے۔ دودھ میں تریاقی خصوصیات بھی ہیں۔ وہ زہر جو معدہ میں خراش پیدا کرتے ہیں، ان سے حفاظت کے لیے دودھ مفید ہے۔ دودھ دماغی صحت کے لیے ضروری غذا ہے۔ بھینس کے دودھ میں تقریباً تمام اجزاء گائے کے برابر ہوتے ہیں، مگر چکنائی زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ زیادہ گاڑھا اور دیر ہضم ہوتا ہے۔
دودھ پینے والوں کی عمریں لمبی ہوتی ہیں۔ پیغمبر، اولیاء، بزرگوں کی غذا دودھ پر مشتمل ہوتی تھی۔ یورپ اور امریکہ میں ہر غریب اور امیر ناشتے میں دودھ ضرور استعمال کرتا ہے۔ بچوں کو اسکول میں دودھ دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسٹیفن اسمتھ کی عمر 100سال تھی۔ وہ دودھ سے روٹی کھایا کرتے تھے۔ جرمنی کا ہٹلر صبح ناشتے میں دودھ دہی استعمال کرتا تھا۔
اس سے پہلے کہ مختلف جانوروں کے دودھ کے فائدے اور نقصانات پر بات کریں، دودھ کے جزوِ غذا بننے اور اس کے ہضم ہونے پر بات کرتے ہیں۔
قدرتی طور پر دودھ میں شامل شکر کو لیکٹوس(LACTOSE)کہتے ہیں۔ یہ شکر بعض افراد کو ہضم نہیں ہوتی اس وجہ سے وہ دودھ نہیں پیتے۔ اس بدہضمی کا سب ایک خامرے(ENZYME)کی کمی ہوتی ہے، جسے لیکٹیز(LACTASE)کہتے ہیں۔ یہ وہ خلیے ہیں جو ان خامروں کو بناتے ہیں۔ یہ خلیے چھوٹی آنت کے اندر ہوتے ہیں۔ لیکٹیز دودھ میں شکر کو علیحدہ کردیتا ہے، تاکہ وہ زود ہضم ہوکر خون میں شامل ہوجائے۔ جب یہ خامرے کم ہوجاتے ہیں تو دودھ کثافت کے اعتبار سے بھاری رہتا ہے اور چھوٹی آنت اسے ہضم نہیں کرپاتی۔ یہ صورتِ حال عموماً بے حد خطرناک تو نہیں ہوتی، لیکن پریشان کن اور کرب ناک ضرور ہوتی ہے۔ وہ افراد جو لیکٹیز کی کمی کا شکار ہوتے ہیں، دودھ نہیں پی سکتے۔
دودھ ہضم نہ ہونے پر عام طور پر قے، متلی، اینٹھن ہوجاتی ہے۔ ریاح پیدا ہوجاتی اور دست بھی آنے لگتے ہیں۔ ایسے افراد جو لیکٹیز والی غذائیں کھا، یا پی لیتے ہیں ان میں مذکورہ علامات آدھے گھنٹے سے لے کر دو گھنٹے بعد ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ یہ علامات ہلکی ہوتی ہیں یا ناقابل ِ برداشت، اس کا انحصار جسم میں موجود لیکٹیز کی تعداد پر ہوتا ہے۔
وہ بچے جو اس عارضے میں مبتلا ہوں انھیں ایسی غذائیں نہیں کھانی چاہئیں جن میں دودھ کی شکر (لیکٹوس) شامل ہو۔ لیکٹوس کو بالکل ہی چھوڑنا ضروری نہیں ہوتا۔ اگر چھوٹی آنت میں لیکٹیز کی ایک مناسب تعداد موجود ہے تو آپ آئس کریم اور پنیر بھی کھا سکتے ہیں، مگر ڈیری کی دوسری مصنوعات سے پرہیز ضروری ہے۔ یہ معلوم کرنا کہ کون سا شخص کتنا لیکٹوس ہضم کرسکتا ہے، ایک مخصوص ٹیسٹ سے ہی ممکن ہے۔
دودھ ہمیشہ خالی پیٹ صبح ناشتے میں یا عصر کے وقت پینا چاہیے۔ وہ افراد جنہیں دودھ ہضم نہیں ہوتا یا دودھ پینے سے ریح پیدا ہوتی ہے انہیں دودھ میں سہاگہ یا سونٹھ یا دارچینی ڈال کر پینا چاہیے۔ جن بچوںٖ میں لحمیات کی کمی ہو انہیں دودھ میں کچا انڈا ملا کر دینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ دائمی نزلے کے مریضوں کوگائے کا نیم گرم دودھ شہد ملا کر پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔
بھینس کا دودھ
بھینس کا دودھ جوش دے کر پینا بہتر ہے۔ مقوی بدن و مقوی باہ ہے، بواسیر کو فائدہ دیتا ہے۔ ضعفِ معدہ اور نفاخ کے مریضوں اور دماغی کام کرنے والوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ بلغم پیدا کرتا ہے۔ بلغمی مزاج والے الائچی، سونٹھ یا چھوارے ڈال کر دودھ استعمال کریں۔ اس میں وٹامن ڈی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر معدے میں تیزابیت ہو تو پھیکا دودھ استعمال کریں۔ بھینس کا دودھ بدن کو فربہ کرتا ہے، محرکِ باہ ہے، خاص کر کھانڈ کے ساتھ اکثر اعضا کو قوت بخشتا ہے۔ مفرح ہے، خون بہت پیدا کرتا ہے۔ جو خلط بدن میں غالب ہو اُس کی طرف اور صفرا کی طرف مستحیل ہوجاتا ہے۔ اگر اس میں کنگھی کی لکڑی جوش کرکے دہی جما کے مصری کے ہمراہ کھائیں تو بواسیر کو نافع ہے۔ بھینس کا دودھ تازہ دوہا ہوا جس میں تھنوں کی گرمی بھی باقی ہو، تھوڑی مصری ملا کر سوزاک کے مریض کو پلانا چاہیے۔
گائے کا دودھ
گائے کا دودھ زود ہضم اور کثیرالغذا ہے۔ چہرے کا رنگ نکھارتا ہے، سدے کھولتا ہے، دماغ کو طاقت دیتا ہے، نسیان، وسواس اور مالیخولیا میں مفید ہے، خفقان اور وہم دور کرتا ہے۔ مولد خون ہے، مقوی قلب ہے۔ بند چوٹوں میں ہلدی کے ساتھ گرم دودھ کا استعمال فائدے مند ہے۔ گائے کے دودھ میں نمکیات کم، پنیر اور روغنی اجزاء زیادہ ہوتے ہیں۔ قد بڑھانے کے عمل میں جو پروٹین درکار ہوتے ہیں، ان میں ایک کیمیائی مادہ لائی سین (Lysin)ہوتا ہے جو گائے کے دودھ میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کی مقدار دودھ کے اندر 7.61 فیصد ہوتی ہے۔ جن لوگوں کے پیشاب میں تیز بدبو ہوتی ہے دراصل اُن کے جسم میں یورک ایسڈ کی مقدار بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ گائے کا دودھ خاص طور پر اور باقی دودھ عام طور پر یورک ایسڈ جسم میں نہیں بننے دیتے۔ دماغی کام کرنے والوں کے لیے گائے کا آدھا کلو دودھ روزانہ استعمال کرنا بے حد مفید ہوتا ہے۔ بینائی کو تیز کرتا ہے، کیونکہ اس میں وٹامن اے اور ڈی زیادہ ہوتے ہیں۔ بادی، صفرا اور خون کے فساد کو دور کرتا ہے۔ گائے کا دودھ بھینس کے دودھ سے بہت بہتر ہوتا ہے کیونکہ گائے کے دودھ میں ایسی چیزوں کی مقدار اوسطاً زیادہ پائی جاتی ہے جو جسم میں جذب ہوکر اس میں چستی اور پھرتی پیدا کرتی ہیں۔ گائے کے گھی میں آیوڈین ہوتی ہے جو بھینس کے دودھ میں ابھی تک دریافت نہیں ہوئی۔ گائے کے دودھ کی چکناہٹ زود ہضم ہوتی ہے۔ گرتے بالوں کو روکنے کے لیے گائے کا دودھ جوش دے کر ٹھنڈا کرکے پانچ منٹ تک سر پر مالش کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ آدھے گھنٹے کے بعد سر کو صابن سے دھونا چاہیے۔ انسانی بال، ناخن، دانت اور آنکھوں کو بہتر حالت میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک گلاس روزانہ گائے کا دودھ استعمال کیا جائے۔ بہترین گائے کا دودھ وہ ہے جس کا بچہ چار ماہ کا ہوجائے۔ ایسا دودھ میٹھا، زودہضم، مصفیٰ خون اور مقوی ہوتا ہے۔
بکری کا دودھ
بکری کا دودھ لطافت والا ہوتا ہے۔ چہرے کا رنگ نکھارتا ہے۔ کتیرا گوند کے ہمراہ پینے سے پھیپھڑوں کے زخم ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ کھانسی میں بے حد مفید ہے۔ غم، وحشت اور خفقان میں فائدہ دیتا ہے۔ گرم گرم تازہ دودھ پیشاب کی رکاوٹ کو درست کرتا ہے۔ مقوی باہ ہے اور مثانہ کے زخم کو درست کرتا ہے۔ یہ دودھ گرم مزاج والوں کے لیے بے حد مفید ہے۔ اگر گلے کی خرابی یا حلق میں ورم ہو تو دودھ کو تھوڑی دیر گلے میں روک کر پینا بے حد مفید ہے۔ اس کے علاوہ تالو، زبان اور کوا کے ورم کو درست کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اس میں معدنی نمک سوڈیم بھی پایا جاتا ہے۔ یہ نمک جسم کے زہریلے مواد کو تحلیل کرکے گردے اور مثانے کے راستے خارج کرتا ہے۔ جسم کے سوکھے پن اور تپ دق کو دور کرنے کے لیے یہ دودھ بے حد مفید ہے۔ بکری کا دودھ پینے سے جسم کی جلد ملائم اور خوبصورت ہوجاتی ہے اور خاص طور پر عورتوں کے لیے تو یہ قدرتی تحفہ ہے۔ چہرے کی جھائیوں اور مہاسوں کو دور کرنے کے لیے بہت مفید ہے۔ اصلاحِ خون کے لیے بکری کا دودھ تمام جانوروں کے دودھ سے اوّل نمبر پر ہے۔ بکری کا دودھ ہمیشہ ابال کر استعمال کرنا چاہیے۔ اس دودھ میں فولاد کی اچھی خاصی مقدار ہوتی ہے اور یہ دمہ کے مرض میں بالخصوص فائدہ دیتا ہے۔ تھوک یا قے میں خون آنے کو روکتا ہے، سینے کی جلن کو ختم کرتا ہے، پیٹ کی جملہ خرابیوں کو دور کرتا ہے، اسہال کو روکتاہے۔ بکری کے دودھ سے نکالا ہوا مکھن اور گھی تپ دق کے مریض کے لیے بے حد مفید ہوتا ہے۔ خون کی الٹیاں آنے کی صورت میں بکری کے دودھ کے ساتھ صندل سرخ اور ملٹھی ملا کر پلانا مفید ہوتا ہے۔
اونٹنی کا دودھ
اونٹنی کا دودھ پینے سے بینائی مضبوط ہوتی ہے۔ اس کو بطور سرمہ آنکھ میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ اونٹنی کے دودھ میں کوزہ مصری ملا کر پینے سے دمہ میں بے حد فائدہ ہوتا ہے۔ جسم کے اندرونی ورموں کو تحلیل کرتا ہے۔ جگر کی سوجن دور کرتا ہے۔ قوتِ باہ کو بڑھاتا ہے اور بدن کو فربہ کرتا ہے۔ چہرے کی رنگت نکھارتا ہے۔ طحال اور بواسیر میں بے حد مفید ہے۔ پیشاب اور حیض کی رکاوٹ کو دور کرتا ہے۔ یہ دودھ ہلکا اور زود ہضم ہوتا ہے۔ بدہضمی دور کرتا ہے اور بھوک لگاتا ہے۔ کھانسی اور تلی کے امراض میں بے حد مفید ہے۔ ورم جگر میں اس کو شربت بزوری کے ہمراہ پلانا مفید ہوتا ہے۔ جسم پر مالش کرنے سے جلد ملائم ہوتی ہے۔ اسے ہمیشہ ابال کر پینا چاہیے کیونکہ ٹھنڈے دودھ میں مختلف بیماریوں کا ٹھکانا بن جاتا ہے۔ سر کے بالوں کی خشکی دور کرنے کے لیے اونٹنی کے دودھ سے دہی بنا کر دھوپ میں سر پر لیپ کرکے ایک گھنٹہ بیٹھنا بے حد مفید ہوتا ہے۔
بھیڑ کا دودھ
بھیڑکا دودھ مقوی باہ ہے۔ دل و دماغ کو طاقت دیتا ہے۔ اس پر سات دفعہ بالائی آتی ہے۔ اس کے استعمال سے حرام مغز کو طاقت ملتی ہے۔ پیچش، زخم امعاء اور ریاح کے لیے بے حد مفید ہے۔ چہرے کا رنگ نکھارتا ہے۔ اگر بعد از جماع یہ دودھ روغنِ بادام و گوند کے ہمراہ پی لیا جائے تو کمزوری نہیں ہونے دیتا۔ زہریلی دوائوں کے اثرات فوری طور پر زائل کرتا ہے۔ کھانسی میں انتہائی مفید ہے بشرطیکہ اس کو گوند کیکر کے ہمراہ استعمال کرایا جائے۔ دیر ہضم اور ثقیل ہے۔ آنتوں کے زخم کے لیے بھی بے حد مفید ہے۔ دودھ آدھ پائو اور گوند کیکر ایک تولہ پلائیں۔
دہی:دہی دودھ کی خمیر شدہ ایک شکل ہے۔ یہ اپنی ملائمت اور خوشگوار اور فرحت بخش ذائقے کی وجہ سے لوگوں کی مرغوب غذا ہے۔ دہی نشوونما کر نے والی غذا ہے۔ یہ پروٹین، ضروری حیاتین اور معدنی اجزا کا اچھا ذریعہ ہے۔ اس میں کیلشیم اور ریبو فلاوین بھی خوب پائی جاتی ہے۔ دہی کی پروٹین دودھ کے مقابلے میں زیادہ زود ہضم ہوتی ہے۔ اندازہ ہے کہ دودھ ایک گھنٹے میں 32 فی صد ہضم ہوتا ہے، جبکہ دہی اتنے ہی وقت میں91 فی صد تک ہضم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ کمزور نظام رکھنے والوں کے لیے یہ موزوں غذا ہے۔ بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں غذائی فوائد کے ساتھ ساتھ متعدد امراض کے خلاف شفائی خواص بھی موجود ہیں۔ دہی اور درازیٔ عمر کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس کے استعمال سے انسان نہ صرف بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ عمر بھی طویل پاتا ہے۔ یہ پیاس کو تسکین دیتا ہے۔ رطوبت بڑھاتا ہے۔ بدن کو فربہ کرتا ہے۔ اس کی بالائی مرطب اور منوم ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ جدید طب بھی دہی کے مفید اور صحت بخش ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ دہی کا روزانہ استعمال پھیپھڑوں کے سرطان کی روک تھام میں مدد دیتا ہے اور مختلف قسم کے مہلک جراثیم کے حملے کے خلاف جسم میں قوتِ مدافعت بھی پیدا کرتا ہے۔
کچی لسی (چھاچھ): کچی لسی جسے مٹھا بھی کہتے ہیں، پینے سے دل کا عارضہ نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ پکی لسی ہو، یعنی مکھن نکال کر استعمال کی جائے۔ اس کے اندر ایسے جراثیم ہوتے ہیں جن کی خاصیت ہے کہ وہ پیٹ میں جاتے ہی امراض پیدا کرنے والے جراثیم سے جنگ شروع کردیتے ہیں اور ان پر غالب آجاتے ہیں۔ لہٰذا انسانی جسم مختلف بیماریوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کے استعمال سے مرض سنگرہنی بالکل ٹھیک ہوجاتا ہے بلکہ یہ مرض ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا ہے۔ تندرست آدمی اگر لسی کا استعمال موسم کی مناسبت سے کرتا رہے تو مختلف امراض سے بچا رہتا ہے۔ اس کے استعمال سے ثقیل اور ناقابل ہضم غذائیں بھی ہضم ہوجاتی ہیں، کیونکہ اس کے اندر کیلشیم، میگنیشیم، پروٹین، سوڈیم، فاسفورس، کلورین، سلفر وغیرہ جیسے نمکیات ہوتے ہیں۔ اس سے گوشت اور ہڈیوں کی پرورش بھی ہوتی ہے۔
پنیر: ابلتے دودھ کو دہی، لسی، ٹاٹری، املی یا لیموںکا ست یا لیموں کا رس ڈال کر پھاڑا جاتا ہے جس سے پھٹکی الگ اور پانی الگ ہوجاتا ہے۔ اس میں تھوڑا نمک ملا کر کپڑے میں لٹکا دیتے ہیں۔ پانی نکل جانے پر اسے چھری سے کاٹ کر اسی طرح کچا ہی کھایا جاتا ہے، یا گھی تھوڑا لال کرکے اس کی ترکاری بنائی جاتی ہے۔ بہترین پنیر اس دودھ سے بنتا ہے جسے چار ابال آنے پر اس میں چوتھائی حصہ پانی ڈال کر پتلے کیے ہوئے دہی یا چھاچھ سے پھاڑا جاتا ہے۔ دبلے پتلے بچے جو موٹے ہونا چاہیں وہ چھاچھ پیا کریں۔
مکھن:مکھن بہت طاقت ور ہوتا ہے۔ اس میں وٹامن بہت ہوتے ہیں۔ گائے کا مکھن دق کے مریضوں کو دیتے ہیں۔ آنکھوں کے لیے بھی مکھن بہت مفید ہوتا ہے۔ بکری کے دودھ کا مکھن کھانے سے پیٹ کا درد ٹھیک ہو اتاہے۔ مٹھا زود ہضم ہوتا ہے۔ یہ طاقت ور بھی ہوتا ہے۔
ملائی: ملائی مکھن سے زیادہ ہاضم ہوتی ہے۔ یہ خشکی دور کرتی اور طاقت دیتی ہے۔
گھی: مکھن کو جب پکایا جاتا ہے تو گھی بنتا ہے۔گھی بہت طاقت ور ہوتا ہے، اس سے بدن فربہ ہوتا ہے اور رنگ صاف ہوتا ہے۔ گھی میں چکنائی بہت ہوتی ہے۔