پھاوڑا اور گول دائرہ

سندھ کے ریکارڈ ساز سابق گورنر عشرت العباد کا طویل انٹرویو، جو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوا اور اس کا اردو ترجمہ اسی اخبار سے منسلک اردو اخبار میں شائع ہوا۔ انٹرویو میں ایک سوال پر عشرت العباد نے کہا کہ ’’میں نے ہمیشہ پھاوڑے کو پھاوڑا ہی کہا‘‘۔ پھاوڑا نہ کہتے تو کیا اسے گیتی و بلم کہتے! سابق گورنر نے انگریزی کا محاورہ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا “I CALL A SPADE, A SPADE” ترجمہ کرنے والے کو اس انگریزی محاورہ میں SPADE کا مطلب معلوم ہوگا، چنانچہ لفظ بہ لفظ ترجمہ کرڈالا، تصحیح بھلا کون کرتا۔ اگر ترجمہ کرنے والے صحافی بھائی انگریزی اردو لغت میں SPADE کا مطلب دیکھ لیتے تو پھاوڑا نہ چلاتے۔ مذکورہ انگریزی محاورے کا مطلب ہے ’’کھری، دوٹوک بات کرنا، غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا‘‘۔ اس کا بامحاورہ ترجمہ اس مشہور مصرع سے کیا جاسکتا ہے:

میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

SPADE کے اور بھی کئی مطلب ہیں جن میں ایک تیشہ، پھاوڑا یا اس سے ملتا جلتا کوئی اوزار۔ بطور فعل پھاوڑا چلانا، زمین کھودنا، تاش کے کھیل میں حکم کا پتّا وغیرہ۔ غنیمت ہے کہ ترجمہ کرنے والے نے عشرت العباد کے منہ سے یہ نہ کہلوا دیا کہ ’’میں نے ہمیشہ پھاوڑا چلایا ہے‘‘۔ خیال رہے کہ ہم انگریزی نہیں پڑھا رہے، ابھی تو اردو ہی درست نہیں ہوئی۔
گزشتہ دنوں ایک شخص کی لاش ملنے پر جسارت میں جو سرخی لگی ہے اُس میں لکھا گیا ہے کہ ڈاکٹر کے مطابق موت ’’طبی‘‘ تھی۔ ایک قاری نے صبح ہی صبح ٹیلی فون کرکے جگا دیا اور پوچھا کہ ’’طبی موت کیسی ہوتی ہے؟‘‘ یہ صحیح ہے کہ ’’طبعی‘‘ کی جگہ ’’طبی‘‘ شائع ہوا ہے، لیکن طبی موت بھی کچھ ہوتی تو ہے۔ ڈاکٹر حضرات اسے کلینکل ڈیتھ قرار دیتے ہیں یعنی بندے کی طبی موت تو واقع ہوچکی ہے بس مصنوعی تنفس اور جسم میں لگی ہوئی مختلف نلکیوں کے ذریعے بظاہر زندہ ہے۔ یہ اپنی غلطی کی تاویل ہے مگر غلطی بہرحال غلطی ہے۔
غلطیوں کی بات چلی ہے تو سنڈے میگزین کے تازہ شمارے (14 تا 20 جنوری) میں صفحہ 3 پر امجد جروار کا ایک اہم مضمون شائع ہوا ہے لیکن اس میں کئی جگہ ’’گول دائرہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا کوئی تکونا، مستطیل یا چوکور دائرہ بھی ہوتا ہے؟ بھئی دائرہ تو گول ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہم کار مظفر اعجاز بتاتے ہیں کہ زمانۂ طالب علمی میں وہ گول دائرہ کہنے پر اپنے استاد کی تصحیح کربیٹھے تھے، استاد نے ان کی تصحیح کیسے کی، وہ یہ نہیں بتاتے اور کہتے ہیں کہ استاد نے تصحیح قبول کرلی تھی۔ اسی مضمون میں ایک عمومی غلطی ’’سوا‘‘ کی جگہ ’’علاوہ‘‘ استعمال کرنے کی ہے۔ جملہ ہے ’’آپ (امام احمد ابن حنبل) کے علاوہ اس وقت کے تمام علما بادشاہِ وقت کے جبر و ستم کے ڈر سے مصلحت کی چادر اوڑھ کر بیٹھ گئے‘‘۔ یہاں علاوہ کا مطلب ہے کہ امام احمد نے بھی مصلحت کی چادر اوڑھ لی۔ یہاں ’سوا‘ ہونا چاہیے تھا۔ اس غلطی کی نشاندہی کئی بار کی جاچکی ہے اور کرتے رہیں گے، مایوس نہیں ہوئے۔ کسی پر تو اثر ہوگا، ورنہ بقول شاعر

اثر کرے نہ کرے، سُن تو لے مری فریاد

جروار کے مضمون میں کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کی متعدد غلطیاں تو مصنف کے کھاتے میں نہیں ڈالی جاسکتیں، لیکن ’’تنہے تنہا‘‘ اور ’’میعار‘‘ کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ برسبیل تذکرہ ’’معیار کی جگہ میعار‘‘ اور ’’میعاد کی جگہ معیاد‘‘ کی غلطیاں بہت عام ہیں۔ آخر میں اقبالؒکا شعر دیا گیا ہے جس کے پہلے مصرع میں ’’نہیں ہے ناامید اقبال‘‘ لکھا گیا ہے، جب کہ اقبالؒ نے ’’نومید‘‘ کہا تھا۔ لیکن ناامید زیادہ قابلِ فہم ہے، پوچھا جاسکتا ہے کہ ’’نومید‘‘ کیا ہے؟ نومید فارسی کا لفظ ہے اور مطلب ناامید، مایوس۔ بس یوں ہے کہ اقبال کے مصرع میں نومید کو ناامید لکھنے سے وزن گڑبڑ ہوجاتا ہے۔ کایہ پلٹ کی جگہ کایا پلٹ لکھنا بہتر ہے کہ ’’کایہ‘‘ کوئی لفظ نہیں جسے پلٹا جاسکے۔ کایا پلٹ اور کایا کلپ کا استعمال اردو میں عام ہے، لیکن یہ ’’کایا‘‘ کیا ہے؟ ہندی کا لفظ اور مونث ہے، مطلب ہے جسم، تن، بدن، سریر، روپ، بھیس، اصلیت، ماہیت وغیرہ۔ چنانچہ کایا پلٹ کا مطلب ہے قالَب بدلنے والا، بھیس بدلنے والا، وہ دوا جس سے بوڑھا جوان ہوجائے۔ کایا پلٹنا اردو کا محاورہ ہے، یعنی ماہیت بدلنا، قالَب (لام پر زبر) تبدیل کرنا، دوسری جون میں آنا، روپ دھارنا۔ کایا کے حوالے سے ایک دلچسپ مثل ہے’’کایا بڑی کہ مایا‘‘؟ یعنی جان سے بڑھ کر مال نہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ’’چمڑی جائے، دمڑی نہ جائے‘‘۔
سنڈے میگزین ہی میں ایک انوکھی اصطلاح دیکھی ’’چکراّت‘‘۔ یہ چکر کی ایسی جمع بنائی گئی ہے جسے پڑھ کر چکر بلکہ ’’چکرات‘‘ آنے لگیں۔کسی بھی زبان میں نئے الفاظ اور اصطلاحات کا اضافہ اس زبان کے زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کی ضمانت ہے، لیکن اس کا کوئی کلیہ قاعدہ ہوتا ہے۔ چکر کی جمع چکرات کسی قاعدے سے صحیح نہیں ہے۔ کل کو کوئی فکر کی جمع ٹکرات لے آئے گا۔ یہاں جمع بنانے کے بجائے چکر بھی بطور جمع استعمال ہوسکتا تھا، یعنی زمین پر اشیا کے چکر۔
ماہ نامہ ’قومی زبان‘ انجمن ترقی اردو پاکستان کا بڑا معتبر رسالہ ہے جس کے بانی بابائے اردو مولوی عبدالحق تھے۔ اس رسالے کے مدیروں اور مجلس مشاورت میں بڑے اہم لوگ ہیں جن کو اردو زبان پر سند قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس ماہ نامے پر وہ توجہ نہیں دی جارہی جو دینی چاہیے تھی۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس ماہ نامے سے لوگ صحیح اردو لکھنا اور بولنا سیکھیں گے، اور اس میں جو غلطیاں ہوں گی وہ سند بن جائیں گی۔ قومی زبان کا حال پہلے ہی دگرگوں ہے، ایسے میں ماہ نامہ قومی زبان نے زبان کی ترویج اور اصلاح کا بیڑا (بی ڑا) اٹھایا ہوا ہے لیکن خاطر خواہ کام نہیں ہورہا۔ ہمارے سامنے نئے سال کا پہلا شمارہ (جنوری 2018ء) ہے جس میں کمپوزنگ کے علاوہ زبان کی غلطیاں بھی موجود ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کی کہانیوں کا جائزہ ’’تارڑ کہانیاں‘‘ کے عنوان سے استاد شعبۂ اردو گورنمنٹ اسلامیہ کالج غازی آباد، لاہور کینٹ، محمد عباس نے لیاہے۔ اس مضمون میں مذبح خانے (ص:23 ) کا ذکر ہے۔ یہ مستنصر حسین نے لکھا، یا استاد شعبہ اردو محمد عباس کی وضع کردہ اصطلاح ہے، دونوں صورتوں میں قومی زبان کے مدیروں کو اصلاح کردینی چاہیے تھی، یا اگر یہ تارڑ کاکمال ہے تو بریکٹ میں صحیح لفظ لکھ دیا جاتا۔ ’مذبح‘ کے ساتھ ’خانہ‘ بالکل غلط ہے۔ مذبح میں خانہ داخل ہے۔ اگر خانہ لکھنا ناگزیر ہو تو ذبح خانہ لکھ کر شوق پورا کرلیا جائے۔ اب اگر استاد محمد عباس سے اُن کے کسی شاگرد نے پوچھ لیا کہ مذبح خانہ کیا ہوتا ہے؟ تو کیا جواب دیں گے! اردو کے طالب علم تو مذبح خانے ہی کو درست جانیں گے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ ماہر لسانیات ہیں۔ وہ یا مدیر ڈاکٹر فاطمہ حسن مضامین پر ایک نظر ڈال لیا کریں۔
جمیل الدین عالی (مرحوم) کی یاد میں منعقدہ تقریب میں مدیر قومی زبان ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بتایا کہ ’’ایک شارع جمیل الدین عالی کے نام سے موسوم کی جائے گی۔‘‘ اب چونکہ یہ جملہ ایک نامور شاعر اور ادیب کا ہے اس لیے ہم کچھ نہیں کہیں گے، ورنہ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ ’’نام سے موسوم‘‘ کی ترکیب غلط ہے، صرف موسوم کافی ہے، یعنی ’’عالی سے موسوم کی جائے گی‘‘۔ اس بارے میں جناب رئوف پاریکھ رہنمائی کریں۔ ویسے موسوم میں اسم یعنی نام شامل ہے۔ موسوم عربی کا لفظ اور مذکر ہے۔ اس کا مطلب ہے ’’نام رکھا گیا، نشان دیا گیا، نقش کیا گیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
سہو یا کمپوزنگ کی غلطیوں سے قطع نظر قومی زبان کے جنوری کے شمارے میں کئی بہت اچھے اور قابلِ قدر مضامین ہیں۔ شعبہ اردو جامعہ کراچی کے ریسرچ اسکالر محمد صابر جمیل کا تحقیقاتی مضمون ’’مارفیمیات اور صوتی تبدیلیاں‘‘ قابلِ قدر اور اپنے اندر کئی معلومات لیے ہوئے ہے۔ مضمون پڑھ کر ہی پتا چلا کہ ’’مارفیمیات کیا ہے۔ کئی نئی ترکیبیں استعمال کی گئی ہیں جو اب تک غیر معروف ہیں مثلاً مصّوتہ، مصّمتہ، تلفیظ‘‘ وغیرہ۔ موصوف اپنے مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں ’’عوام بعض لفظوں کے مادّے کو غلط سمجھ کر اس کے ایک جزو کا غلط تلفظ کرنے لگتے ہیں مثلاً لائبریری کو رائے بریلی‘‘۔
لائبریری کو رائے بریلی کہنا یقینا ایک انکشاف ہے جو مصنف ہی پر ہوا ہے۔